اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰى خَاتَمِ النَّبِيِّيْنَ اَمَّا بَعْدُ!
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی تصنیف سیرت النبیﷺ کے حصہ چہارم میں اسلام سے پہلے عربوں کی حالت کے باب میں ان کی توہم پرستی کے متعلق فرماتے ہیں کہ عرب سانپ کو قتل نہیں کرتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ جب سانپ کو مارا جائے تو اُس کا جوڑا آ کر بدلہ لیتا ہے یہ اعتقاد تو ہمارے ہاں بھی اس وقت موجود ہے۔ البتہ فرق یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی سانپ کو مار ڈالے تو اُس کے سر کو بہت زیادہ مسخ کرتا ہے اس میں یہ بات ہوتی ہے کہ اس مرے ہوئے سانپ کی جوڑی آتی ہے اور اس کے آنکھوں میں مارنے والے کی تصویر ہوتی ہے جس کو اُس کی جوڑی پہچان لیتی ہے اور پھر وہ اُس شخص کو ڈھونڈتی ہے۔
کیا یہ اعتقاد کفر ہے اور اس سے بچاؤ کی تدبیر کیا ہے؟
جواب:
اصل میں اگر ہم سائنسی لحاظ سے دیکھیں تو اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ آنکھوں میں تصویر بن جاتی ہے۔ آنکھوں میں تصویر کیسے بن سکتی ہے؟ مثلاً اگر کوئی ایک طرف سے مارے اور وہ سانپ کو نظر ہی نہ آئے تو اس وقت تصویر کیسے بنے گی؟ کیونکہ یہ ضروری تو نہیں کہ جو سانپ کو مار رہا ہو تو سانپ اس کو دیکھ بھی رہا ہو۔ اس کی ایک صورت ہو سکتی ہے کہ اگر سانپ اس وقت اس کو بالکل دیکھ رہا ہو تو ایسی صورت میں اگر کوئی تصویر وغیرہ بن جاتی ہے اور وہ دیکھ سکتا ہو تو پھر کوئی بات ہوتی۔ لیکن ایسا ممکن نہیں ہے کہ اس کی جوڑی اس کو دیکھ سکتی ہو۔ اور اگر کئی لوگ سانپ کو ماریں تو کس کس کی تصویر بنے گی۔ لہذا یہ ذہن کے اندر ویسے ہی چیزیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جس چیز کی جانچ پڑتال نہ ہو تو اس میں بہت زیادہ توہمات بنتی ہیں۔ ہمارے علاقوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اگر کوئی بال کی گرہ کھولنے میں کامیاب ہو جائے تو سارے مردے زندہ ہو جائیں گے، اسی طرح اگر کوئی سارے تارے گن لے تو سارے مردے زندہ ہو جائیں گے۔ ظاہر ہے یہ کام کبھی ہو گا نہیں، جب ہو گا نہیں تو آپ اس کے بارے میں جتنی مرضی باتیں بنا لیں، اس کو کون چیک کر سکتا ہے۔ در اصل یہ عوامی باتیں ہوتی ہیں اور عوامی باتوں میں ایسی بہت ساری چیزیں آجاتی ہیں جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔ لہذا اگر کوئی توہم پرستی کی وجہ سے کر رہا ہو تو پھر تو یہ غلط ہے۔ لیکن اگر کوئی تحقیقی بنیادوں پر کر رہا ہو تو پھر وہ توہم پرستی نہیں رہے گی۔ لہذا اگر یہ توہم پرستی ہے تو پھر تو نہیں کرنا چاہیے، اور اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی تحقیقی بات ہو تو پھر مانی جا سکتی ہے۔ جیسے بعض سانپ ایسے ہوتے ہیں جو آدمی کو دیکھ کر با قاعدہ زہر کی پچکاری مارتے ہیں اور وہ ادھر ہی لگتی ہے جدھر وہ سانپ چاہتا ہے، مثلاً آنکھوں پہ لگتی ہے تو آدمی اندھا ہو جاتا ہے۔ اور جانور پر بھی مارتے ہیں، یہ بالکل ایک حقیقی چیز ہے۔ یہ کوئی توہم پرستی نہیں ہے بلکہ یہ چیز موجود ہے۔ اور اللہ پاک نے ان کو یہ صلاحیت دی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کے لئے یہ ترتیب کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بہت سارے جانوروں کو خود کو بچانے کے لئے بڑی عجیب عجیب ترتیبیں اللہ پاک نے دی ہیں، لہذا وہ چیزیں حقیقت ہیں اور وہ چلتی ہیں۔ بہر حال اگر کوئی سائنسی چیز ہے تو وہ تحقیقی ہوتی ہے اور اس کے اثرات ہوتے ہیں تو اس کو ماننا پڑتا ہے۔ لیکن بعض بلا وجہ کی اور خواہ مخواہ کی باتیں ہوتی ہیں جن کو لوگوں نے مشہور کیا ہوتا ہے۔ اور توہم پرستی ایسی چیز ہے کہ اس سے انسان ڈرتا ہے اور اگر نہیں بھی مانتا تو پھر بھی اس کا خوف ہوتا ہے۔ جیسے کوئی کہتا ہے کہ شعبان کے مہینے میں کوئی شادی کرے گا تو ایسا ہو جائے گا۔ فلاں اگر یہ کام کرے گا تو ایسے ہو جائے گا اس لئے لوگ جرأت نہیں کرتے۔ حالانکہ دیندار لوگ ہوتے ہیں پھر بھی اس میں جرأت نہیں کرتے۔ میں نے اپنی شادی شعبان میں کروائی تھی تو پھر میں اللہ پاک سے مانگتا تھا کہ یا اللہ مجھے کوئی نقصان نہ ہو کیونکہ لوگوں کی توہم پرستی اور بڑھ جائے گی اور وہ کہیں گے کہ دیکھو ہم نے کہا تھا ناں کہ اس طرح نہ کرو۔ تو الحمد للہ کچھ بھی نہیں ہوا۔ لہذا توہم پرستی کی چھاپ بڑی سخت ہوتی ہے، اس کو اتارنا آسان نہیں ہوتا، لوگ ڈرتے ہیں۔ جیسے صفر کے مہینے میں لوگ کتنے ڈرتے ہیں، صفر کے مہینے کے بارے میں عوام میں کتنی غلط باتیں مشہور ہیں اور کہتے ہیں کہ کتنی بلائیں اترتی ہیں۔ اس کے لئے لوگوں نے وظیفے گھڑے ہوئے ہیں، اور با قاعدہ اخبارات میں آتے ہیں کہ فلاں فلاں وظیفہ پڑھو۔ حالانکہ حدیث شریف موجود ہے: ’’لَا صَفَرَ‘‘ (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: 3916) کہ صفر میں کچھ بھی نہیں۔ تو جس کو اس حدیث شریف کا پتا ہے اس کو تو کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ بس آدمی کہتا ہے یہ ساری باتیں فضول اور بکواس ہیں۔ لہذا اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے با قاعدہ اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ ہمیں بھی اس کا خطرہ ہوتا تھا لیکن ہم اپنے توکل سے اس وسوسے کو بھگاتے تھے۔ حالانکہ یہ صحابی رسول ﷺ ہیں۔ لیکن چونکہ عربوں میں یہ چیزیں مشہور تھیں تو وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی اس کا وسوسہ آتا تھا لیکن ہم توکل کے ساتھ اس کو بھگاتے تھے۔ لہذا اگر خیال آ جائے تو خیال کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس خیال کو پکانا نہیں چاہیے، اس کے تقاضے پہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔ بس یہی اس کا علاج ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کو ان چیزوں سے محفوظ فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن