دنیا کی یا اس کی محبت

پائے دنیا سے بھی وفا کوئی

مجھ کو ایسا نہیں ملا کوئی

اس کے ہاں کتنی قدردانی ہے

اس پہ ہوجائے تو فدا کوئی

اس کے غم نے کیا ہے سب کچھ صاف

جیسے اب غم نہیں رہا کوئی

اس کے در پر میں رکھوں اپنا سر

پھر کہوں اور کرے کیا کوئی

واسطے اس کے ہی ہم آئے ہیں

کرے نہ کام یہ بھی بھلا کوئی

اس پہ پڑ کر ہی نظر پاک ہوئی

اثر اس کا جو ہے جدا کوئی

میں زباں پر نہ اس کا نام لوں کیوں

کچھ ہو اس کا بھی حق ادا کوئی

دل سے دیکھوں شبیر ؔ میں اس کی طرف

اور تو بس کام نہ ہو مرا کوئی