جو اس کا نام لیتا ہوں


زباں میٹھی سی ہوتی ہے جو اس کا نام لیتا ہوں 1

مئے عشقِ حقیقی2 کا میں روز اک جام لیتا ہوں 3

 

جو غیر اللہ ہے اس کو لا الہ سے دور پھینکتا ہوں

میں الا اللہ سے پھر اس کے در کو تھام لیتا ہوں 4

 

پھر اس کا رنگ میں اللہ ُ اللہ کہہ کے اپناو ٔ ں

پکڑواکر میں خود5 کو سانس زیِر دام لیتا ہوں 6


میں اس کی یاد میں مست ہو کے جب اس کو پکارتا ہوں

کرم کی اک نظر کے پیار کا انعام لیتا ہوں7

 

مجھے پھر وہ محبت سے جو دیکھے کیا ہے بات اس کی

میں تیرا ہوں تو میرا ہے میں یہ پیغام لیتا ہوں

 

جب اسمِ ذات اللہ کا زباں پر طاری ہوتا ہے

تو دل پھر جاری ہوتا ہے میں اس سے کام لیتا ہوں8


میں ہاں بیکار ہوں بیکار ہوں کچھ بھی نہیں ہوں میں

میں اپنے سر پہ دنیا کا ہراک الزام لیتا ہوں9

 

مرا دل کیا ہے سمجھونا شبیر ؔ یہ عرشِ اصغر ہے

تجلی گاہ حق پر اس سے کچھ احکام لیتا ہوں10

 



  1. جب اللہ تعالی ٰ کا ذکر کرتا ہوں

  2. ذکر کا روزانہ کا معمول

  3. الا اللہ سے اللہ کی محبت کا حاصل ہونا

  4. اللہ ُ اللہ سے میں خود کو بارگاہ ال ٰ ہی میں پیش کرتا ہوں

  5. اللہ تعالی ٰ کی محبت

  6. شریعت پر چلتا ہوں

  7. فاذکرونی اذکرکم کے مصداق ذاکر ہوکر اللہ تعالی ٰ کا مذکور ہوجاتا ہوں

  8. دل پھر ذاکر ہوجاتا ہے اور پھر اس سے کیفیت احسان حاصل کرتا ہوں

  9. جو کچھ بھی نہیں اس کو کوئی کہہ دے کہ تو کچھ بھی نہیں تو کیا ہوگا

  10. اللہ تعالی ٰ کی طرف سے الہامات ہوتے ہیں