تعلیمات مجددیہ درس 03


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان



اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ



الحمد للہ، اگرچہ مکتوبات کا ایک دور مکمل ہو چکا ہے اور تمام مکتوبات کی تشریح ہو چکی ہے، تاہم مکتوبات کی اہمیت کے پیش نظر ان مکتوبات شریفہ کے درس کا ایک نیا دور شروع کیا گیا ہے جو منتخب مضامین پر مشتمل ہیں۔ سب سے اہم چونکہ عقائد ہیں اس لئے فی الحال عقائد پر ہی بات ہو رہی ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ عقائد پر مشتمل جلد دوم کا مکتوب نمبر 67 اور سوم کا مکتوب نمبر 17 الحمد للہ ہو چکے ہیں اور یہ عوام کے لئے تھے اور مکتوب نمبر 266 حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادگان کی طرف لکھا گیا تھا۔ اس میں علمی مضامین زیادہ پائے جا رہے ہیں اور کلامی موضوعات زیادہ ہیں۔ لہذا ہم نے اس کو بعد میں رکھا تھا تاکہ پہلے عوام کی بات ہو جائے پھر مزید تفصیلات اس مکتوب شریف میں آ جائیں گی، یہ کافی طویل مکتوب شریف ہے۔ تو اب اللہ کا نام لے کر اس کو شروع کرتے ہیں۔ اس میں جو عقائد کے متعلق حصہ ہے ہم صرف اسی کو لے رہے ہیں کیونکہ اس میں ہمارا مقصد صرف عقائد کا بیان ہے۔ جہاں تک باقی تفصیلات ہیں تو چونکہ مختلف مضامین کے حوالے سے بات ہو رہی ہے اس لئے جہاں جس مضمون کا ذکر آئے گا وہاں اس پر بات ہو گی۔ ان شاء اللہ۔

متن:

حضرت پیر زادگان خواجہ عبد اللہ و خواجہ عبید اللہ کی طرف صادر فرمایا۔

عقیدہ نمبر1:

تشریح:

عوام کے عقائد کے متعلق جو مکتوبات شریف ہیں، ان میں بھی یہ چیزیں گزر چکی ہیں، لیکن اس میں ذرا زیادہ تفصیل کے ساتھ یہ چیزیں آ رہی ہیں۔

متن:

جاننا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات مقدس کے ساتھ خود موجود ہے، اور تمام اشیاء اس تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں۔

تشریح:

چونکہ اللہ جل شانہ کی ذات کسی بھی چیز کی محتاج نہیں ہے، اس لئے اللہ جل شانہ کی موجودگی خود اپنی ذات سے ہے، کوئی اور اس کے لئے ذریعہ بن ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ پھر محتاجی کی بات آ جائے گی اور اللہ تعالیٰ محتاج نہیں ہے، مثلاً ہم کسی بھی چیز کو لے لیں وہ محتاج ہو گی جیسے پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن کا محتاج ہے کیونکہ ہائیڈروجن آکسیجن مل کے پانی بنتا ہے۔ اسی طرح عمارت اینٹوں، ریت، سیمنٹ اور کئی چیزوں کی محتاج ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ کی ذات کسی چیز کی بھی محتاج نہیں ہے اور چونکہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں۔ لہٰذا مخلوق اپنے خالق کی ذات کے بارے میں کچھ بھی نہیں جان سکتی البتہ صفات کے بارے میں جان سکتی ہے۔ کیونکہ صفات کا اثر مخلوق تک پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے حکم ہوا ہے کہ صرف صفات میں غور کرو، مخلوقات میں غور کرو، اللہ کی ذات پہ غور نہ کرو۔ کیونکہ اللہ پاک کی ذات کو آپ لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے، سمجھنا نا ممکن ہے۔ تو نا ممکن چیز کے اندر غور کرنا اپنے آپ کو بیمار کرنے والی بات ہے یا ملحد کرنے والی بات ہے۔ اس لئے انسان خواہ مخواہ کیوں اپنے آپ کو خراب کرے۔

متن:

اور تمام اشیاء اس تعالیٰ کی ایجاد سے موجود ہیں۔ اور حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں یگانہ ہے۔

تشریح:

یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی صفات اس طرح نہیں ہیں جس طرح اللہ کی صفات ہیں یعنی جیسے اللہ کا دیکھنا ہے، اللہ کا سننا ہے، اللہ کا علم ہے، کسی اور کی یہ صفات اس طرح نہیں ہو سکتیں۔ تو اللہ جل شانہ ان میں ہر قسم کے شرک سے پاک ہیں یعنی کوئی بھی دوسرا ان میں اللہ کے ساتھ برابری نہیں کر سکتا نہ ذات میں، نہ صفات میں اور نہ افعال میں۔

متن:

اور فی الحقیقت کسی امر میں بھی خواہ وجودی ہو یا غیر وجودی، کوئی بھی اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔

تشریح:

وجودی اور غیر وجودی کی تفصیل آگے وحدت الوجود کی بحث آ رہی ہے۔ جس میں یہ ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ متحد نہیں ہے یہاں اسی طرف اشارہ ہے کہ چاہے وجودی چیز ہو یا غیر وجودی، کسی بھی چیز میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔

متن:

(اس کی جناب میں) مشارکت اسمی اور مناسبت لفظی بحث سے خارج ہے۔

تشریح:

یعنی اللہ جل شانہ کے نام کی طرح بھی کوئی نہیں ہو سکتا ہے یعنی نہ حقیقت کے لحاظ سے کوئی شریک ہے اور نہ ہی لفظ کے لحاظ سے۔ یعنی یہ ساری چیزیں شرک سے پاک ہیں۔

متن:

اللہ سبحانہ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بے چون اور بے چگونہ ہیں۔

تشریح:

اللہ جل شانہ کی جتنی بھی صفات ہیں مثلاً اللہ پاک کریم ہے، اللہ پاک رحیم ہے، لیکن کتنا کریم ہے؟ کتنا رحیم ہے؟ اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے؟ کیونکہ غیر متناہی چیز کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی بھی کوئی تفصیل معلوم نہیں کر سکتا اس لئے وہ بے چون و بے چگونہ ہیں کیونکہ اس کی طرح کوئی اور ہے ہی نہیں، نہ کوئی ایسی مثال ہے۔ لیکن ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ پاک رحیم ہے اور انسان بھی رحیم ہو سکتا ہے۔ اللہ پاک کریم ہے انسان بھی کریم ہو سکتا ہے۔ لیکن اللہ پاک کے کریم ہونے اور انسان کے کریم ہونے میں بہت فرق ہے، کیونکہ انسان محتاج ہے اور کریم ہے اور اللہ تعالیٰ محتاج نہیں ہے، اللہ پاک کے پاس جو کچھ ہے اس میں کمی نہیں ہو سکتی۔ جیسے آپ بڑے سے بڑے سخی کو لے لیں، اور اس سے مانگیں کہ یہ دے دو، وہ دے دے گا، پھر مانگو گے، دے دے گا، پھر مانگو گے، دے دے گا۔ بالآخر کسی وقت کہہ دے گا کہ بس، اس سے زیادہ نہیں۔ ایسے نہیں ہو سکتا ہے کہ آدمی کہہ دے کہ ٹھیک ہے جتنا مانگو میں دوں گا کیونکہ وہ تو محتاج ہے اور محدود ہے۔ لیکن اللہ جل شانہ سے جتنا چاہے مانگو پابندی نہیں ہے، بلکہ وہ نہ مانگنے پہ ناراض ہوتے ہیں، البتہ دیتے اپنی حکمت سے ہیں۔ یعنی "نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ" جیسے انسان اس بات سے متاثر ہوتا ہے کہ لوگ کیا کہیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ اس سے متاثر نہیں ہوں گے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ اللہ پاک اپنی حکمت کے مطابق جو بھی کرنا چاہیں کر دیتے ہیں۔ ﴿اِنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيِىٓ اَنْ يَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَا (البقرة: 26) "بے شک اللہ نہیں شرماتا اس بات سے کہ کوئی مثال بیان کرے مچھر کی یا اس چیز کی جو اس سے بڑھ کر ہے" یعنی اللہ پاک کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے، کیونکہ اللہ پاک محتاج نہیں ہیں۔ لہذا اللہ جل شانہ کے ساتھ ہمارا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ اس لئے فرمایا کہ اللہ پاک کی صفات اور اللہ کے افعال بے چون و بے چگونہ ہیں۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ ایک تو وہ صفات ہیں جو اس کی ذات کا حصہ ہیں جیسے اللہ پاک کیسے دیکھتے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے صفت نہیں ہے، تو اس کے بارے تو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ اللہ پاک کی ذات میں غور کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ جب آپ کہتے ہیں اللہ پاک کیسے دیکھتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ہاں اللہ پاک دیکھتے ہیں، یہ صفت ہے۔ کیسے دیکھتے ہیں؟ یہ ذات کے بارے میں ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی صفات معلوم ہیں، اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے سے انسان اللہ کی معرفت بھی حاصل کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام: 103) "اسے آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں اور وہ آنکھوں کو دیکھ سکتا ہے" البتہ صفات کے بارے میں آدمی ادراک کر سکتا ہے اس لئے صفات کے بارے میں غور کرنے کا حکم ہے۔ البتہ اس میں ایک عجیب لطیف نکتہ ہے کہ معرفت صفات کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے لیکن جس کا محبت کا معاملہ ہے یعنی صفت میں جو فنائیت ہے وہ محدود ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنائیت غیر محدود ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے اس کی ذات میں فنا ہونا فنائے کاملہ ہے اور اللہ تعالیٰ کی کسی صفت میں فنا ہونا فنائے ناقصہ ہے کیونکہ وہ واپس آ سکتا ہے۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں مثلاً اللہ تعالیٰ کی صفت ہے رزاق یعنی رزق دینے والا۔ اب کسی کو بہت رزق مل رہا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی اس صفتِ رزاق میں فنا ہو گیا کہ اللہ پاک ایسا رزاق ہے چنانچہ وہ ہر وقت اس کے گن گاتا ہے، گویا اس کو اللہ کے ساتھ محبت ہو گئی رزاقیت کی وجہ سے۔ اب اگر اللہ تعالیٰ حکمت کی وجہ سے کبھی رزق کھینچ لے تو وہ پہلے والی حالت میں پہ چلا جائے گا اور محبت کی ساری باتیں کرکری ہو جائیں گی۔ تو یہ شخص کامل نہیں ہے۔ میں صرف سمجھانے کے لئے ایک مثال عرض کرتا ہوں ورنہ اس کا اور کوئی مقصود نہیں ہے۔ جیسے ایک شخص کسی پیر سے بیعت ہوتا ہے لیکن اس کے ذہن میں اپنا کوئی خاص دنیاوی مقصد ہے جس کے لئے وہ بیعت ہوتا ہے۔ اب جب تک اس کا وہ مقصد حاصل ہوتا ہے تو پیر اچھا ہے اور جب وہ مقصد حاصل نہیں ہوتا تو ساری بات آگے پیچھے ہو جائے گی۔ اور اس کو اس پیر سے اصل فائدہ حاصل نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ اصلاح کے لئے بیعت ہی نہیں ہوا جو پیر سے بیعت ہونے کا اصل مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ بعض مشائخ امتحان بھی لے لیتے ہیں کہ یہ واقعی مجھ سے بیعت ہے یا نہیں ہے، اور ان کو حق بھی ہے۔

