مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 03


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ


حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے ان کے صاحبزادے حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو کتاب "مقاماتِ قطبیہ اور مقالاتِ قدسیہ" کے نام سے لکھی ہے اس کی تعلیم جاری ہے یہ تعلیم ہم کیوں کرا رہے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بزرگوں نے تو ساری عمر اس کام میں لگائی ہوتی ہے کہ ہم کیسے اللہ تعالیٰ کے بن جائیں اور بڑی ریاضتیں اور مشقتیں کی ہوتی ہیں۔ چونکہ جو کام انہوں نے کئے ہوتے ہیں، مختلف تجربات سے گزرے ہوتے ہیں، پھر ان کو مشاہدات حاصل ہو چکے ہوتے ہیں لہذا جب وہ کسی کام کے بارے میں گفتگو فرماتے ہیں تو اس سے برسوں کا راستہ قطع ہونے کی امید ہوتی ہے کیونکہ دوسروں کے تجربات سے سیکھنا عقل مندی ہے اور خود اپنے آپ کو تجربہ گاہ بنانا بے وقوفی ہے، انسان خود جب یہ کام کرتا ہے تو بعض مواقع پر کامیابیاں حاصل کرتا ہے اور کئی مقامامت پر ناکامی سے دوچار ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے، لیکن جب انسان دوسرے تجربہ کار حضرات کی باتیں سنتا ہے تو گویا کامیابی کی کنجیاں اس کے ہاتھ آ جاتی ہیں اور وہ بہت آسانی کے ساتھ منازل طے کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگوں کی کتابوں میں ایسی باتیں مل جاتی ہیں جو بہت کام آتی ہیں۔

یک ساعت در صحبت با اولیا

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

زندگی میں اگر کوئی کسی بزرگ کے ساتھ بیٹھتا ہے تو وہ بیٹھنا اس کو سینکڑوں سالوں کی اطاعت سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہے کیونکہ ان بزرگ کو جو گُر حاصل ہو چکے ہوتے ہیں وہ اس کو مفت میں ملتے رہتے ہیں اور بڑا فائدہ ہوتا ہے اور یہ بات تو طے شدہ ہے کہ بزرگوں کے ملفوظات ان کی صحبت کے قائم مقام ہوتے ہیں، گویا بزرگوں کے ملفوظات ان کی صحبت کا نچوڑ ہوتے ہیں، جب یہ بات سمجھ میں آ رہی ہے تو پھر امید کرنی چاہیے کہ بزرگوں کی کتابیں پڑھنے اور ملفوظات پڑھنے سے ان کی صحبت کا اثر حاصل ہو سکتا ہے اور جب ان کی صحبت کا اثر حاصل ہو سکتا ہے تو گویا صحبت سے جو فائدہ حاصل ہوتا ہے اس کا کچھ حصہ اس سے حاصل ہو جاتا ہے۔ اب ایک اور بات بھی سن لیجئے مثلاً میں آج کل کے دور کے کسی بزرگ کی صحبت اٹھاتا ہوں تو وہ آج کل کا بزرگ ہے جس کا فائدہ اسی حساب سے ہو گا اور اگر گزشتہ کسی بزرگ کی صحبت اٹھاتا ہوں تو اس کا فائدہ اس کے حساب سے ہو گا، اس لئے گزشتہ دور کے وہ بزرگ جن کو اللہ پاک کا اس درجے کا تعلق حاصل ہوتا ہے ان کی کتابیں پڑھنے سے اگر سمجھ میں آ جائیں تو یہ بہت بڑی نعمت ہے، یعنی سمجھ آنا بھی ضروری ہے کیونکہ وقت کے ساتھ ساتھ سمجھ میں آنا ذرا مشکل ہوتا جاتا ہے تاہم اگر سمجھ میں آ جائیں تو یہ بہت بڑی نعمت ہوتی ہے جس کے ذریعے سے ہم اپنی زندگیوں کو سنوار سکتے ہیں۔ اللہ کا شکر ہے ہمارے سلسلہ میں اس چیز کا بڑا خیال رکھا گیا ہے کہ بزرگوں کی تعلیمات سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام ہے۔ مثنوی شریف کی تعلیم اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کی تعلیم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اور حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں اس کتاب کی یہ تعلیم بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور زمانہ ملفوظات شریفہ کی جلد انفاسِ عیسیٰ کی تعلیم تقریباً بارہ سال میں مکمل کر چکے ہیں۔ اور اب ماشاء اللہ اس کے پاور پوائنٹ بن چکے ہیں اور مختلف جگہوں پہ اس کا درس شروع ہے۔ لہذا ہمارا تو طریقہ یہی ہے کہ ہم لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سناتے ہیں اور جس طرح ہمیں اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے اسی طرح دوسروں کو بھی فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ در اصل یہ ایک غلط فہمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے مجھے کچھ بات کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ مثلاً خوارج کو ایک غلط فہمی ہوئی تھی، وہ کہتے تھے کہ قرآن ہمارے لئے کافی ہے کسی اور چیز کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے تھے نتیجہ یہ ہوا کہ حقیقت سے بہت دور جا پڑے، انہوں نے قرآن کی وہی تشریحات کیں جو ان کے نفس نے کیں، نتیجتاً نفس کے مارے اتنے سخت ہو گئے کہ وہ لوگوں کے لئے بھی مصیبت بن گئے اور اپنے لئے بھی مصیبت بن گئے اور ہدایت سے بہت دور جا پڑے۔ اس کے بر عکس جنہوں نے رجال اللہ کو لے لیا لیکن قرآن کو چھوڑ دیا وہ بھی بہت زیادہ گمراہی کا شکار ہو گئے اور وہ رجال اللہ تک بھی نہیں پہنچے۔ نتیجتاً دونوں محروم رہے۔چنانچہ اگر رجال اللہ اور کتاب اللہ دونوں کے ساتھ جنہوں نے تمسک کیا تو وہ الحمد للہ کامیاب و کامران ہوئے اور یہ سلسلہ چلا آ رہا ہے، ہمارے سلسلہ میں بھی یہی دونوں چیزیں ہیں کہ رجال اللہ کے ساتھ بھی تعلق ہے اور کتاب اللہ کے ساتھ بھی تعلق ہے۔ الحمد للہ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اسی میں ہدایت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں بھی نصیب فرما دے۔

بہر حال حضرت نے ایک شعر پڑھا تھا جو غالباً یہاں لکھا ہے، میرے خیال میں پہلے یہیں سے شروع کرتے ہیں اگرچہ اس کا کچھ حصہ پہلے ہو چکا ہے لیکن ربط کے لئے ضروری ہے کہ کسی پرانی جگہ سے ہم شروع کریں۔

متن:

تا خاطرت مسخر طمع و ہوا بود

جانت اسیر رنج و بلا مبتلا بود

ہرگز بسوئے صحبت بیگانہ نکند التفات

ہر کس کہ دریں منزل و رہ آشنا بود

بر طبع و نفس پا بنہ ار خواہی اے عزیز

تا بر سر تو سایۂ لطف خدا بود

ایمن مباش خواجہ و نومید ہم مشو

کاسلام درمیان خوف و رجا بود

(5) زنہار بر بقا مکن اے خواجہ اعتماد

از بہر آنکہ عاقبت او فنا بود

(6) در پنج روز عمر کہ بر شارع فناست

آن کن کہ در طریق شریعت روا بود

(7) از خوف جان من بلب رسید اے عزیز

تا بازگشت من بقیامت کجا بود

ترجمہ:(1) جب تک تمہارا دل خواہش اور لالچ رکھتا ہو، تو تمہاری روح رنج اور مصیبت میں گرفتار ہو گی۔

تشریح:

