بزرگی


اس کو سنا بہت ہے مگر کیا ہے بزرگی

کتنے ہی سالکوں کی تمنا ہے بزرگی

سچ مچ اگر ملے تو ہے یہ نور کا ہالہ

جو جھوٹ سے سمجھے تو اندھیرا ہے بزرگی

شیطان کے تیروں میں یہ زہریلا تیر ایک

اور نفس کے سفلہ پن کی اک ادا ہے بزرگی

جو بھی بنے بزرگ سمجھے خاک وہ خود کو

کچھ بھی نہ ہو تو اس کا ہی دعوی ٰ ہے بزرگی

اپنی ہی بزرگی کا ہو قائل وہ ہے محجوب

محبوب بنے جس کی بھی فنا ہے بزرگی

خود پہ نظر ہو کیسے اگر یار دل میں ہو

طالب نہ ہو تو دل کا تماشا ہے بزرگی

تعجیل اس کو شیخ سے کرے ہے بد گماں

راہِ سلوک میں جس کا مدعا ہے بزرگی

اک شیخ پہ اعتماد ہی اس کا علاج ہے

بیماری اگر کوئی سمجھتا ہے بزرگی

شبیر ؔ اس کا فضل ہی مجھ کو بچائے گا

مہلک مرض بہت ہے یہ سنا ہے بزرگی