کہتے ہیں ایک دفعہ کسی پیر صاحب کے پاس بہت زیادہ بھیڑ ہو گئی، بہت زیادہ لوگ آ گئے تو وہ کہنے لگے کہ میں اتنے لوگوں کی تربیت نہیں کر سکتا، میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے، میں صرف مخصوص لوگوں کی تربیت کروں گا جس کے لئے شرط یہ ہے جو میری بات پہ عمل کرنے سے پہلے نہ سوچے وہ میرا مرید ہو گا اور جو سوچے گا وہ میرا مرید نہیں ہو گا۔ بڑی کڑی شرط لگائی۔ لوگوں نے کہا ٹھیک ہے۔ تو انہوں نے کہا کون ہے جو میرے لئے جان دے سکتا ہے؟ ایک آدمی کھڑا ہو گیا اس کو کہا اوپر جاؤ، اس کو بالا خانے پہ بھیج دیا، تھوڑی دیر کے بعد پرنالے وغیرہ کے پائپ سے خون آنے لگا، پھر پوچھا کوئی اور شخص ہے؟ تو ایک اور اٹھا اور وہ بھی اوپر چلا گیا، تھوڑی دیر کے بعد پھر کچھ خون آ گیا۔ تیسری دفعہ کہا کہ جی کوئی اور ہے؟ تو ایک تیسرا آدمی اٹھا، لیکن وہ راستے ہی میں چیخ مار کر گر گیا اور بے ہوش ہو گیا جس کے بعد پھر کوئی اور نہیں اٹھا۔ تو حضرت نے فرمایا کہ نیچے آ جاؤ۔ تو جو اوپر گئے تھے وہ نیچے آ گئے اور ان کے پاس بکروں کے سر تھے یعنی بکرے ذبح ہوئے تھے وہ خون ان بکروں کا آ رہا تھا۔ حضرت نے فرمایا دیکھو کہ یہ میرے ڈھائی مرید ہیں 2 کامل ہیں اور ایک آدھا ہے کہ کم از کم اٹھا تو تھا۔ بس میرے ذمے ان کی اصلاح ہے، باقی رخصت ہو جاؤ۔ یوں سب کو رخصت کر دیا۔

میں آپ کو اس کا مقصد بتاتا ہوں، اسلام کا کیا معنی ہے؟ اسلام کا معنی ہے غیر مشروط طور پر اللہ پاک کے سامنے سلامی ہو جانا، اس میں کوئی شرط نہیں لگانی کہ میرا یہ کام ہو گا تو میں مسلمان ہوں گا۔ کوئی شرط نہیں، بس جو بھی ہو میں مسلمان ہوں۔ یہ صحیح معنوں میں اعتقادی اسلام ہے اور جب انسان کیفیتاً حالاً، قالاً ہر طرح سرِ تسلیم خم کرے تو وہ حقیقی مسلمان ہو جاتا ہے۔ یعنی جسے ہم مقامِ تسلیم کہتے ہیں جب وہ کسی کو حاصل ہو جائے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوراء ہے اس کا ادراک کسی کو نہیں ہو سکتا لہذا اللہ جل شانہ کے سامنے سلامی ہونے کے دو مراحل اور ہیں ایک تو آپ ﷺ کے سامنے سلامی ہونا کہ آپ ﷺ کی سنت پر بغیر تامل کے عمل کرنا اور دوسرا یہ ہے کہ سنت پہ چلنے کے لئے شیخ کی بات ماننا۔ لہذا آدمی شروع شیخ سے کرتا ہے۔ تو جب تک سلامی ہونے کی وہ کیفیت نہیں ہو گی اس وقت تک وہ آگے کیسے جائے گا؟ خیر یہ بات کافی لمبی ہو گئی۔ تو بات چل رہی تھی کہ اللہ جل شانہ اپنی صفات میں یگانہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے افعال اور اس کی ذات بے چون و بے چگونہ ہے، اس کی کوئی مثال نہیں دی جا سکتی کیونکہ اللہ جل شانہ کی ذات وراء الوراء ہے لہذا اللہ پاک کی صفات اور اس کے افعال بھی بے چون و بے چگونہ ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ذات کا پتا ہی نہیں چل سکتا۔ صفات کا پتا چل سکتا ہے لیکن تفصیلات کا علم نہیں ہے اور ہم لوگوں کو ان کا مکمل احاطہ نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ بے چون و بے چگونہ ہیں۔ البتہ اس کے ذریعے سے معرفت حاصل ہو سکتی ہے۔

متن:

اور ممکنات کی صفات اور افعال کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتے۔

تشریح:

یعنی اللہ کے رحیم ہونے اور انسان کے رحیم ہونے میں کوئی مناسبت نہیں ہے۔

متن:

مثلاً صفت العلم اس سُبْحَانَہٗ کی ایک صفت قدیم اور بسیط حقیقی ہے جس میں "تعدد اور تکثر" کو ہرگز دخل نہیں ہے، اگرچہ وہ تکثر تعدد تعلقات کے اعتبار سے ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ وہاں ایک ہی بسیط انکشاف ہے کہ ازل و ابد کی معلومات اسی انکشاف سے منکشف ہوتی ہیں۔

تشریح:

یہ بہت ہی زبردست بحث ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کسی کو ذکر سکھا رہے تھے تو فرمایا کہ جب "اللہُ اللہ" کا ذکر کرو تو اس کے ساتھ یہ تصور کرو کہ عرش سے ایک نور آپ کے اوپر آ رہا ہے پھر مثال دی کہ اس وقت تم یہ سمجھتے ہو ناں کہ میں پشاور میں ہوں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ پھر فرمایا: یہ سمجھتے ہو ناں کہ میں فلاں کا بیٹا ہوں؟ اس نے کہا: جی بالکل۔ فرمایا: یہ سمجھتے ہو کہ میں فلاں خاندان سے ہوں؟ اس نے کہا: جی بالکل۔ فرمایا: یہ سمجھتے ہو کہ پٹھان ہوں؟ اس نے کہا: جی بالکل۔ پھر فرمایا یہ ساری باتیں ایک ہی وقت میں سمجھتے ہو ناں؟ یہ تو نہیں کہ 5 بج کر 10 منٹ پٹھان ہونے کو سمجھتے ہو، اور 5 بج کر 11 منٹ پر میں پشاور میں ہونے کو اور 5 بج کر 12 منٹ پر میں فلاں کا بیٹا ہونے کو سمجھتے ہو۔ کیا یہ ہو سکتا ہے؟ چنانچہ آنِ واحد میں ہی یہ ساری چیزیں سمجھ رہے ہو۔ یہ تو ایک انسان کی بات ہے جو ایک ہی وقت میں ان تمام چیزوں کو جانتا ہے چاہے ان کا ظہور مختلف اوقات میں ہو، مثلاً اس کا پشاور میں ہونا وغیرہ ان ساری چیزوں کا علیحدہ علیحدہ ظہور ہے۔ لیکن ایک ہی وقت میں وہ جانتا تو ہے مثلاًً میں کیمسٹری کا ماہر ہوں اب کیمسٹری کا جتنا بھی علم مجھے مستحضر ہے، تو عین ممکن ہے کہ میں ایک چیز ایک وقت میں لکھوں، دوسری چیز دوسرے وقت میں لکھوں، تیسری تیسرے وقت میں لکھوں اور کبھی general messages پیش کر دوں، کبھی کتاب میں لکھوں، لیکن وہ ایک وقت میں مستحضر اور موجود تو ہے۔ اسی طرح اللہ جل شانہ کے ہاں حال، مستقبل اور ماضی ہے ہی نہیں، وہ زمان و مکان میں مقید نہیں ہے، زمان و مکان کو اسی نے بنایا ہے۔ لہٰذا ماضی حال مستقبل سب اس کے لئے ایک ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جا بجا مستقبل میں آنے والی چیزیں کو ”كَانَ“ کے ساتھ بیان فرمایا گیا ہے حالانکہ ”كَانَ“ ماضی کے لئے ہوتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ کے لئے ماضی، حال اور مستقبل ایک جیسے ہیں۔ اس کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی چیز بعد میں ہونے والی ہے۔ کیونکہ وہ پہلے سے اللہ کے علم میں ہے۔ اور فعل کا وقوع بھی بالکل اس کے علم کی طرح ہے یعنی جس طرح علم کا ذریعہ آن واحد میں ایک ہے اسی طرح فعل کا ذریعہ بھی آن واحد میں ایک ہے۔ البتہ جیسے علم کا ظہور مختلف اوقات میں ہوتا ہے اسی طرح افعال کا ظہور بھی مختلف اوقات میں ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ بحث اللہ جل شانہ کی صفتِ علم کے بارے میں ہے جس میں بڑی تفصیل ہے لیکن میرے خیال میں اصل بات سمجھ میں آ گئی ہو گی۔

متن:

اس تحقیق سے واضح ہو گیا کہ حق تعالیٰ کا علم اگرچہ تغیر پانے والی جزئیات سے متعلق ہو لیکن اس کے علم میں تغیر کا شائبہ بھی راہ نہیں پاتا اور حدوث کا گمان اس کی صفت میں پیدا نہیں ہوتا۔

تشریح:

یعنی اس کی صفت میں کوئی حدوث نہیں ہے البتہ اس کے ظہور میں جو مختلف واقعات ہو رہے ہیں ان میں حدوث ہے۔ یعنی کبھی ایک چیز ظاہر ہو رہی ہے، کبھی دوسری چیز ظاہر ہو رہی ہے اور کبھی تیسری چیز ظاہر ہو رہی ہے لیکن اس کی صفت میں کوئی حدوث نہیں ہے وہ اپنی جگہ پر ایک مستقل چیز ہے۔