روح کا مقصود اللہ ہے اور نفس کا مقصود خواہشات کو پورا کرنا ہے لہٰذا جو نفس کے پیچھے چلا جا رہا ہے وہ روح کو مصیبت میں گرفتار کر رہا ہے، تاہم یہاں بھی ایک اعتدال رکھنا ہوتا ہے جو یہ ہے کہ نفس کی کچھ ضروریات ہیں اور نفس کی کچھ خواہشات ہیں، جو اس کی ضروریات ہیں ان سے مفر نہیں ہے اور جو خواہشات ہیں ان کی حد نہیں ہے۔ ان دونوں چیزوں کو ماننا پڑے گا یہ حقائق ہیں۔ نفس کی ضروریات کی مثال جیسے کھائے اتنا کہ انسان زندہ رہ سکے جو نفس کی ضرورت ہے یہ کرنا پڑتا ہے، ورنہ نفس سے روح کا رشتہ ہی ختم ہو جائے گا، انسان مر جائے گا۔ لہذا اس رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے اتنا کھانا پینا اس کی ضروریات میں سے ہے، اس بات کا شریعت نے بھی خیال رکھا ہے، ایسا خیال رکھا ہے کہ خدا نخواستہ اگر نفس اور روح کا رشتہ منقطع ہونے کا احتمال ہو تو اس وقت بقدرِ ضرورت حرام سے بھی کھایا جا سکتا ہے بلکہ یہ کرنا لازم ہو جاتا ہے ورنہ اعمال ہی ختم ہو جائیں گے، لیکن جب تک وہ خطرہ نہ ہو تو اپنے آپ کو نفس کی خواہشات پوری کرنے سے بچانا اور ضروریات کو اس درجے میں لانا کہ جس کی اجازت ہے، ہر شخص کے لئے ضرورت ہے اور روح کے لئے ضرورت ہے ورنہ روح کمزور ہو جائے گی نفس غالب رہے گا اور روح کو مصیبت پڑے گی۔ اور چونکہ خواہشات کو پورا کرنے کی ہوس کا نام لالچ ہے تو جتنی لالچ زیادہ ہو گی اتنی روح مصیبت میں مبتلا ہو گی۔

متن:

(2) جو شخص اس منزل اور راہ سے واقف ہو وہ بے گانوں کی محبت کی جانب التفات نہیں کرتا۔

تشریح:

یعنی جو اس راہ سے بے گانہ ہے وہ ان کی طرف نہیں جاتا۔

متن:

(3) اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارے سر پر اللہ تعالیٰ کے لطف کا سایہ ہو، تو اپنی خواہش اور نفس کو پاؤں کے نیچے مسل دو۔

تشریح:

اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے زمین کے اوپر آپ جتنے زور سے چھلانگ لگائیں گے اتنا ہی آپ اوپر جائیں گے کہ جتنا انسان زمین کو زور سے دباتا ہے اتنا ہی اوپر جاتا ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کو جتنا کوئی مسلتا ہے اور دباتا ہے اتنا ہی وہ روحانیت کا راستہ طے کرتا ہے۔

متن:

(4) اے بھائی بے پرواہ اور امن میں نہ رہ، اور نا امید بھی مت ہو۔ کیونکہ اسلام امید و خوف کے درمیان ہے۔

تشریح:

در اصل بعض دفعہ الفاظ تھوڑے سے mix ہو جاتے ہیں جس وجہ سے پریشانی ہو جاتی ہے۔ بے پرواہ اور امن کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنی عاقبت سے بے پرواہ ہو تو بظاہر اسے امن ہے اور مطمئن ہے، لگ رہا ہے کہ یہ تو بڑے مزے سے بیٹھا ہوا ہے، لیکن اگر وہ اس کا خیال نہیں رکھے گا تو یہی امن اور بے پروائی اس کو مصیبت میں ڈال سکتی ہے۔ مثلاً ایک ایسا شخص ہے جس کی نظر بہت کم ہے اور ساتھ ہی سانپ ہے، نظر کے کم ہونے کی وجہ سے وہ بڑا اطمینان میں ہے لیکن اس کو کیا پتا کہ سانپ اس کے قریب آ گیا ہے، اب اگر کوئی اس کو اس کے نمبر کی عینک لگا دے اور وہ دیکھ لے کہ میرے پاس تو اتنا بڑا اور خطرناک سانپ ہے تو یکدم پریشانی سے اچھلے گا، پریشان ہو گا، لوگ کہیں گے کمال ہے آرام سے بیٹھا تھا آپ نے اس کو خواہ مخواہ بے چین کر دیا۔ لیکن عقل مند کہے گا کہ یہی بے اطمینانی اور پریشانی اس کے بچنے کا ذریعہ ہے۔ ورنہ اگر یہ مطمئن رہتا اور پریشان نہ ہوتا تو اس سانپ نے اس کو ڈس لیا ہوتا۔ یہ ساری مثالیں ہیں کیونکہ ہم exact بات تو کر نہیں سکتے مثالوں سے ہی سمجھایا جا سکتا ہے۔

متن:

(5) اے برادر اس بقا اور زندگی پر اعتماد نہ کر کیونکہ اس کا انجام فنا ہوتا ہے۔

تشریح:

یعنی اس کے ساتھ آپ اطمینان کا معاملہ نہ کریں کیونکہ اس کا انجام فنا ہے۔

متن:

(6) اس پانچ دن کی زندگی میں جو کہ فنا کے راستے پر ہے، وہی کچھ کر جو کہ شریعت میں جائز ہو۔ (7) مارے خوف کے میری روح میرے ہونٹوں تک آ گئی ہےکہ قیامت کے دن میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا۔

تشریح:

واقعتاً جس کو اس بات کا خیال ہو کہ قیامت کے دن میرا ٹھکانہ کہاں ہو گا اَصْحَابَ الْیَمِینِ میں ہو گا یا أَصْحَابَ الْیَسَارِ میں، تو وہ کس طرح مطمئن ہو سکتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ جب انسان کھلکھلا کے ہنستا ہے تو فرشتے حیرت کرتے ہیں کہ کیا تجھے جنت میں اپنے مقام کا پتا چل گیا ہے؟ اس لئے تو اس طرح ہنس رہا ہے؟ واقعتاً یہ بات صحیح ہے، ہمیں تو پتا نہیں ہے، جیسے ایک انسان کو پھانسی دی جا رہی ہو اور وہ کھلکھلا کے ہنس رہا ہو تو عقل مند حیران ہو گا کہ شاید اس کو پتا نہیں ہے کہ اس کو پھانسی لگنے والی ہے۔

متن:

الغرض اے میرے پیارے جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہت سے لوگ ایسے ہوں گے جو عبادت کرتے ہوں گے، اور وہ طاعت اُن کے حق میں معصیت ہو گی۔ اور طالب مولیٰ کے بہت سے گناہ عبادت سے بہتر ہوں گے۔ اور یہ معنی اہلِ دل حضرات کے نزدیک مسلمہ بات ہے کہ ہر عبادت جو تیرے فخر و غرور کا سبب ہو وہ عبادت عین معصیت ہے۔

تشریح:

یعنی جس عبادت پر تو فخر کرے اور ناز کرے وہ تمھیں کتنےگہرے گھڑے میں گرا رہی ہے۔ ۔ میرے خیال میں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے شیطان ہی کو دیکھ لیں، شیطان کے ساتھ کیا ہوا؟ کیا اس نے عبادت نہیں کی تھی؟ عبادت کی تھی، اطاعت بھی کی تھی، علم بھی حاصل تھا، سب کچھ تھا، لیکن صرف اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں تھی نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے نفس کو سامنے رکھا اور اللہ کے حکم کو سامنے نہیں رکھا۔

متن:

