پیاس بجھتی نہیں ہے جام چڑھانے کے بعد1
ساقیا ہاتھ نہ روکنا اس پیمانے کے بعد
ہے یہ میخانۂِ عشاق صبح شام ملے2
صبح کی صبح ملے اورشام آنے کے بعد
پی کے دیوانے بنے ہیں پر اتنے ہوش میں ہیں
جتے ہیں کام میں اشارہ سا ہی پانے کے بعد3
کون پلاتا ہے مجھے گوشہ ِ ء تنہائی میں
ڈالتا پانی بھی ہےآگ سلگانے کے بعد4
عشق جب اور بڑھےگا تو مزہ آئے گا
دل دِکھائے گامرا دل کے چھپانے کے بعد5
یہ محبت ہے یہ اک آگ ہے کیسے یہ چھپے
کیا پتہ کیا ہو پیمانہ چھلک جانے کے بعد6
کب تلک یوں ہی پیمانوں کی بات چلتی رہے
دور سارے ہوں مگر اس کے پلانے کے بعد
آگ پٹرول کی جب پانی سے بجھتی ہے نہیں
کیا بجھے آگ مری اس کے جلانے کے بعد
اب سمندر بھی نہ کافی ہو بجھانے کے لیے
ہاں بجھے یہ تو بجھے اس کے ہی پانے کے بعد
بے قراری مرے دل کی تجھے معلوم تو ہے
میں سب کا غیر ہوا تیرے اپنانے کے بعد
حد اس کے پیار کی کوئی نہیں ہوسکتی ہے
آگ ہے اک اور ابھرتی ہے دبانے کے بعد
موت خوشرنگ مرے دل کو نہ ہوکیوں اب شبیر ؔ
وعدہ کہ اس کا جو ملنے کا ہے مرنے کے بعد
جتنا بھی میں اللہ کی محبت میں آگے بڑھتا ہوں اس کی طلب اور بڑھ رہی ہے
یہ عاشقوں کا میخانہ (خانقاہ) ہے۔یہاں صبح اور شام اللہ کا ذکر ہوتا ہے
اس عشق میں شوق کے ساتھ ہوش ہے کہ محبوب کے اشارے پر کسی بھی کام کے لیے عاشق تیار ہیں
اس عشق میں سکینہ کی کیفیت بھی طاری کرائی جاتی ہے
دل تو چاہے گا کہ عشق مخفی رہے لیکن عشق دل کی کیفیت ظاہر کردے گا
اس میں جوش کو اتنا نہیں روکنا چاہیے کہ صحت کو نقصان ہو اور آدمی کام سے رہ جاۓ