مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 04

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ! بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم.
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے مولانا عبد الحلیم صاحب کی کتاب مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ کی تعلیم جاری ہے۔ حضرت نے شریعت و طریقت کے بارے میں کچھ اشعار لکھے ہیں۔
متن:
؎ بیت
تا خاطرت مسخر طبع و ہوا بود
جانت اسیر رنج و بلا مبتلا بود
هرگز بسوئے صحبت بیگانہ نکند التفات
ہر کس کہ دریں منزل و رہ آشنا بود
بر طبع و نفس پا نبہ از خواہی اے عزیز
تا بر سر تو سایۂ لطف خدا بود
ایمن مباش خواجہ و نومید ہم مشو
کاسلام درمیان خوف و رجا بود
(5) زنہار بر بقا مکن اے خواجہ اعتماد
از بہر آنکہ عاقبت او فنا بود
(6) در پنج روز عمر کہ بر شارع فناست
آن کن کہ در طریق شریعت روا بود
(7) از خوف جان من بلب رسید اے عزیز
تا بازگشت من بقیامت کجا بود
ترجمہ:
(1) جب تک تمہارا دل خواہش اور لالچ رکھتا ہو، تو تمہاری روح رنج اور مصیبت میں گرفتار ہو گی۔
(2) جو شخص کہ اس منزل اور راہ سے واقف ہو وہ بے گانوں کی محبت کی جانب التفات نہیں کرتا۔
(3) اگر تو چاہتا ہے کہ تمہارے سر پر اللہ تعالیٰ کے لطف کا سایہ رہے، تو اپنی خواہش اور نفس کو پاؤں کے نیچے مسل دو۔
(4) اے بھائی بے پرواہ اور امن میں نہ رہ، اور نا امید بھی نہ ہو۔ کیونکہ اسلام خوف اور امید کے درمیان ہے۔
(5) اے برادر اس بقا اور زندگی پر اعتماد نہ کر کیونکہ اس کا انجام فنا ہونا ہے۔
(6) اس پانچ دن کی زندگی میں جو کہ فنا کے راستے پر ہے، وہی کچھ کر جو کہ شریعت میں جائز ہو۔
(7) مارے خوف کے میری روح میرے ہونٹوں تک آ گئی ہے کہ قیامت کے دن میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا۔
الغرض اے میرے پیارے جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو کہ عبادت کرتے ہوں گے، اور وہ طاعت اُن کے حق میں معصیت ہو گی اور طالب مولیٰ کے بہت سے گناہ عبادت سے بہتر ہوں گے۔ اور یہ معنی اہل دل حضرات کے نزدیک مسلمہ بات ہے کہ ہر عبادت جو تیرے فخر و غرور کا سبب ہو وہ عبادت عین معصیت ہے۔ اور جو معصیت جس کا تو اعتراف اور عذر کرے حقیقت میں وہ معصیت تیرے لئے اطاعت سے زیادہ مفید ہے۔ یعنی اے میرے پیارے، جب تمہیں آثار اور حالات امن میں نظر آئیں۔ اور اعمال، اخلاق بشری کے سبب درندوں اور شیاطین کی مانند محسوس ہوں، تو ان اعمال و آثار وغیرہ کو اچھی طرح غور و فکر اور سوچ بچار سے دیکھو۔ تاکہ تجھے معلوم ہو کہ اکثر عبادتیں اور طاعات جو کہ عام لوگ اور زمانے کے شیوخ رسم و رواج کے طور پر کرتے ہیں، یہ تمام بے سعادتی کے نشانیاں ہیں۔ اگرچہ ان کی شکل و صورت دینی ہوتی ہے۔ پس اگر ان سب کو عدل کے میزان میں رکھا جائے، تو اس کے حق میں یہ آیت مبارک نازل ہوئی ہے ﴿وَ بَدَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ﴾ (الزمر: 47) ”اور ان پر خدا کی طرف سے وہ امر ظاہر ہو جائے گا، جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا۔“ یعنی ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے قیامت کے میدان میں جو کچھ کہ ان کے خیال میں اچھا معلوم ہوتا تھا، وہ خلاف توقع برا معلوم ہو جائے گا۔
تشریح:
اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ وَ لَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنكبوت: 45) ”بے شک نماز بے حیائی کی باتوں سے اور منکرات سے روکنے والی ہے اور اللہ کا ذکر تو بڑی چیز ہے“ اگر ہم نمازیں پڑھتے ہوں اور ساتھ ساتھ ہماری فحاشی اور منکرات ختم نہ ہوتے ہوں تو ہمیں فکر مند ہونا چاہیے کہ ہماری نماز کس درجے کی ہے؟ آیا وہ نماز قبول نمازوں میں سے ہے یا اس کے اوپر محنت کرنی چاہیے، جیسے ایک درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اگر کوئی درخت صحیح پھل نہیں دے رہا تو اس کو اس پھل کا درخت نہیں کہا جا سکے گا، وہ کوئی اور ہی چیز ہو گی۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم لوگ جو عبادتیں کرتے ہیں اور عبادتوں کے جو آثار ہیں وہ ان اعمال کے اشارے ہوتے ہیں کہ آیا ہمارا عمل اس کے مطابق ہو رہا ہے یا نہیں؟ اگر اس کے مطابق عمل نہیں ہو رہا تو ہمیں اپنی عبادات کے اوپر محنت کرنی پڑے گی کیونکہ درمیان میں کچھ مسئلہ ہے۔
اسی طرح روزے کے بارے میں ہے: ﴿كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ﴾ (البقرة: 183) ”تمہارے اوپر رمضان شریف کے روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پچھلوں کے اوپر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ حاصل کر لو“ اب اگر ہمارے روزوں کے باوجود ہم میں تقویٰ نہیں آتا تو ہمارے روزوں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور ان کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ حج کرنے کے بعد انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھنی چاہیے اگر اس کے دل میں دنیا کی محبت بڑھ گئی تو اس کا حج پھر کس اشارے میں ہو گا؟ چنانچه ہمارے اعمال کے آثار و نتائج ہوتے ہیں جن پر ہمیں نظر رکھنی چاہیے۔
متن:
اور طاعات جو کہ عام لوگ اور زمانے کے شیوخ رسم و رواج کے طور پر کرتے ہیں۔
تشریح:
ہمارا کام رسم و رواج کے طور پر ہے اور اس کی اصل صورت بگڑی ہوئی ہے۔ دوبارہ اس کے بارے میں ہمیں فکر کرنی پڑے گی۔ اصل میں مشائخ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں، بعض دفعہ نثر میں کرتے ہیں، بعض دفعہ نظم میں یا غزل میں کرتے ہیں۔ جیسے یہاں پر نثر میں بات ہو رہی ہے، اسی طرح بابا بلھے شاہ رحمۃ اللہ علیہ اور شاہ حسین رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرات نے نظم میں یہ باتیں کیں ہیں۔ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں کچھ لوگ تو اپنے اعمال کی فکر کرنے لگتے ہیں کہ ان کے اندر وہ چیزیں نہیں ہیں جو ہونی چاہئیں وہ تو کامیاب ہو جاتے ہیں، ان کو ان کی شاعری سے یا نثر سے فائدہ ہوتا ہے اور کچھ لوگ ان اعمال کو ہی فضول سمجھ کے چھوڑ دیتے ہیں اور پھر فخر کرتے ہیں کہ ہمیں بڑا عشق حاصل ہے۔ بھئی تمہیں ڈھانچہ بھی حاصل نہیں ہے تو روح کہاں سے حاصل ہو گئی؟ پہلے ڈھانچہ تو حاصل کرو۔ اگر روح نہیں ہے تو ڈھانچہ بھی ختم کر لو گے اس کی کیا حیثیت ہے؟ یہ تو بڑی غلط بات ہے۔ ان حضرات کی مراد یہ ہوتی ہے کہ ہم لوگوں کو ان چیزوں کا صحیح مفہوم اپنانا چاہیے۔
متن:
زاہدوں نے اپنے دل میں یہ بات ٹھان لی ہے کہ ٹوپی سر پر رکھنے اور چند رکعت نماز جو کہ عادت کے طور پر اور عبادت اور سلوک کی چند حکایتیں یاد کرنے سے کہ یہ سب کچھ بے سعادتی اور ذلت ہے، اسی کو کام خیال کر لیا جائے۔ ان تمام عبادت عادتی سے کچھ فائدہ برآمد نہیں ہو گا۔ اے میرے پیارے، آپ کے اس زمانے کے شیوخ و عالموں کو چاہیے کہ ایسے پیر و مرشد کا دامن ارادت پکڑیں جو کہ اس راستے پر چلا ہو، اور شریعت کے منازل سے آگاہ ہو۔ اور اسرار و حقیقت کی شراب کے ساغر سے آشنا ہو تاکہ وہ نفسانی اور شیطانی اعمال دور کرے اور روحانی و رحمانی اعمال کے بارے میں تمہاری رہنمائی کرے۔ کیونکہ اے میرے پیارے بادشاہوں کی خدمت کے طریقے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے اسرار کے دقائق اس راہ پر چلنے والے رہ شناسوں کی رہنمائی کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔ پس اے میرے محبوب، جو کوئی بھی بادشاہ سے ملنے کی طلب کرے، تو جب تک وہ بادشاہ کے کسی مقرب کی حمایت حاصل نہ کرے، اپنی مراد نہیں پا سکتا۔ اسی طرح جو شخص بھی اللہ جل جلالہ کی رضا جوئی تلاش کرے۔ تو جب تک کسی رہ شناس اور منزل آگاہ شخص کا دامن نہ پکڑے اپنی منزل مقصود کو نہیں پہنچے گا۔ سلوک کی چند حکایتوں کے ذریعے جو کہ جواں مردوں کی حکایتیں ہوتی ہیں، نا مردوں کی زبان سے ادا کی جائیں، کام کب اور کیسے درست ہو گا۔
تشریح:
حضرت نے نہایت عام فہم انداز میں واضح فرمایا ہے کہ عام رواجی عبادات اور سلوک کی چند حکایات کو اپنا لینے سے اللہ تعالی کے قرب کے اسرار حاصل نہیں ہوسکتے۔ اس کے لیے کسی ایسے پیر و مرشد کا دامن ارادت پکڑنا ہوگا جو اس راستے پر چلا ہو اور شریعت کی منازل سے آگاہ ہو اور اسرار و حقیقت کی شراب کے ساغر سے آشنا ہو۔ ان کی روح اور جسم یک جاں ہوتے ہیں، یعنی ان کا جسم ان کی روح کے تحت اشاروں پر چلتا ہے۔ یوں وہ جواں مرد کہلاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی چند حکایات دہرا لینے سے کام نہیں بنے گا۔
متن:
اس راستے میں ہدایت کے لئے مرد کامل چاہیے تاکہ انسان کو مراد تک پہنچائے چند رکعتوں اور چند حکایتوں سے کیا چیز درست ہو گی؟ پس اے میرے محبوب! جیسا اللہ تعالیٰ کی عنایت ازلی کسی مرید کے بارے میں نصیب ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس مرید کو ایک ایسے پیر کی محبت نصیب فرماتا ہے کہ اُس پیر کا ظاہر علوم شریعت سے آراستہ ہوتا ہے اور اس کا باطن کمال معرفت اور حقیقت سے مزین ہوتا ہے اور غرور و تکبر کی آنکھیں اس نے باہر نکال پھینک دی ہوتی ہیں، حرص اور لالچ کے دامن کو قناعت کے پتھروں سے بھروایا ہوتا ہے۔ اس پیر کا ظاہر شریعت کے سیدھے راستے پر قائم ہوتا ہے اور اس کا باطن ریاضت کی بھٹی میں کندن بن چکا ہوتا ہے اور اُس سیر ہر گھڑی مرید کے دل کی کھیتی میں لطائف کا تخم کاشت کرتا ہے اور ہر دن وہ تخم حقائق کے آداب کے دقائق سے سیراب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس نیک توجہ اور نصیحت کے قبول کرنے اور اللہ کریم کی عنایت سے مرید کے مقبول اعمال صالحہ اور پسندیدہ کردار، شریف احوال اور مسنون مقامات میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے اور غیبی واردات کی خوشبو کے جھونکے مرید کے دل کے باغ میں محسوس ہوتے ہیں۔ اور اس مریدِ مقبول کا باطن صفا و طہارت کے انوار اور وفا و محبت کے اسرار سے منور ہو جاتا ہے۔ پس اے میرے پیارے، یہ تمام مذکورہ نشانیاں مقبول مرید کی ہیں۔ بصورت دیگر بے بہرہ اور بد نصیب مرید کی نشانی یہ ہے کہ کسی جاہل شیخ کے پاس جا کر جس کا دل تاریک ہو اور جس کی خصلت سراپا حیوانی ہو اور اُس کے بارے میں یہ کلام ربانی پورے طور پر منطبق ہو۔ ﴿كَلَّاۤ اِنَّهُمْ عَنْ رَّبِّهِمْ یَوْمَىِٕذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ﴾ (المطففین: 15)بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے۔“ اگرچہ یہ آیت شریف کافروں کی شان میں نازل ہوئی ہے، مگر جب تم طریقت میں آجاؤ تو لاکھوں کفر سامنے پیش آئیں گے۔ اس کے بعد ہر روز وہ گمراہ شیخ نام نہاد تقلید کی تاریکیوں اور رسمی عبادتوں کے بندھن اُس مرید کے گرد سخت کرتا جاتا ہے اور باطل تصورات اور فاسد خرافات سے اس بے چارے پر حق کا راستہ بند کرتا ہے اور گمراہی اور بدعتوں کے کانٹے اس بے چارے مرید کے راستے میں بچھاتا رہتا ہے اور ہر گھڑی کمینگی اور ضیانت کے بیج اس کے دل میں کاشت کرتا ہے اور اس کا باطن حرص اور حسد کی غلاظت سے گندہ اور پلید کرتا ہے۔ اے میرے محبوب، "لَیْسَ الْخَبْرُ کَالْمُعَایَنَۃِ" یعنی ”شنیدہ کے بود مانند دیدہ“۔ اس لئے زمانے کے پیروں اور مریدوں کے حال پر نظر کرنی چاہیے کہ ابلیس کے دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں، اس کے با وجود فقر کا نام اپنے ساتھ لگایا ہے۔ اور متقیوں اور اولیاء اللہ کا لباس پہن رکھا ہے اور اس لباس میں مقبولان درگاہ ایزدی کے شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو اہل یقین کی شکل و صورت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا شعار رندی اور کھیل کود اور ان کی مجلس کے آداب بدعت اور بے نمازی اور ان کے وجد و حال رفض اور خواہشات کی تکمیل "اَلسِّمَاعُ حَرَامٌ لِّلْعَوَامِ لِبَقَاءِ فُتُوْرِھِمْ" ”سماع عوام کے لئے اس کی سستی کی وجہ سے حرام ہے“۔ ان کی مجلس جھگڑا فساد ان کے اسرار و خلوت تفرقہ اور خباثت اور حرام کی کمائی پر فخر کرنا، اور اسی طرح ان کا افتخار اور سبقت قباحت اور بے حیائی کے امور میں ہوتا ہے۔ عام جاہل لوگ جو کہ جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں، ان مردود لوگوں کو جو کہ نفس کے تقاضوں اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں اور اباحت اور کفر کا نام طریقہ رکھا ہے اور اسی کو طریقہ کہتے ہیں۔ یہ سب دین اسلام کی حقیقتوں سے بے گانہ ہیں۔ اور ان کے مرید ان گمراہوں کے ساتھ ضلالت اور گمراہی کے صحرا کے اس سفر میں سرگشتہ اور گمراہ ہو گئے ہیں۔ پس اے میرے پیارے! یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھ لے کہ جب تک دل کا آئینہ بشری صفتوں کی برائیوں سے پاک نہ ہو، ایمان اور اسلام کی روشنی اور انوار دل میں کبھی نہیں آ سکتے، اور جس کسی کے اعمال و کردار میں اخلاص نہ ہو، اور ہمیشہ خواہشات نفسانی کا تابع اور فرمانبردار ہو، تو وہ کبھی بہبود و نجات کی شکل بھی نہ دیکھ سکے گا۔ کیونکہ ان سب کا آئینہ دل کو بشری اوصاف کی کدورتوں سے صاف رکھنا اور اعمال و کردار کو پُر اخلاص بنانے کا میوہ اور حاصل اسلام ہے اور اسلام کی حقیقت حکم ماننا ہے۔ اور نفس کی مخالفت کرنا بھی احکام میں سے ایک حکم ہے "اَوْحَی اللہُ تَعَالٰی اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ یَا مُوْسٰی اِنْ اَرَدْتَّ رَضَائِیْ فَخَالِفْ نَفْسَکَ اِنِّیْ لَمْ اَخْلُقْ خَلْقًا یُّنَازِعُنِیْ غَیْرَہٗ" اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ ”اے موسیٰ اگر تم کو میری رضا جوئی مطلوب ہو تو اپنی نفس کی مخالفت کر کیونکہ میں نے اس کے سوا کوئی دوسری مخلوق ایسی نہیں بنائی جو میرے ساتھ نزاع کرے۔“ پس نفس کا حکم ماننا تمام معصیتوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ اور حدیث کا مفہوم ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبر کے جہاد سے واپس تشریف لائے تو فرمایا: ’’یَا اَصْحَابِیْ غَزَوْنَا الْجِھَادَ الْاَصْغَرَ وَ بَقِیَ الْجِھَادُ الْاَکْبَرُ وَھِیَ جِہَادُ النَّفْسِ جَاھِدُوا النَّفْسَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکُمْ" آپ ﷺ نے فرمایا، کہ اے میرے اصحاب کرام ہم نے چھوٹا جہاد تو کر لیا، اور بڑا جہاد باقی رہ گیا ہے، اور وہ نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔ پس تم اس نفس کے ساتھ جہاد کرو جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔ اے میرے پیارے، عارف وہ ہے جو اغیار (غیر اللہ) کی ہستی کا نقش اپنے وجود کی تختی سے مٹا کر دھو لے۔
تشریح:
یہاں پر ایک مشکل بات ہے ذرا اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور اس حدیث شریف کی طرف اشارہ ہے کہ: ’’قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزَاةٍ لَهٗ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ، وَقَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ» قَالُوا: وَمَا الْجِهَادُ الأَكْبَرُ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ‘‘ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي، ج13، ص 498) ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہوئے تو ارشاد فرمایاکہ تمہارا آنا مبارک ہو ،کیوں کہ تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف پلٹ رہے ہو۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ جہادِ اکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ بندے کا اپنی خواہشات کے ساتھ لڑنا‘‘۔ اس میں ’’جہادِ اصغر‘‘ سے ’’بڑے جہاد‘‘ کی طرف آنے کی لوگ غلط تشریح کرتے ہیں کہ بڑے اور چھوٹے جہاد کا مطلب یہ ہے کہ جہاد میں کوئی جائے اور کوئی نہ جائے کیونکہ وہ چھوٹا جہاد ہے اور نفس کا بڑا جہاد ہے۔ اصل میں یہ اس لئے کہا کہ جہاد ایک محدود وقت کے لئے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ 20 کلو وزن بہت آسانی کے ساتھ 5 منٹ کے لئے اٹھا لیں گے لیکن 5 کلو وزن کو 10 گھنٹے اپنے ساتھ رکھنا بڑا مشکل ہو جائے گا۔ اگر کوئی کہہ دے کہ بھئی 20 کلو وزن آپ 5 منٹ کے لئے اٹھا لو یا 5 کلو وزن 10 گھنٹے کے لئے اپنے ساتھ رکھو تو آپ کیا کریں گے؟ 5 منٹ کے لئے 20 کلو وزن آسانی کے ساتھ اٹھانے کے لئے آپ تیار ہو جائیں گے۔ پس جو جہاد عام ہے اس میں بھی جہادِ اکبر کا حصہ ہے لیکن وہ چونکہ تھوڑے وقت کے لئے ہے لہذا اس کو زیادہ استحکام ہے ورنہ ظاہر ہے وہ نفس کی حمایت والا تو نہیں ہے، وہ بھی نفس کی مخالفت ہے اور بہت زبردست مخالفت ہے۔ تو جب اُس کی ضرورت ہو تو پھر وہی جہادِ اکبر بن جائے گا۔ لیکن چونکہ وہ تھوڑی دیر کے لئے ہوتا ہے تو آسان ہوتا ہے اور جہاد بالنفس پوری عمر کے لئے ہوتا ہے، اپنے آپ کو گویا کہ ہر وقت چھری کے سامنے رکھنے والی بات ہے یعنی اللہ کی طرف یا نفس کی طرف، جس میں مسلسل محنت کرنی پڑتی ہے۔ کچھ لمحوں کے لئے کوئی کام کرنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن اگر اس کو مستقل طور پر کرنا پڑ جائے تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔ تو نفس کا جہاد اس لئے اکبر ہے کہ وہ کافی عرصے کے لئے ہوتا ہے اور اس میں تسلسل ہے، اس میں چھوٹ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ 10 بجے تک نفس کی بات مان لو اور 11 بجے سے 12 بجے تک نہ مانو۔ بلکہ نفس کی جو بھی بات شریعت کے خلاف ہے اس کی ہر وقت مخالفت کرنی ہے تبھی جہادِ اکبر ہو گا۔ نفس کے جہاد کو جہادِ اکبر اس لئے کہا گیا کہ یہ مستقل اور لمبے عرصے کے لئے ہے اور لمبے عرصے کے لئے پابندی برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اور جہادِ اصغر جس کو کہا گیا وہ تھوڑے عرصے کے لئے ہوتا ہے اور تھوڑے عرصے کے لئے زیادہ بوجھ بھی آسانی کے ساتھ برداشت کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ نَعُوذُ بِاللہ مِنْ ذَالِک نفس کے خلاف جہاد کا مطلب یہ نہیں کہ خانقاہ میں بیٹھو اور جہاد کے لئے نہ جاؤ۔ جب جہاد فرض ہو جائے تو اس وقت ہر صوفی کے اوپر لازم ہو گا کہ جہاد کے لئے نکلے جیسے کہ باقی لوگوں کے اوپر لازم ہو گا کہ وہ جہاد کے لئے جائیں۔
حضرت امام مہدی علیہ السلام کا مقام تمام صوفیا سے اونچا ہے اور ان کی ساری زندگی جہاد میں گزرے گی، ان کے لئے وہی جہادِ اکبر ہو گا اور کتابوں میں لکھا ہے کہ اس وقت یہ حالت ہو گی کہ کوئی گھر ایسا نہیں ہو گا جہاں پر شہادتیں نہ ہو چکی ہوں۔ کسی کا والد، کسی کا بھائی، کسی کا بیٹا، بڑا مشکل وقت ہو گا۔ تو جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر صرف اس کے عرصے کے لحاظ سے ہے۔
متن:
؎ ہر کہ ایں سعادت رو نمود
ابواب مواہب غیبی برو کشود
ترجمہ:
جس کسی کو یہ سعادت ہاتھ آئی تو غیب کے فیوضات و مواہب کے دروازے اُس پر کھل گئے (اور خوف و اُمید اور ترقی و تنزل اور دنیا و آخرت کی فکر و خیال سے نجات حاصل کر گیا۔)
اے میرے پیارے، کافر تو آپ کو جان سے مارنے کا ارادہ کرتے ہیں، اور یہ مکار نفس آپ کے ایمان کو ختم کرنے کے درپے ہے۔
تشریح:
کافر آپ کو جان سے مار سکتا ہے ایمان سے نہیں ہٹا سکتا، لیکن نفس چونکہ ہر وقت ساتھ لگا ہوا ہے تو یہ آہستہ آہستہ ایمان تک پہنچ سکتا ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے انفاسِ عیسیٰ میں فرمایا کہ اس وقت میں فتویٰ دیتا ہوں کہ صحبتِ صالحین فرضِ عین ہے کیوں کہ اس کے بغیر ایمان بھی قائم نہیں رہتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صحبت یا نیک ہو گی یا بد ہو گی، نفس کی صورت میں صحبتِ بد ہر وقت ساتھ ہے۔ اب نیک صحبت اگر نہیں ہو گی تو آدمی بد صحبت کے حوالے ہو گیا تو پھر یہ کس طرف جائے گا؟ صحبتِ صالحین آج کل کے دور میں اس لئے فرضِ عین ہے کہ اس سے ایمان سالم رہتا ہے۔