اور جو معصیت جس کا تو اعتراف اور عذر کرے حقیقت میں وہ معصیت تیرے لئے اطاعت سے زیادہ مفید ہے۔ یعنی اے میرے پیارے، جب تمہیں آثار اور حالات امن میں نظر آئیں، اور اعمال اخلاق بشری کے سبب درندوں اور شیاطین کی مانند محسوس ہوں، تو ان اعمال و آثار وغیرہ کو اچھی طرح غور و فکر اور سوچ بچار سے دیکھو، تاکہ تجھے معلوم ہو کہ اکثر عبادتیں اور طاعات جو کہ عام لوگ اور زمانے کے شیوخ رسم و رواج کے طور پر کرتے ہیں، یہ تمام بے سعادتی کی نشانیاں ہیں۔ اگرچہ ان کی شکل و صورت دینی ہوتی ہے۔ پس اگر ان سب کو عدل کے میزان میں رکھا جائے، تو اس کے حق میں یہ آیت مبارک نازل ہوئی ہے ﴿وَ بَدَا لَھُمْ مِّنَ اللہِ مَا لَمْ یَکُوْنُوْا یَحْتَسِبُوْنَ (الزمر: 47) "اور ان پر خدا کی طرف سے وہ امر ظاہر ہو جائے گا، جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا"۔ یعنی ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے قیامت کے میدان میں جو کچھ ان کے خیال میں اچھا معلوم ہوتا تھا، وہ خلاف توقع برا معلوم ہو جائے گا۔ صحابۂ کرام نے جب رسول اللہ ﷺ سے اس کی تفسیر اور اس کا معنی پوچھا تو جناب سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا، کہ بعض لوگ اپنے عمل و کردار کو طاعت اور عبادت خیال کرتے ہوں گے۔ جب قیامت کے دن دیکھیں گے تو جو کچھ انہوں نے طاعت تصور کیا تھا، وہ تمام کا تمام معصیت اور گناہ ہو گا۔ پس اے میرے پیارے یہ بہت مشکل کام ہے۔ زاہدوں نے اپنے دل میں یہ بات ٹھان لی ہے کہ ٹوپی سر پر رکھنے اور چند رکعت نماز جو کہ عادت کے طور پر ہیں اور عبادت اور سلوک کی چند حکایتیں یاد کرنے سے کہ یہ سب کچھ بے سعادتی اور ذلت ہے، اسی کو کام خیال کر لیا جائے۔ ان تمام عبادت عادتی سے کچھ فائدہ برآمد نہیں ہو گا۔ اے میرے پیارے اس زمانے کے شیوخ و عالموں کو چاہیے کہ ایسے پیر و مرشد کا دامن ارادت پکڑیں جو اس راستے پر چلا ہو،

تشریح:

اب یہ بڑی چھوٹی سی بات نظر آتی ہے لیکن بہت بڑی بات ہے یہ بات میں بارہا عرض کر چکا ہوں لیکن چونکہ ہر مجلس نئی ہوتی ہے اس لئے بار بار سمجھانا ہوتا ہے کہ جو شخص بغیر پیر کے، بغیر مرشد کے عبادت کر رہا ہو تو اس کی نظر اپنے آپ پر جاتی ہے کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ آدمی اپنی اچھائی کی طرف جائے گا اپنی برائی کی طرف نہیں جائے گا کیونکہ وہ ہر وقت اپنی نظروں میں اونچا ہو رہا ہے جبکہ آپ ﷺ نے اس حوالے سے دعا فرمائی ہے کہ: "اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِی فِیْ عَیْنِ صَغِیْراً" (مسند بزار، حدیث نمبر 4439) "اے اللہ! مجھے میری نظروں میں چھوٹا کر دے" لیکن یہ اپنی عبادت کی وجہ سے، اپنی چال ڈھال سے روز بروز اپنی نگاہوں میں اچھا ہو رہا ہے، کیوں اچھا ہو رہا ہے؟ کیونکہ اس کے پاس تولنے کا کوئی آلہ نہیں ہے، اس کو کوئی سمجھانے والا نہیں ہے، وہ اس کا دوسرا رخ دیکھ ہی نہیں پا رہا، جو خود اپنے آپ کو نہیں دیکھ سکتا کوئی اور ہی اس کو دیکھ سکتا ہے، تو چونکہ وہ اس کو دیکھ ہی نہیں رہا نتیجتاً عمل کے بارے میں آدمی کہتا ہے کہ بس میں تو ایسا ہوں۔ اور اچھی باتیں جو کتابوں میں لکھی ہیں نفس کے مارے وہ سب اپنے اوپر منطبق کر رہا ہے کہ مجھے یہ بھی حاصل ہو گیا، مجھے یہ بھی حاصل ہو گیا، مجھے یہ بھی حاصل ہو گیا۔ ان چیزوں کو اپنے اوپر منطبق کر رہا ہے اور بری باتوں کو دوسروں پہ منطبق کر رہا ہے کہ فلاں بھی برا ہے، فلاں بھی برا ہے، فلاں بھی برا ہے، ایسے ہی ہوتا ہے۔ صرف اس وجہ سے کہ پیر نہیں ہے، مرشد نہیں ہے۔ اگر کوئی مرشد ہوتا تو وہ اسے اسی جگہ پہ پکڑ لیتا ہے اور اس کو حال بتاتا ہے کہ تو اس میں بھی برا ہے، اس میں بھی برا ہے، اس میں بھی برا ہے کیونکہ اس کو وہ چیز نظر آتی ہے۔ ابتدا میں تو یہ چیز کافی مشکل محسوس ہوتی ہے کہ پیر اس کو بار بار پکڑ رہا ہے کہ یہ بھی برا ہے، یہ بھی برا ہے، یہ بھی برا ہے، لیکن بعد میں جب اس کو اس کی برکت سے ادراک ہونے لگتا ہے تو جو بھی خوبی اس کو ملتی ہے تو وہ کہتا ہے کہ یہ میرے پیر کی برکت سے ہے، میرے سلسلہ کی وجہ سے ہے، میرے شیخ کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ اس وقت اس کو اس کی وہ نسبت یاد آنے لگتی ہے، لہٰذا وہ اپنے آپ سے نفور اور پیر کی متابعت کی طرف جاتا ہے، نتیجتاً اس کے ذہن میں، قلب میں یہ بات نہیں آتی کہ میں نے یہ کیا، میں نے یہ کیا۔ وہ کہتا ہے اللہ کے فضل و کرم سے، سلسلہ کی برکت سے، مرشد کے طریقے پہ چلنے کی وجہ سے اللہ نے مجھے اس کی توفیق دی۔ چنانچہ جس کی نظر اپنے آپ سے ہٹ جائے تو کیا وہ ترقی کر رہا ہے یا نہیں! تو میں کہتا ہوں کہ مرشد کے پیچھے چلنے سے اگر یہ چیز حاصل ہوتی ہے تو اس کا بدل کوئی نہیں ہے یہ عادتاً کسی اور طریقے سے مل ہی نہیں سکتی، ہاں اللہ تعالیٰ جیسے خرقِ عادت کے طور پر بغیر عادت کے کوئی کام کراتا ہے تو اگر کسی کے ساتھ اس طرح ہو جائے تو وہ ایک الگ بات ہے، لیکن اس قسم کا معاملہ عام لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی شخص کو اچانک اربوں روپے کا خزانہ مل جائے تو کیا خیال ہے سارے لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ جائیں کہ ہمیں بھی خزانہ مل جائے گا، ایسا نہیں ہوتا ہے، کیونکہ اس طرح کے واقعات جو کبھی کبھی ہوتے ہیں سب لوگ جانتے ہیں کہ ایسا سب کے ساتھ نہیں ہوتا۔ میں اس کے لئے ایک بڑی جاندار مثال دیتا ہوں اور وہ مثال ہمارے دور کی ہے، آج کل 2 قسم کے مضامین ہیں سائنس اور آرٹس۔ حکمران جتنے بھی ہوتے ہیں وہ آرٹس والے ہوتے ہیں، لیکن لوگ سائنس کو فوقیت دیتے ہیں اور سائنس پڑھنا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اپنے بچوں کو بھی سائنس پڑھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ اب غور کرنے کی بات ہے کہ جب حکمران آرٹس میں جاتے ہیں تو پھر بچوں کو آرٹس کی طرف کیوں نہیں لے جاتے ہو؟ کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ آرٹس والے جو حکمران ہوتے ہیں وہ آرٹس پڑھنے والوں میں سے بہت تھوڑے ہوتے ہیں 1 فیصد بھی نہیں ہوتے، 99 فیصد لوگ سڑکوں پر پھر رہے ہوتے ہیں، ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا، سائنس والے اگرچہ حکمران تو نہیں ہوتے لیکن اکثر یا کم از کم 40، 50 فیصد بر سرِ روزگار ہوتے ہیں۔ اس لئے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ مجھے اتنی بڑی چیز حاصل ہو جائے گی لوگ یہ دیکھتے ہیں اکثر کو کیا چیز حاصل ہوتی ہے۔ کیونکہ اکثری قاعدے پر لوگ زیادہ عمل کرتے ہیں، تو جب دنیا میں اکثری قاعدے پہ زیادہ عمل کرتے ہیں تو پھر اس کام میں بھی کہ وہ اکثری قاعدہ پہ عمل کیوں نہ کریں کہ بغیر شیخ کے جو لوگ کسی طریقے سے پہنچے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں اور شیخ کے ذریعے سے جو لوگ پہنچتے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں۔ مثلاً ہم ذرا سا غور سے دیکھیں کہ جتنے بزرگوں کو ہم بزرگ سمجھتے ہیں جن کے ذریعے سے ہماری زندگیاں تبدیل ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں کیا وہ کسی مرشد سے فیض یافتہ ہیں یا بغیر مرشد کے ہیں، گویا آپ ٹیسٹ کر لیں کہ ان میں وہ لوگ زیادہ ہیں جو مرشد کے ذریعے سے اس مقام تک پہنچے ہیں یا وہ ہیں جو بغیر مرشد کے پہنچے ہیں، مجھے تو ایک بھی نظر نہیں آتا، اگر آپ کو نظر آتا ہے تو مجھے بتاؤ۔ مجھے تو جن سے بھی فائدہ ہوا ہے وہ سارے مرشد والے ہیں، جن کو میں بزرگ سمجھتا ہوں، جن کو میں اللہ والا سمجھتا ہوں وہ سارے مرشد والے ہیں۔ لہذا اب کیا کرنا چاہیے؟ ظاہر ہے مجھے بھی مرشد کے پیچھے جانا چاہیے کیوں کہ پوری زندگی کا حاصل ہی یہی ہے۔ یہ بالکل حقائق ہیں جو میں بتا رہا ہوں، ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ ہم کیوں اپنے آپ کو خراب کریں۔ اس لئے حضرت نے فرمایا کہ:

