خیال مدینہ

دل میں نقشہ سا مدینے کا ابھر جائے ہے

جب مدینے کا مرے دل میں خیال آئے ہے

یہ تصور مرا آنے کا جالیوں کے سامنے

ایک دلآویز سا منظر مجھے دکھائے ہے

سامنے گنبد خضرا کي چھتریوں کے تلے

لوگ بیٹھے ہیں خیال یہ وہاں بلائے ہے

وہ فضائیں وہ ہوائیں اور وہ سلام و درود

یاد آتی ہیں خیال يہ مجھے رلائے ہے

قدموں میں بیٹھ کے تخیل میں چپکے چپکے شبیر ؔ

پڑھے درود و سلام یاں بھی سر جھکائے ہے