حضرت شاہ عبدالعزیز دعاجو رحمۃ اللہ علیہ نے جب حضرت مولانا اشرف رحمۃ اللہ علیہ کو جو ہمارے شیخ محترم تھے اجازت عطا فرمائی تو ساتھ ہی فرمایا کہ کوئی بھی اللہ کا نام سیکھنے کے لئے آئے تو ایک منٹ بھی دیر نہ کرنا یعنی اس کو قبول کرنا۔ اللہ اللہ کا نام سیکھنا یہ اصل میں صوفیانہ محاورہ ہے یعنی کوئی بیعت ہونے کے لئے آئے۔ تو حضرت نے اشکال پیش کیا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تو بڑی مشکل سے بیعت فرماتے تھے اور آپ مجھے فرماتے ہیں کہ فوراً بیعت کر لو؟ شاہ صاحب نے فرمایا: وہ بیعتِ سلوک تھی اس لئے حضرت امتحان لے رہے تھے کہ یہ اس قابل ہے کہ کر سکے گا یا نہیں؟ اس وجہ سے بیعت کرتے وقت اچھی خاصی پابندیاں لگائی جاتی تھیں، اور میں جو بتا رہا ہوں یہ بیعتِ ایمان ہے۔ اگر تیرے پاس کوئی آتا ہے اور تو اس کو بیعت نہیں کرتا تو اگر کسی بے ایمان کے پاس چلا گیا پھر اس کا کیا بنے گا؟ خدا نخواستہ کوئی اس کا ایمان خراب نہ کر دے۔
میری تو جان لبوں پہ آ جاتی ہے کہ جس وقت کسی بد عقیدہ شخص سے میں کسی کو بیعت ہوتے ہوئے دیکھتا ہوں یعنی بیعت ہو چکا ہو۔ جو دوسروں کے لئے دوائی ہے وہ اس بیعت ہونے والے کے لئے زہر بنتی ہے کیونکہ مجلس میں یہاں پہ کوئی بیٹھا ہوا ہے جو بد عقیدہ شخص سے بیعت ہے اور میں بیان کرنا شروع کر لوں کہ شیخ کامل کی تلاش کرو، شیخ کامل سے بیعت ہو جاؤ، شیخ کامل سے یہ ہو گا، وہ ہو گا اور وہ اپنے شیخ کو شیخ کامل سمجھ رہا ہے، آپ براہ راست اس کو کہہ بھی نہیں سکتے کہ وہ بد عقیدہ ہے کیونکہ وہ اس کے ساتھ محبت کرتا ہے لہٰذا آپ سے لڑنے لگے گا، اپنے آپ کو بھی خراب کرے گا آپ کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے، اور اگر آپ نہیں کہتے ہیں تو وہ اپنے عقیدے میں اور مضبوط ہو رہا ہے۔ اب میں اگر یہ بات اس کے لئے نہ کروں تو لوگ نقصان میں جاتے ہیں اور کرتا ہوں تو وہ مزید مضبوط ہوتا جاتا ہے، اس کے لئے بھی نقصان ہے یا نہیں؟ جو شخص کسی بد عقیدہ شخص سے بیعت ہو اور وہ مجلس میں بیٹھا ہو تو بڑا مشکل کام ہے اس کو سمجھانا، اس کے سامنے بہت طریقے سے بات کرنی پڑتی ہے۔
ڈاکٹر فدا صاحب کے پاس ایک قادیانی طالبعلم آیا اور پوچھا: حضرت خاندانی منصوبہ بندی کرنا کیسا ہے؟ فرمایا کہ آج کل کے دور میں بہت ضروری ہے، اس کے بغیر تو گزارا نہیں ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب کے ساتھ جو بیٹھے تھے وہ حیران ہو گئے کہ ڈاکٹر صاحب کو آج کیا ہو گیا خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں فتویٰ دے رہے ہیں کہ یہ ضروری ہے! خیر وہ لڑکا چلا گیا تو ساتھ بیٹھے لڑکوں نے کہا: ڈاکٹر صاحب یہ کیا بات فرمائی؟ فرمایا: کیا میں قادیانی کی امت کو بڑھاؤں؟ اگر میں کہتا خاندانی منصوبہ بندی ٹھیک نہیں ہے تو وہ مزید قادیانیوں کو بڑھاتا رہتا۔
تو اصل میں موقع شناسی، مردم شناسی، محل شناسی، یہ تین باتیں جس میں نہ ہوں وہ نصیحت کے قابل نہیں ہے۔ تو اگر کوئی شخص اس طرح کا آ جائے جو بد عقیدہ پیر سے بیعت ہو اور کبھی کبھی میرے ساتھ اس طرح کا معاملہ ہو جاتا ہے کہ سامنے لوگ مختلف بیٹھے ہوتے ہیں کوئی ایک طرف کا ہے، کوئی دوسری طرف کا، اس وقت بات کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے، اور واقعتاً بڑا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ کوئی غلط طرف چلا گیا تو اس کو وہاں سے لانا بہت مشکل کام ہے۔
ہم مری گئے تھے تو ایک جگہ پر میں توقیر صاحب کے پاس گیا تھا، انہوں نے دعوت کی تھی۔ ان کے پاس ایک اور صاحب آئے ہوئے تھے، حکیم صاحب نے فوراً ان کا تعارف کروایا کہ یہ شیخ امین صاحب سے بیعت ہیں۔ مجھے بات سمجھ آ گئی، خیر کیا کرتے وقت بھی تھوڑا تھا اور بات بھی کرنی ضروری تھی کیونکہ اس کے بعد پھر وہ وقت کہاں ملتا۔ دو تین باتیں کرنے کے بعد میں نے کہا کہ حضرت شیخ امین صاحب کے بارے میں مجھے تھوڑا سا پتا ہے اور وہ صحیح نہیں ہے۔ اس وجہ سے اس پہ آپ ذرا غور فرما لیں۔ مجبوراً مجھے یہ بات اسی وقت کرنی پڑی کیونکہ اس وقت صورتِ حال ایسی تھی کہ وقت زیادہ نہیں تھا، خدا کی شان کہ اس کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی۔ بعد میں اس نے ٹیلی فون کیا اور مجھ سے ذکر لے لیا جس سے اس کو فائدہ ہو گیا اللہ کا شکر ہے، پھر وہ پتا کر کے خانقاہ پہنچ گیا اور غالباً دو، تین دن لگائے، اس کے بعد بیعت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو فائدہ پہنچایا۔ بڑی محبت کے ساتھ مری میں بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ خوش قسمت تھا کہ اس کو بات آسانی سے سمجھ آ گئی ورنہ اتنی آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی۔ گمراہ پیر سے کوئی بیعت ہو اور پھر اس کو آپ سمجھائیں کہ یہ گمراہ ہے، یہ بہت مشکل کام ہے۔
متن:
یعنی یہ ایسا دشمن ہے کہ تمام زخم اپنے دوست اور ساتھی پر لگاتا ہے، اور ایسا کافر ہے، جو اپنا گھوڑا دوست اور محبت کرنے والے پر دوڑا کر اسے روندتا ہے۔ جو کوئی نفس کی دوستی میں جس قدر کوشش کرتا ہے، تو ابدی ہلاکت کا زہر اس قدر نوش کرتا ہے، جو کوئی کہ نفس کے عشوہ و ناز پر جتنا فریفتہ ہوا، تو اپنے دین و ایمان کی عزت اس قدر گنوائی۔ فائدہ:۔ تمکین دو قسم کی ہے۔ ایک اصطفائی اور دوسری اکتسابی۔ اکتسابی تمکین وہ (مقام عزت و وقعت، تصوف میں ایک مقام کا نام ہے) ہوتا ہے، کہ ایک شخص نفسانی کمال حاصل کر کے اچھی طرح خدمت انجام دیتا ہے، اور اپنے آقا (اور بادشاہ کے احکام و اعمال کے بجا لانے میں بہت تکالیف سے دو چار ہوتا ہے اور دن رات اپنے آقا) کی خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ اگر آقا کا منظور نظر ہو جائے تو اس کو وجاہت اور رتبۂ اعلی حاصل ہوتا ہے اور یہ مقام مرشد کامل کے بغیر ہاتھ نہیں لگتا ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (المائدۃ: 35)