متن:

ایسے پیر و مرشد کا دامن ارادت پکڑیں جو اس راستے پر چلا ہو، اور شریعت کے منازل سے آگاہ ہو۔ اور اسرار و حقیقت کی شراب کا ساغر آشنا ہو۔

تشریح:

یعنی جو حقیقت سے آگاہ ہو۔ کیونکہ ایک ہے میں نماز پڑھتا ہوں یہ تو شریعت پہ چلنا ہے لیکن نماز ایسے پڑھتا ہوں جو قبولیت والی ہو، یہ اسرارِ حقیقت ہے، یعنی میری نماز ضائع نہ ہو یہ اسرارِ حقیقت ہے مثلاً میں خشوع کو اختیار کروں، عاجزی کو اختیار کروں، عبدیت کو اختیار کروں، یہ ساری باطنی چیزیں ہیں، ظاہری نہیں ہیں، لیکن نماز جو ظاہری چیز ہے وہ پوری کی پوری ان چیزوں کے اوپر منحصر ہے اگر یہ چیزیں نہیں ہیں تو نماز کی حقیقت ہی ختم ہو جائے گی۔ جیسے اللہ پاک فرماتے ہیں ﴿أَقِمِ الصَّلاَةَ لِذِکْرِی (طه: 14) "نماز کو قائم کرو میری یاد کے لئے" اس لئے جو نماز ہمیں اللہ کی یاد نہ دلائے اس کی حقیقت ہمیں حاصل نہیں ہے۔ اللہ تعالٰٰی ارشاد فرماتے ہیں: ﴿إِنَّ الصَّلاةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ (العنكبوت: 45) "بے شک نماز منکرات اور برائی سے روکنے والی ہے اور اللہ کی یاد تو بڑی چیز ہے" اس لئے جو نماز آپ کو منکرات سے اور برائی سے نہ روکے کیا نماز کی حقیقت آپ کو حاصل ہے؟ کیوں حاصل نہیں ہے؟ کیونکہ اللہ کی ذات کا ذکر تو بہت بڑی چیز ہے اور وہ اس میں نہیں ہے۔ وہ حقیقت آپ کو اس وجہ سے نہیں مل رہی۔

متن:

تاکہ وہ نفسانی اور شیطانی اعمال دور کرے اور روحانی و رحمانی (کیا زبردست الفاظ ہیں) اعمال کے بارے میں تمہاری رہنمائی کرے۔ کیونکہ اے میرے پیارے بادشاہوں کی خدمت کے طریقے اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے اسرار کے دقائق اس راہ پر چلنے والے راہ شناسوں کی رہنمائی کے بغیر کوئی نہیں جانتا۔

تشریح:

نازک مزاج شاهاں تاب سخن ندارد

یعنی بادشاہوں کے پاس بیٹھنے کے لئے جس حوصلے کی ضرورت ہے وہ آپ کو اس سے ملے گا جو بادشاہوں کے ساتھ بیٹھا ہو ورنہ بادشاہ تک رسائی ہو جائے گی اگلے دن قید خانے میں ہوں گے، کیونکہ بادشاہ کے مزاج کو نہیں جانتے ہوں گے، پتا نہیں کیا سے کیا کر لیں گے۔ اسی طرح ان حضرات کے بغیر کچھ نہیں ہوتا یعنی عبادت کرنا بھی بڑا مشکل کام ہے کیونکہ اس کے لئے اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا بھی ضروری ہے، یہ کیسے جمع ہو گا، یہ تو وہی کر سکتا ہے جو پہلے کر چکا ہو، جس کو یہ چیز حاصل ہو چکی ہو۔ جیسے مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھیں، میں ان کی مثال اکثر اس لئے دیتا ہوں کہ چونکہ وہ زیادہ کھلی بات ہے اور اکثر لوگ اس کو پڑھ چکے ہوتے ہیں، ورنہ سارے اکابر ایک جیسے ہیں۔ حضرت اپنے بارے میں فرماتے ہیں خطا کار، نا بکار، سیاہ کار، پتا نہیں کیا کیا اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ کیا حضرت ایسے تھے؟ کیا وہ جھوٹ بولتے تھے؟ کیا تصنع کرتے تھے؟ یہ ساری باتیں اگر نفی میں ہیں تو پھر وہ کیا چیز تھی؟ مقصد یہ ہے کہ اعمال کے لحاظ سے دیکھو کہ حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا کیا معمول تھا، اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے کچھ چیزیں حضرت نے ایسی واضح فرمائی ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ رمضان شریف کا عمرہ حج کے برابر ہے تو حضرت رمضان شریف میں گئے ہیں تو سحری سے پہلے مسجد عائشہ پہنچتے ہیں، وہیں سحری کر کے احرام باندھتے ہیں اور کمال کی بات یہ ہے کہ فجر کی نماز میں حرم میں پہنچ آتے ہیں اور اس کے بعد پھر عمرہ کرتے ہیں اور عمرہ کرنے کے بعد پھر آرام کرتے ہیں اور یہ روزانہ کا معمول تھا، ایک عمرہ روزانہ کرتے، پورا مہینہ اس استقامت کے ساتھ گزارتے۔ حالانکہ سفر کیا ہوا ہوتا تھا، تھکاوٹ ہوتی تھی، دوسرے نوجوان ساتھی کہتے ہیں ہم ڈھیر ہو جاتے لیکن حضرت تراویح کے لئے کھڑے ہوتے اور نماز پڑھ رہے ہوتے، کوئی چیز تو تھی۔ اسی کو روحانیت کہتے ہیں۔ لیکن اپنے آپ کو کیا سمجھ رہے ہیں خطا کار، نابکار، سیاہ کار۔ اب ان تمام چیزوں کو جمع کرنا کتنا آسان ہے؟ عمل ایسا ہو کہ اس پر لوگوں کو رشک آئے، واہ سبحان اللہ کیا بات ہے۔ لیکن اپنے آپ کو ایسا سمجھیں۔ یہی تو بات ہے، یہی تو ہم نے ان حضرات سے سیکھنا ہے کہ اعمال تو ایسے کریں کہ انسان اس سے اپنے آپ کو عاجز سمجھے لیکن ساتھ ساتھ اپنی نظروں میں گرتے بھی جائیں۔ یہ بات آسان نہیں ہے، تاہم ان حضرات کے ساتھ بیٹھ بیٹھ کر، ان حضرات کے ساتھ رہ رہ کر سمجھ میں آ جاتی ہے۔ پھر ان حضرات کی برکت سے انسان عمل بھی کرتا ہے، ان حضرات کی برکت سے اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے، یہی وہ چیز ہے جو حاصل کرنی ہوتی ہے اور یہ کتابوں سے حاصل نہیں ہوتی، کتابوں سے کہانیاں حاصل ہوتی ہیں، یہ چیز عملی طور پر کسی مرشد کے پاس رہنے سے حاصل ہو سکتی ہے، ورنہ آدمی سمجھتا ہے کہ مجھے یہ حاصل ہے حالانکہ اس کو حاصل نہیں ہوتی اور آدمی محسوس کرتا ہے کہ شاید مجھ میں وہ چیزیں آ گئیں لیکن اس میں وہ چیزیں نہیں آئی ہوتیں۔ دوسری طرف جب کوئی مرشد کے پاس ہوتا ہے تو اس کو وہ چیز حاصل ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ حاصل نہیں ہے، گویا یہ پہلی صورت کی ضد ہے۔ حضرت سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو جب اجازت ملی تو حضرت نے فرمایا کہ مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی کہ یہ کیا ہوا۔ دوسری طرف کچھ لوگ چند دن کے ذکر اذکار کرنے کے بعد اپنے آپ کو خلافت کا اہل سمجھنے لگتے ہیں۔ بالآخر کوئی مسئلہ تو ہے۔ بہرحال حضرت فرماتے ہیں:

