تیرا تکلیف پہ یہ شور اور غوغا کیا ہے
ارے ناداں محبت کا تقا ضا کیا ہے
تو کہ دنیا کے تقاضوں سے خبردار ہے خوب
یہ بھی تو جان لے کہ عشق کی دنیا کیا ہے
تو جب اس کا ہے تو تیری تو کوئی چیز نہیں
سب کچھ اس کا جو ہے پھر سوچ کہ ترا کیا ہے
دل تو بادشاہ ہے یہ بادشاہ بھی جب اس کو ہے دیا
پھر تیرے پاس ذرا دیکھ کہ رہتا کیا ہے
یہ تکا لیف تو ہر ایک کو پیش آتی ہیں
اس پہ تو چیخ لے گر، چیخ سے ہوتا کیا ہے
قدم قدم پہ نعمتوں کو کرتے ہو تم وصول
ان نعمتوں پہ کبھی شکر بھی کیا کیا ہے؟
عقل سے کام لے اور نفس کو دبانا ہے شبیر
پھر تو جان لے گا کہ اچھا کیا برا کیا ہے