متن:

جیسا کہ فلاسفہ نے زعم (غلط دعوی) کیا ہے، کیونکہ تغیر اسی تقدیر پر متصور ہو سکتا ہے جبکہ ایک کو دوسرے کے بعد جانا ہو، اور جب سب کو آنِ واحد میں جان لے تو پھر تغیر و حدوث کی گنجائش نہیں ہے۔ پس اس کی کوئی حاجت نہیں ہے جب ہم اللہ تعالی کے مطابق تعلقات کا اثبات کر لیں تاکہ تغیر و حدوث ان تعلقات کے ساتھ راجع ہو، نہ کہ صفت علم کی طرف۔

تشریح:

یعنی حدوث تعلقات کے ساتھ تو سکتا ہے لیکن علم کے ساتھ نہیں۔

متن:

جیسا کہ بعض متکلمین نے فلاسفہ کے شبہ کو دور کرنے کے لئے کیا ہے۔ ہاں اگر معلومات کی جانب تعدد تعلقات کا اثبات کریں تو اس کی گنجائش ہے۔ اور اسی طرح ایک کلام بسیط ہے

تشریح:

یہ کلام کے لحاظ سے بھی بات ہو گئی۔

متن:

جو ازل سے ابد تک اسی ایک کلام کے ساتھ گویا (ناطق) ہے۔ اگر "امر" ہے تو وہ بھی وہیں سے پیدا ہوا ہے اور اگر "نہی" ہے تو وہ بھی وہیں سے ہے اور اگر اعلام (خبر) ہے تو بھی وہیں سے ماخوذ ہے اگر استفہام ہے تو وہ بھی وہیں سے، اگر تمنی یا ترجی ہے (آرزو کرنا۔ امید رکھنا) تو وہ بھی وہیں سے مستفاد ہے، تمام نازل شدہ کتابیں اور بھیجے ہوئے صحیفے اس "کلام بسیط" کا ایک ورق ہیں، اگر "توریت" بھی "انجیل" بھی (اور قرآن بھی) اور اسی طرح ایک ہی فعل ہے اور اسی ایک فعل کے ذریعے اولین و آخرین کی مصنوعات وجود میں آ رہی ہیں (جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے) ﴿وَ مَآ اَمْرُنَـآ اِلَّا وَاحِدَةٌ كَلَمْـحٍ بِالْبَصَرِ (القمر:50) "اور ہمارا حکم بس ایسا یکبارگی ہو جائے گا جیسے آنکھ جھپکانا"۔ اس آیت کریمہ میں (اس حقیقت مذکورہ کی طرف) اشارہ ہے کہ اگر زندہ کرنا یا مارنا ہے تو وہ اسی ایک فعل سے مربوط ہے۔ اور اگر ایلام (تکلیف) ہے یا انعام ہے تو وہ بھی ایک فعل سے (منوط) ملا ہوا ہے، اگر ایجاد (بنانا ) ہے یا اعدام (مٹا دینا) ہے تو وہ بھی اسی فعل سے پیدا ہوا ہے، لہذا حق سُبحانہ و تعالیٰ کے فعل میں بھی تعدد تعلقات ثابت نہیں ہے بلکہ ایک ہی تعلق سے مخلوقات اولین و آخرین اپنے وجود کے اوقات مخصوصہ میں وجود پذیر ہو رہی ہیں اور یہ تعلق بھی حق تعالیٰ کے فعل کی مانند بے چون و بے چگونہ ہے کیونکہ چون کو بے چون کے ساتھ کوئی راہ نہیں ہے۔

تشریح:

یعنی اگر آپ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کے ذریعے سے اس کو سمجھ گئے ہیں جیسے پہلے علم کا میں نے بتایا تھا تو باقی اس کے اوپر آپ قیاس کر سکتے ہیں۔ سب اللہ پاک ہی کی صفات ہیں تو اگر ایک کے بارے میں آپ کو پتا چل گیا کہ وہ ایک وقت میں موجود ہیں اور بعد میں اس سے ساری چیزیں اپنے اپنے وقت پر ظہور میں آ رہی ہیں تو اسی طرح سے فعل بھی ہے۔ مثال کے طور پر میں کوئی مکان بنا رہا ہوں تو اس میں میں نے ارادہ کیا کہ میں یہ کروں گا، یہ کروں گا، یہ کروں گا، تو یہ علم ہے اور اس کی جو استعداد ہے وہ بھی موجود ہے، تو ساری چیزیں اکٹھی موجود ہیں اب صرف یہ ہے کہ جیسے وہ علم وقتاً فوقتاً وجود میں آ سکتا ہے اسی طرح وہ عمل بھی وقتاً فوقتاً وجود میں آ سکتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ چونکہ تمام چیزوں سے بے نیاز ہے، اس کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کیوں کہا جاتا ہے؟ کیوں کہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر بہت سارے سوالات پیدا ہوتے ہیں اور ان سوالات کا جواب دینا ممکن نہیں رہتا۔ کیونکہ مثلاً اگر آپ کہیں کہ بعد میں جب فعل وجود میں آیا تو تب اللہ کو علم ہوا۔ تو اس سے یہ ثابت ہوا اللہ کو پہلے اس کا علم نہیں تھا۔ چنانچہ کلامی موضوعات میں ایسے ہی ہوتا ہے کہ اس میں اگر آپ ایک طرف سے تھوڑی سی غفلت کریں تو بہت سارے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

اب آگے آپس میں علمی یعنی کلامی بحث شروع ہو گئی ہے۔

متن:

اشعری چونکہ حق جل سلطانہ کے فعل کی حقیقت سے واقف نہ تھے اس لئے تکوین کو حادث کہہ دیا۔

تشریح:

جیسے ابھی تک میں نے جتنی بھی بات کی وہ تکوین پہ کی ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ کی صفتِ تکوین کو حادث کہہ دیا، کیونکہ تکوین بذاتِ خود تو حادث ہے یعنی کائنات کا بننا حادث ہے۔ کیونکہ قرآن پاک خود بتاتا ہے کہ 6 دنوں میں یہ کائنات بنائی ہے۔ لہذا اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ صفتِ تکوین حادث نہیں ہے بلکہ وہ باقی صفات کی طرح قدیم ہے۔

متن:

اور اس سبحانہ کے افعال کو بھی حادث جان لیا

تشریح:

یعنی چونکہ افعال تکوین سے آتے ہیں تو افعال کو بھی حادث جان لیا۔

متن:

اور انہوں نے یہ نہیں جانا کہ یہ سب حق سبحانہ کے فعلِ ازلی کے آثار ہیں نہ کہ اس تعالیٰ کے افعال۔

تشریح:

یعنی یہ اللہ کے افعال نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فعل کے اثرات ہیں، اور اثر ظل ہے کیونکہ وہ اس سے وجود میں آتا ہے۔

متن:

اور اسی قبیل سے یہ ہے کہ بعض صوفیا جنہوں نے تجلئ افعال کا اثبات کیا ہے اور اس مقام میں ممکنات کے افعال کے آئینے میں (یعنی ممکنات میں جو افعال ہو رہے ہیں ان کے ذریعے سے یعنی ان کی روشنی میں سمجھ کر ) سوائے فعل واحد جَلَّ سُلْطَانُہٗ کے کچھ نہیں دیکھا، وہ تجلی حقیقت میں حق سُبْحَانَہٗ کے فعل کے آثار کی ایک تجلی ہے نہ کہ اس تعالیٰ کے فعل کی تجلی، کیونکہ اس تعالیٰ کے فعل کو جو بے چون و بے چگونہ ہے اور قدیم ہے اور اس تعالیٰ کی ذات کے ساتھ قائم ہے جس کو "تکوین" کہتے ہیں، محدثات کے آئینے میں اس کی گنجائش نہیں اور ممکنات کے مظا ہر میں اس کا کوئی ظہور نہیں۔

تشریح:

اس سے پتا چلا کہ جیسے پہلے حضرت نے جو بات ارشاد فرمائی تھی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور افعال اس کی ذات کی طرح بے چون و بے چگونہ ہیں، تو چونکہ اس میں باقی صفات کے مقابلے میں تکوین ہی زیادہ تر زیرِ بحث آتی ہے کیونکہ اس کا تعلق نزول کے ساتھ ہے لہذا اگر تکوین کی یہ حالت ہے کہ وہ بھی بے چون و بے چگونہ ہے تو پھر باقی صفات کے متعلق آپ کیا کہیں گے؟

متن:

اس فقیر کے نزدیک افعال و صفات کی تجلی ذات تعالیٰ و تقدس کی تجلی کے بغیر متصور نہیں ہے۔

تشریح:

یہ بہت بڑا علم ہے جو میں ابھی عرض کر رہا ہوں اس کو سمجھنا چاہیے۔ در اصل اللہ تعالیٰ کی صفات کے ذریعے سے ہم اللہ پاک کی معرفت حاصل کر سکتے ہیں، لیکن ان صفات کا جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے وہ اس کی ذات ہے اس کو ہم صفات نہیں کہیں گے۔ مثلاً اللہ کیسے دیکھتا ہے؟ یہ ذات کی بات ہے صفت کی بات نہیں ہے۔ ہمیں دیکھ رہا ہے بس یہ صفت ہے۔ یعنی وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں اس کا ہمیں پتا ہے۔ لیکن کیسے دیکھتے ہیں؟ یہ اس کی ذات کی بات ہے۔ لہذا جو ذات کے ساتھ ہے اس کا ادراک نہیں ہو سکتا وہ بے چون و بے چگونہ ہے۔ تو افعال کی تجلی کے متعلق یہ فرمایا کہ یہ بے چون و بے چگونہ ہے، کوئی اس کا ادراک نہیں کر سکتا اور اس میں تجلی ذات ہے اس کے ساتھ تجلی صفت متصل ہے۔ اس لئے فرمایا:

متن:

اس فقیر کے نزدیک افعال و صفات کی تجلی ذات تعالی و تقدس کی تجلی کے بغیر متصور نہیں ہے۔

تشریح:

یعنی آپ اس کو ذات سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔

متن:

کیونکہ افعال و صفات، حضرت ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا نہیں ہیں تاکہ ان کی تجلی ذات کی تجلی کے بغیر متصور ہو سکے اور جو کچھ ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا ہے وہ اس سبحانہ کی صفات و افعال کے ظلال ہیں۔

تشریح:

یعنی خود وہ نہیں ہیں۔ افعال کی تجلی تو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے لیکن اس سے جو اثر پیدا ہوا ہے وہ آثار کی بات ہے، یعنی next میں اس سے جو چیز ظہور میں آ رہی ہے گویا جس کا ہمارے ساتھ تعلق ہے اور جس کا ہم ادراک کر سکتے ہیں وہ ظلال ہے اور جس کا ہم ادراک نہیں کر سکتے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے۔ اس حوالے سے یہ کافی اہم نکتہ ہے ورنہ ساری بات سمجھ میں نہیں آ سکتی۔ یہ میں نے اس لئے عرض کیا ہے کہ میجر حسین صاحب نے اس پہ سوال پوچھا تھا تو ان کو میں نے کچھ جواب دیا تھا۔ وہ اصل میں اسی بحث کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ تو یہاں بھی وہ چیز آ گئی۔

متن:

اور جو کچھ ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا ہے وہ اس سبحانہ کی صفات و افعال کے ظلال ہیں، لہذا ان کی تجلی افعال و صفات کے ظلال کی تجلی ہوئی نہ کہ افعال و صفات کی تجلی۔ لیکن ہر شخص کی سمجھ اس کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔

تشریح:

یعنی میں نے کچھ سوچا کہ کچھ بولوں، وہ جو سوچا ہے اس کو کوئی دیکھ سکتا ہے؟ تو جو بولا ہے اس کو لوگ سنتے ہیں۔ تو جو سوچا ہے وہ کیا ہے اور جو بولا ہے وہ کیا چیز ہے؟ جو سوچا ہے اس کا تعلق ذات کے ساتھ ہے اور جو بولا ہے وہ اس کا ظہور ہے۔ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اس کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا اور اس کے بعد جو اس کا ظہور ہوا ہے وہ ظلال ہے، چنانچہ اس کا ادراک ہو سکتا ہے بہر حال کوئی اللہ تعالیٰ کا ادراک نہیں کر سکتا، بس یہی بنیادی بات ہے کیونکہ domain ہی مختلف ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی خارج میں موجود ہے، باقی چیزیں اللہ تعالیٰ کے ارادے کے ساتھ استقرار پا چکی ہیں، اور وہ اصل میں موجود ہی نہیں ہیں، بلکہ اصل میں معدوم ہیں، لیکن اس کو موجود کر دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ اصل میں موجود ہے۔ یہی واجب الوجود اور ممکنات میں فرق ہے کہ ممکن واجب الوجود کے ارادے سے ہوا ہے اور اس نے استقرار پایا ہے تو دونوں ایک جیسے کہاں ہو سکتے ہیں، ایک ہونا نا ممکن ہے۔

متن:

اور جو کچھ ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا ہے وہ اس سبحانہ کی صفات و افعال کے ظلال ہیں۔ ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (الجمعہ:4) "یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے"۔

عقیدہ (2): اب ہم اصل بات کی طرف رجوع ہوتے ہیں: کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی چیز اس میں حلول کر سکتی ہے لیکن وہ تعالیٰ "محیطِ اشیاء" ہے (یعنی تمام اشیا کو اپنے احاطہ میں لئے ہوئے ہے) اور ان کے ساتھ قرب و معیت رکھتا ہے، اور وہ احاطہ قرب و معیت ایسا نہیں ہے جو ہماری فہمِ قاصر میں آ سکے کیونکہ یہ (بات) اس تعالیٰ کی جناب قدس کے شایان شان نہیں ہے۔ اور (صوفیا) جو کچھ کشف و شہود سے معلوم کرتے ہیں وہ تعالیٰ اس سے بھی منزہ ہے۔ کیونکہ ممکن (بشر وغیرہ) کو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال کی حقیقت سے سوائے جہل و نادانی اور حیرت کے کچھ نصیب نہیں ہے۔ غیب پر ایمان لانا چاہیے اور جو کچھ مکشوف و مشہود ہوا اس کو لا کی نفی کے تحت لانا چاہیے۔

عنقا شکار کس نشود دام باز چیں

کایں جا ہمیشہ باد بدست است دام را

(اٹھا لے جال، شکار عنقا محال

بس یہاں جال کا یہی ہے مآل)

تشریح:

یعنی اس کو آپ پا ہی نہیں سکتے۔ حضرت کا ایک مکتوب شریف ہے جس میں حضرت نے ایک خواب کی تعبیر دی ہے جس میں تُرک قصاب کا تذکرہ آتا ہے ۔ وہ بڑا زبردست واقعہ ہے۔ اس میں حضرت آخر میں فرماتے ہیں کہ وہ جب پہاڑ کے اوپر پہنچے تو دیکھا کہ خیمے میں بادشاہ نہیں تھا تو فرمایا ہاں ایسا ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا، اس کا وصال ایسا نہیں ہے۔ یہاں بھی یہی بات ہے کہ ہم جس کو متصل سمجھتے ہیں اور جس کو معیت سمجھتے ہیں، جو الفاظ ہمارے domain کے لئے بنے ہوئے ہیں وہ اللہ کے domain کے لئے استعمال ہی نہیں ہو سکتے، اللہ جل شانہ کے لئے ان الفاظ کا استعمال جائز ہی نہیں ہے۔ البتہ عربی کا لفظ "ک" بہت کام کی چیز ہے جیسے "کَانَّکَ تَرَاہ" یعنی دیکھ تو نہیں سکتا لیکن "کَانَّکَ" ایسے ہے جیسے تو دیکھ رہا ہے۔ یعنی آپ کے اوپر اس کا ایسا اثر ہو جیسے آپ دیکھ رہے ہو۔ لیکن یہ اثر کیسے ہو گا؟ اثر کرنے کے لئے ایک ہے اثر کو بڑھانے والی چیز اور دوسری وہ چیز ہے جو اثر کے بڑھنے میں مزاحمت کرنے والی ہے تو اثر کو بڑھانے والی چیز کو بڑھاؤ اور اثر کو کم کرنے والی چیز کو کم کرو۔ جمع کو جمع سے ضرب دو اور منفی کو منفی سے ضرب دو، تو دونوں جمع ہو جائیں گی۔ اس میں ایمان بالغیب کی بات ہے یعنی اس ایمان کی قوت کو بڑھا دو، کیونکہ ایمان تو نہیں بڑھتا ایمان "لَا یَزِیدُ وَلَا یَنْقُصُ" ہے۔ لیکن ایمان کی قوت بڑھ سکتی ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بحث ہے، ایک مثال نے اس کو بہت آسان کر دیا ہے کہ جیسے ایک شخص مر رہا ہے تو اگر کوئی پوچھے کہ یہ زندہ ہے یا مردہ ہے؟ وہ کیا کہے گا؟ جب تک اس کی روح نہیں نکلی تو وہ یہی کہے گا کہ ابھی زندہ ہے اور ایک پہلوان ہے جو ہاتھ سے پتا نہیں کیا کیا چیزیں اٹھاتا ہے اور بھی بڑے بڑے کار نامے انجام دیتا ہے، اگر اس کے بارے میں کوئی پوچھے کہ زندہ ہے یا مردہ ہے؟ تو کیا جواب ہو گا؟ یہی ہو گا کہ زندہ ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہیں؟ حالانکہ دونوں زندہ ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے، زندہ ہونے کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے ہیں، لیکن قوت کے لحاظ سے دونوں ایک جیسے نہیں ہیں۔ اس لئے ایمان کی تعریف میں کوئی فرق نہیں ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان اور ایک عام گناہ گار آدمی کا ایمان ایک جیسا ہے، لیکن قوت دونوں کی ایک جیسی نہیں ہے۔ جو ایمان بالغیب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا، اس کی جو قوت تھی، کیا کسی گناہ گار کے ایمان کی طاقت اتنی ہو گی؟ گناہ گار کے ایمان کی طاقت تو اتنی بھی نہیں ہے کہ و ہ اس کو گناہ سے روک سکے۔ نیز ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان اتنا طاقت ور ہے کہ وہ سارا گھر خالی کر دیتے ہیں، جھاڑو پھیر دیتے ہیں اور سب کچھ آپ ﷺ کے پاس لے آتے ہیں، آپ ﷺ ان سے پوچھتے ہیں گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ وہ کہتے ہیں یا رسول اللہ گھر والوں کے لئے اللہ اور اللہ رسول ﷺ کی محبت کافی ہے، میں سب کچھ لے آیا ہوں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو ایک زبردست ولولہ انگیز صحابی تھے، ان دنوں ان کے پاس کچھ مال بھی تھا تو نصف لے آئے، نصف گھر کے لئے چھوڑ دیا تو آپ ﷺ نے ان سے پوچھا گھر والوں کے لئے کچھ چھوڑا ہے؟ فرمایا جی! نصف چھوڑ آیا ہوں۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دن بڑے خوش تھے کہ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جیت جاؤں گا، لیکن وہاں جا کر معاملہ دیکھا تو انہوں نے کہا کہ ان سے جیتنا محال ہے۔ یہ ایمان کی بات ہے۔ گویا جو ایمان بالغیب ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تھا وہ باقی لوگوں کو کہاں حاصل ہے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی جواب دے دیا تھا کہ میں ان کی طرح نہیں ہو سکتا تو باقی لوگوں کی کیا بات ہو گی۔ لہذا جس طرح ہم یہاں ایمان کے بارے میں بات کر رہے ہیں اسی طرح وہ تصور جو ایمان بالغیب کے ذریعے سے آتا ہے اس کو بڑھانا ہے، یعنی ایمان بالغیب تو ہے کہ اللہ موجود ہے اور اللہ ہر جگہ موجود ہے اور میں اللہ کے سامنے ہوں، لیکن کیا یہ تصور مجھ پر اتنا مسلط ہے؟ ایک تو اس کو بڑھانا ہے، اس کو بڑھانے کے لئے آپ مراقبات کریں یا ذکر اذکار کریں، جتنا کر سکتے ہو کرو۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ ہمیں ان مراقبات کے اثرات سے روکنے والی چیز ہمارا نفس یا نفس کی خواہشات ہیں، کیوں کہ اگر میری توجہ کسی اور طرف جا رہی ہے تو اس وجہ سے جا رہی ہے کہ اس چیز کے ساتھ میرا دل لگا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ دل کیوں لگا ہوا ہے؟ کیونکہ نفس نے اس کی خواہش پیدا کی ہے۔ لہذا جب تک آپ اس نفس کی اصلاح نہیں کر لیتے اور اسے مطمئن نہیں بنا لیتے اس وقت تک آپ وہ چیز حاصل نہیں کر سکتے۔ گویا کہ یہ اس میں مسلسل کمی کر رہا ہے۔ لہذا ایک طرف ایمان بالغیب کو بڑھانا ہو گا اور دوسری طرف نفس کی خواہش کے معاملے کو کم کرنا ہو گا۔ چنانچہ جب آپ اس کو کم سے کم کر لیں یا نفسِ مطمئنہ بنا دیں اور آپ کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جائے تو ان دونوں چیزیں کے مجموعے سے آپ کو کیفیتِ احسان حاصل ہو سکتی ہے اور یہی معرفت اور عبدیت ہے، کیونکہ نفسِ مطمئنہ عبدیت ہے اور معرفت اللہ تعالیٰ کی پہچان ہے۔ تو یہ دونوں مل کر کیفیتِ احسان کو پیدا کرتی ہیں۔