ترجمہ:۔ ”اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، اور اس کے لئے وسیلہ تلاش کرو۔ اور اُس کے راستے میں جہاد کرتے رہو، (خواہ ظاہری دشمنوں سے ہو، خواہ باطنی دشمنوں سے ہو)۔ ایسا کرنے سے تم کو فائدہ اور خیر و فلاح حاصل ہو گی۔“ اس آیت شریف میں اس کی جانب اشارہ ہے اور حدیث مبارک یہ ہے "مَا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ وَ یَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا وَ رِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا"۔ (بخاری شریف، حدیث نمبر 6137) ”میرا بندہ ہمیشہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اُس کے ساتھ محبت کرتا ہوں۔ میں اُس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا رہتا ہے، اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ گرفت کرتا ہے، اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے، اور اگر وہ مجھ سے کوئی چیز مانگتا ہے تو اُس کو دے دی جاتی ہے۔ اگر مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو اُس کو ہمارے ہاں سے پناہ دی جاتی ہے“ اس حدیث شریف کا اشارہ اس طریقہ سے ہے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بادشاہ خود ارادہ فرمائے کہ کسی کو تربیت دے کر اعلی مرتبہ تک پہنچائے تو وہ خود بذاتہٖ اس کو تربیت دیتا ہے۔ اور جب وہ کمال حاصل کرتا ہے تو اس کو اعلی مرتبہ تفویض کرتا ہے۔ اس طریقہ میں پیر و مرشد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ خود ہی نور محمدی کے ذریعے اس کے دل کی تربیت فرماتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 33) ”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) اور اٰل ابراہیم اور اٰل عمران کو تمام عالم میں سے برگزیدہ فرمایا ہے۔“
تشریح:
اگر کسی کو اس پر اشکال ہو تو انبیائے کرام تو سارے یہی ہیں کیوں کہ نبی کشف سے نہیں بن سکتا بلکہ وہ چنا ہوا ہوتا ہے۔ اصل میں اللہ کے فیصلے پہ دل و جان سے راضی ہو جانا ایک بہت بڑا مقام ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے فرمایا کہ تیری مجلس میں ایک شخص ہے جس نے چالیس سال تک مجھے ناراض کئے رکھا، میں اس کی موجودگی میں بارش نہیں برساؤں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اعلان کر دیا کہ کوئی ایسا شخص ہے تو اٹھ کے چلا جائے تاکہ باقی لوگوں کو بارش نصیب ہو جائے۔ ابھی کوئی بھی نہیں نکلا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ موسیٰ علیہ السلام پریشان ہو گئے کہ اب میری نبوت پہ یہ لوگ یقین نہیں کریں گے کیونکہ نبی کی سب سے بڑی بات تو سچا ہونا ہوتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا اللہ آپ ہی کے کہنے پہ میں نے سب سے کہا تھا تو اب یہ کیا ہو گا؟ اللہ پاک نے فرمایا: اس بندے نے مجھ سے دوستی کر لی تو اب وہ مختلف ہو گیا جو پہلے تھا اب وہ نہیں رہا، لہٰذا پابندی ختم ہو گئی اس لئے میں نے بارش برسا دی۔ اب موسیٰ علیہ السلام کو اتنا سخت خطرہ تھا اس کے باوجود فوراً کہتے ہیں: یا اللہ مجھے ان کی زیارت کرا دے کیونکہ وہ تیرا دوست ہے۔ تو جو اللہ کرتا ہے اس کے اوپر دل و جان سے راضی ہونا بندے کے لئے سب سے بڑی سعادت ہے۔ اگر کسی کو ایسے لوگوں کے بارے میں اشکال ہوتا ہو تو وہ ڈرے کہ اللہ کے فیصلوں پر مجھے اشکال ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں کہ :میں منتخبین میں سے ہوں یا کشف والوں میں سے ہوں۔ بھئی بچنا چاہیے جس طریقے سے بھی بچو، خواہ مخواہ ان چکروں میں پڑو ہی نہیں کیونکہ توفیق بھی تو اللہ ہی دیتا ہے، اگر تم نے عمل کر لیا تو اپنی طرف سے تھوڑی کیا بلکہ خدا کے فضل سے کیا، اس پر اللہ کا شکر ادا کرو کہ اللہ پاک نے توفیق عطا فرمائی۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں تو محنت سے کر رہا ہوں اور دوسرے کو ویسے ہی چن رہا ہے ورنہ انسان اپنے لئے گڑھا خود ہی کھودے گا۔ شیطان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہوا تھا کہ عبادت کو اپنی طرف سے سمجھا اللہ کی طرف سے نہیں سمجھا، تو جب آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور سجدے کا حکم ہوا تو اس نے سوچا کہ ابھی ان کو پیدا کیا ہے اور ابھی ان کو سجدہ بھی کرایا جا رہا ہے اور میں اتنے عرصے سے عبادت کر رہا ہوں وہ ساری کی ساری ویسے ہی چلی گئی۔ پھر کیا ہوا؟ اللہ پاک نے تأدیباً پوچھا: تو نے کیوں اس طرح حرکت کی؟ جس کو میں نے خاص اپنے طریقے سے بنایا تو جب میں نے حکم دیا تھا، اس کو تو نے کیوں سجدہ نہیں کیا؟ تو اس کے منہ سے نکلا ﴿أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِينٍ﴾ (ص: 76) یہی خوش فہمیاں ہیں۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ﴾ (آل عمران: 8) ﴿إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ﴾ اس کا اخیر ہے۔ "وَهَّاب" کا مطلب ہے بغیر استحقاق کے عطا کرنا۔ ہم لوگوں کو پناہ مانگنی چاہیے اللہ کی کہ اس حالت سے اللہ تعالیٰ ہمیں نکال دے کہ ہمارے اندر کوئی ضد آ جائے اور ہم اللہ کے حکم کے سامنے اپنے نفس کی خواہش کو آگے رکھیں۔ وہ بھی نفس ہی کی خواہش تھی کہ مجھے سجدہ کیا جائے یا میں بڑا بن جاؤں۔ بڑا بننے کے جراثیم جس میں بھی ہوں گے تو مصیبت ہو گی۔ فرمایا: "اَلْكِبْرُ رِدَائِي" (المقاصد الحسنۃ للسخاوی، ج2 ص163) ”بڑائی میری چادر ہے جو مجھ سے اس کو چھینے گا میں اس کو ریزہ ریزہ کر دوں گا۔“
بڑائی کے جراثیم بالکل ختم کرنے پڑتے ہیں اور اصلاحِ کلی اس کے بعد ہوتی ہے جو انسان کی بڑائی کے جراثیم کو ٹھکانے لگائے۔ سب سے اخیر میں صدقین کے دل سے بھی یہ رذیلہ نکلتا ہے، یہ بڑا مشکل کام ہے۔ جس میں بھی یہ جراثیم پائے جائیں سمجھو کہ وہ تباہی کے دہانے پہ کھڑا ہے، کسی بھی وقت تباہ ہو سکتا ہے۔ جیسے شیطان اس وقت تک عبادت کر رہا تھا لاکھوں سال سے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے سارا کا سارا معاملہ دھڑام سے گرا دیا اور ختم کر دیا، وہ ایک لمحہ تھا جس نے اس کو تباہ و برباد کر دیا۔ یہ چیز جس کے اندر ہو اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت اس سے کیا بات ہو جائے، کسی بزرگ کی گستاخی ہو جائے یا کسی کام کی نا قدری ہو جائے یا اللہ کے حکم کے درمیان کوئی بات آ جائے، مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے لہٰذا اس کو جڑ سے نکالنا ہوتا ہے۔
کراچی میں ہمارے ایک ساتھی تھے جنہوں نے مجھے میسج کیا کہ یہاں لوگ Reiki Yoga کی طرف جاتے ہیں اور پتا نہیں کس کس طرف جاتے ہیں اور یہ کرتے ہیں، وہ کرتے ہیں وغیرہ۔ میں چاہتا ہوں کہ لوگ ذکر کی طرف آئیں، آپ مجھے کوئی ایسا ذکر سکھا دیں جو میں دوسروں کو سکھا سکوں۔ آج کل یہ باتیں میرے ساتھ بہت زیادہ ہو رہی ہیں پتا نہیں کیا بات ہے۔ میں نے کہا کہ پہلے اپنے نفس کا علاج ہے باقی سب باتیں بعد کی ہیں۔ ان کا میسج یہ تھا۔۔
سوال:
السلام علیکم!