متن:

پس اے میرے محبوب، جو کوئی بھی بادشاہ سے ملنے کی طلب کرے، تو جب تک وہ بادشاہ کے کسی مقرب کی حمایت حاصل نہ کرے۔ اپنی مراد نہیں پا سکتا۔

تشریح:

بعض لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، کیوں کہ اکثر لوگ جنہوں نے اس چیز کو سمجھا نہیں ہوتا وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے لئے ہمیں دوسرے کے پاس جانے کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے، بس اللہ ہی مقصود ہے، ہم درمیان میں کسی اور کو کیوں لائیں؟ یہ بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی، اللہ واقعی ہر جگہ ہے، اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے اللہ کے علاوہ کوئی مقصود بھی نہیں ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن وہ کون سی چیز ہے جو اس میں ضروری ہے۔ ایک دفعہ ایک عرب ساتھی سے میری ملاقات ہو گئی اور تقریباً گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ ملاقات رہی، ان کو تصوف کے بارے میں کافی معلومات تھیں، چونکہ عرب تھے تو عربی کتابیں ان کے مطالعہ میں تھیں حضرت سلیمان دامانی امام غزالی اور پتا نہیں کس کس کی کتابیں انہوں نے پڑھی تھیں جن میں سے بعض کے نام بھی مجھے معلوم نہیں تھے، میں ان سے متاثر ہو رہا تھا کہ کیا مطالعہ ہے، میں عش عش کر رہا تھا اور ان کے مطالعہ کی وسعت اور عمق کو دیکھ کر بڑا متاثر ہو رہا تھا، لیکن آخر میں ایک عجیب بات کر گئے، مجھ سے کہتے ہیں کہ میں اپنے اور اللہ کے درمیان کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے فوراً مجھ پر بات کھول دی، میں نے کہا حضرت یہاں تھوڑی سی تصحیح کی ضرورت ہے، کم از کم ایک کو درمیان میں ماننا پڑے گا، انہوں نے کہا کون؟ میں نے کہا حضور ﷺ۔ ان پر بھی یہ بات فوراً کھل گئی کہنے لگے ہاں یہ بات تو صحیح ہے، آپ ﷺ ہمارے اور اللہ کے درمیان یقیناً ہیں، پیغمبر ہیں ورنہ رسالت چٹکی میں ختم ہو جائے، کیونکہ اگر یہ نہیں مانیں گے تو پھر رسول کا کیا مطلب ہے۔ کہنے لگے بالکل صحیح بات کہی آپ نے۔ میں نے کہا پھر اور سنیں رسول اللہ ﷺ اور اپنے درمیان کچھ اور کو ماننا پڑے گا، کہتے ہیں کون؟ میں نے کہا صحابۂ کرام۔ کہنے لگے واقعی، پھر فوراً اس پر وہ دوسری بات کھل گئی کہ واقعی صحابۂ کرام کے بغیر تو ہم رسول ﷺ کو سمجھ نہیں سکتے، ہم نے آپ ﷺ کو نہیں دیکھا، جنہوں نے دیکھا ہے انہی کے ذریعے سے ہم لے سکتے ہیں۔ میں کہتا ہوں یہ اتنا بڑا علم تھا جو اللہ پاک اس وقت دے رہا تھا کہ اللہ کرے کہ اس پر شکر کی توفیق نصیب ہو جائے، کیوں کہ اللہ کی ذات وراء الوراء ہے، وہ قادر و قدیر ہے، جس کے ساتھ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ درمیان میں کوئی اور ہونا چاہیے، رسول اللہ ﷺ نے اس بات کو عملاً ظاہر کر دیا کہ ہونا چاہیے، بہت بڑا jump cover ہو گیا۔ اب آپ ﷺ اور ہمارے درمیان تو یہ ساری باتیں سمجھ میں آ جاتی ہیں کیونکہ ہم نے آپ ﷺ کو دیکھا نہیں ہے، جنہوں نے آپ ﷺ کو دیکھا ہے انہی کے ذریعے سے ہی ہم آپ ﷺ کو جان سکتے ہیں، لہذا صحابہ کا ہونا لازم ٹھہرا ورنہ ہم آپ ﷺ کو جان ہی نہیں سکیں گے۔ نیز میں نے کہا صحابہ کو سمجھنے کے لئے بھی کچھ لوگ ہمیں درمیان میں ماننے پڑیں گے، کہتے ہیں وہ کون؟ میں نے کہا فقہاء۔ یہ بات بھی ان کو فوراً سمجھ میں آ گئی، کہنے لگے ہاں بالکل۔ کیوں کہ صحابہ کی باتوں کا عملاً نچوڑ نکالنا اور ان کو عملی مسائل میں ڈھالنا فقہا کا کام ہے، جن بد بختوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی وہ ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ فقیہ کا کام ہے حدیث سے سنت تک لانا۔ آپ ﷺ نے فرمایا ہے میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسری میری سنت۔ میری حدیث نہیں فرمایا۔ یہ غلط فہمی ہے۔ سنت مطلوب ہے حدیث اس کا ذریعہ ہے۔ ہزاروں حدیثوں میں آپ کو ایک سنت مل سکتی ہے، ہزاروں حدیثوں سے ایک سنت کی تشریح ہوتی ہے، اگر وہ سنت آپ کو مل گئی تو آپ کو حدیث شریف کا نچوڑ مل گیا۔ اب یہ کام کون کرے گا؟ فقہا کریں گے۔ کہنے لگے ہاں بالکل صحیح بات ہے۔ میں نے کہا فقہا کے ذریعے سے حاصل شدہ علم کو عمل میں لانے کے لئے کچھ اوروں کی ضرورت ہے، کہتے ہیں کون؟ میں نے کہا صوفیا۔ وہ چونکہ کتابیں پڑھ چکے تھے فوراً کہنے لگے بالکل ٹھیک ہے۔ اب ان کو ساری کتابوں کا نچوڑ مل گیا، لیکن درمیان میں کچھ باتیں مزید کرنے کے بعد۔ حالانکہ یہ چیزیں انہی کتابوں کے اندر موجود تھیں، میرے پاس اوپر سے کوئی وحی یا الہام نہیں آیا تھا کہ میں نے اس کے ذریعے سے بات کی ہو۔ بلکہ یہ ساری کتابوں کے اندر موجود ہیں لیکن مستحضر کرنا اللہ جل شانہ کا کام ہے کہ کس علم کو کس وقت مستحضر کرایا جائے، یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت وہ فضل ہو گیا، نتیجتاً ان کو بھی وہ بات سمجھ میں آ گئی۔ پھر میں نے کہا کہ ہمارے لئے ان تمام صوفیا کا نچوڑ شیخ ہے، کہنے لگے ٹھیک ہے۔ اس وقت بس "ٹھیک ہے" تک بات رہ گئی۔ لیکن الحمد للہ چند دنوں کے بعد وہ تشریف لائے، بیعت ہوئے اور الحمد للہ ذکر و اذکار کر رہے ہیں، کبھی کبھی تشریف لاتے ہیں۔ میرا مقصد یہ ہے کہ یہ بات سمجھ میں آنا واقعتاً مشکل ہے۔ اس طرح کے لاکھوں لوگ ہیں جن کو یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی اور اس چیز کے علم کے باوجود سمجھ نہیں آتی یعنی اس چیز کو جانتے ہوئے بھی انہیں ان چیزوں کا علم نہیں ہے وہ اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے مستغنی قرار دیتے ہیں حالانکہ مستغنی کیسے ہو سکتے ہیں، خود ہی پڑھتے ہیں کہ یہ ساری باتیں سب کے ساتھ کیسے ہوئیں، میں کیسے اپنے آپ کو مستثنیٰ قرار دے سکتا ہوں، مجھ میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں کہ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے تو یہ طریقہ اختیار کیا گیا ان کو براہِ راست نہیں دیا گیا، ان کو کسی مرشد کے ہاتھ میں دے دیا گیا اور میں کہوں کہ مجھے براہِ راست ملے گا۔ یہی بنیادی بات ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

