اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَالُوْا طَآىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ (یس: 19)
صَدَقَ اللّٰهُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُهُ النَّبِیُّ الْكَرِیْمُ۔
باتیں بہت ہو سکتی ہیں باتوں کی کوئی انتہا نہیں ہو سکتی لیکن وہ بات جو موقع محل کے مطابق ہو وہ زیادہ فائدہ دیتی ہے۔ بعض اوقات ایسی باتیں بھی مشہور ہو جاتی ہیں جن کا نہ کوئی سر پیر ہوتا ہے اور نہ کوئی ثبوت۔ ہمارا دین بہت مضبوط بنیادوں پہ قائم ہے۔ اس کی بنیاد ظن و گمان اور سنی سنائی باتوں پہ نہیں ہے کہ جو بھی چیز کسی کے ذہن میں آ جائے اس کو دین کے ساتھ نتھی کر لے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے، آپ ﷺ نے اس کو پہنچایا ہے اور آپ ﷺ نے اس پر گواہی بھی قائم کی ہے۔ عرفات کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی نازل ہوئی:
﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3)
ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کر دی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا“۔
یہ بات سن کر ایک یہودی نے کہا: ”اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید کا دن بنا لیتے“۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے فرمایا: ”ہماری اس دن دو عیدیں تھیں، جمعہ کا دن بھی تھا اور حج کا دن بھی“۔ یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے کہ دین مکمل ہو گیا ہے۔ اب دین کے اندر کوئی تبدیلی نہیں لائی جا سکتی جو تبدیلی لائے گا اور اس کو دین سمجھے گا وہ بدعتی ہو گا اور بدعت کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا ہے:
”كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ“ (سنن ابن ماجة: 46)
ترجمہ: ”ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے“۔
لہٰذا ہم سب کو اس بات سے بچنا چاہیے کہ ہم کسی بھی بات کو بغیر ثبوت کے دین سمجھیں۔ دینی بات ایسی ہونی چاہیے جسے ہم یقین کے ساتھ دین کہہ سکیں۔ سنی سنائی باتوں پہ نہ چلیں۔ ایک تو یہ بات بہت اہم ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسی دن تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا تھا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے جو میرے پاس بھیجا تھا میں نے تم تک پہنچا دیا ہے؟ تمام صحابہ کرام نے کہا: ”یارسول اللہ (ﷺ) نہ صرف پہنچایا ہے بلکہ حق ادا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر فرمایا: ”یا اللہ تو گواہ رہنا، یا اللہ تو گواہ رہنا، یا اللہ تو گواہ رہنا“۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین وہ ہے جو آپ ﷺ نے پہنچایا ہے اس کے علاوہ جو بھی بات ہو گی اسے دنیا کے لحاظ سے تو ہم مان سکتے ہیں، لیکن دینی معاملات میں نہیں مان سکتے۔ دنیاوی معاملات میں ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ آپ ﷺ نے خود فرمایا:
”أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ“ (صحیح مسلم: 6128)
ترجمہ: ”تم اپنے دنیاوی کاموں کو بہتر جانتے ہو“۔
پس اگر دینی نصوص سے ہٹ کر طبّی تحقیق ہو جائے تو کوئی پابندی نہیں، سائنس میں تحقیق ہو جائے تو کوئی پابندی نہیں، زراعت میں تحقیق ہو جائے تو کوئی پابندی نہیں، انجینئرنگ میں ترقی کر لی جائے تو کوئی پابندی نہیں۔ یہ سارے دنیا کے امور ہیں دنیا کے امور میں تبدیلی پر کوئی پابندی نہیں کیونکہ سائنس ترقی پذیر ہے یہ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کر رہی ہے، یہ زیرو سے شروع ہوئی اور اس کا علم بتدریج بڑھ رہا ہے جبکہ دین مکمل ہو چکا ہے اس میں اضافہ نہیں ہو سکتا۔ یہ اس دن مکمل ہوا تھا جس دن یہ فرمایا گیا: ﴿اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدہ: 3) اب اس کے اندر کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ دین ہم خود ترتیب نہیں دے رہے یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ بہت سارے کفار یہ کہتے ہیں کہ قرآن آپ ﷺ کی لکھی ہوئی کتاب ہے، کیا مسلمان یہ بات مانتے ہیں؟ اس کو مسلمان نہیں مانتے بلکہ مسلمان کہتے ہیں کہ قرآن مجید اللہ پاک کی بھیجی ہوئی کتاب ہے اور آپ ﷺ نے اس کو ہم تک پہنچایا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے۔ یہ ”کتابُ اللہ“ ہے جبکہ نبی ﷺ ”رسولُ اللہ“ ہیں۔ ”رسول اللہ“ نے ”کتاب اللہ“ ہم تک پہنچائی ہے۔ یہ سارا قرآن اور سارا دین اللہ پاک کی وحی سے ترتیب پایا ہے، نبی ﷺ نے بھی اس دین میں اپنی مرضی سے خود کچھ شامل نہیں کیا بلکہ سب اللہ کے حکم اور منشاء کے مطابق کیا۔ جب خود نبی پاک ﷺ نے دین میں اپنی طرف سے کوئی بات شامل نہیں کی تو امتیوں میں سے کوئی اٹھ کر دین میں اضافہ کیسے کر سکتا ہے، کسی اور کو کیسے موقع دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس کے اندر چیزیں شامل کرے۔ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ اصولی باتیں ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ ہمارے دین کی بنیاد انہی چیزوں پر ہے۔
صفر کا مہینہ شروع ہے۔ اس کے بارے میں لوگوں نے کئی قسم کی باتیں بنائی ہوئی ہیں جو محض ظن اور تخمین پر مبنی ہیں جن کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں ہے۔ مثلاً بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صفر کے مہینے میں کوئی نحوست ہوتی ہے، اس میں مصیبتیں وغیرہ آیا کرتی ہیں۔
جاننا چاہیے کہ در اصل نحوست کہتے کسے ہیں؟ سورۂ یس میں اصحاب القریہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ نے بستی والوں کی طرف انبیاء بھیجے تھے، بستی والوں نے ان کی بات نہ مانی بلکہ انہیں کہنے لگے کہ ہم تمہیں منحوس سمجھتے ہیں، تمہاری وجہ سے ہم پر مصیبتیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان انبیاء نے بستی والوں کو جو جواب دیا اللہ پاک نے اسے قرآن میں اس طرح نقل فرمایا ہے:
﴿قَالُوْا طَآىِٕرُكُمْ مَّعَكُمْؕ اَىِٕنْ ذُكِّرْتُمْؕ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُوْنَ﴾ (یس: 19)
ترجمہ: ”رسولوں نے کہا: تمہاری نحوست خود تمہارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ باتیں اس لیے کر رہے ہو کہ تمہیں نصیحت کی بات پہنچائی گئی ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ تم خود حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو“۔
نبیوں نے بستی والوں سے کہا کہ تم لوگوں نے جو اپنی بات کو صحیح سمجھا ہے یہی نحوست ہے۔ پیغمبر تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت دے رہا ہے، لیکن تم اسے غلط سمجھ کر ٹھکرا رہے ہو اور اپنی بات کو درست سمجھ رہے ہو یہی اصل نحوست ہے۔ معلوم ہوا کہ اصل نحوست انبیاء کی تعلیمات کو نہ ماننا ہے۔
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
﴿اِنَّمَا النَّسِیْٓءُ زِیَادَةٌ فِی الْكُفْرِ﴾ (التوبة: 37)
ترجمہ: ”اور یہ نسیئ (یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کر دینا) تو کفر میں ایک مزید اضافہ ہے“۔
