اغیار کے طریقے

اغیار کے طریقے ہمیں مار رہے ہیں

یہ اس لیے کہ دل کے جو بیمار رہے ہیں1

روز ان کی سازشوں کا گلہ سنتے ہیں رہتے

کیا ان کی طرح ہم کبھی بیدار رہے ہیں2

کرتے ہیں جو زخمی اپنی تلوار سے ہم کو

لینے دوا کے ان سے خواستگار رہے ہیں3

اے کاش کچھ کریں بھی کبھی عقل استعمال

آبا ہمارے کتنے سمجھدار رہے ہیں

جن کو مفاد اپنے ہوں ملک سے عزیز تر

اپنے بھی ہوںوہ خنجر ِ اغیار رہے ہیں4

عاقل کبھی دشمن سے نہ مانگیں رحم کی بھیک5

لڑنے کے لئے اس سے وہ تیار رہے ہیں

ہوتا ہے مو ٔ منوں کا بھروسہ خدا پہ ہی

وہ حبِّ ال ٰ ہی سے جو سرشار رہے ہیں

ڈھونڈ ایسی قیادت اب اپنے واسطے شبیر ؔ

جو حق کے راستے کے شہسوار رہے ہیں


  1. ہمارے دل کی بیماریوں نے ہمیں نا سمجھ اور بزدل بنا دیا ہے

  2. اگر ہم اغیار کی سازشوں کا گلہ کرتے ہیں تو ان سے تو یہی توقع کی جاسکتی ہے ہم خود کو کیوں ملامت نہیں کرتے کہ ان کی طرح بیداری ہم میں کیوں نہیں؟

  3. جو ہمارے دشمن ہیں ہم ان سے ہی اپنے مسائل حل کروانا چاہتے ہیں

  4. جن کو اپنے مفادات ملک سے زیادہ عزیز ہوں وہ اپنے ہوں تو دوسروں کے بن سکتے ہیں

  5. عاقل دشمن سے رحم کی بھیک نہیں مانگتا البتہ اس سے لڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے