ترا بن جاو ٔ ں میں اور تو مرا یہ چاہوں میں
جوہے مقصودِ زندگی تویہی مانگوں میں
تڑپ تڑپ کے ملا ہے مجھے محبوب مرا
مزہ میں اس کا کہیں اور سے کیا لاؤں میں
دل میں آجا تو مرے کب سے منتظرہے ترا
ترے آنے سے ہی آباد ہو یہ کہہ پاو ٔ ں میں
دل میں ہے آگ لگی میری یہ ویسے تو نہیں
تری نظر سے ہے اب اور اس کو بھڑکاو ٔ ں میں
مرے جاں دل تو تری یاد میں جل بھن ہی گئے
اب کیا باقی ہے اب ساتھ ہی جل جاو ٔ ں میں
روک لئے کتنے سمندر ہیں اپنی آنکھوں میں
دل کی طوفان سے کہیں ویسے نہ پھٹ جاو ٔ ں میں
آنکھ ترے رخ پہ دل میں تو کان بھی ہیں تیری طرف
تو کہے میرے ہی ہو یہ تجھ سے سن جاو ٔ ں میں
اب صرف آس تو تیری ہی تسلی سے ہے
بے قرار دل شبیر ؔ کا آج اس سے بہلاو ٔ ں میں