ایک آرزو

کاش دل میں جو ہے وہ سب قلم پہ آجاۓ

دلِ مجذوب جذب کا راستہ دکھا جاۓ

اپنے محبوب کی ایک ایک ادا جانوں خوب

غیر کی ساری ادائیں یہ علم کھا جاۓ

دلِ بیدار کی آنکھوں سے اسے دیکھوگے تو

سب سمجھ آۓ اگریہ کوئی سمجھا جاۓ

ایک خواہشات کی محفل اک ذاکرین کی ہے

باہمی دست و گریبان اس کو پاجاۓ

دل عاشق کو اتارا ہے اکھاڑے میں یہاں

کاش عشق کا شعلہ نفس کے زور کو جلا جاۓ

نفس کو باندھ یہ باندھنے میں بھلا رہتا ہے

عشق کا ہار مگر دل کو تو پہنا جاۓ


ہر ادا اپنی تو سرشار ِسنت کرلے شبیر

ہر ادا حسنِ ازل کو پھر تری بھا جاۓ