متن:

اسی طرح جو شخص بھی اللہ جل جلالہ کی رضا جوئی کو تلاش کرے، تو جب تک کسی رہ شناس اور منزل آگاہ شخص کا دامن نہ پکڑے اپنی منزل مقصود کو نہیں پہنچے گا۔ سلوک کی چند حکایتوں کے ذریعے جو کہ جواں مردوں کی حکایتیں ہوتی ہیں۔

تشریح:

یہاں بھی وہی بہت عجیب بات ہو رہی ہے۔

جواں مردوں کی حکایتیں ہوتی ہیں یعنی جنہوں نے اس میں سے اپنی زندگی گزاری ہوتی ہے استقامت ظاہر کی ہوتی ہے پورا عرصہ استقامت کے ساتھ اس پہ چلے ہوتے ہیں۔

متن:

نامردوں کی زبان سے ادا کئے جائیں۔

تشریح:

یعنی جو اس کے لئے ایک لمحہ بھی نہیں دے سکتے وہ نا مرد ہیں۔ اور جو پوری زندگی اس پر پابند رہیں استقامت اختیار کریں وہ مرد ہیں۔

متن:

کام کب اور کیسے درست ہو گا۔ اس راستے میں ہدایت کے لئے مرد کامل چاہیے، تاکہ انسان کو مراد تک پہنچائے چند رکعتوں اور چند حکایتوں سے کیا چیز درست ہو گی۔

تشریح:

صحیح بات ہے پورا آپریشن ہے، یہی وہ چیز ہے جو ہمارے بزرگ فرماتے ہیں، کبھی پنجابی زبان میں فرماتے ہیں، کبھی پشتو زبان میں فرماتے ہیں، رحمٰن بابا پشتو میں کہتے ہیں اور بلھے شاہ اور سلطان باہو اور کئی حضرات پنجابی میں فرماتے ہیں، باتیں تو ایک ہی ہیں، لیکن چونکہ درمیان میں ربط نہیں جانتے ہیں لہٰذا پڑھتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں۔ اب کیا یہاں رکعتوں کی مخالفت ہے؟ رکعتوں کی مخالفت نہیں ہے اگر کوئی جانتا نہ ہو تو وہ رکعتوں کی مخالفت شروع کر دے گا، یہ نماز پڑھ رہا ہے، کیسے پڑھ رہا ہے، اس کی کیا ضرورت ہے؟ حالانکہ ان حضرات نے یہ بات کی ہی نہیں ہے، نہ بابا بلھے شاہ نے یہ بات کی ہے نہ ہی سلطان باہو رحمۃ اللہ نے کی ہے اور نہ رحمٰن بابا نے کی ہے، کسی بزرگ نے بھی شریعت کے اعمال کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن شریعت کے ظاہر کو کافی سمجھنے کی مخالفت ضرور کی ہے کہ اس کو کافی نہ سمجھو، ظاہر چھلکا ہے اور اس کے اندر جو حقیقت ہے وہ گری ہے، اس لئے جب تک آپ کو کسی عمل کی حقیقت حاصل نہ ہو، آپ صرف اس کے ظاہر پر کیسے مطمئن ہو سکتے ہیں۔

متن:

پس اے میرے محبوب جیسا اللہ تعالیٰ کی عنایت ازلی کسی مرید کے بارے میں نصیب ہو جائے۔ تو اللہ تعالیٰ اس مرید کو ایک ایسے پیر کی محبت نصیب فرماتا ہے کہ اُس پیر کا ظاہر علوم شریعت سے آراستہ ہوتا ہے، اور اس کا باطن کمال معرفت اور حقیقت سے مزین ہوتا ہے۔

تشریح:

اللہ کا ساتھ، اللہ کا فضل، اللہ کا کرم ہوتا ہے۔ الحمد للہ میں اکثر انتہائی محبت اور شوق کے ساتھ کہا کرتا ہوں کہ ہم نے پشاور یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا، کسی مدرسے میں داخلہ نہیں لیا تھا، کسی خانقاہ میں داخلہ نہیں لیا تھا، ایک دنیاوی چیز کے لئے گئے تھے، یہ ہم مانتے ہیں یہ ہم چھپا تو نہیں سکتے، بات بھی یہی تھی۔ تاہم اللہ کا فضل ہوا کہ ہمیں اللہ والوں کے ساتھ بٹھا دیا، یہ اس کا کرم ہے اگر وہ کرم نہ کرتا تو ہم کیا کرتے۔ حضرت تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمارے خاندان کے بزرگ گزرے ہیں ایک دفعہ میں نے انہیں بڑے شوق اور محبت کے ساتھ کہا کہ حضرت میں بڑا خوش قسمت ہوں، فرمایا کیسے؟ میں نے کہا الحمد للہ یونیورسٹی گیا تو مولانا صاحب مل گئے، خاندان میں آپ تک رسائی ہوئی، فلاں جگہ گیا تو فلاں سے ملاقات ہو گئی، فلاں جگہ گیا تو فلاں سے ہو گئی۔ حضرت نے فرمایا ہاں واقعی تم خوش قسمت یقیناً ہو، لیکن سب کے لئے یہ مواقع موجود ہیں، اللہ پاک نے ہر جگہ لوگوں کو بٹھایا ہے، ہاں جس پر اللہ کا فضل ہو جائے ان تک پہنچا دیتا ہے، بات تو بالکل صحیح ہے، ہوتے تو ہیں، یہ الگ بات ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ موجود تھے، لیکن بعض لوگوں کو پتا ہی نہیں چلا کہ مولانا صاحب ادھر ہیں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے، یہ خط میرے پاس آیا تھا محمد زمان گاؤں علی روحان ڈاکخانہ سخا کوٹ ضلع مالا کنڈ، یہ صاحب انجینئرنگ میں مجھ سے ایک سال جونیئر تھے ، ایک ہی کالج میں ہم پڑھے تھے۔ کسی اور کے ذریعے سے ہماری اعتکاف کی مجلس میں آئے، امام دین خان صاحب جو ہمارے ہاں آتے ہیں ان کے ذریعے سے آئے، ہمارے ساتھ اعتکاف میں تھے، 10 راتیں 10 دن ہمارے ساتھ گزارے، اب میری مولانا صاحب کے بارے باتیں ہو رہی ہیں، مولانا صاحب کو تو وہ بھی جانتے تھے، مجھے کہتے ہیں اف! میں مولانا صاحب کے گھر کے سامنے سے روزانہ گزرتا تھا، میرا راستہ ہی وہی تھا، مجھے تو یہ باتیں نہیں معلوم جو آپ سے سن رہا ہوں۔ کاش مجھے پہلے معلوم ہوتیں تو میں بھی حضرت کی مجلس میں شامل ہوتا، یہ باتیں مجھے پہلے کیوں معلوم نہیں تھیں۔ حالانکہ یہ صاحب مجھ سے ایک سال جونیئر ہیں۔ جب کہ ہم جماعت تھے اور ہم جماعت کے ساتھ ساتھ جو ہوتے ہیں ان کے ساتھ بڑی بے تکلفی ہوتی ہے لہٰذا وہ کسی کی نہیں مانتے۔ لیکن چونکہ طلب تھی اس لئے اللہ نے ان پر بڑا فضل فرمایا، معمولات کے بڑے پکے ہیں اور اپنے معمولات کا پورا ایک postmortem کر کے معمولات کا chart مجھے ہر مہینے با قاعدگی کے ساتھ بھیجتے ہیں اور لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ پتا نہیں ان کو کیا ہو گیا کہ اس طرح لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے مولانا صاحب کو ایسے نہیں دیکھا جیسا دیکھنے کا حق ہے، صرف مولانا صاحب کو دیکھنے والوں کو دیکھا ہے، اگر مولانا صاحب کو دیکھتے تو پھر کیا ہوتے؟ کتنا فائدہ ہوتا ہے۔ اصل میں یہی بنیادی چیز ہوتی ہے، ہم لوگ اس کو نہیں جانتے، ہم سمجھتے ہیں ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے۔ اور جب ہم مولانا صاحب کی مجلس میں جاتے تو بعض لوگ اس وقت شاید سوچتے کہ یہ روزانہ ادھر کیوں جاتے ہیں، عصر سے لے کر مغرب تک ادھر بیٹھے رہتے ہیں، حالانکہ یہ وقت تو کھیلنے کا ہوتا ہے، کیونکہ اس وقت لوگ کھیلتے ہیں، کوئی volleyball کھیلتا ہے، کوئی basket ball کھیلتا ہے، کوئی کیا کھیلتا ہے، کوئی کیا کھیلتا ہے، یہی وقت ہوتا ہے طالب علموں کے کھیلنے کا۔ لیکن ہم اس وقت حضرت کے پاس ہوتے۔ مقصد یہ ہے کہ یہ چیزیں واقعتاً اللہ کی طرف سے ہی ملتی ہیں، جن پر اللہ کا فضل ہوتا ہے ان کو ملتی ہیں۔

