دلِ بیتاب سنبھلتا ہی نہیں
میں جوسمجھاو ٔ ں سمجھتا ہی نہیں
کچھ کہا آپ نے پیار سے اس کو
اب کسی اور کی سنتا ہی نہیں
دل میرا ہاتھوں سے گیا ہے نکل
میرے سینے میں اب رہا ہی نہیں
آپ نے کب سے چن لیا اس کو
مجھ گناہ گار کو پتا ہی نہیں
دنیا تو لائے خواہشوں کی طرف
اس سے اس کو مزہ ملتا ہی نہیں
عقل قابو میں ہے اس کے اور یہ
تو شریعت سے نکلتا ہی نہیں
نفس اس کو دیکھ کے ہاتھ ملتا ہے
کہ اس کے ہاتھ کچھ رہا ہی نہیں
مجھ کو ہو یار کی آغوش نصیب
یہ ہی ہے اور تمنا ہی نہیں
باتیں شبیر ؔ کی دل کی باتیں
اس کو جو اور کچھ آتا ہی نہیں