تقابل

کیا عشقِ لیلیٰ زیادہ ہو اور عشق مولا کم رہے

فارمولا ہو جس کایہ اس کے عقل پہ ماتم رہے

یہ دنیا جو چند روزہ ہے اس پر مر مٹنا کیسا ہے

آخر کی طلب جو اصلی ہے دل میں وہ کالعدم رہے

دنیا کو حقیقت سمجھا ہے اور جنت کو اک افسانہ

اب دل پر کچھ ہم رحم کریں کب تک یہ ظلم و ستم رہے

لوگوں میں نمازی اور اندر دنیا کی محبت خوب بھری

ظاہر میں سجدے میں ہیں مگر جو دل ہے اس میں صنم رہے

آخر کی دنیا باقی ہے اور خیر بھی ہے رب کہتا ہے

جس میں عقل کی رتی بھی ہو اس پر ہی محکم رہے

شیطان اور نفس کے ہاتھوں میں کب تک کھیلوں گا میں شبیر

اب اٹھ،کچھ کرلے کب تلک دل میں صرف بس غم رہے