وہ دانا ہے اصل میں جو ترا دیوانہ بن جاۓ
لٹاۓ چشم سے اور اس کا دل میخانہ بن جاۓ
وہ خوشبو یار کی محفل میں پھیلاتا رہے ایسا
کہ جس سے مست ہو کر کوئی بھی مستانہ بن جاۓ
دل اس کا ہو کمان اور چشم اس کے تیر پھینکے یوں
کہ جو دیکھے اسے اس تیر کا نشانہ بن جاۓ
جدارِعشق کے اس پار ہے خلدِ بریں موجود
شمع روشن ہے عشق کا کوئی بھی پروانہ بن جاۓ1
شبی ؔ ر رکنا نہیں نظریں لگی ہیں تیری ساغر پر
وصل کے واسطے شاید یہ غزل پیمانہ بن جاۓ2
اللہ تعالیٰ کی محبت کے مواقع موجود ہیں کوئی بھی اس کے ذریعے اپنے محبوب حقیقی کی خوشنودی پاسکتا ہے
تیری شاعری سے لوگ مستفید ہونا چاہتے ہیں اس لیے اس کو نہ روک ممکن ہے یہی غزل کسی کے لیے وصول کا ذریعہ بن جاۓ