متن:

لیکن وہ تعالیٰ "محیط اشیاء" (یعنی تمام اشیاء کو محیط ہے) اور ان سے قریب ہے، اور ان کے ساتھ ہے لیکن اس احاطہ اور قرب و معیت کے معنی (و حقیقت) اس تعالیٰ کے ساتھ کیا ہیں وہ ہم نہیں جانتے۔

تشریح:

یعنی ہم جانتے ہیں کہ اللہ میرے ساتھ ہے لیکن کیسے ہے یہ نہیں جانتے۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ﴿إِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِينِ (الشعراء: 62) اور آپ ﷺ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فرمایا ﴿لا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنا (التوبة: 40) لیکن یہ معیتِ رب کیسے ہے، اس کا کوئی ادراک نہیں کر سکتا۔ لیکن معیت ہے۔ اسی طرح محیط ہونا بھی ایسے ہی ہے۔

متن:

عقیدہ (3) اور حق تعالیٰ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہے اور اسی طرح کوئی چیز بھی اس سبحانہ کے ساتھ متحد نہیں ہو سکتی۔ اور بعض صوفیا کی عبارات سے جو کچھ اتحاد کا مفہوم لیا جاتا ہے وہ ان کی مراد کے خلاف ہے کیونکہ ان کی مراد اس کلام سے جس سے اتحاد کا وہم ہوتا ہے۔ (اور وہ ہے) "اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللہ" سے یہ ہے کہ جب فقر تمام ہو جائے اور نیستی محض (فنائیت) حاصل ہو جائے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا، نہ یہ کہ وہ فقیر خدائے تعالےٰ کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے اور خدا بن جاتا ہے کیونکہ یہ کفر اور زندقہ ہے

تشریح:

یعنی خدا تو کیا بننا وہ جو تھا وہ بھی نہیں رہا، تو خدا کیسے بن گیا، خدا تو بن نہیں سکتا بلکہ وہ جو تھا اس کی بھی اس نے نفی کر لی تو وہ چیز بھی ختم ہو گئی۔ مثلاً میں اپنے آپ کو ایک ذرہ سمجھتا تھا اور ترقی کر کے میں اپنے آپ کو خدا سمجھوں "نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ" تو یہ میں نے اپنا فائدہ کیا یا نقصان؟ یہ تو میں نے کفر کیا۔ لہذا اس کی اجازت نہیں ہے۔ یہاں پر تو خدا کے لئے اپنے آپ کو فنا کرنا ہے، پھر آپ کی نظر اللہ پر ہی پڑے گی، کسی اور پر نہیں پڑے گی، وہ نظر جس کا میں نے ابھی تھوڑی دیر پہلے ذکر کیا تھا کہ جب انسان کو فنائیت حاصل ہو گئی تو نفس کا نام و نشان نہیں رہا، جب نام و نشان نہ رہے تو اس کی نظر اپنے اوپر نہیں پڑے گی، جیسے میں نماز پڑھتا ہوں نماز میں بھی مجھے نفس اپنی طرف کھینچتا ہے لیکن جب میرے نفس کو فنائیت حاصل ہو جائے گی تو اللہ اکبر کے ساتھ میں کہاں پہنچوں گا؟ ظاہر ہے اللہ پاک کے پاس پہنچوں گا۔ کیونکہ رکاوٹ ڈالنے والی چیزیں ختم ہو گئیں، لہذا میں براہِ راست کیفیتاً اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کر سکتا ہوں اس کے قریب ہو سکتا ہوں، لیکن حقیقتاً نہیں، کیونکہ قرب کیفیتاً ہے، معیت کیفیتاً ہے، یہ سب کیفیتاً ہے حقیقتاً نہیں ہے۔ جیسے میں نے کیفیتِ احسان کی بات کی تھی وہ بھی حقیقتاً نہیں ہے کیفیتاً ہے یعنی وہ کیفیتِ احسان ہے۔ چنانچہ جس کو فنائے نفس حاصل ہو گئی تو گویا اس وقت وہ اپنے آپ کو فنا کر چکا ہے جب فنا کر چکا ہے تو اس کی نظر اب اللہ پہ پڑ گئی، جب نظر اللہ پہ پڑ گئی تو وہ اپنے آپ کو بھول گیا اور اللہ جل شانہ ہی کو یاد رکھا، نتیجتاً اس وقت وہ خود چونکہ ہے نہیں اس لئے اس کی زبان سے جو نکلے گا وہ اس کے الفاظ نہیں ہوں گے۔ جب تک وہ ہوش میں نہیں آیا یعنی اس کو بقا والا نیا جامہ نہیں پہنایا گیا اس وقت تک اس کی جو باتیں بھی ہوں گی شطحیات ہوں گی اس کی اپنی باتیں نہیں ہوں گی۔ جیسے خواب میں کوئی بات کرتا ہے تو کیا اس بات کا کوئی اعتبار ہوتا ہے؟ یا نشے میں کوئی بات کرتا ہے تو اس کا کوئی اعتبار ہوتا ہے؟ کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو سکر (نشے) کی حالت میں ہے اس کی باتوں کا اعتبار نہیں ہے، وہ اس کی باتیں نہیں ہیں، لہٰذا اس کے ساتھ ہم حسنِ ظن رکھتے ہیں کہ یہ اس کی باتیں نہیں ہیں، وہ اس وقت مقتدا نہیں بن سکتا کیونکہ اس کی یہ باتیں شریعت کے مطابق نہیں ہیں لیکن بہرحال معذور ہے۔ جیسے جب ہم جرمنی میں تھے تو ٹرین میں ہم سفر کرتے تھے تو دو امریکی سپاہی ٹرین میں تھے، ایک نے شراب پی ہوئی تھی اور دوسرا اس کے ساتھ تھا، جس نے شراب پی تھی وہ غل غَپاڑَہ کر رہا تھا جیسے شرابی کرتے ہیں، دوسرا لوگوں سے اس کے لئے معافی مانگ رہا تھا کہ Sorry he is sick، میں معافی چاہتا ہوں آپ برا نہ منائیں، یہ اس وقت بیمار ہے۔ اور sick اس کو کہتے ہیں جس نے شراب پی ہوتی ہے۔ لہذا sick یعنی سُکر والی حالت میں، وہ اپنے آپ میں تھا ہی نہیں۔ صبح کے وقت ہم جا رہے تھے تو ایک بہت عمدہ لباس پہننے والا شخص یقیناً کسی اچھے خاندان کا ہو گا، وہ اپنے آپ کو نالی میں ڈال رہا تھا اور اس کے ساتھ جو دوسرا آدمی تھا وہ اس کو بچا رہا تھا کہ وہ خود کو نالی میں نہ ڈالے، بس وہ اس نشے میں تھا، اس کو پتا ہی نہیں تھا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ لہذا نشے کی حالت میں کہی ہوئی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔ ہاں اگر وہ خود ہوش میں آ جائیں تو پھر کہتا ہے کہ اوہ! یہ میں نے کیا کر دیا، پھر افسوس کرتا ہے۔

متن:

"تَعَالیٰ اللہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَتَوَھَّمُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا کَبِیرا" "اللہ تعالیٰ سبحانہ ظالموں کے وہم و گمان سے بہت بلند اور بڑا ہے"، اور ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ انا الحق سے یہ مراد نہیں ہے کہ "میں حق ہوں" بلکہ مطلب یہ ہے کہ "میں نہیں ہوں حق سبحانہ موجود ہے"۔

عقیدہ (4): اور تغیر و تبدل کو اس تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی راہ نہیں ہے "فَسُبْحَانَ مَنْ لَّا یَتَغَیَّرُ بِذَاتِہٖ وَلَا بِصِفَاتِہٖ وَ لَا فِیْ اَفْعَالِہٖ بِحُدُوْثِ الْاَکْوَانِ" "پس پاک ہے وہ ذات جو اپنی ذات و صفات اور افعال میں کائنات (موجودات) کے حدوث (حوادث) سے متغیر نہیں ہوتی"، اور جو کچھ صوفیہ وجودیہ نے تنزلاتِ خمسہ کے بارے میں اثبات کیا ہے وہ مرتبہ وجوب میں تغیر و تبدل کی قسم سے نہیں ہے کیونکہ وہ کفر و گمراہی ہے بلکہ ان تنزلات کو حق تعالیٰ کے کمال کے ظہورات کے مراتب میں اعتبار کیا ہے بغیر اس بات کے کہ حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال میں کوئی تغیر و تبدل راہ پائے۔

تشریح:

یعنی "نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ" اللہ پاک خود نیچے نہیں آیا، چھوٹا ظاہر نہیں ہوا، بلکہ اللہ جل شانہ نے اپنی تجلی اس طرح ظاہر کی کہ لوگ اس کو برداشت کر سکیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی تبدیلی ہوئی اللہ تعالیٰ کی ذات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے ابھی تھوڑی دیر پہلے بات ہوئی ہے کہ صفات میں بھی تبدیلی نہیں ہوتی تو ذات میں کیسے تبدیلی ہو گی، ذات تو صفات سے بھی بہت بالا ہے۔ لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ ذات میں تبدیلی ہو رہی ہے تو یہ گمراہی اور کفر ہے۔

متن:

عقیدہ (5): اور حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں غنی مطلق ہے اور کسی امر (کام) میں بھی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور جس طرح وجود میں محتاج نہیں ہے اسی طرح ظہور میں بھی محتاج نہیں ہےـ

تشریح:

