در دولت پہ اس کے جو بھی آیا تشنہ لب نکلا 1
میں مستی میں یہاں پر کب سے آیا اور کب نکلا 2
عمق کیا جانیں بحرِ عشق کی سادہ ہیں ہم کتنے 3
نتیجہ اس کی پیمائش کا بھی سوئے ادب نکلا 4
یہاں چپ باش کچھ پوچھو نہیں یہ بحرِ حیرت ہے
یہاں پر سر جھکانا ہی تو ملنے کا سبب نکلا 5
ذرا چشمِ تصور سے جمال اس کا تو دیکھونا 6
کہ یوں محسوس ہوتا ہےکہ دم نکلا تواب نکلا
مرے تارِ نفس 7 کو نفس کے تاروں 8 نے الجھایا
مرے دستِ طلب 9 کواس نے جب پکڑا 10 تو تب نکلا 11
قبول درخواست آنے کی12 کی پردہ نشین13 نے تب
شبیر ؔ بے آبرو نامحرم اس کا14 دل سے جب نکلا
جو بھی اللہ کی محبت میں مبتلا ہو ا ہے پیا سا ہی رہا ہے
مجھے کچھ پتہ نہیں کہ کب جوش میں آیا اور کب ہوش میں ؟
عشق کے سمندر کی گہرائی جاننے کی کوشش کرنے والے کتنے سادہ ہیں؟
اس کی پیمائش تو خود بے ادبی ہے کیونکہ عاشق اس کی پیمائش نہیں کرتے
حکم ماننا اور مراقبہ ہی وصال کے ذرائع ہیں
تصور کرو کہ تمام حسینوں کو پیدا کرنے والے خود کتنے حسین ہوں گے
روح
خواہشاتِ نفس
میرے سلوک پر چلنے کو
جذبی کیفیت
بندگی حاصل ہوگئی
دل میں آنے کی درخواست
مستورازل یعنی اللہ تعالی
یعنی دنیا