یعنی من جملہ کفریات کے یہ حرکت بھی کفر ہے جو کفارِ قریش ماہ محرم وغیرہ کے متعلق کیا کرتے تھے مثلاً اپنی غرض سے محرم کو صفر قرار دے کر اس میں لڑائی کو حلال قرار دیتے تھے۔ اپنی طرف سے مہینوں کو آگے پیچھے کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مہینے جس ترتیب سے بنائے ہیں انہیں اسی طریقے سے سمجھنا چاہیے، اس میں تبدیلی کرنا اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے۔ جیسے عرفات کا دن نو ذی الحج کو ہوتا ہے۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس دفعہ یوم عرفات گیارہ ذی الحج کو ہو جائے یا اس دفعہ یکم ذی الحج کو کر لو۔ یا یہ کہ اس بار گرمی زیادہ ہے رمضان شریف کو ذرا پہلے کر لیتے ہیں یا ذرا بعد میں کر لیتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، یہ صریح حرام ہے۔ اس لئے کہ یہ سب مہینے اور ان کی ترتیب اللہ پاک نے بنائی ہے ان مہینوں کو کوئی آگے پیچھے نہیں کر سکتا۔
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نہ مرض کا تعدیہ ہے بلکہ جس طرح اولاً حق تعالیٰ کسی کو مریض بناتے ہیں اسی طرح دوسرے کو اپنے مستقل تصرف سے مریض کر دیتے ہیں۔ میل جول وغیرہ سے مرض کسی کو نہیں لگتا۔ یہ سب وہم ہے اور نہ جانور کے اڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے جیسے کہ لوگوں میں مشہور ہے کہ داہنی جانب سے تیتر وغیرہ اڑے تو منحوس جانتے ہیں، یہ سب ڈھکوسلے ہیں اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے جیسے کہ عام طور پر لوگ اس کو منحوس خیال کرتے ہیں، یہ بالکل من گھڑت بات ہے اور حدیثِ صریح کے خلاف ہے اور ایک رسم اس ماہ کی آخری چار شنبہ کی مروج ہے یہ بھی بالکل بے اصل ہے۔
یہاں پر کچھ چیزوں کی تشریح ضروری ہے۔ میں نے ابھی عرض کیا کہ ہمیں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کرنی جو کہنا ہے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے کہنا ہے کیونکہ دین کی بنیاد دو چیزوں یعنی قرآن اور سنت پر ہے۔
پہلے تعدیہ کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہوں۔ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ ”جذامی سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو“۔ آپ ﷺ نے جذامی کو ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت نہیں فرمایا بلکہ فرمایا تم بیعت ہو چکے ہو۔ ان احادیث سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید کسی بیماری کے منتقل ہونے کا اصلی اور مستقل سبب تعدیہ ہے۔ لیکن کچھ احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تعدیہ کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق اس طرح ہو گی کہ بنیادی مسئلہ تقدیر کا ہے۔ ہمارے عقیدہ کے مطابق ساری چیزیں پہلے سے لکھی ہوئی ہیں، جس کو مرض لگنا ہو گا اسے لگے گا اور جس کو نہیں لگنا ہو گا اسے نہیں لگے گا۔ حکم اللہ کا چلتا ہے۔ جب بیماری لگنی ہوتی ہے تو لگ جاتی ہے اور جب نہ لگنی ہو نہیں لگتی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ سفر میں تھے، جس بستی سے گزرنے والے تھے معلوم ہوا کہ وہاں طاعون کی وبا پھیل گئی ہے تو راستہ بدل لیا، اس بستی سے نہیں گزرے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا آپ تقدیر سے بھاگ رہے ہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تقدیر سے تقدیر کی طرف جا رہا ہوں یعنی جہاں جا رہا ہوں وہاں بھی تقدیر ہے۔ یہ تطبیق ہے اور یہ درمیانی راستہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درمیانی راستہ اختیار کیا، ہمیں بھی درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہیے، ان چیزوں میں اصل اللہ کا حکم اور تقدیر کو سمجھنا چاہیے۔ جو اسباب بظاہر نظر آتے ہیں انہیں اصل نہیں سمجھنا چاہیے۔ اصل اللہ کا حکم ہے جب اللہ چاہے گا تو مرض لگے گا جب اللہ نہیں چاہے گا تو مرض نہیں لگے گا۔ اسباب کے دائرے میں ہم اپنے آپ کی حفاظت کریں گے خواہ مخواہ آ بیل مجھے مار والا کام نہیں کریں گے، خواہ مخواہ وہم نہیں کریں گے کیونکہ وہم سے انسان کی قوت مدافعت ختم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر حضرات اس کے گواہ ہیں کہ تحقیق کے مطابق جب انسان کو کوئی خوف لاحق ہوتا ہے، کوئی خطرہ ہوتا ہے یا کسی چیز کا وہم ہوتا ہے تو اس کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے۔ مثلاً پہلے اس کی قوت مدافعت سو فیصد تھی، کسی بیماری کے بارے میں وہم ہو گیا کہ کہیں یہ مجھے لاحق تو نہیں ہو گئی، اس وہم اور ڈر سے پچاس فیصد قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے، اب پچاس فیصد رہ جاتی ہے، لہٰذا جو بیماری اس پہ حملہ کرنا چاہتی تھی اب زیادہ آسانی سے حملہ کر سکے گی، کیونکہ اس بیماری کے خلاف مدافعت کی قوت کم ہو چکی ہے۔ دوسری طرف اسباب کے دائرے میں اس بیماری سے بچنے کے طریقوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، اسباب کے درجے میں اپنے آپ کو بچانا بھی ضروری ہے، لیکن یقین ان اسباب پر نہیں ہو گا یقین صرف اللہ پر ہو گا۔ ہم جو دوا کھاتے ہیں جو پرہیز اختیار کرتے ہیں اس کے بارے میں کبھی بھی سو فیصد یقین نہیں ہوتا کہ ہم اس سے ٹھیک ہو جائیں گے، خود ڈاکٹروں اور حکیموں کو بھی سو فیصد یقین نہیں ہوتا کہ یہ حتمی اور یقینی علاج ہے۔ اس لئے کئی مرتبہ ڈاکٹر حضرات کے بس سے کام باہر ہو جاتا ہے تو کہتے ہیں بس اب دعا کریں۔ دراصل دعا کا تو اسی وقت کہنا چاہیے تھا جب پہلی بار دوا دی تھی، کیونکہ شفا تب بھی دوا نے نہیں دینی تھی شفا اب بھی دوا نے نہیں دینی، پہلے بھی اللہ پاک نے شفا دینی تھی اب بھی اللہ پاک نے دینی ہے۔ دوا تو صرف بطور سبب کے اختیار کرتے ہیں، اور اس لئے اختیار کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے حکم دیا ہے کہ سبب اختیار کرو اور اس کے ساتھ یہ بھی حکم دیا ہے کہ اصل شفا دینے والا اللہ ہی کو سمجھو اس لئے سبب ضرور اختیار کرو مگر مسبب الاسباب اللہ پاک کو سمجھو۔ کیونکہ پہلے بھی اللہ ہی کرتا ہے بعد میں بھی اللہ کرتا ہے ہاں یہ بات ہے کہ پہلے تم اسباب اختیار کر رہے ہو سارے اسباب اختیار کر کے دیکھ لئے سب اسباب فیل ہو گئے اب صرف مسبب الاسباب کی طرف دیکھ رہے ہو۔ اس طرح کر سکتے ہیں اس پہ پابندی نہیں ہے لیکن پہلے اپنی طرف سے نہ سمجھو کہ میں کرتا ہوں بلکہ کہو کہ پہلے بھی اللہ ہی کرتا ہے۔
میجر جنرل عجب خان میرا دوست ہے وہ جب بھی نسخہ لکھتا ہے اس کے اوپر لکھتا ہے ”شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے“۔ اور یہی بات صحیح ہے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر اللہ پاک چاہے گا تو شفا ہو گی۔ آپ یقین کیجئے کہ بعض اوقات سادہ پانی سے بھی شفا مل جاتی ہے۔ ہمارے گاؤں کی بوڑھی عورتیں اکثر ایک دعا دیتی ہیں کہ ”اللہ تیرے لئے گڑھے کا پانی دوائی بنا دے“ پشتو میں کہتے ہیں ”الله دې دٙ منګی اوبه دارو کړه“
”اللہ تعالیٰ تیرے لئے گھڑے کا پانی دوائی بنا دے“۔ مجھے اس کا تجربہ ہو چکا ہے، میں گواہ ہوں کہ اللہ چاہے تو گھڑے کا پانی بھی دوائی بن جاتا ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں جب میں ہوسٹل میں رہتا تھا تو ایک مرتبہ ایسا شدید بیمار ہو گیا کہ چار پائی سے نہیں اٹھ سکتا تھا۔ اب ایک تیمار دار میرے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور ہنس ہنس کے کہتا ہے کہ شبیر صاحب لگتا ہے آپ نے بڑے گناہ کئے ہیں اللہ تعالیٰ بس آپ کے گناہ معاف کرنا چاہتا ہے ورنہ آپ ٹھیک ہی ہیں۔ میں نے کہا: اللہ کرے میرے گناہ معاف ہو جائیں۔ اب میں صبح سویرے اٹھا ہوں۔ اٹھنا بہت مشکل تھا، لیکن میں نماز پڑھاتا تھا اس لئے اٹھنا ضروری تھا۔ میں نے کسی اور آدمی کو جگا کر کہا کہ باقی سب کو تم جگا دو۔ اس نے باقیوں کو جگا دیا۔ بڑی مشکل سے مسجد پہنچے۔ نماز پڑھائی، سہو ہو گیا، دوسری دفعہ شروع کی پھر سہو ہو گیا، تیسری دفعہ میں نے کہا کہ مجھ سے نہیں پڑھائی جا رہی خود اپنی اپنی نماز پڑھ لو۔ نماز کے بعد دل چاہا کہ ذرا پانی پی لوں تو گلاس لے کے بڑی مشکل سے نلکے تک پہنچا اور ایک گلاس پانی پیا۔ اس پانی کا پینا تھا کہ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہو گئی، میں مکمل تندرست ہو گیا، دوسرا گلاس پیا تو جو بچی کھچی کمزوری تھی وہ بھی دور ہو گئی۔ میں اس بات پہ حیران ہوا کہ کیسی بیماری تھی جو دو گلاس پانی پینے سے دور ہو گئی۔ اس کے بعد میں ناشتہ کرنے کے لئے خود ڈائننگ ہال گیا۔ خوب ناشتہ کیا، اس دن presentation دی، کسی کو پتا بھی نہیں چلا کہ میں بیمار تھا سوائے اس تیمار دار کے یا ان نمازیوں کے۔ اب یہ کیا چیز ہے، میں نے کون سی antibiotic لی تھی کون سی antiflammatory لی تھی۔ کچھ بھی نہیں لیا تھا بس پانی پیا تھا اور اللہ نے صحت دے دی۔ اس کا مطلب ہے کہ صحت اور بیماری سب اللہ پاک کے ہاتھ میں ہیں اور دوائی، پرہیز احتیاط وغیرہ سب محض اسباب ہیں۔ اللہ پاک بعض دفعہ دکھاتا ہے کہ اصل میں کرتا میں ہی ہوں۔ پہلے بھی یہی بات ہوتی ہے بعد میں بھی یہی بات ہوتی ہے۔ ہاں اسباب کے دائرے میں ضرور دوائی استعمال کرو جیسے گرمی سردی سے بچنے کے لئے کپڑے پہنتے ہیں، کچھ اور چیزیں جو ہم اسباب کے دائرے میں کرتے ہیں، وہ کرنی چاہئیں۔ تمام ظاہری اور باطنی اسباب اسی طرح کام کرتے ہیں جس طرح اللہ پاک نے انہیں بنایا ہے لیکن سب چیزوں کے اوپر اللہ کا حکم ہے۔ بس اس بات کو سمجھنا ہے۔ یہی بات یہاں پر اس طرح فرمائی گئی ہے کہ ”تعدیہ بھی نہیں ہے نہ جانور کے اڑنے سے بد شگونی لینا کوئی چیز ہے اور نہ الو کی نحوست کوئی چیز ہے جیسے عام طور پر لوگ اس کو خیال کرتے ہیں“۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو ان چیزوں سے بچنا ہو گا۔
اکثر علاقوں میں صفر کے آخری چار شنبہ کے دن چُوری وغیرہ بنائی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کی امہات المومنین نے آپ ﷺ کے صحت یاب ہونے کی خوشی میں کچھ کھانا بنایا تھا۔ ہم بھی اسی خوشی میں یہ سب کرتے ہیں۔ شریعت میں اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: بد فالی شرک ہے۔ تین دفعہ ایسا فرمایا کہ بد فالی شرک ہے۔ بد فالی یہ ہے کہ مثلاً میں باہر گیا اور کوئی بلی آ گئی، اس سے میں نے یہ سوچا کہ میرے سامنے سے بلی گزر گئی ہے اس لئے اب میں جہاں جا رہا تھا وہاں نہیں جاؤں گا، یہ سفر ٹھیک نہیں رہے گا۔ یہ سب ہندوؤں کی باتیں ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں باقاعدہ بڑے بڑے سیاسی لیڈر، وزرائے اعظم اور صدور وغیرہ جوتشی سے باقاعدہ زائچہ بنواتے ہیں کہ میں یہ سفر کروں یا نہ کروں، میں یہ کام کروں یا نہ کروں، ہر چیز میں اس کا خیال رکھتے ہیں، ان کا اثر ہمارے اوپر بھی آ گیا ہے۔ آج کل اخباروں میں آتا ہے کہ ”آپ کا یہ ہفتہ کیسا رہے گا“۔ خدا کے بندو یہ چیزیں تمہیں معلوم نہیں ہو سکتیں یہ تو اللہ پاک کے علم میں ہیں۔
ایک دفعہ شیر شاہ سوری رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں بابر سے کسی جوتشی نے کہا کہ یہ تمھارے خاندان کو ختم کرے گا۔ شیر شاہ سوری بھی دربار میں موجود تھے، انہوں نے جوتشی سے پوچھا کہ تیری کتنی عمر باقی ہے؟ اس نے کہا: چھ سال۔ شیر شاہ سوری نے تلوار نکالی اور اس کا سر قلم کر دیا۔ اور کہا کہ بادشاہ سلامت جواب حاضر ہے، اِس نے کہا کہ اِس کی عمر چھ سال باقی ہے اور یہ ابھی مارا گیا۔ معلوم ہوا کہ یہ جھوٹا تھا اگر یہ اپنے بارے میں نہیں جانتا تو دوسرے کے بارے میں کیا جان سکتا ہے۔