ظہور میں بھی محتاج نہیں ہے، ظہور، کیا چیز؟ اصل میں وہ تو انسان کے لحاظ سے ہے اللہ کی بات نہیں ہے۔ در اصل اللہ جل شانہ نے یہ جو کلام فرمایا یہ ہماری سمجھ کے مطابق کیا ہے، تو یہ تجلی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے حال کے مطابق کلام فرمایا کہ ہم اس کو سمجھ سکیں۔ کیونکہ اللہ جل شانہ اگر اپنی شان کے مطابق بات کرتے تو کوئی بھی نہ سمجھ سکتا۔ جیسے عربی مبین ہے، اب اللہ کو تو عربی کی ضرورت نہیں تھی، ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ اسی طرح یہ بات کہ یہ بڑا موزوں کلام ہے، اللہ کو اس کی ضرورت نہیں تھی، ہمیں ضرورت ہے۔

متن:

اور حق تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور افعال میں غنی مطلق ہے اور کسی امر (کام) میں بھی کسی چیز کا محتاج نہیں ہے اور جس طرح وجود میں محتاج نہیں ہے اسی طرح ظہور میں بھی محتاج نہیں ہےـ اور یہ جو بعض صوفیہ کی عبارات سے مفہوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے اسمائی و صفاتی کمالات کے ظہور میں ہمارا محتاج ہے۔ یہ بات فقیر پر بہت گراں ہے بلکہ جانتا ہے کہ ان (مخلوق) کی پیدائش سے مقصود خود ان کے اپنے کمالات کا حاصل ہونا ہے نہ کہ وہ کمال جو حق تعالےٰ و تقدس کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ آیہ کریمہ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 56) "اَیْ لِیَعْرِفُوْنِ" "اور میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ یعنی معرفت کے لئے" اس سے مقصود صرف معرفت کا حصول ہے جو کہ ان کے لئے کمال ہے، نہ یہ کہ ایسا امر جو حق سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف عائد ہو سکے۔ اور یہ حدیث قدسی میں آیا ہے: "فَخَلَقْتُ الخَلْقَ لِاُعْرَفَ" "میں نے مخلوق کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ میں پہچانا جاؤں" اس جگہ بھی ان کی اپنی معرفت مراد ہے۔

تشریح:

یعنی وہ مجھے پہچان لیں، اس لئے نہیں کہ مجھے کوئی فائدہ ہو جائے گا۔ یعنی اس کی نسبت بھی آپ مخلوق کی طرف کریں گے خالق کی طرف نہیں کریں گے کہ خالق کو پہچانے جانے کی ضرورت تھی۔ جیسے ایک specialist کسی گاؤں میں جاتا ہے اور کوئی آ کر اس سے پوچھتا ہے کوئی مشورہ کرتا ہے تو کیا specialist کو اس کی ضرورت ہے؟ اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ اس شخص کو ضرورت ہے۔ اب اگر specialist کہتا ہے میں اس لئے آیا تاکہ آپ کی ضروریات پوری کروں تو بالکل صحیح کہتا ہے اور اگر وہ کہہ دے کہ میں اس لئے آیا کہ میری ضرورت پوری ہو جائے تو اس کی ضرورت ہے ہی نہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کو کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، مخلوق کو ضرورت ہے اور مخلوق ساری کی ساری محتاج ہے۔

متن:

عقیدہ (6): حق تعالیٰ نقص کی تمام صفتوں (اقسام) اور حدوث کے تمام نشانات سے منزہ اور مبرا ہے، جس طرح وہ جسم و جسمانی نہیں ہے مکانی و زمانی بھی نہیں ہے بلکہ تمام صفات کمال اسی کے لئے ثابت ہیں، جن میں سے آٹھ صفات کمال وجود ذات تعالیٰ و تقدس پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں۔ اور وہ آٹھ صفات: حیات، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر، کلام اور تکوین (پیدا کرنا) ہیں، اور یہ صفات خارج میں موجود ہیں، اور ایسا نہیں ہے کہ وجود ذات پر وجود زائد کے ساتھ علم میں موجود ہیں اور خارج میں نفس ذات تعالیٰ و تقدس ہیں جیسا کہ بعض صوفیہ وجودیہ نے گمان کیا ہے۔

کیونکہ اس میں درحقیقت صفات کی نفی ہے اس لئے صفات کی نفی کرنے والے یعنی معتزلہ اور فلاسفہ نے بھی تغائر علمی اور اتحاد خارجی کہا ہے اور تغائر علمی سے انکار نہیں کیا۔

تشریح:

یہ بہت زبردست بحث ہے۔ یعنی یہ صفات خارج میں موجود ہیں۔ خارج اس کو کہتے ہیں جو ذہن سے باہر حققیت میں بھی موجود ہو۔ مثلاً میں نے کوئی چیز سوچی تو اس کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہے، اور جب اس سوچ کے مطابق میں نے کوئی کام کر لیا مثلاً کچھ الفاظ کہے یا کچھ چیز بنائی تو وہ خارج میں موجود ہے۔ پشتو میں کہتے ہیں کہ بات نے زبان سے کہا ته ما د خلي نه اوباسه زه تا د خار نه اوباسم تم مجھے منہ سے نکالو میں تجھے شہر سے نکلواتی ہوں۔ کیونکہ جو لفظ آپ کی زبان سے نکل گیا وہ اب آپ کا نہیں رہا اب وہ public کا ہو گیا، اب تم کچھ نہیں کر سکتے۔ پھر جب تک آپ نے اس پر بات نہیں کی تو وہ بات آپ کے پاس تھی اور کسی کو پتا نہیں تھا کہ آپ کے پاس کیا ہے۔ لیکن جب یہ بات باہر آ گئی تو یہ تیری نہیں رہی بلکہ یہ public کی ہو گئی۔ مثلاً آپ نے کسی کو گالی دی تو گالی دینے کے بعد آپ کیا کر سکتے ہیں؟ وہ تو زبان سے نکل گئی، اب وہ دوسرے کی بات ہے۔ جیسے کہتے ہیں شیر کے منہ میں بکری آ جائے تو بکری کیا کرے؟ اب تو جو کچھ کرنا ہے شیر نے کرنا ہے بکری نے کیا کرنا ہے، بکری تو اس کے منہ میں چلی گئی۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس pistol ہے اور تمہاری زبان سے گالی نکلی اور اس کے pistol کی نالی سے گولی نکلی تو آپ کیا کریں گے۔ بس جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ اسی طرح صفات وجود زائد کے ساتھ ہیں یعنی صفات اپنے طور پر خارج میں exist کر رہی ہیں۔ خارج سے مراد ہے کہ یعنی ذہن میں نہیں ہیں خارج میں ہیں۔ البتہ ان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس کی ذات کا حصہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کیسے کلام فرماتے ہیں؟ کیسے سنتے ہیں؟ یہ سب اس کی ذات کا حصہ ہے لیکن صفات زائد وجود کے لحاظ سے خارج میں موجود ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ اگر ہم یہ ذات کے لحاظ سے کہیں گے تو یہ صفات کا انکار ہے، کیونکہ جو خارج میں موجود نہ ہو اس کا تو سرے سے وجود ہی نہیں ہوتا۔

سوال:

صفات کے متعلق کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ صفات کے دو رخ ہیں، ایک رخ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے اور دوسرا مخلوق کی طرف۔

جواب:

اس پہ پہلے بھی بات ہوئی ہے اور ابھی بھی یہ بات ہوئی ہے کہ اللہ پاک کیسے دیکھتے ہیں، یہ اس کی ذات کا حصہ ہے، لیکن خود دیکھنا خارج میں موجود ہے لہذا وہ صفات خارج میں موجود ہیں، کیونکہ اگر آپ یہ نہیں کرتے، صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہی مراد لیتے ہیں تو پھر اللہ موجود ہے کوئی اور چیز موجود ہی نہیں۔ یوں تو صفات سے انکار ہو گیا۔

متن:

اور خارج میں نفس ذات تعالیٰ و تقدس ہیں جیسا کہ بعض صوفیہ وجودیہ نے گمان کیا ہے۔ کیونکہ اس میں درحقیقت صفات کی نفی ہے اس لئے صفات کی نفی کرنے والے یعنی معتزلہ اور فلاسفہ نے بھی تغائر علمی (یعنی ذہنی) اور اتحاد خارجی کہا ہے۔

تشریح:

یعنی خارج میں متحد ہے اور ذہن میں متغیر ہے اور ہر چیز کی تبدیلی ہے۔ یعنی صفات علمی طور پہ سمجھ لیا ہے اور اعتبارات کے طور پہ سمجھ لیا ہے۔

متن:

اور یہ نہیں کہا کہ علم کا مفہوم عین مفہوم ذات تعالیٰ و تقدس ہے یا عین مفہوم قدرت و ارادہ ہے، بلکہ عینیت وجود خارجی کے اعتبار سے کہا ہے۔ لہذا جب تک یہ (صوفیہ) وجود خارجی کے تغایر کا اعتبار نہ کریں صفات کے انکار کرنے والوں میں سے نہیں نکلتے، کیونکہ تغائر اعتباری کچھ نفع نہیں دیتا، کَمَا عَرَفْتَ جیسا کہ آپ نے سمجھ لیا۔

عقیدہ (7): اور حق تعالیٰ قدیم اور ازلی ہے اور اس کے سوا کسی کے لئے "قدم و ازل" ثابت نہیں، تمام ملتوں کا اس پر اجماع ہے اور جو شخص بھی حق جل و علا کے سوا کسی غیر کے قدم و ازلیت کا قائل ہوا اس کی تکفیر کی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی وجہ سے ابن سینا اور فارابی اور ان جیسے عقائد والوں کی تکفیر کی ہے جو عقول و نفوس کے قدم کے قائل ہیں۔

تشریح:

یعنی وہ عقل کے بھی قائل ہیں۔

متن:

اور ہیولیٰ اور صورت کے قدیم ہونے کا گمان رکھتے ہیں اور آسمانوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان کو بھی قدیم جانا ہے۔

تشریح:

در اصل اس وقت عقل فلسفہ ہی تھی تو جنہوں نے عقل کو مانا انہوں نے فلسفہ کو مانا اور جنہوں نے فلسفہ کو مانا تو انہوں نے فلسفیوں کو بھی مانا اور جنہوں نے فلسفیوں کو مانا انہوں نے ان کی غلط چیزوں کو بھی مانا۔ لہذا انہوں نے یہ ساری چیزیں کی تھیں، جیسے آج کل جو لوگ سائنس سے مغلوب ہوتے ہیں وہ سائنس کی ہر بات مانتے ہیں، چاہے سائنس کی وہ بات ابھی تک ثابت نہ ہوئی ہو، صرف ایک تھیوری ہو، جیسے ڈارون تھیوری ہے۔ حالانکہ یہ تھیوری ہے کوئی قانون نہیں ہے، لیکن وہ اس پر بڑا یقین رکھتے ہیں۔ چنانچہ جیسے اس وقت لوگ فلسفے سے متاثر تھے اس طرح آج کل اس قسم کے لوگ سائنس سے متاثر ہیں۔