متن:

اور غرور و تکبر کی آنکھیں اس نے باہر نکال پھینک دی ہوتی ہیں، (یہ مشائخ کے بارے میں فرما رہے ہیں) حرص اور لالچ کے دامن کو قناعت کے پتھروں سے بھروایا ہوتا ہے۔ اس پیر کا ظاہر شریعت کے سیدھے راستے پر قائم ہوتا ہے۔ اور اس کا باطن ریاضت کی بھٹی میں کندن بن چکا ہوتا ہے۔ اور اُس سے ہر گھڑی مرید کے دل کی کھیتی میں لطائف کا تخم کاشت کرتا ہے۔ اور ہر دن وہ تخم حقائق کے آداب کے دقائق سے سیراب ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس نیک توجہ اور نصیحت کے قبول کرنے اور اللہ کریم کی عنایت سے مرید کے مقبول اعمال صالحہ اور پسندیدہ کردار شریف احوال اور مسنون مقامات میں روز بروز اضافہ ہوتا ہے۔

تشریح:

یہ باتیں ہر ایک نہیں لکھ سکتا، یہ نچوڑ ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جیسے انسان کسی چیز کو دیکھ رہا ہو اور دیکھ دیکھ کر لکھ رہا ہو۔

متن:

اور غیبی واردات کی خوشبو کے جھونکے مرید کے دل کے باغ میں محسوس ہوتے ہیں۔ اور اس مرید مقبول کا باطن صفا و طہارت کے انوار اور وفا و محبت کے اسرار سے منور ہو جاتا ہے۔ پس اے میرے پیارے، یہ تمام مذکورہ نشانیاں مقبول مرید کی ہیں۔ بصورت دیگر بے بہرہ اور بد نصیب مرید کی نشانی یہ ہے کہ کسی جاہل شیخ کے پاس جا کر اُس جاہل جس کا دل تاریک ہو اور جس کی خصلت سر تا پا حیوانی ہو اور اُس کے بارے میں یہ کلام ربانی پورے طور پر منطبق ہو۔ ﴿ کَلَّا اِنَّھُمْ عَنْ رَّبِّھِمْ یَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوْبُوْنَ (المطففین: 15) ترجمہ:۔ بے شک یہ لوگ اس روز اپنے پروردگار کے دیدار سے اوٹ میں ہوں گے۔ اگرچہ یہ آیت شریف کافروں کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ مگر جب تم طریقت میں جاؤ تو لاکھوں کفر سامنے پیش آئیں گے۔

تشریح:

ایک ہوتا ہے کفرِ شریعت اور ایک ہوتا ہے کفرِ طریقت۔ یہ بات بھی ذرا سمجھنی چاہیے کفر شریعت میں انسان کافر ہو جاتا ہے، اس پر کفر کا اطلاق ہوتا ہے اور اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے، اس کی نمازیں ضائع ہو جاتی ہیں اور پھر اگر دوبارہ ایمان نصیب نہ ہو تو ہمیشہ کے لئے خسارے میں چلا جاتا ہے، یہ کفرِ شریعت ہے۔ کفرِ طریقت یہ ہے کہ جو چیزیں حاصل ہونا چاہیے تھیں وہ حاصل ہونے سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک شعر ہے:

کافَرِ عِشقَم، مُسلمانی مرا در کار نیست

ہر رگِ من تار گشتہ، حاجتِ زنّار نیست

"میں عشق کا کافر ہوں، مجھے مسلمانی درکار نہیں، میری ہر رگ تار تار ہوچکی ہے، مجھے (کافروں کی طرح) زُنار کی حاجت بھی نہیں ہے"

چونکہ لوگ پھر نہیں سمجھ پاتے، در اصل وہ یہی بات ہوتی ہے۔ چنانچہ کفرِ طریقت یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے مشائخ سے جو چیزیں حاصل کرنا چاہتا ہے ان کے حاصل کرنے سے رہ جاتا ہے، یہ کفرِ شریعت نہیں ہے یعنی اس پر شرعاً کافر کا level نہیں لگایا جا سکتا، لیکن محرومی اس کو ہو جاتی ہے، جو چیزیں حاصل کرنی تھیں ان سے وہ رہ جاتا ہے۔

متن:

اس کے بعد ہر روز وہ گمراہ شیخ نام نہاد تقلید کی تاریکیوں اور رسمی عبادتوں کے بندھن اُس مرد کے گرد سخت کرتا جاتا ہے۔ اور باطل تصورات اور فاسد خرافات سے اس بے چارے پر حق کا راستہ بند کرتا ہے۔

تشریح:

آج کل ایسا ہی ہے، یعنی گانٹھیں لگاتے رہتے ہیں کہ اس طرف بھی نہ دیکھو، یہ بھی نہ دیکھو، یہ بھی نہ ہو، یہ بھی نہ ہو۔ اور تمام راستے اپنی طرف کھول کے رکھتا ہے اور باقیوں کے لئے بند کرتا رہتا ہے۔

متن:

اور گمراہی اور بدعتوں کے کانٹے اس بے چارے مرید کے راستے میں بچھاتا رہتا ہے اور ہر گھڑی کمینگی اور ضیانت کے بیج اس کے دل میں کاشت کرتا ہے اور اس کا باطن حرص اور حسد کی غلاظت سے گندہ اور پلید کرتا ہے۔ اے میرے محبوب، "لَیْسَ الْخَبَرُ کَالْمُعَایَنَۃِ" یعنی شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔

تشریح:

یعنی سننے والا ہے دیکھنے والے کے برابر کہاں ہو سکتا ہے؟

متن:

اس لئے زمانے کے پیروں اور مریدوں کے حال پر نظر کرنی چاہیے کہ ابلیس کے دھوکے اور فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اور اس کے با وجود فقر کا نام اپنے ساتھ لگایا ہے۔

تشریح:

اپنے آپ کو فقیر کہتے ہیں لیکن فقر سے بہت دور ہوتے ہیں، ان کی نس نس میں دنیا پرستی ہوتی ہے لیکن اپنے نام کے ساتھ فقیر کا لفظ لگایا ہوتا ہے۔

متن:

اور متقیوں اور اولیاء اللہ کا لباس پہن رکھا ہے۔ اور اس لباس میں مقبولان درگاہ ایزدی کے شکل میں دکھائی دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو اہل یقین کی شکل و صورت میں پیش کرتے ہیں۔ ان کا شعار رندی اور کھیل کود اور ان کے مجلس کے آداب بدعت اور بے نمازی اور ان کے وجد و حال رفض اور خواہشات کی تکمیل "سِمَاعٌ حَرَامٌ لِلْعَوَامِ لِبَقَاءِ فُتُوْرِھِمْ" عوام کے لئے اس کی سستی کی وجہ سے حرام ہے۔ ان کی مجلس جھگڑا فساد ان کے اسرار و خلوت تفرقہ اور خباثت اور حرام کی کمائی پر فخر کرنا، اور اسی طرح ان کا افتخار اور سبقت قباحت اور بے حیائی کے امور میں ہوتا ہے۔

تشریح:

جاہل پیروں کا کیا کمال کا نقشہ کھینچا ہے۔

متن:

عام جاہل لوگ جو کہ جانوروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں، ان مردود لوگوں کو جو کہ نفس کے تقاضوں اور خواہشات نفسانی کی پیروی کرتے ہیں۔ اور اباحت اور کفر کا نام طریقہ رکھا ہے۔ اور اسی کو طریقہ کہتے ہیں۔ یہ سب دین اسلام کی حقیقتوں سے بے گانہ ہیں۔ اور ان کے مرید ان گمراہوں کے ساتھ ضلالت اور گمراہی کے صحرا کے اس سفر میں سر گشتہ اور گمراہ ہو گئے ہیں۔ پس اے میرے پیارے یہ بات گرہ میں باندھ کے رکھ لے کہ جب تک دل کا آئینہ بشری صفتوں کی برائیوں سے پاک نہ ہو، ایمان اور اسلام کی روشنی اور انوار دل میں کبھی نہیں آ سکتے، اور جس کسی کے اعمال و کردار میں اخلاص نہ ہو، اور ہمیشہ خواہشات نفسانی کا تابع اور فرمانبردار ہو وہ کبھی بہبود و نجات کی شکل بھی نہ دیکھ سکے گا۔ کیونکہ ان سب کا آئینہ دل کو بشری اوصاف کی کدورتوں سے صاف رکھنا اور اعمال و کردار کو ہر اخلاص بنانے کا میوہ اور حاصل اسلام ہے اور اسلام کی حقیقت حکم ماننا ہے۔ اور نفس کی مخالفت کرنا بھی احکام میں سے ایک حکم ہے۔ "اَوْحَی اللہُ تَعَالٰی اِلٰی مُوْسٰی فَقَالَ یَا مُوْسٰی اِنْ اَرَدْتَّ رَضَائِیْ فَخَالِفْ نَفْسَکَ اِنِّیْ لَمْ اَخْلَقَ خَلْقًا یُنَازِعُنِیْ غَیْرَہ" "اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بذریعہ وحی حکم فرمایا کہ اے موسیٰ اگر تم کو میری رضا جوئی مطلوب ہو تو اپنے نفس کی مخالفت کر کیونکہ میں نے اس کے سوا کوئی دوسری مخلوق ایسی نہیں بنائی جو میرے ساتھ نزاع کرے"۔ پس نفس کا حکم ماننا تمام معصیتوں اور گناہوں کی جڑ ہے۔ اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ خیبر کے جہاد سے واپس تشریف لائے "فَقَالَ یَا اَصْحَابِیْ غَزَوْنَا الْجِھَادَ الْاَصْغَرَ وَ بَقِیَ الْجِھَادَ الْاَکْبَرَ وَھِیَ جِہَادُ النَّفْسِ جَاھِدُو النَّفْسَ الَّتِیْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ" "آپ ﷺ نے فرمایا، کہ اے میرے اصحاب کرام ہم نے چھوٹا جہاد تو کر لیا، اور بڑا جہاد باقی رہ گیا ہے، اور وہ نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے۔ پس تم اس نفس کے ساتھ جہاد کرو جو تمہارے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے"۔ اے میرے پیارے، عارف وہ ہے جو اغیار (غیر اللہ) کی ہستی کا نقش اپنے وجود کی تختی سے مٹا کر دھو لے۔

تشریح:

یہاں بھی ذرا بحث کی ضرورت ہے، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کے بارے میں بھی بڑی باتیں ہوتی ہیں جہاد اکبر اور جہاد اصغر سے مراد لینا کہ جو خانقاہ میں بیٹھا ہے وہ میدان میں لڑنے والے مجاہد سے اچھا ہے، یہ غلط ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر حالت میں، ہر وقت کسی کام کو اللہ کے لئے کرنے اور اپنے نفس کے لئے کرنے میں جو نزاع ہو اس میں اپنے آپ کو حق پر قائم رکھنا جہاد اکبر ہے۔ یعنی صرف ایک وقت نہیں بلکہ ہر ہر وقت، ہر ہر لمحے وہ دیکھتا ہے کہ میں نفس کی مان رہا ہوں یا میں اللہ کی مان رہا ہوں، میں اللہ کا بندہ ہوں یا نفس کا بندہ ہوں۔ قرآن پاک میں اس بارے میں ہے: ﴿وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ(النازعات: 40) چنانچہ ہر ہر لمحے اس کا خیال کرنا کہ انسان اپنے نفس کی ماننے سے بچ جائے اور اللہ کی بندگی میں آ جائے یہ جہادِ اکبر ہے اور کافروں کے ساتھ جو جہاد ہے اس میں بھی یہ جہاد ہے اور بہت بڑے پیمانے پر ہے کیونکہ اس وقت تو اور زیادہ مشکل ہوتی ہے لیکن جو جہاد اس چیز سے خالی ہو وہ جہاد ہی نہیں رہتا وہ تو جدال رہ جاتا ہے، وہ صرف ایک قصاص بن جاتا ہے۔ اور یہ چیز چونکہ ہمیشگی کے لئے ہے اس لئے اس کو جہادِ اکبر کہا گیا، یہ مطلب نہیں کہ وہ جہاد اکبر نہیں ہے، وہ چونکہ تھوڑے عرصے کے لئے ہے اس لئے اس کو جہادِ اصغر کہا گیا ہے کہ تھوڑے عرصے میں اپنے اوپر قابو پانا آسان ہے بمقابلہ زیادہ عرصہ کے لئے قابو پانے کے۔ کیونکہ جو انسان جہاد کر رہا ہوتا ہے تو عمر کا سارا حصہ تو اس طرح نہیں ہوتا۔ جیسے صرف ایک رات کو دو گھنٹے مسلسل عبادت میں کھڑے ہونا مشکل نہیں ہے، لیکن اگر ہر روز 2، 2 گھنٹے کے لئے کھڑے ہو جائیں تو مشکل ہو گا۔ بلکہ دو گھنٹے تو کیا صرف آدھا گھنٹہ ہر روز کے لئے کھڑا ہونا مشکل کام ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں اگر میں 30 کلو وزن 10 منٹ کے لئے اٹھاؤں تو یہ مشکل نہیں ہے لیکن اگر میں 5 کلو وزن 15 میل تک لے جاؤں تو یہ مشکل ہے۔ چنانچہ جہادِ اکبر اور جہادِ اصغر کی بھی یہی مثال ہے کہ جہادِ اکبر یہ ہے کہ تسلسل کے ساتھ اپنے آپ کو اللہ جل شانہ کا بنائے رکھنا اور نفس کا نہ بننے دینا۔

متن:

بیت ؎

ہر کہ ایں سعادت رو نمود

ابواب مواہب غیبی برو کشود

جس کسی کو یہ سعادت ہاتھ آئی تو غیب کے فیوضات و مواہب کے دروازے اُس پر کھل گئے اور خوف و اُمید اور ترقی و تنزل اور دنیا و آخرت کی فکر و خیال سے نجات حاصل کر گیا۔ اے میرے پیارے، کافر تو آپ کو جان سے مارنے کا ارادہ کرتے ہیں، اور یہ مکار نفس آپ کے ایمان کو ختم کرنے کے درپے ہے،

تشریح:

یہ بہت بڑا نکتہ ہے کہ کافر تو آپ کو جان سے مار دے گا، اس کے علاوہ اور کیا کر سکتا ہے، لیکن نفس آپ کے ایمان کو ختم کرنا چاہتا ہے۔

متن:

یعنی یہ ایسا دشمن ہے کہ تمام زخم اپنے دوست اور ساتھی پر لگاتا ہے اور ایسا کافر ہے جو اپنا گھوڑا دوست اور محبت کرنے والے پر دوڑا کر اسے روندتا ہے۔ جو کوئی نفس کی دوستی میں جس قدر کوشش کرتا ہے، تو ابدی ہلاکت کا زہر اُس قدر نوش کرتا ہے، جو کوئی نفس کے عشوہ و ناز پر جتنا فریفتہ ہوا اپنے دین و ایمان کی عزت اُس قدر گنوائی۔

تشریح:

میرے خیال میں یہاں تک کافی ہے کیونکہ اس کے بعد نماز کا وقت ہو جائے گا اور ان شاء اللہ العزیز ذکر بھی کرنا ہے، اللہ جل شانہ ہم سب کو بزرگوں کے فیوض و برکات نصیب فرمائے۔

وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