خود سے خطاب


تو بن جا خدا سے دعا کرنے والا

کہ وہ ہے ہر اک کو عطا کرنے والا

تو مایوس بن کے دعاسے رکے تو

اے بندے خدا کے ہے کیا کرنے والا

ہے ممکن کہ حالت تری یہ پسند ہو

اسے ہے پسند التجاکرنے والا


خزانوں میں اس کے کمی تو نہیں ہے

ہے باطل کو حق سے جدا کرنے والا

حقیقی طلب کس کو ہے دیکھے اور کون

ہے حق بندگی کا ادا کرنے والا

نہیں دنیا یہ بس جگہ امتحان کی

تو بن اس پہ سب کچھ فدا کرنے والا

یہاں دکھ جو پائے وہاں سکھ بنے وہ

نہیں یوں ہی وہ مبتلا کرنے والا

وہاں عیش پر مبتلا کو جو دیکھیں

تو محروم بنے یوں صدا کرنے والا

اے کاش قینچی سے کاٹی جاتی جلد اس کی

مگر آج ہوتا ایسا کرنے والا

یہ دن زندگی کے ہیں چند بولے شبیر ؔ

بنوں اس میں اس سے وفا کرنے والا