میں فلاں ہوں کراچی سے، مرد ہوں۔ کافی عرصے سے مجھے ایسے ذکر کی تلاش ہے جو میں خود بھی کر سکوں اور دوسروں کو بھی سکھا سکوں کیونکہ بہت سارے لوگ Reiki Yoga وغیرہ کی طرف جا رہے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ ذکر کی طرف آئیں تو یہ مکمل اجازت کے ساتھ اور ہدایت کے ساتھ مجھے آپ عنایت فرما دیں۔
جواب:
وعلیکم السلام آپ کا جذبہ قابلِ قدر ہے لیکن ایک شبہ رہ جاتا ہے وہ یہ کہ جب تک اپنی اصلاح نہ ہو تو دوسرے کی اصلاح نہیں کر سکتے۔ اس لئے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوتی ہے بعد میں دوسروں کی۔ دوسروں کی فکر بری بات نہیں لیکن اصول کے مطابق ان کی رہنمائی ایسے لوگوں کی طرف کی جائے جن کو مندرجہ بالا اصول کے مطابق دوسروں کی اصلاح کرنے کی اجازت ہو۔ دعاؤں کی درخواست ہے۔
جواب آیا کہ آپ کے جواب کا شکریہ میری E-mail کا موضوع بھی یہی تھا کہ میں خود سیکھ کر دوسروں کو سکھانا چاہتا ہوں اس لئے آپ کی رہنمائی درکار تھی، بنا سیکھے نہ کوئی کسی کو سکھا سکتا ہے نہ ہی دے سکتا ہے بہرحال آپ کے جواب کا منتظر۔
یعنی پھر بھی وہی چیز باقی ہے کہ میں سیکھ کر سکھانا چاہتا ہوں تو پھر مجھے وہی والا ذکر بھیجنا پڑے گا۔ ایک پیر صاحب کے پاس کوئی مرید آیا تو اس کو کسی طریقے سے بھی فائدہ نہیں ہو رہا تھا۔ حضرت نے بڑے طریقے بدلے لیکن ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ حضرت کو فکر ہو گئی اور اس کو بلایا اور کہا کہ بھئی تو میرے پاس کس ارادے سے آیا ہے، تیری نیت کیا ہے؟ اس نے کہا کہ آپ تو ماشاء اللہ بہت بڑے شیخ ہیں اور آپ کا فیض چل رہا ہے، ایک عالمَ اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ اگر مجھے بھی فیض مل جائے تو میں بھی لوگوں میں اس طرح تقسیم کرتا رہوں، جس طرح آپ فرما رہے ہیں۔ یہ وہی چیز تھی جو ابھی اوپر ذکر ہوئی۔ تو حضرت نے فرمایا: اچھا ابھی سے پیر بننے کی ٹھانی ہے؟ یہی کتا ہے جو پڑا ہوا ہے، اس کو نکالو، جب تک یہ نہیں نکالو گے اس وقت تک آپ کو فائدہ نہیں ہو گا، اس سے توبہ کرو۔ اس سے توبہ کروائی پھر اس کے بعد اس کو فائدہ ہو گیا۔ یہی چیز ہوتی ہے کہ انسان جب دوسروں کی فکر کرتا ہے اور اپنی فکر کو بھول جاتا ہے تو مسئلہ خراب ہو جاتا ہے۔
مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے معاملے میں کوئی ایسا نہیں کرتا کہ دوسروں کو اپنے اوپر فوقیت دیتا ہو کہ پہلے اس کو، پھر مجھے۔ صحابہ کرتے تھے، ہم نہیں کرتے۔ لیکن دین میں سارے بڑے فیاض بن جاتے ہیں، خود کو بھول کر دوسروں کو دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب وہی بڑائی کی محبت ہے، پیر بننے کا شوق ہے۔
متن:
تو وہ خود بذاتہٖ اس کو تربیت دیتا ہے۔ اور جب وہ کمال حاصل کرتا ہے تو اس کو اعلیٰ مرتبہ تفویض کرتا ہے۔ اس طریقہ میں پیر و مرشد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ خود ہی نور محمدی کے ذریعے اس کے دل کی تربیت فرماتا ہے۔ ﴿اِنَّ اللهَ اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا وَّ اٰلَ اِبْرٰهِیْمَ وَ اٰلَ عِمْرٰنَ عَلَى الْعٰلَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 33) ”اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم و نوح (علیہما السلام) اور اٰل ابراہیم اور اٰل عمران کو تمام عالم میں سے برگزیدہ فرمایا ہے۔“
﴿وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللهَ اصْطَفٰكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 42) ”فرشتوں نے جس وقت حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو کہا، کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو برگزیدہ اور منتخب فرمایا اور تم کو پاک اور طاہر بنایا، دنیا کی تمام عورتوں سے۔“ ﴿قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ فَخُذْ مَاۤ اٰتَیْتُكَ وَ كُنْ مِّنَ الشّٰكِرِیْنَ﴾ (الاعراف: 144) ”اللہ تعالیٰ نے فرمایا، کہ اے موسیٰ علیہ السلام میں نے تم کو اپنے پیغام اور اپنے کلام سے لوگوں سے ممتاز کیا ہے تو جو میں نے تم کو عطا کر رکھا ہے، اسے پکڑ رکھو اور میرا شکر ادا کرو۔“ یہ پہلی قسم یعنی اصطفائی کی طرف اشارہ ہے اور تمام نبی اسی قسم سے ہوتے ہیں۔ اور بعض اولیاء بھی مثلاً بی بی مریم علیہا السلام، اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ، ابو الحسن نوری وغیرہ اس قسم کے تھے۔ کسی سے انہوں نے طریقہ نہیں کیا تھا۔ اور اویسی طریقے کا یہی مطلب ہے کہ اس کی تربیت نور احدی یا نور صمدی کی جانب سے ہوتی ہے اور ظاہری مرشد نہیں رکھتا وہ خود بھی کسی کو وظفیہ مثلاً قادری یا چشتی وغیرہ نہیں سکھاتے تھے بلکہ کیمیا نظر تھے۔ صرف نظر سے یا باطنی توجہ سے مریدوں کو زندگی میں یا اب بھی وفات کے بعد فیض بخشتے ہیں۔ بات ازل سے تعلق رکھتی ہے اگر ازل میں سعید اور نیک بخت ہو تو شیخ صاحب سے فیض یاب ہو جاتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات بد بخت بھی نیک بخت ہو جاتے ہیں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ "اَلشَّیْخُ مَنْ سَعَدَ الشَّقِیَّ" ”شیخ وہ ہوتا ہے جو کہ باطن کی نظر سے بد بخت کو نیک بخت بناتا ہے۔“
تشریح:
اولیا اللہ کی دو قسمیں ہیں، ایک اصطفائی اور دوسری اکتسابی۔ اصطفائی جن کو چنا جاتا ہے۔ جیسے محمد مصطفیٰ۔ اور اکتسابی وہ ہیں جو محنت و مشقت و ریاضت سے اس مقام کو حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس مقام تک پہنچنے کے لئے محنت و مشقت اور ریاضت کرتے ہیں وہ بھی اور جن کو اللہ چن لیتا ہے اور ایسا بنا لیتا ہے کہ اللہ کے لئے ساری مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں، تو بات تو ایک ہی ہو گئی۔
آپ ﷺ پہ جب آخری وقت میں بہت سخت تکلیف آئی کیونکہ آپ ﷺ کا بخار دو آدمیوں کا بخار تھا بہت سخت تکلیف میں تھے۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نہ رہا گیا اور کہا یا ابا جان! آپ کی تکلیف مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیٹی آج کے بعد تیرے ابا جان کو کبھی تکلیف نہیں ہو گی۔ اب تکلیف تو ہو رہی تھی لیکن مصطفائیت میں پتا تھا نتیجہ کیا ہو گا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے جتنی تکلیف دی گئی کسی کو اتنی نہیں دی گئی۔ آپ ﷺ تو سب سے بڑے مصطفیٰ ہیں۔ پھر آپ ذرا غور فرمائیں کہ آپ ﷺ کے خاندان کا آپ ﷺ کے امتیوں کے ہاتھوں کیا حال ہوا؟ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو زبیدہ نے اطلاع بھیجی جو سادات میں سے تھیں لیکن ہارون رشید کی بیوی تھیں کہ ہارون رشید آپ کے دو پوتوں علی اور محمد کو مارنا چاہتا ہے۔ اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ جو ان کے والد تھے فوت ہو گئے تھے، اُن کو تو مدینہ منورہ میں دفن کر دیا۔ ان کے دو بیٹے تھے ایک کا نام علی تھا اور دوسرے کا نام محمد تھا، علی بالکل بچے تھے۔ زبیدہ نے کہا کہ ان کو کہیں دور لے جائیں۔ امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے راتوں رات ان کو بلخ روانہ کر دیا۔ ہارون رشید کو یہی ڈر تھا کہ جیسے ہی یہ بالغ ہوئے تو لوگ ان کو بادشاہ بنا دیں گے۔ یہاں جتنے بھی اوپر نام لکھے ہوئے ہیں یہ سب پہاڑوں میں رہے ہیں، شہروں میں نہیں آ سکے۔ کیوں نہیں آسکے؟ اس لئے کہ حکمران برداشت نہیں کرتے تھے۔ غالب بابا کدھر ہیں؟ یہ ان کے علاقے کے قریب ہیں، ہمارے ایک دادا ہیں۔ اب بھی وہاں کچھ نہيں ہے۔ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ، اس جگہ سارا ادھر اُدھر گاؤں بن گیا، پہلے اُدھر بھی کچھ نہيں تھا۔ اور بہادر بابا کہاں ہے؟ بالکل پہاڑوں کے درمیان میں، اب بھی وہاں کچھ نہيں ہے۔ اِس دور میں بھی آدم بابا جو ہمارے کربوغہ شریف میں ہے، سب پہاڑی علاقہ ہے، ساری زندگی ایسے ہی گزاری۔ تو کرنا پڑتا ہے، چاہے وہ مصطفائی ہو چاہے نہ ہو، تکلیف تو اٹھانی ہے۔ لہٰذا جن کو اللہ تعالیٰ چن لیتا ہے ان کو بھی تکالیف ہوتی ہیں۔ یعنی اس مقام کو حاصل کرنے کے دوران اور اس مقام کو حاصل کرنے کے بعد، اس مقام کا جو حق ہوتا ہے اس کے مطابق تکلیف ہوتی ہے۔
متن:
اولیاء اللہ کے مراتب اور مقامات کے بارے میں اور یہ بات کہ ہمارے شیخ صاحب کون سا مرتبہ اور مقام رکھتے تھے۔
جناب حضرت شیخ رحمکار صاحب المعروف جناب کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کے نیک بندے اور اولیاء اللہ کے زمرۂ مبارکہ میں اعلیٰ ترین اور خاص مقام رکھتے تھے۔ اور تصوف و سلوک کی زبان میں فرد اور قطبِ حقیقی تھے۔ اور قطب وحدت یعنی قطب منتہیٰ جو کہ قطبیت کا اعلیٰ ترین مرتبہ ہے اور معشوقیت کے مقام تک رسائی حاصل فرما چکے تھے۔ بحر المعانی میں تحریر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معشوق جو کہ عموماً لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتے ہیں، اُن کو اہلِ حقیقت کے بغیر جبکہ یہ خود ہی حقیقت ہوتے ہیں کوئی دوسرا ان کو نہیں دیکھ پاتا، اور نہ کوئی ان کو پہچانتا ہے اور اس مبارک گروہ میں سات آدمی ہیں۔ سرور کونین رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”بَدَلَاءُ اُمَّتِی سَبْعَۃٌ“ (لَمْ اَجِدْ ہٰذَا الحَدِیْثَ) یعنی میری امت کے ابدال سات ہیں۔ اور یہ سات ابدال سات اقلیموں یعنی ممالک میں ہوتے ہیں۔ ہر ابدال ایک اقلیم میں ہوتا ہے۔ جس وقت کہ لوگ عاجز و درماندہ ہو جاتے ہیں تو ابدال کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اُن کی امداد اور معاونت کرے اور جب اُس قوم میں کوئی کامل درویش ہو تو اُس درویش کی خاطر اُس قوم کی فریاد رسی کی جاتی ہے۔ اور جب ان ابدال میں سے کوئی صاحب بقضائے الٰہی انتقال کر جاتے ہیں اور عالمِ بقا کا سفر اختیار فرماتے ہیں تو صوفیائے کرام میں سے کسی ایک کو لے کر مرحوم کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اور اُس مرحوم کا جو نام ہوتا ہے تو اُس کو اسی نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اور سات ابدالوں کے اسمائے گرامی یہ ہیں اور یہ سات افراد سات پیغمبروں کے مشرب پر ہوتے ہیں۔ ان میں ایک اقلیمِ اوّل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلب پر ہوتا ہے اور اس کا نام عبد الحی ہے۔ دوسرا فرد اقلیمِ دوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہوتا ہے اور اس کا نام عبد اللہ ہے۔ تیسرا اقلیمِ سوم میں حضرت ہارون علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہوتا ہے اور اُس کا اسم عبد المرید ہے۔ چوتھا اقلیمِ چہارم حضرت ادریس علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہوتا ہے اور اس کا نام عبد القادر ہے۔ پانچواں فرد اقلیمِ پنجم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہوتا ہے اور اس کا نام عبد القاہر ہے۔ چھٹا اقلیمِ ششم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قلب پر ہے اور اس کا نام عبد السمیع ہے۔ ساتواں اقلیم ہفتم میں حضرت آدم علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہوتا ہے اور اُس کا نام عبد البصیر ہے۔
جناب محمد حسین ابن نصیر الدین جو کہ بحر المعانی کے مصنف ہیں اور وہ خود افراد حق میں سے تھے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں دوران سفر اُن کا ساتھی تھا اُن ابدالوں میں سے ہر ایک معارفِ الہٰی اور لطائف کا عارف تھا۔ اور ساتوں ستاروں میں اللہ تعالیٰ نے جو اسرار ودیعت کر رکھے ہیں وہ سب تاثیر ان ابدالوں کی ذات گرامی میں موجود تھی۔
اقالیم، اقلیم کی جمع ہے اور اقلیم ربعِ مسکون کا ساتواں حصّہ ہے۔ اور ربعِ مسکون تمام زمین کے چوتھائی حصّہ کو کہتے ہیں۔ اور تمام ربعِ مسکون نوے (90) درجے ہے۔ جس میں باسٹھ درجے جھلسائی ہوئی زمین اور برف کے پہاڑ ہیں، اس میں جاندار زندگی نہیں گزار سکتے اور اُس میں زندہ رہنا اور آبادی ممکن نہیں۔ اور ربعِ مسکون میں سے اٹھائیس درجے قابلِ آبادی ہیں اور زمین کا چوتھائی حصّہ دریائے محیط کے نیچے ہے اور زمین کے نصف حصّے کی حقیقت معلوم نہیں۔ اور علم اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہے اور اس حصے کو نیچے کی زمین (زمین تحت) کہتے ہیں۔ اور تمام زمین کو حُکَما نے ایک سو ساٹھ درجے مقرر کیا ہے، پس ہر اقلیم ایک ستارے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ ہندوستان زحل کے ساتھ، چین مشتری کے ساتھ اور ترک مریخ کے ساتھ، خراسان شمس کے ساتھ اور ماوراء النہر زہرہ کے ساتھ، روم عطارد کے ساتھ اور بلخ قمر کے ساتھ منسوب ہے ابدال پہاڑوں میں سکونت پذیر ہوتے ہیں۔ اُن کی خوراک درختوں کے پتے اور صحرا کی ٹڈی (ملخ) ہوتی ہیں۔ اور یہ کمال معرفتِ ایزدی رکھتے ہیں، اور حالت طیر اور حالت سیر نہیں رکھتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ ”إِنَّ لِلہِ عَزَّوَجَلَّ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَمِائَةٍ قَلْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلهِ فِي الْخَلْقِ أَرْبَعُونَ قُلُوبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ مُوسٰى عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلهِ فِي الْخَلْقِ سَبْعَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلهِ فِي الْخَلْقِ خَمْسَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلٰى قَلْبِ جِبْرِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلهِ فِي الْخَلْقِ ثَلَاثَةٌ قُلُوْبُهُمْ عَلَى قَلْبِ مِيكَائِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَلِلهِ فِي الْخَلْقِ وَاحِدٌ قَلْبُهٗ عَلٰى قَلْبِ إِسْرَافِيْلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَإِذَا مَاتَ الْوَاحِدُ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الثَّلَاثَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الْخَمْسَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْخَمْسَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ السَّبْعَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ السَّبْعَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الْأَرْبَعِينَ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الْأَرْبَعِينَ أَبْدَلَ اللہُ مَكَانَهٗ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ، وَإِذَا مَاتَ مِنَ الثَّلَاثِمِائَةِ أَبْدَلَ اللهُ مَكَانَهٗ مِنَ الْعَامَّةِ“ (الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 2، رقم الصفحۃ: 298، دار الفکر، بیروت)
