مرے دل کو کیسے سکوں ہو آگ اس میں اک جو لگی سی ہے
مری آہ گرم سی لگی مجھے کوئی بوٹی جیسے جلی سی ہے
مری آنکھ برسے نہ کھل کے کیوں اسے روک کون سکے گا اب
جسے آنکھ دیکھ سکے نہیں وہ ہی ذات دل میں بسی سی ہے
دور دنیا مجھ سے تو دور ہو مرے دل میں کوئی جگہ نہیں
مجھے تجھ سے واسطہ ہے اب کہاں، تیری چاہ بڑی بُری سی ہے
کروں یاد اس کو زباں سے اب کروں اس کو یاد سے تر بتر
مرا دل تو اس کا مکان ہےتبھی ہوک اس سے اٹھی سی ہے
مرے دل سے غیر نکل تو جا کبھی بھول کے بھی نہ آنا اب
مرے دل میں آئے وہ آئے اب دھوم اس کی جیسے مچی سی ہے
مرے لب سے اب یہ اٹھے صدامیں رہوں نہ اس سے کبھی جدا
مرے دل میں وہ ہے شبیر ؔ اب یہ زباں پہ بات چلی سی ہے