عشق کی آگ


عشق کی آگ چپکے چپکے جلے

اور دل خدا سے چپکے چپکے ملے

تیرتی رہتی نمی آنکھ میں ہو

پر ادب سے کوئی آنسو نہ گرے

شمع کی طرح پگھلنا تو ہو

پر ادب سے قدم اپنا نہ ہلے

دل میں اک آگ عشق کی برپا ہو

پر نظر آئیں نہ اس کے شعلے

آنکھیں دید کو ترستی رہیں

منہ سے چپ ہو اور کوئی اف نہ کرے

عشق کی آگ لگائے تو لگے

لگے شبیر ؔ تو پھر وہ نہ بجھے