متن:

اور ہمارے خواجہ حضرت (باقی باللہ) قدس سرہ فرماتے تھے کہ "شیخ محی الدین بن العربی رحمۃ اللہ علیہ کاملین کی ارواح کے قدیم ہونے کے قائل ہیں۔" اس بات کو ظاہر کی طرف سے پھیر کر تاویل پر محمول کرنا چاہیے تاکہ اہل ملت کے اجماع کے مخالف نہ ہو۔

عقیدہ (8): اور حق تعالیٰ قادر مختار ہے، ایجاب کی آمیزش اور اضطرار کے گمان سے منزہ اور مبرا ہے۔

تشریح:

یہ بھی حضرت نے فلسفہ پر رد کیا ہے کیونکہ اس وقت فلسفی کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے عقلِ اول کو پیدا کیا اور فارغ ہو گیا۔ "نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکَ" اور وہ بھی اضطراری طور پر، یعنی ارادے کے طور پر نہیں بلکہ اضطراری طور پر عقلِ اول کو پیدا کیا۔ اور ایجاب کی آمیزش کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز اللہ پہ واجب نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ پاک قادر و مختار ہے۔

متن:

بے عقل فلاسفہ نے کمال کو ایجاب میں جان کر واجب تعالیٰ سے اختیار کی نفی کر کے اس کے ایجاب کا اثبات کیا ہے۔

تشریح:

واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پہلے سے certain ہے کہ یہ چیز ایسے ہونی ہے اور اللہ کو بھی یہی کرنا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا، اس طرح اللہ پاک کو مضطر کر دیا، اللہ تعالیٰ کو پابند کر دیا گویا اللہ تعالیٰ کی قدرت والی بات رہی ہی نہیں اور اختیار والی بات رہی ہی نہیں۔ اس طرح تو قرآن پاک کی اس آیت: ﴿اِنَّ اللهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠ (البقرۃ: 20) کی بھی نفی ہو گئی اور قرآن پاک کی کسی ایک آیت کا انکار کفر ہے۔ لہذا یہ باتیں وہاں تک جاتی ہیں، لہذا حضرت کو غصہ تو آنا ہے۔

متن:

اور ان بے عقلوں نے ذات واجب تعالیٰ و تقدس کو بیکار سمجھا ہے اور سوائے ایک مصنوع کے کہ وہ بھی ایجاب سے ہے زمین و آسمان کے خالق سے صادر نہ جان کر حوادث کے وجود کو عقل فعال کی نسبت دی ہے۔

تشریح:

یعنی ان کی عقلِ اول نے عقلِ دوم بنائی، آسمان اول بنا دیا، پھر عقلِ دوم نے عقلِ سوم بنا دی۔ آسمان ثانی بنا دیا۔ کیا عجیب فضول بکواسات ہیں۔ یہ کہاں سے ثابت ہے؟ کیا کر رہے ہو؟ سارے مفروضے ہیں، مفروضوں کی بنیاد پر ایمان کو خراب کر رہے ہیں۔ اخیر میں عقلِ فعال آتی ہے جو یہ سارے کام کرتی ہے۔ تو حضرت فرماتے ہیں

متن:

حوادث کے وجود کو عقل فعال کی نسبت دی ہے جس کا وجود ان کے وہم کے علاوہ کہیں ثابت نہیں ہے۔ اور ان کے فاسد زعم میں حق سبحانہ و تعالیٰ سے ان کو کچھ کام نہیں ہے۔ لازمی طور پر چاہیے تھا کہ اضطراب و اضطرار کے وقت اپنی عقل فعال کی طرف التجا کرتے۔

تشریح:

یعنی کبھی مصیبت پیش آئے تو عقلِ فعال سے مانگتے کہ اے عقلِ فعال: یہ کر دو۔

متن:

اور حضرت حق سبحانہ کی طرف رجوع نہ کرتے کیونکہ ان کے نزدیک حوادث کے وجود میں اس تعالیٰ کی کوئی مداخلت نہیں ہے۔

تشریح:

حضرت فرماتے ہیں کہ مشرکین بھی اس طرح نہیں کرتے تھے، مشرکین کا بھی یہ حال تھا کہ جیسے عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو ایمان لانے کا واقعہ ہے کہ وہ کشتی میں حبشہ میں جا رہے تھے تو طوفان آ گیا اور طوفان ایسا آیا کہ جیسے وہ ڈوبنے کے قریب ہو گئے ہوں، سب لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنے لگے کہ اے اللہ ہمیں بچا لے۔ عکرمہ نے کہا کہ عُزّٰی اور لَات سے کیوں نہیں مانگتے ہو؟ انہوں نے کہا اس موقع پر وہ کچھ نہیں کر سکتے، تو عکرمہ نے کہا کہ کشتی واپس موڑو، یہ کیا بات ہوئی کہ خشکی پر بھی مسلمانوں نے ہمارا بھرکس نکالا، لات و عزی ہماری کوئی مدد نہ کر سکے۔ اور سمندر میں بھی وہ کچھ نہیں کر سکتے تو وہ کس مرض کی دوا ہیں۔ چونکہ سردار تھے تو وہ کشتی واپس ہو گئی اور وہ واپس آ گئے۔ راستے میں بیوی بھی ملی اور آ کر مسلمان ہو گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مشرکین بھی اخیر میں اللہ پاک کو ہی پکارتے تھے، کیونکہ وہ اللہ پاک کو قادرِ مطلق مانتے تھے۔

متن:

اور کہتے ہیں کہ عقل فعال ہی حوادث کی ایجاد سے تعلق رکھتی ہے بلکہ وہ تو عقل فعال سے بھی رجوع نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک بلیات کے دفع کرنے میں بھی ان کا اختیار نہیں ہے۔ یہ بدنصیب (فلاسفہ) اپنی بے وقوفی اور حمایت میں فرقہ ضالّہ سے بھی آگے بڑھ گئے حالانکہ کافر بھی بخلاف ان بدبختوں کے حق سبحانہ و تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں اور بلاؤں کے دفعیہ کو اسی تعالیٰ سے طلب کرتے ہیں۔ تمام گمراہ اور بے دین فرقوں کی نسبت ان بدبختوں میں دو چیزیں زیادہ ہیں ایک یہ کہ احکام منزلہ کا کفر اور انکار کرتے ہیں اور اخبار مرسلہ کے ساتھ عداوت و دشمنی رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ اپنے بیہودہ اور واہی مطالب اور مقاصد کے ثابت کرنے میں بیہودہ مقدمات کو ترتیب دیتے اور جھوٹے دلائل اور باطل شواہد کو عمل میں لاتے ہیں، اپنے مطالب و مقاصد کے ثابت کرنے میں جس قدر ان کو خبط لاحق ہوا ہے اور کسی بے وقوف کو اس قدر لاحق نہیں ہوا۔

تشریح:

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنے آپ کو عالم سمجھتے ہیں، یعنی دوسرے لوگوں کی گمراہی جہل کی وجہ سے ہوتی ہے اور ان کی گمراہی علم کی وجہ سے ہوتی ہے، اس لئے ان کو واپس آنے کی توفیق نہیں ہوتی، کیونکہ یہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم سمجھتے ہیں حتی کہ پیغمبروں سے بھی زیادہ عالم سمجھتے ہیں اس لئے ان کو کون سمجھائے۔ جبکہ دوسرے لوگ بیچارے سمجھتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں آتا تو کبھی ان کو سمجھ آ جاتی ہے اور کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ہم لوگ غلطی پر ہیں۔

متن:

آسمان اور ستارے جو ہر وقت بے قرار اور سرگرداں ہیں اپنے کاموں کا مدار ان کی حرکات اور اوضاع پر رکھا ہے، اور آسمانوں کے خالق اور ستاروں کے موجد و محرک اور مدبر (یعنی اللہ تعالیٰ) کی طرف سے آنکھیں بند کر لی ہیں۔

تشریح:

جب میں رویتِ ہلال کمیٹی کا رکن تھا تو چونکہ وزارتِ مذہبی امور میں آنا جانا لگا رہتا تھا، وزارتِ مذہبی امور کے سیکریٹری نے میری طرف ایک فائل بھیجی جس میں یہ بات تھی کہ قاضی منجم صاحب نے پرویز مشرف کو درخواست دی تھی کہ پاکستان کا جھنڈا منحوس ہے کیونکہ اس پر جو چاند ہے وہ ڈوبتا چاند ہے، اس کو بدلنا چاہیے، تو مشرف نے وزارتِ مذہبی امور کو بھیج دی، انہوں نے میری طرف بھیج دی، معاملہ بڑا نازک تھا اور جواب بھی دینا تھا، میں نے سوچا کہ اگر میں براہِ راست قرآن و حدیث کی بات کرتا ہوں تو کہیں وہ اس کی توہین نہ کریں کیوں کہ ان بے چاروں کے بارے میں ہمیں کیا پتا کہ یہ کیسے ہیں، لہٰذا پہلے عقلی دلائل اور پھر نقلی دلائل دینا زیادہ بہتر ہے۔ تو پہلے میں نے کہا کہ جس نے بھی یہ درخواست دی ہے وہ بڑا بے وقوف ہے کہ اس کو یہ بھی نہیں پتا نہیں کہ ڈوبتے ہوئے چاند اور چڑھتے ہوئے چاند میں کوئی فرق نہیں ہوتا، صرف direction کا فرق ہوتا ہے۔ اس لئے اگر آپ تصویر لیں تو دونوں کی حالتوں کی تصویر ایک جیسی ہو گی، کاغذ پر تو تصویر آتی ہے لہذا two dimensional اس میں تو فرق نہیں ہو گا لہٰذا یہ بے وقوف ہے کہ اس نے اس کو ڈوبتا چاند کہا ہے حالانکہ چاند ایک ہی ہوتا ہے۔ دوسری بات میں نے یہ کی کہ شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے کہا ہے:

ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا

وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبُوں

لہذا ستاروں کا علم رکھنے والوں کی باتوں کی کیا حیثیت ہے، علامہ اقبال بھی کہتا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، یہ تو اپنے حال سے بھی واقف نہیں ہیں، کسی اور کے بارے میں کیا خبر دیں گے۔ تو یوں دو باتیں ہو گئیں، ایک عقلی اور دوسری ان کے اعتبار سے نقلی۔ اور تیسرے نمبر پر میں نے یہ حدیث شریف بیان کی کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو نجومیوں کے قول پر یقین کرے 40 دن تک اس کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔ میں نے یہ تین نکات لکھ کر ان کو بھیج دیئے، الحمد للہ سیکریٹری صاحب کو بات سمجھ میں آ گئی، انہوں نے کہا بس یہی بھیجتے ہیں، یہی جواب ہے۔ تو انہوں نے بھیج دیا، یوں پاکستان کا جھنڈا بچ گیا۔ ورنہ پتا نہیں پاکستان کے جھنڈے کے ساتھ کیا کرتے۔ نجومی لوگ اس قسم کی شرارتیں کرتے رہتے ہیں۔ اس کے باجود پشاور والے ہمارے اوپر اعتراض کرتے ہیں کہ ہم منجمین کی باتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے تو نجومیوں کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے، ہم منجمین کے ماننے والے نہیں ہیں۔

متن:

ان کے منظم اور منضبط یعنی مرتب کردہ علوم میں سے ایک علم ہندسہ ہے جو محض لا یعنی بیہودہ اور لا طائل ہے۔

تشریح:

ہندسے کے اعتبار سے بحث کرتے ہیں کہ اس کا یہ عدد ہے، اس کا یہ عدد ہے اور اس کا یہ عدد ہے، اس کو انہوں نے پورا علم بنایا ہوا ہے۔

متن:

بھلا مثلث کے تینوں زاویوں کا دو زاویہ قائمہ کے برابر ہونا کس کام آئے گا اور شکل عروسی اور مامونی جو ان کے نزدیک بڑی مشکل اور جانکاہ ہے کس غرض کے لئے ہے؟

تشریح:

یہ حضرت نے ان کی باتوں پر ردّ کیا ہے۔

متن:

علم طب و نجوم اور علم تہذیب اخلاق جو ان کے تمام علوم میں سے بہترین علوم ہیں، انہوں نے گزشتہ انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات کی کتابوں سے چرا کر اپنے باطل اور بیہودہ علوم کو رائج کیا ہے، جیسا کہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ "اَلمُنْقِذُ عَنِ الضَّلَالِ" میں اس امر کی تصریح کی ہے۔

تشریح:

جیسے جڑی بوٹیوں کی جو ابتدا ہوئی تھی تو کس کو پتا چل سکتا تھا کہ کس کی کیا خصوصیت ہے، لہذا پہلے بتا دیا گیا تھا، جس کے بعد ان لوگوں نے وہ لیں اور ان کے ذریعے تجربات کا سلسلہ شروع کر دیا اور اس سے پھر ایک علم بننا شروع ہو گیا۔

متن:

اہل ملت اور انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے متبعین اگر دلائل و براہین میں غلطی کریں تو کچھ ڈر نہیں کیونکہ ان کے کام کا مدار انبیا علیہم الصلواۃ و السلام کی تقلید پر ہے اور اپنے مطالب عالیہ کے ثبوت کے لئے دلائل و براہین کو صرف بطور تبرع (بطور احسان) لاتے ہیں۔ یہی تقلید ان کے لئے کافی ہے، بخلاف ان بدبختوں کے جو تقلید سے نکل کر صرف دلائل کے ساتھ اپنے مطالب کو ثابت کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں، "ضَلُّوا فَأَضَلُّوا" "یہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا"۔

تشریح:

کیونکہ ایک ہوتا ہے عقلی دلائل کو شریعت کے سمجھنے میں استعمال کرنا اور ایک ہے شریعت کے خلاف عقل کے دلائل کو استعمال کرنا کہ شریعت کچھ بھی نہیں، دونوں میں کتنا فرق ہے۔ چنانچہ فقہاء شریعت کو ثابت کرنے میں عقلی دلائل استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوئی کہہ دے کہ حدیث شریف اس وقت ملی ہی نہیں تھی، تو یہ ایک عقلی دلیل ہے کیونکہ جب وہ زندہ نہیں تھا تو مروی کیسے ہے؟ لہذا کہیں گے کہ درایت کے لحاظ سے ختم ہو گیا۔ چنانچہ فقہاء عقلی دلائل کو شریعت کے سمجھنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں، اس کی مخالفت میں نہیں کر رہے ہیں۔

متن:

حضرت عیسی علی نبینا و علیه الصلوۃ و السلام کی نبوت کی دعوت جب افلاطون کو پہنچی جو ان بدنصیبوں کا سب سے بڑا سردار ہے تو اس نے کہا: "نَحْنُ قَومٌ مُّھْتَدَوُنَ لَا حَاجَۃَ بِنَا اِلٰی مَنْ یَھْدِیْنَا" "ہم ہدایت یافتہ قوم ہیں اور ہم کو ایسے شخص کی حاجت نہیں ہے جو ہم کو ہدایت دے اس بے وقوف کو چاہیے تھا کہ ایسے شخص کو جو مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور مادر زاد اندھے کو بینا (دیکھنے والا) اور ابرص (جذامی کوڑھی) کو اچھا کر دیتا ہے، جو (ان کی) حکمت کے قانون سے نا ممکن ہے پہلے ان کو دیکھتا اور ان کے حالات دریافت کرتا (پھر جواب دیتا) بغیر دیکھے جواب دینا کمال درجہ دشمنی اور کمینہ پن ہے۔

فلسفہ چوں اکثرش باشد سفہ پس کل آں

ہم سفہ باشد کہ حکم کل حکم اکثر است

(فلسفہ اکثر سفہ (بے وقوفی) ہے، بس سفہ کل کا حکم آخر رہے اکثر کا حکم)

"نَجَّانَا اللہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ ظُلُمَاتٍ مُّعْتَقِدَاتِھِمُ السُّوءِ" "اللہ سبحانہ ان کے برے عقائد کی تاریکی سے ہم کو نجات دےان ہی ایام میں فرزندی محمد معصوم نے "جواہر شرح مواقف" کو پورا کیا ہے۔ اثنائے سبق میں ان بے وقوفوں (فلاسفہ) کی برائیاں واضح طور پر سامنے آئیں اور ان کی وجہ سے بہت فائدے مترتب ہوئے ﴿الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي هَدَانَا لِهٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللہُ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ (الاعراف: 43) "تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہم کو ہدایت دی اگر وہ ہم کو ہدایت نہ دیتا تو ہم ہرگز ہدایت نہ پاتے، بیشک ہمارے رب کے رسول حق بات لیکر آئے اور شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ کی (بعض) عبارتیں بھی ایجاب کی طرف ناظر ہیں اور قدرت کے معنی میں فلسفہ کے ساتھ موافقت رکھتی ہیں کہ اس کے ترک کی صحت قادر (حق تعالیٰ) سے تجویز نہیں کرتے اور فعل کی جانب کو لازم جانتے ہیں۔

عجب معاملہ ہے کہ شیخ محی الدین (اللہ تعالیٰ کے) مقبولین میں سے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اکثر علوم جو اہل حق کی آراء کے مخالف ہیں خطا اور نادرست ظاہر ہوتے ہیں شاید ان کو خطائے کشفی کے باعث معذور رکھا گیا ہے اور خطائے اجتہادی کی طرح ان سے ملامت دور کر دی گئی ہے۔ شیخ محی الدین کے حق میں فقیر کا اعتقاد یہی ہے کہ ان کو مقبولین میں سے جانتا ہے اور ان کے ان علوم کو (جو اہل حق کے) مخالف ہیں خطا اور ضرر رساں دیکھتا ہے۔ اس گروہ (صوفیہ) کے بعض لوگ ایسے ہیں کہ شیخ (موصوف) کو طعن و ملامت بھی کرتے ہیں اور ان کے علومِ مخالفہ کو بھی غلط اور نا درست سمجھتے ہیں۔ اور اس گروہ کے بعض لوگ شیخ (موصوف) کی تقلید اختیار کر کے ان کے تمام علوم کو درست جانتے ہیں اور دلائل و شواہد سے ان علوم کی حقیقت کو ثابت کرتے ہیں۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ہر دو فریق نے افراط و تفریط کا راستہ اختیار کیا ہے اور میانہ روی سے دور ہو گئے ہیں، شیخ (موصوف) کو جو کہ اولیائے مقبولین میں سے ہیں خطائے کشفی کے باعث کس طرح رد کر دیا جائے۔

تشریح:

میں کہتا ہوں کہ خطائے کشفی کوئی ایسی بعید بات نہیں ہے حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فاتحه خلفُ الإمام کو فرض جانتے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اس کو حرام جانتے ہیں اب حرام اور فرض میں کتنا فرق ہے، لیکن دونوں حضرات مقبولین ہیں، دونوں اولیا اللہ ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ہم غلط نہیں کہہ سکتے۔

متن:

اور ان کے علوم کو جو کہ صحت و صواب سے دور ہیں اور اہل حق کی رائے کے مخالف ہیں تقلید کی وجہ سے کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے: "فَالحَقُّ ھُوَ التَّوَسُّطُ الَّذِی وَفَّقَنِی اللہُ سُبحَانَہٗ بِمَنِّہٖ وَکَرَمِہٖ" "پس حق اسی میانہ روی میں ہے جس کی توفیق اللہ سبحانہ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے بخشی ہے"۔

ہاں مسئلہ "وحدت الوجود" میں اس گروہ (صوفیہ) کی ایک بڑی جماعت شیخ کے ساتھ شریک ہے اگرچہ شیخ (موصوف) اس مسئلہ میں بھی ایک خاص طرز رکھتے ہیں لیکن اصل بات میں وہ سب لوگ (شیخ کے ساتھ) شریک ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اگرچہ ظاہر میں اہل حق کے عقائد کے مخالف ہے لیکن توجہ کے قابل اور تطبیق دینے کے لائق ہے۔ اس فقیر نے اللہ سبحانہ کی عنایت سے ہمارے حضرت (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی "شرح رباعیات" کی شرح میں اس مسئلہ کو اہل حق کے عقائد کے ساتھ تطبیق دی ہے اور فریقین کے نزاع کو لفظ کی طرف پھیرا ہے (یعنی نزاع لفظی ثابت کیا ہے) اور طرفین کے شکوک و شبہات کو اس طرح حل کیا ہے کہ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی: "کَمَا لَا یَخْفٰی عَلَی النَّاظِرِ فِیہِ" "جیسا کہ اس کے دیکھنے والے پر پوشیدہ نہیں ہے"۔

الحمد للہ آٹھ عقائد کی تشریح ہو گئی ہے۔ اللہ جل شانہ ہم سب کے عقائد کو صحیح فرمائے اور اسی کے اوپر ہی پوری زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