ہم تصور میں شیخ کو دیکھیں اور شیخ کے فیض سے ملے ہم کو خدا
شرک کیسے یہ تصور ہے کہ اس سے کیا ہوتے ہیں خدا سے جدا
یہ تو اک پل ہےجس پہ ہم گزر کے آگے پاجائیں منزلِ مقصود
شیخ کا کام ہے ملانا اس سےفرض اپنا کرتے ہیں وہ اس سے ادا
ہاں مگر جس میں احتیاط نہیں، نہیں جائز اسے تصور یہ
ممکن ہے اس کے منہ سے نکلے کبھی غیب میں بصیغہءِ حاضر کچھ ندا
اس لئے اپنے بزرگ دیتے نہیں یہ تصور عوام کو آج کل
کسی ناسمجھ کے کلام سے نہ ہو کوئی لفظ شرک کا کبھی ہویدا
ہاں مگر خود بخود کسی کو ملے اس کو روکتے بھی نہیں اس سے کہ
اپنی نعمت کی لاج رکھتے ہیں وہ شبیر ؔ اس کی یہ عادت ہے سدا