مرا مالک جب بلاۓ گا مجھے رکھا سامان بھی میں نے ہے تیار
چھت ہے کلمے کی مرے سر پہ ہمیش اور زبان پہ میں رکھوں استغفار
بڑا غفور ہے رحیم ہے وہ اور وہ سبحان بھی ہے عظیم بھی ہے
تو ہے بے رنگ رنگ میں اس کےرنگ جا وہ کرے کیا پھر تجھے باغ و بہار
ارے نادان گلاب کیسے کھلیں جب مناسب نہ ہو ماحول اس کا
دل گناہوں کی طرف مائل ہو کیسے آئے اس پہ رحمت کی پھوار
ہاں مگر چاہے تو کہ اس کا بنے گندگی سے تجھے مڑنا ہوگا
رک جا، کر عزم پھر نہ کرنے کا، دل گزشتہ پہ ہو بھرپور شرمسار
نظر اٹھا کے دیکھوں میں تھوڑا چار سو دنیا کے نقشے موجود
ہاں مگر دل میں اگر جھانک سکوں وہاں موجود ہے تصویر ِِ یار
بے وفائی اور محبت دل میں کیسے دونوں جمع ہوسکتے ہیں
عشق کا بھی ہے اک اٹل قانون کہ یہ ہوتا ہے بس صرف اک بار
اب سنو دل میرا کہتا ہے کیا؟ اس کی آغوش میں خاموش رہوں
اور چھپ جاو ٔ ں میں اغیار سے اب شاید نہ ہوسکے مزید انتظار
سر مرا سجدے میں رہے صبح و شام اور سامنے آنکھوں کے قرآن رہے
کعبہ نظروں میں، دل میں یار رہے، کہیں یہی شبیرؔکے اشعار