مطالعہ سیرت بصورت سوال


خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی، پاکستان


اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ


سوال:

حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ ﷺ جب کوئی کام کرتے تھے تو اس پر مداومت فرماتے تھے۔ اس حدیث شریف کی روشنی میں وہ کون سے ذرائع ہیں جن کو استعمال کر کے ہم نیک اعمال پر مداومت اختیار کر سکتے ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جو ہمارے لئے مداومت اختیار کرنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں؟

جواب:

اس سوال میں آپ ﷺ کی عادت مبارکہ بیان کی گئی ہے کہ آپ ﷺ جب کبھی کوئی عمل شروع کرتے تھے تو اس کو دوام یعنی ہمیشگی کے ساتھ کرتے تھے، اِلَّا یہ کہ کوئی ایسی مجبوری پیش آجاتی کہ جس کی وجہ وہ کام چھوڑنا پڑ جاتا، جیسے بیماری یا کوئی اور مجبوری۔ بہر حال آپ ﷺ یہ پسند فرماتے تھے کہ جب بھی کوئی عمل شروع کریں تو دائمی طور پہ کریں۔ اس میں سب سے پہلی بات یہ ذہن نشین کرنی چاہیے کہ فرائض و واجبات پر عمل پیرا ہونا اور حرام اور مکروہات سے بچنا ایک دائمی امر ہے، جن پر کار بند رہنا ہر مسلمان کے لئے لازمی ہے۔ کیونکہ ان کی خلاف ورزی گناہ گار ہونے کا باعث ہے۔ لہذا آپ ﷺ سے یا صحابہ کرام سے ایسی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان امور میں دوام نہیں کرتے ہوں گے۔ لہذا یہ طے شدہ بات ہے کہ اوامر و نواہی میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جیسے کوئی آدمی ایک دن پانچ نمازیں پڑھے اور دوسرے دن چار پڑھے، پھر کبھی چھ پڑھ لے اور کبھی دو پڑھ لے، تو یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ فرائض و واجبات میں نہ زیادتی ہو سکتی ہے اور نہ ہی کمی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح حرام کاموں میں بھی چناؤ نہیں ہوتا، بلکہ ان سے ہمیشہ کے لئے مستقل طور پر بچنا ہر حال میں ضروری ہے۔ گویا دوام والی بات زائد امور میں ہے، جیسے نفلی امور یا مستحبات۔ اور مباحات میں بھی انہماک مناسب نہیں ہے کیونکہ یہ بھی مکروہ کے ساتھ ملانے والی چیز ہے۔ چنانچہ مباحات میں بھی دوام نہیں ہو سکتا۔ لہذا مستحبات و نوافل اور زائد امور میں یہ سنت ہے کہ جو کام بھی کسی نے شروع کیا ہو تو اگرچہ اس کو اختیار ہے کہ وہ بعد میں کرے یا نہ کرے لیکن پسندیدہ یہ ہے کہ اس عمل کو دائمی طور پر جاری رکھے۔ مثلاً ایک آدمی تہجد نہیں پڑھتا تو علیحدہ بات ہے کہ یہ مستحب امر ہے، لہذا اگر کوئی نہیں پڑھتا تو اس کو اجر نہیں ملے گا اور نہ کرنے پر اس کو کوئی گناہ نہیں ہو گا اور نہ کوئی سزا ہو گی اور اس کی برکات بھی نہیں ملیں گی۔ لیکن جب پڑھنا شروع کرے تو اس کو چھوڑنے کی بجائے پڑھتا رہے جو ایک اچھی عادت ہے۔ اب یہ سوال کہ وہ کون سے عوامل ہیں جو انسان کو دوام سے ہٹا سکتے ہیں؟ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ انسان اپنے نفس پر اتنا بوجھ نہیں ڈالے جتنا وہ اٹھا نہ سکتا ہو، جیسے ایک شخص بیس کلو وزن پانچ منٹ کے لئے آسانی سے اٹھا سکتا ہو، لیکن اگر وہ دو کلو وزن ایک میل تک اٹھا کر لے جانا چاہے گا تو وہ اس کے مقابلے میں مشکل ہو گا حالانکہ بیس کلو وزن زیادہ ہوتا ہے اور اس میں زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے، لیکن یہ تب ہوتا ہے جب وہ تھوڑی دیر کے لئے اٹھائے، لیکن اگر زیادہ دیر کے لئے ہو تو تھوڑا بوجھ بھی مشکل ہو جاتا ہے، اس کے برعکس اگر آہستہ آہستہ وزن بڑھایا جائے تو کم محسوس ہو گا۔ مثلاً پہلے دو کلو لے جائے، پھر چند دنوں کے بعد ڈھائی کلو لے جانا شروع کر دے، پھر تین کلو لے، پھر ساڑھے تین کلو، پھر چار کلو لے جانا شروع کردے، تو عین ممکن ہے کچھ عرصے کے بعد بیس کلو لے جانا اس کے لئے مشکل نہ ہو۔ جیسے مزدور لوگ بیچارے یہی کرتے ہیں، بلکہ پہاڑی علاقوں کے لوگ بیس کلو کے توڑے کے ساتھ ہاتھ میں کوئی اور چیز بھی پکڑ کر پہاڑوں پر چڑھتے ہیں اور نیچے بھی اترتے ہیں۔ وہ کیسے کرتے ہوں گے؟ جب کہ فاصلہ بھی زیادہ ہوتا ہے اور ساتھ مزید سامان بھی ہوتا ہے، اور پھر کسی اور چیز کی رسائی بھی نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ کوئی ہمت کرائے یا اس کی مدد کرے۔ بس شروع کرتے ہیں تو چلتے رہتے ہیں۔ اور مکان بھی دور دور ہوتے ہیں، کیونکہ پہاڑی علاقوں میں قریب قریب مکان نہیں ہوتے۔ تو اگر کوئی مسئلہ ہو جائے تو کوئی مدد کرنے والا نہیں ہوتا۔ لیکن ان لوگوں کی اتنی پریکٹس ہوتی ہے کہ وہ کوئی پرواہ نہیں کرتے اور یہ کام ان کا معمول ہے۔ لیکن ہمارے لئے وہ بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ تدریجی عمل کے ذریعے سے انسان پختگی پیدا کر سکتا ہے۔ بعض لوگ کچھ انفعالی طبیعت کے ہوتے ہیں کہ جیسے کسی کو دیکھا کہ یہ اچھی بات ہے تو اس کے ساتھ ہی وہ کام شروع کر لیں گے۔ جیسے یہ ورزش اور چہل قدمی کرنے والے بعض لوگ بڑے پُر جوش ہوتے ہیں کہ شروع میں ہی پانچ میل تک چلے جا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن جب اگلی دفعہ دیکھیں تو لیٹے ہوتے ہیں۔ حالانکہ خدا کے بندے استقامت سے کام لینا چاہیے تھا۔ جیسے کہا جاتا ہے: "اَلْاِسْتِقَامَةُ فَوْقَ الْكَرَامَةِ" لہٰذا اس کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی تدریج کے ساتھ چلے اور رہنمائی میں چلے، رہنمائی سے مراد یہ ہے کہ انسان کو اپنے نفس کی کمزوری خود نظر نہیں آتی، دوسروں کو نظر آ جاتی ہے، کیونکہ اس کے ساتھ اس کی انفعالیت اور جذباتیت اور اس طرح کی دوسری چیزیں ہوتی ہیں جو انسان کے فیصلوں پر اثر ڈالتی ہیں جب کہ دوسرے میں وہ نہیں ہوتیں، لہذا وہ ایک تحقیقی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں۔ دوسرا اگر تجربہ کار ہو تو اس کی نظر نسبتاً کافی متوازن ہوتی ہے، لہذا وہ آپ کو وہی بتائے گا جو آپ کے لئے مفید ہو۔ ورنہ بعض دفعہ انسان اپنے اوپر زیادتی کر بیٹھتا ہے، اور اتنا کام نہیں کر سکتا جتنا اپنا ٹائم ٹیبل بناتا ہے، نتیجتاً اس کا ٹائم ٹیبل ٹوٹ جاتا ہے، اور جب ایک دفعہ ٹوٹتا ہے تو انسان اٹھنے کی کوشش کرتا ہے اور جب دوسری دفعہ ٹوٹتا ہے تو پھر بھی انسان کوشش کرتا ہے، لیکن جب تین چار دفعہ ٹوٹتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ میں ایسا کر ہی نہیں سکتا، لہذا معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ شیطان نے ایسی رکاوٹ لگا دی کہ اب آپ اُٹھ ہی نہیں سکتے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ میری اسکیم فیل ہو گئی۔ لیکن اصل اسکیم فیل نہیں ہوئی۔ بلکہ یوں سمجھیں میں نے جو طریقہ کار اختیار کیا تھا وہ غلط تھا، لہذا میں اس تجربے سے فائدہ اٹھا کر کسی تجربہ کار کا سہارا لوں اور اس کے ساتھ مشورہ کروں کہ میں نے یہ کام کرنا تو ہے لیکن کس طرح کروں؟ چنانچہ وہ آپ کو اس کا طریقہ کار بتا دے گا، سمجھا دے گا جس سے آپ ان شاء اللہ کامیاب ہو جائیں گے۔ ایک دفعہ میں اپنے ایک رشتہ دار کے ہاں گیا، میرے چچا زاد کا ایک بیٹا تھا جو میٹرک کا امتحان نہیں دینا چاہتا تھا، مجھے اس کے والدین نے کہا کہ اس کو سمجھائیں، اس نے تیاری چھوڑ دی ہے، میٹرک کا امتحان نہیں دے رہا، کہتا ہے میں پاس نہیں ہو سکتا۔ میں نے اس کو بلا لیا اور اس سے کہا: تم امتحان کیوں نہیں دے رہے ہو؟ حالانکہ ہماری عمر میں اتنا زیادہ فرق نہیں تھا صرف دو تین سال کا فرق تھا۔ کہنے لگا مجھے یاد نہیں ہوتا، میں نے کہا جھوٹ کہتے ہو، تو اسے غصہ آ گیا اور کہا کہ آپ نے میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا ہے۔ میں نے کہا ہاں بالکل! اگر ثابت کردوں تو پھر؟ کہنے لگا ثابت کرو۔ میں نے کہا یہ بتاؤ اگر آپ ایک کتاب پہلی دفعہ میں پڑھتے ہیں اور پانچ گھنٹے میں ختم کر لیتے ہیں، لیکن دوسری دفعہ پڑھیں تو کتنی دیر میں ختم ہو گی؟ کہنے لگا ممکن ہے تین گھنٹے میں ہی ہو جائے۔ میں نے کہا اور اگر تیسری دفعہ پڑھو گے تو کتنی دیر میں ہو گی؟ کہتا ہے ممکن ہے ایک گھنٹے میں ہو جائے۔ میں نے کہا یہ بتاؤ کہ اگر تیسری دفعہ آپ ایک گھنٹے میں پڑھ لیتے ہو تو یہ چار گھنٹے جو بچت ہو گی یہ کیوں ہوئی ہے؟ یہ مجھے سمجھا دو۔ تو چپ ہو گیا۔ میں نے کہا: اصل بات یہ ہے کہ آپ کو اتنا یاد ہو گیا ہے لیکن آپ اس کو بائی پاس کر رہے ہیں۔ گویا یہ آپ کو یاد ہوا ہے۔ کہتا ہے ہاں! میں نے کہا: آپ کہتے ہیں مجھے یاد نہیں ہوتا تو یہ جھوٹ بولا تھا ناں؟۔ خیر وہ چپ ہو گیا۔ پھر میں نے کہا آپ نے امتحان دینا ہے اور طریقہ میں بتاتا ہوں۔ آپ کو پڑھنے کا طریقہ بھی بتاتا ہوں، بعد میں امتحان میں پرچہ حل کرنے کا طریقہ بتاؤں گا۔ بہر حال میں نے اس کو پڑھنے کا طریقہ بتایا، اور الحمد للہ وہ ابھی بطور انجینئر ریٹائر ہوا ہے۔ لہذا وہ ایک طریقہ کار تھا، کیونکہ اس کو اپنی کمزوری کا پتا نہیں تھا۔ اور یہ کمزوریاں بہت سارے لوگوں میں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ تجربے سے ان کمزوریاں کو دور کیا جاتا ہے۔ مینیجرز اسی لئے ہوتے ہیں کہ ہر کسی کی صلاحیت کو دیکھ کر اس کے مطابق ان کو کام دینا اور پھر اس کے مطابق اس کی نگرانی کرنا، کیونکہ وہ ان ساری چیزوں سے واقف ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح سے کام ہوتے ہیں اور دفتر کے کام اس طرح ہی چلتے ہیں۔ اس ساری بات کا حاصل یہ ہے اگر انسان تدریج کے ساتھ چلے تو دوام حاصل کر سکتا ہے لہذا ایک دفعہ ایک مقام حاصل کر لے، پھر تدریجاً پختگی پیدا کرے، پھر وہ چلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد اس کو مشکل پیش نہیں آتی۔ البتہ طبیعتوں میں فرق ہوتا ہے بعض طبیعتیں جلدی پختگی پیدا کر لیتی ہیں جو ان کی فطری عادات ہوتی ہیں وہ لیتے ہی اتنا ہیں جتنا وہ کر سکتے ہوں، اور پھر جب وہ کرتے ہیں تو تسلسل کے ساتھ کرتے ہیں۔ یعنی وہ آسانی سے کسی چیز کے بارے قائل نہیں ہوتے لیکن جب قائل ہو جائیں تو اس سے ہٹتے نہیں۔ ہمارے ایک بھائی ہیں اگر وہ کوئی کام شروع کر لیں تو ان سے چھوٹتا نہیں، پھر وہ بہر صورت کرتے ہیں۔ اور نہ کرنا ہو تو وہ صاف انکار کر دیں گے کہ میں نہیں کر سکتا۔ گویا ان کے اندر فطری طور پر یہ صلاحیت موجود ہے، وہ اس پر تو بحث کریں گے کہ یہ کام کروں یا نہ کروں، لیکن جب کوئی شروع کر لیا تو وہ درمیان میں چھوڑتے نہیں۔ یہ بہت اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ اس کا ذہن کیا ہے؟ وہ کس کام کے حوالے سے اس طرح کرتا ہے کیونکہ برائی بھی تو ہوتی ہے، انسان کوئی بھی کام شروع کر سکتا ہے، اچھائی بھی شروع کرتا ہے۔ لہذا یہ اس کے دل کی بات ہوتی ہے کہ وہ کس چیز کو شروع کرتا ہے۔ کیونکہ بعض دفعہ برائی کے لئے بھی نفس کو کنٹرول کیا جاتا ہے یعنی عقلی برائی کے لئے۔ جیسے سیاست دان کتنی زیادہ تکالیف نفس پہ برداشت کرتے ہیں!! تاہم اس کے لئے وہ کیسے مستقل مزاج ہوتے ہیں، بہت استقامت کے ساتھ پتا نہیں کیا کچھ کرتے ہیں۔ جیلیں کاٹتے کرتے ہیں، اور بہت سی تکالیف برداشت کرتے ہیں۔ یہ میں نے صرف ایک مثال دی اس قسم کی اور بھی بہت ساری مثالیں ہیں۔ گویا بعض دفعہ انسان کسی چیز کو عقلی طور پر چاہتا ہے لیکن طبعی طور پر اس کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا، بلکہ اس کو خود مستقل مزاجی سے کرنا ہوتا ہے، اور اپنے آپ کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے لیکن عقلی طور پر وہ چاہتا ہے کہ مجھے ایسا ہونا چاہیے۔ جس کے لئے وہ لمبے لمبے منصوبے بناتا ہے اور اس میں پختگی بھی پیدا کرتا ہے۔ جیسے سارے باطل مذاہب کے لوگ کتنی محنت کرتے ہیں؟ بلکہ شیطان کو دیکھیں کہ کتنا مستقل مزاج ہے؟ ایسا مستقل مزاج ہے کہ آپ کو خراب کرنا چاہے گا تو یہ نہیں سوچے گا کہ چلو ایک طریقے سے نہیں ہوا تو چھوڑ دوں، بلکہ اگر ایک طریقے سے نہیں تو دوسرے طریقے سے، دوسرے طریقے سے نہیں تو تیسرے طریقے سے، تیسرے سے نہیں تو چوتھے سے خراب کرنے کی کوشش کرے گا۔ یعنی کسی نہ کسی طریقے سے آپ کو خراب کر ہی دے گا۔ گویا یہ بھی اس کی مستقل مزاجی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برائی کے لئے بھی ایسا ہو سکتا ہے اور اچھائی کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا اگر کسی کو پختگی کی صلاحیت نصیب ہو کہ وہ جلدی پختہ ہو جاتا ہے تو اسے اچھائی کے لئے پختہ ہونا چاہیے نہ کہ برائی کے لئے۔ اس کے لئے پھر مزید محنت کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہذا ان تمام چیزوں میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی بات حجت ہے، حضرت نے فرمایا کہ تصوف کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے کہ صحیح عقائد پر پختگی حاصل ہو جائے اور صحیح اعمال پر استقامت نصیب ہو جائے اور نفس کی ایسی تربیت کی جائے کہ یہ دونوں آسان ہو جائیں۔ لہذا عقلی کمزوری بھی دور کی جائے، نفس کو بھی قابو کیا جائے اور دل کی حالت بھی بہتر کی جائے اور یہی تصوف ہے۔ یہی کام کرنا ہوتا ہے اور یہ کسی کی نگرانی میں کرنا ہوتا ہے، کیونکہ بغیر شیخ کے یہ چیزیں مشکل ہیں اس لئے شیخ کے پاس جانا ضروری ہوتا ہے اور اس کی ماننی ہوتی ہے اور اس کے ماننے میں استقامت پیدا کرنی ہوتی ہے۔ گویا بہت ساری چیزوں میں استقامت پیدا کرنے کے لئے اس ایک استقامت کو استعمال کیا جاتا ہے کہ میں نے شیخ کی بات ماننی ہے، یعنی یہ ایک استقامت بہت ساری استقامتوں کا پیش خیمہ ہے۔ مثلاً آپ بہت ساری بیماریوں کا علاج کرا رہے ہوں تو اگر آپ کہیں کہ میں نے ایک ڈاکٹر کی بات ماننی ہے، تو آپ کی بہت ساری بیماریوں کا علاج ہو سکتا ہے، لیکن اگر آپ کہیں کہ میں نے اس بیماری میں ڈاکٹر کی بات ماننی ہیں اور اس میں نہیں ماننی تو آپ کا علاج نہیں ہو سکتا۔ لہذا اگر آپ اپنے مصلح کی بات ماننے میں استقامت پیدا کر لیں تو یہ بہت ساری اصلاحوں کا راستہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شروع سے آج تک تمام طریقوں میں سب حضرات یہی بات کرتے ہیں شیخ کی بات مانو، شیخ کی بات مانو۔ یعنی اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے نفس کو قابو کرنے میں اس چیز کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ اس کو عقلی طور پر بھی ثابت کیا جا سکتا ہے، نیز یہ مستقل تجربہ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ایسے ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ اچھے کاموں پے دوام حاصل کرنے کے لئے اور برے کاموں سے بچنے کا یہی طریقہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