دنیا کی محبت کا سرا کیا یہاں ملے
پھر حبِ ال ٰ ہی کی انتہاء کہاں ملے
جب اس کی نظر سے کوئی کیسے ہی گر گیا
اس کو کیا ملے اگر سارا جہاں ملے
جو اس کے پاس بھیج دیا وہ ہی ہے محفوظ
کتنا یہاں سے بڑھ کے وہ سارا وہاں ملے
کیا حد ہے تباہی کی اسے چھوڑدیا گر
کتنی ہی اس کو یاں پہ دعوتِ بتاں ملے1
دنیا کی لذتوں سے وہ لذات ہوں محسوس
اور ان کی پھر طلب ہوتو سرِ نہاں ملے
اس زیست کے اک کام کا طالب بنوں شبیر ؔ
بس اس کا ہی ہونے کا جو جذبہ جواں ملے
غیر محرم مرد یا عورت