دیوانہ یا فرزانہ

دلِ عاشق کو کہیں لوگ اگر دیوانہ

کچھ نہیں تو ہی اگر سمجھے اسے فرزانہ


گھومتے شمع کے گرد ہیں اور جل جاتے ہیں

کچھ نہیں تو ہی اگر سمجھے اپنا پروانہ

نالے آتے تو زباں پر ہیں مگرشکوہ نہیں

عذر اپنا ہو قبول نالے ہیں یہ مستانہ

خود کو آسان نہیں ہے یہ مٹانا لیکن

ہے یہ مٹ جانا کہاں، ہے یہ باقی بن جانا

جو خواہشیں تھیں مری دل کی ہوگیٔں رخصت

یہ خود کا چھوڑنا ہے یا یہ اس کا ہے پانا

دلِ بیدار مجھے دے، قلبِ غافل سے بچا

شبیرؔ تیرا ہے تیرے ہی طرف ہے آنا