جلنا پروانے نے ہم سے سیکھا اورہمیں دیکھ کے پگھلی شمع بھی ہے
پھول نے ہم کو دیکھ کے پھاڑ دیئے کپڑے اپنے یہی دیوانگی ہے
سب حسینوں نے حسن ان سے لیا میرا محبوب ہو پھر کتنا حسین
آگے پھر سوچنا ممکن ہی نہیں آگے حیرانگی ہی حیرانگی ہے
دنیا سو بھیس بدل کے آئے آگے عاشق کے ہو ذلیل رسوا
جس کے دل میں ہو یا د یار کی بس اس کی آنکھوں کے سامنے یار ہی ہے
علم دولت ہے لازوال مگر گر اُس کے حسن کا دیوانہ نہ ہو
نفس اس کو بھی جال میں لے لےبات کچھ اس کی یوں نشیلی ہے
جو عبادت پہ اپنی نازاں ہے عشق کی اس کو ہوا لگی ہی نہیں
کیونکہ عاشق کا ناز صرف اور صرف زلفِ معشوق کی اسیری ہے
دیکھ شیطان تھا عابد عالم اور عارف بھی مگر بچ نہ سکا
دیکھ اس عشق کے بنا نفس کی کتنی مضبوط دادا گیری ہے
نفس کی چال بہت سخت ہے مگر عشق کے سامنے اس کی نہ چلے
عشق کے سامنے کوئی آئے کیسے یہ تو سوچو مجال کس کی ہے
عقل بھی نفس آلودہ ہو اگر نفس کا شر نظر نہ آئے اسے
عقل خاموش سامنے ہو شبیر ؔ جس کا بھی عشق عشق ِ حقیقی ہے