پگھلنا ہے مقدر میں یہ یوں ہی جلتے رہتے ہیں
کہ عاشق اپنے محبوبوں پہ ہر دم مر تے رہتے ہیں
یہ آنکھیں کیسی ان کی ہیں کہ نہریں ان سے جاری ہیں
کسی کی یاد میں وہ ٹھنڈی آہیں بھرتے رہتے ہیں
یہ کیسی بات ہے ان کی کہ ہر پل ان سے ملتے ہیں
جدائی کی مگر شکوہ برابر کرتے رہتے ہیں
سکوں طاری ہے ظاہر میں مگر طوفان ہے اندر
کہ ہوسکتا ہے کچھ بھی اس سے ہر دم ڈرتے رہتے ہیں
یہ دھوتے رہتے ہیں دل کو جب آنسو بہتے ہیں ان کی
زبانِ حال سے یوں عشق کا دم بھرتے رہتے ہیں
مقام جانے گا ان کا کیا کوئی شبیر ؔ دیکھونا
یہ دوست کا راز رکھنے کے لئے سنبھلتے رہتے ہیں