خیالوں میں وہ موجود

دل عشق سے لبریز خیالوں میں وہ موجود

سورج کی روشنی میں ہواؤں میں وہ موجود

 

اس کے ہی ارادے سے ہر اک چیز ہے قائم

ہے چاند میں موجود ستاروں میں وہ موجود

 

جس دل میں بصیرت ہو وہ دیکھے اسے ہر وقت

ہر آن ہر جگہ مشاہدوں میں وہ موجود

 

کیا فعل ہے ممکن اگر اس کا نہ ہو فاعل

ایسے ہی سوالوں کے جوابوں میں وہ موجود

 

فطرت کے مطابق ہے رخ بگاڑ کی طرف1

اجزائے منتشرسے تعمیروں میں وہ موجود

 

تھوڑی سی اپنے آپ کی تخلیق ہو سامنے

انسان میں موجود نظاموں میں وہ موجود

 

گر عقل نفس زدہ نہ ہو اور حق کی طلب ہو

سر بستہ کائنات کے رازوں میں وہ موجود


شبیرؔ تم طلب دل بیدار تو کرلو

سچی طلب کے ساتھ دعاؤں میں وہ موجود



  1. جو طبعیات کا قانون ہے اس کے مطابق چیزوں کو بگاڑ کی طرف جانے سے روکنے کے لیے بھی کسی فاعل کی ضرورت ہے پھر منتشر اجزاء خود بخود کیسے ترتیب پاگئے