ترجمہ: مخلوق میں ابدال کی تعداد تین سو ہے جن کے دل حضرت آدم علیہ السلام کے دل کی طرح ہوتے ہیں۔ اُن میں چالیس کے دل موسیٰ علیہ السلام کے دل کی مانند ہوتے ہیں۔ اور سات ابدال ایسے ہوتے ہیں جن کے دل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دل کی طرح ہوتے ہیں۔ پانچ کے دل حضرت جبریل علیہ السلام، تین کے دل میکائیل علیہ السلام کے دل کی مانند ہوتے ہیں۔ اور ایک ایسا ہوتا ہے جس کا دل اسرافیل علیہ السلام کے دل کی مانند ہوتا ہے۔ جب یہ ایک ابدال فوت ہو جائے تو اس کی جگہ اُن تین ابدالوں میں سے ایک سے پُر کی جاتی ہے۔ اور جب تین میں سے کوئی چل بسے تو پانچ میں سے کسی ایک سے تبدیل کی جاتی ہے۔ اور جب پانچ میں سے کوئی فوت ہو جائے تو سات کے گروہ میں سے کسی ایک سے پُر کی جاتی ہے۔ اور جب سات میں سے کوئی راہی عالمِ بقا ہو جائے تو چالیس کی جماعت سے اُس کے مقام کی خانہ پُری کی جاتی ہے۔ اور جب چالیس میں سے کوئی سفرِ آخرت پر چل بسے تو تین سو میں سے کسی کو اُس کی جگہ مقرر کیا جاتا ہے۔ اور جب ان تین سو میں سے کوئی وداع فرمائے تو عام مسلمانوں میں سے کسی کو ان کے مقام پر تعینات کیا جاتا ہے۔
اور ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ اس اُمت کے مصائب رفع کرتے ہیں۔ پس وہ تین سو ابدال جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دل پر ہیں اُن کا وظیفہ حضرت آدم علیہ السلام کا وظیفہ ہوتا ہے یعنی: ﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ﴾ (الأعراف : 23) کا ورد جاری رکھتے ہیں۔ اور وہ چالیس ابدال جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہیں تو ان کا وظیفہ موسیٰ علیہ السلام کا وظیفہ: ﴿إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ فَاغْفِرْلِيْ فَغَفَرَلَہٗ﴾ (القصص: 16) ہوتا ہے۔ اور سات ابدال جو کہ قلبِ ابراہیم علیہ السلام پر ہیں ان کا ورد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ورد: ﴿رَبِّ ھَبْ لِيْ حُکْمًا وَّ أَلْحِقْنِيْ بِالصَّالِحِیْنَ﴾ (الشعراء: 83) ہوتا ہے۔ اور پانچ ابدال جو کہ جبریل علیہ السلام کے قلب پر ہیں تو ان کا علم جبریل علیہ السلام کے علم سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور تین ابدال جو کہ میکائیل علیہ السلام کے قلب مبارک پر ہیں اُن کا علم میکائیل علیہ السلام کے علم سے متجاوز نہیں ہوتا۔ اور ایک ابدال جو کہ اسرافیل علیہ السلام کے قلب پر ہے اس کا علم بھی اسرافیل علیہ السلام کے علم سے تجاوز نہیں کرتا۔ اور اُن تین سو ابدال جو کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دل پر ہیں اُن کو صفی کہتے ہیں۔ اور چالیس جو کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قلب پر ہیں ان کا نام موسیٰ ہے۔ اور اُن سات کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قلبِ مقدس پر ہیں اُن کا نام ابراہیم ہے۔ اور وہ پانچ جو کہ جبریل علیہ السلام کے قلب پر ہیں اُن کا نام جمال الدین ہے اور وہ تین جو کہ حضرت میکائیل علیہ السلام کے قلب پر ہیں ان کا نام محمد ہے۔ اور ایک جو اسرافیل کے قلب پر ہے احمد نام رکھتا ہے۔ اور جب احمد نام والا قطبیت کے مرتبے پر پہنچ جائے تو اس کا نام عبد الرّب ہو جاتا ہے۔ اور دنیا کے چاروں کونوں میں چار اوتاد ہوتے ہیں۔
تشریح:
یہ اصل میں تکوینی نظام کا حصہ ہے۔ ہمارے بزرگ تنظیم الحق حلیمی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے بعض دفعہ یہ باتیں سنائی دیتی تھیں تو ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ان کی یہ بات لائی گئی تو انہوں نے فرمایا: یہ باتیں نہیں کرنی چاہئیں، پہلے تو نفی فرمائی پھر تھوڑی دیر بعد فرمایا: ہے تو اس طرح ہی لیکن کہنا نہیں چاہیے کیونکہ لوگ ان باتوں کو نہیں سمجھتے، خواہ مخواہ تذبذب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ظاہر ہے جو چیز چھپی ہوئی ہو، اس کو آپ کیسے سمجھیں گے؟ سائنس سے آپ روز بروز پردے ہٹاتے ہیں کہ پہلے یہ چیز تھی اور اب یہ ہے۔ پہلے کہتے تھے ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرہ ہے پھر کہا ایٹم بھی تقسیم ہو سکتا ہے، اس میں نیوٹران بھی ہوتا ہے، پروٹران بھی ہوتا ہے، الیکٹران بھی ہوتا ہے اور کوئی کہتا ہے نیوٹران بھی قابلِ تقسیم ہوتا ہے اور یہ ہوتا ہے، وہ ہوتا ہے وغیرہ۔ نویں جماعت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ ایٹم ناقابلِ تقسیم ذرہ ہے تو نویں جماعت کے طالبِ علم کو کہا جائے کہ ایٹم کے اندر الیکٹران وغیرہ بھی ہوتیں تو وہ سمجھے گا؟ میرے خیال میں وہ ایٹم بھی نہیں سمجھے گا۔ اسی طرح عوام کے لئے یہ باتیں نہیں ہیں وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے لہٰذا ان کے اوپر حجت بھی نہیں ہے۔ نه پوئے نه ګرم یعنی ”نہ سمجھ آئے تو پوچھا بھی نہیں جائے گا۔“ یعنی جو ”پوئے“ ہو گا تو اس سے پوچھا جائے گا۔ تو اس قسم کی چیزوں کا نہ معلوم ہونا عوام کے لئے بہتر ہے۔ اور جو اس line کے لئے کسی درجے میں قریب آتے ہیں تو پھر ان کو بتایا جاتا ہے، سکھایا جاتا ہے اور اس بارے میں تعلیم کی جاتی ہے۔ چنانچہ ہمارا پہلا کام شریعت ہے، بس شریعت پر عمل ہو جائے۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہمارے شیخ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: بھئی بزرگوں کی باتیں چھوڑو، ہم بزرگ نہیں ہیں، بزرگ ہوتے تو بزرگوں میں پیدا کئے جاتے۔ بس اتنا ہو کہ گناہ نہ کریں، اب صبح سے شام تک آپ بزرگی بزرگی کی رٹ لگاتے رہیں اور آپ سے مسلسل گناہ ہو رہے ہیں تو وہ بزرگی کیا جو گناہوں کے ساتھ ہو؟ جیسے قلب کے گناہ، جسم کے گناہ، آنکھوں کے اور کانوں کے گناہ، ان سے بچنا ضروری ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو بچائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