دل مبتلائے یار کوبہلاو ٔ ں میں کیسے
میں وصلِ یار چاہوں مگر پاو ٔ ں میں کیسے
اس زیست کا ہر لمحہ امانت ہے اس کی جب
اس کے لئے ہی صرف ہو اس پہ آو ٔ ں میں کیسے
ہر دم وہ چاہے میری نظر اس کی طرف ہو
اغیار کے اشاروں سے دل بچاو ٔ ں میں کیسے
دل مطمئن تو اس پہ ہے کہ اس کا ہی رہے
پر نفس کو اس پہ مطمئن کراو ٔ ں میں کیسے1
آنکھوں کے سامنے شر ہےجس میں خیر ہے مخفی2
اس خیر میں شر سے آنکھیں اب ہٹاو ٔ ں میں کیسے
جو شیخ کی دہلیز ہے پکڑو اسے شبیر ؔ
بہتر ہواس سے بھی وہ گر بتاو ٔ ں میں کیسے
ذکر کرنے سے دل کی اصلاح تو ہوگئ ہے لیکن نفس کی ابھی نہیں ہوئی۔مجھے اس کی فکر ہے کہ یہ کیسے ہو؟
آنکھوں کے سامنے غیر محرم ہیں اگر میں ان سے آنکھیں موڑ لوں تو اس میں روحانی ترقی ہے لیکن آنکھیں موڑنے کی ہمت کیسے حاصل ہو؟