فال لینا کوئی چیز نہیں ہوتی۔ لوگوں نے اپنی طرف سے باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ یہ فال نکالنے والے لوگ طوطا فال سڑک پہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ طوطا فال نکالنے سے کیا ہوتا ہے؟ کہتے ہیں کہ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ آپ کیسے اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا اگر ایسی بات ہے تو پھر پہلے اپنے لئے فال نکالو۔ خود تو ایسے فٹ پاتھ پہ بیٹھ کر لوگوں سے ایک ایک روپیہ مانگ رہے ہو، اپنے لئے بھی کوئی فال نکلواؤ کہ میری زندگی کیسے خوشحال ہو گی۔ یہ لوگوں نے بس باتیں بنائی ہوئی ہیں جو مشہور ہو گئی ہیں۔ لوگوں کو دنیا کے ساتھ بہت لگاؤ ہے۔ اگر آپ کسی کو بتا دیں کہ اس طرح کرنے سے آپ کی دنیا اچھی رہے گی تو لوگ آپ کی بات بھی غور سے سنیں گے۔ میں تجربہ سے کہہ رہا ہوں اگر آپ چاہیں تو آپ بھی تجربہ کر سکتے ہیں۔ کسی دن اپنے دفتر میں بیٹھ جائیں، بڑے بڑے افسروں سے بات کریں اور کہیں کہ آپ کے ہاتھ میں تو بہت زبردست لکیریں ہیں، آپ کو تو یہ یہ ملے گا، پھر دیکھیں وہ آپ کی بات کتنی توجہ کے ساتھ سنتے ہیں۔ یہ ساری کی ساری فضولیات ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم میں کوئی ایسا نہیں جن کو ایسے خیالات نہ آتے ہوں لیکن ہم ان کو توکل کے ذریعے ختم کر دیتے ہیں۔ دنیا میں ہر قسم کا خیال آ سکتا ہے مثلاً یہ کہ میں بیمار نہ ہو جاؤں۔ بھائی ہر ایک بیمار ہوتا ہے لیکن وقت سے پہلے کیوں مرتے ہو، جب وقت آئے گا تو دیکھیں گے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ وہم کرنا شروع کر لو کہ پتا نہیں کیا نہ ہو جائے، پتا نہیں کیا نہ ہو جائے۔ ان چیزوں کے پیچھے نہ پڑو، توکل کرو۔
﴿وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ﴾ (الطلاق: 12)
ترجمہ: ” اور جو کوئی اللہ پر بھروسہ کرے، تو اللہ اس (کا کام بنانے) کے لیے کافی ہے“۔
﴿اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ﴾ (آل عمران: 159)
ترجمہ: ”اللہ یقیناً توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“۔
جو بات مشہور ہو اس بات کا خیال وقت پر آ ہی جاتا ہے لیکن اس خیال پر عمل کرنا اور دل میں جمانا جائز نہیں بلکہ توکل کے خیال کو غالب کر لے تو وہ خیالِ باطل فوراً رفع دفع ہو جائے گا۔
یہ تو ماہِ صفر کے بارے کچھ معروضات تھیں۔ اب ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ اس وقت پورے ملک کے اوپر بہت زیادہ مشکل حالات ہیں۔ ملک کے سیاسی حالات بھی آپ کے سامنے ہیں اور سیلاب کی صورتحال بھی آپ کے سامنے ہے۔ اگر ہم ایسے حالات میں صرف خبریں دیکھتے اور سنتے رہیں اور بحثیں کرتے رہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے ذمہ دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہم سیلاب زدگان کی مدد جس طریقے سے اور جس لیول پر کر سکتے ہیں ضرور کریں۔ اگر کوئی آدمی ایسا ہے جو کسی بھی طرح مدد نہیں کر سکتا تو کم سے کم دعا ہی کر دے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ یہ آفات آئی کیوں ہیں۔ یہ بہت اہم بات ہے کہ ہمارے حالات ایسے کیوں ہیں؟ آپ نے بارہا کچھ خاص گناہوں سے متعلق احادیث شریفہ سنی ہوں گی کہ وہ گناہ جس قوم میں عام ہو جائیں اُس قوم پہ اللہ کی طرف سے عذاب نازل ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں وہ سب کام ہو رہے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان گناہوں کی پاداش میں یہ عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں اس کو عذاب نہ کہو۔ بھائی کیوں عذاب نہ کہیں؟ کیا ہم گناہگار نہیں ہیں؟ ہم میں سے کون ہے جو کہہ سکے کہ میں گناہگار نہیں ہوں۔ اگر گناہ گار ہیں تو پھر یہ بتائیں کہ کیا گناہگاروں پہ عذاب نہیں آتا؟ بلاشبہ آتا ہے۔ لیکن اس عذاب سے بچنے کے لئے کچھ راستے ہوتے ہیں، کوئی طریقہ ہوتا ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کو بتایا کہ تم پر عذاب آنے والا ہے۔ جب عذاب کے آثار آئے تو قوم کو یقین ہو گیا کہ عذاب آ چکا ہے، وہ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور میدان میں اکٹھے ہو کر سب رونے لگے، توبہ کرنے لگے اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ اللہ پاک نے ان کی توبہ قبول کر لی اور عذاب کو ٹال دیا۔ لہٰذا ہمیں بھی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عذاب آیا ہوا ہے اور اب ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ یہ عذاب کیوں آیا ہے۔ میں خود نہیں کہتا میری یہ حیثیت نہیں ہے، قرآن اور حدیث شریف میں یہ باتیں صاف موجود ہیں کہ ایسے اسباب ہوں تو عذاب آ جاتا ہے۔ البتہ کچھ حضرات پہ اللہ تعالیٰ موجودہ عذاب کے اسباب کھول دیتے ہیں، بعض اللہ والے ایسے ہوتے ہیں جن پہ یہ باتیں منکشف کر دی جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ بات اللہ پاک نے کسی پہ کھولی ہے انہیں نے مجھے باقاعدہ میسج کیا ہے۔ میرے پاس وٹس ایپ پر وہ میسج موجود ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ تین وجوہات ہیں جن کی وجہ سے موجودہ عذاب آیا ہے۔
پہلی وجہ ”جھوٹ“ ہے۔ ہمارے ملک میں جھوٹ بہت پھیل گیا ہے، اتنا پھیل گیا ہے کہ جھوٹ کو سچ مانا جا رہا ہے اور سچ کو جھوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ جھوٹ ہر چیز کے اندر شامل ہو گیا ہے۔
دوسری وجہ ”سود“ ہے۔ سود بہت عام ہو گیا ہے اجتماعی اور انفرادی دونوں لحاظ سے سود کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں۔ سود بہت بڑا ظلم ہے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔
تیسری وجہ ”رشوت“ ہے۔
ان تین چیزوں کی وجہ سے عذاب آیا ہوا ہے۔ اس اللہ والے نے مجھے یہ وجوہات بتائیں اور فرمایا کہ تم لوگوں کو بتا دو۔ اب اگر میں نہیں بتاتا تو میں مجرم بن جاوں گا، اس لئے آپ حضرات کو بتا رہا ہوں۔ ہمیں ان تینوں اسباب سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا، توبہ کرنی ہو گی اور توبہ بھی اجتماعی اور شعوری توبہ۔ عام توبہ تو یہ ہوتی ہے کہ ہم صرف استغفار کر لیتے ہیں۔ بلاشبہ استغفار کرنا چاہیے۔ لیکن استغفار شعوری توبہ تب بنتا ہے جب مجھے پتا ہو کہ میں کس چیز سے توبہ کر رہا ہوں۔ توبہ میں تین شرطیں ہیں۔ پہلی ندامت ہے، دوسرا اس گناہ سے رک جانا ہے اور تیسرا آئندہ وہ گناہ نہ کرنے کا عزم ہے۔ آپ کس گناہ سے توبہ کر رہے ہیں، کس گناہ کو چھوڑنے کا عزم کر رہے ہیں اور کس گناہ پہ نادم ہو رہے ہیں اگر آپ کو یہ معلوم نہ ہو تو پھر توبہ کیسے کریں گے۔ لہٰذا ہمیں اجتماعی اور شعوری توبہ کرنی پڑے گی۔
حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ میں ہے کہ مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے صاحب کشف تھے، ایک دفعہ انہوں نے کہہ دیا کہ عذاب آنے والا ہے اگر لوگ صدقہ کر لیں تو شاید بچت ہو جائے۔ یہ بات دیوبند کے قصبہ میں پھیل گئی۔ کچھ لوگوں نے کہا شاید مولویوں کو کچھ چیزوں کی ضرورت پڑ گئی ہے اس لئے یہ بات کر رہے ہیں۔ یہ بات حضرت تک پہنچ گئی، حضرت عالم جذب میں تھے فوراً ان کی زبان پہ جاری ہو گیا ”یعقوب، یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند۔ یعقوب، یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند۔ یعقوب، یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند“۔ جو جاننے والے تھے انہوں نے حضرت کے منہ پر ہاتھ رکھا کہ حضرت یہ کیا فرما رہے ہیں۔ انہوں نے کہا جو ہونا تھا وہ ہو گیا، اب فیصلہ ہو گیا ہے اب میں کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد دیوبند میں طاعون کی وبا آئی تھی اور ایسی ہولناک وبا آئی کہ ایک ہی گھر سے تین تین چار چار جنازے اٹھے۔ خود مولانا یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اس میں شہید ہو گئے، ان کے بیٹے بھی شہید ہو گئے۔
بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ اللہ پاک کسی پہ کچھ باتیں کھول دیتے ہیں۔ یہ جو بات میں نے موجودہ حالات کے تناظر میں عرض کی ہے یہ بھی اللہ نے اپنے کسی بندے پہ کھولی ہے۔ یہ بات نہ میری ہے نہ اس بندے کی ہے جس نے مجھے کہا، اسے بھی اللہ کی طرف سے بتائی گئی اور اس کے دل میں ڈالی گئی ہے۔
کشف ظنی چیز ہے، یہ کوئی یقینی بات نہیں ہوتی، یقینی بات قرآن اور حدیث ہے۔ آپ اس بات کو نہ مانیں تو کوئی حرج نہیں لیکن قرآن و حدیث کو تو مان لیں۔ کیا قرآن اور حدیث میں عذابات کا ذکر نہیں آیا؟ کیا قرآن اور حدیث میں خاص خاص گناہوں پر خاص خاص عذابوں کا ذکر نہیں آیا کہ زکوٰۃ نہ دینے پر کیا ہوتا ہے، زنا پہ کیا ہوتا ہے، گالی گلوچ پہ کیا ہوتا ہے، ناپ تول میں کمی پہ کیا عذاب آتا ہے، سود کے لین دین سے کیا مسائل پیش آتے ہیں۔ کیا یہ ساری چیزیں نہیں آئی ہیں؟ یہ ساری چیزیں قرآن اور حدیث میں پہلے سے آ چکی ہیں۔ اس اللہ والے کو تو صرف موجودہ وقت اور حالات کے لحاظ سے بطور کشف بتا دیا گیا کہ اس وقت ان خاص وجوہات کے سبب عذاب آیا ہے۔ کشف ایک خبر ہوتی ہے، پہلے اسے قرآن و سنت پہ پیش کیا جائے اگر قرآن و سنت کے خلاف ہو تو اسے چھوڑ دو پھر اس کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ کشف ظنی ہے اور قرآن و حدیث قطعی ہیں، لیکن اگر کسی کا کشف قرآن و سنت کے مطابق ہے تو پھر یہ ظنی نہیں رہتا اس میں قوت آ جاتی ہے۔
بہرحال پاکستان مشکل حالات میں ہے۔ ان مشکل حالات کی سائنسی وجوہات و اسباب سے کوئی انکار نہیں ہے۔ زلزلہ ایک سائنسی سبب سے واقع ہوتا ہے لیکن سبب کوئی بھی ہو یہ ہوتا تو عذاب ہی ہے۔ اسی طرح سیلاب کے ظاہری اسباب تو سائنسی ہوتے ہیں لیکن یہ اپنے نتائج و عواقب اور اصل کے لحاظ سے تو ایک ہولناک عذاب ہی ہے۔ ہم تو آرام سے بیٹھے ہیں ہمیں پتا نہیں چل رہا لیکن جن پہ گزر رہی ہے ان سے پوچھیں وہ کس مشکل میں ہیں، جو گلے تک پانی میں ڈوبے اپنا سامان سروں پہ اٹھا کر تیرتے ہوئے باہر نکل رہے ہیں، کسی کو بہن کا پتا نہیں، کسی کو بھائی کا پتا نہیں، کسی کو بیٹے کا پتا نہیں، کسی کو باپ کا پتا نہیں، ایک قیامت کا سا منظر ہے۔ ان مشکلات میں ہمیں ایک تو اجتماعی اور شعوری توبہ کرنی چاہیے اور صدقات کرنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔
جب وبا آتی ہے یا عذاب آتا ہے تو اس میں نیک لوگ بھی رگڑے جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ دنیا میں تو عذاب دونوں قسم کے لوگوں پہ آتا ہے لیکن آخرت میں نیک کو بد سے جدا کر دیا جائے گا۔ انہیں اس تکلیف پر اجر ملے گا، ان کے لئے یہ ایک غیر اختیاری مجاہدہ ہے۔ لیکن یاد رکھئے تکلیف سب پہ آ سکتی ہے، مشکلات سب پہ آ سکتی ہیں۔ ہم لوگوں کو اس وقت دل سے توبہ کرنی چاہیے۔ میں توبہ کے الفاظ دہراتا ہوں آپ میرے ساتھ الفاظ بولیں اور اس توبہ میں یہ عزم شامل کریں کہ آئندہ ہم واقعی گناہ نہیں کریں گے بالخصوص جن گناہوں کا ذکر عذاب کے اسباب کے طور پہ آیا ہے ان سے تو ہم بالکل ہی توبہ کر لیں۔
”اے اللہ ہم توبہ کرتے ہیں تمام گناہوں سے بالخصوص جھوٹ سے، سود سے، رشوت سے ہر قسم کی فحاشی سے۔ اے اللہ ہماری توبہ قبول فرما لے۔ آئندہ کے لئے ان شاء اللہ ہم گناہ نہیں کریں گے۔ اگر غلطی سے ہوا تو فوراً توبہ کریں گے۔ اے اللہ ہمیں اپنی توبہ پر استقامت نصیب فرما دے۔ اے اللہ ہمارے ایمانوں کی حفاظت فرما دے۔ اے اللہ ہماری جانوں کی حفاظت فرما دے۔ اے اللہ ہمارے مالوں کی حفاظت فرما دے۔ ہماری اولادوں کی حفاظت فرما دے۔ کسی طریقے سے بھی ہم شیطان کے آلہ کار نہ بن جائیں اور اپنے نفس کے آلہ کار نہ بن جائیں۔ یا اللہ ہمیں افراط و تفریط سے بچا دے۔ آمین۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن