یادوں کے دریچے

دل کی یادوں کی دریچوں کو کھٹکھٹاؤں میں

جو میں جانوں کچھ کو پی جاؤں کچھ بتاؤں میں

وہ مجھے یاد رکھے میں جب اس کو یاد کروں

اب ایسی پیار کی باتیں ذرا سناؤں میں

یاد ہے مجھ کو فخر اس نے کیا تھا ہم پر

اس لئے چھوڑ کے سب، اس کی طرف آؤں میں

میں کیا پیار کروں پیار تو کرتے ہیں وہ

میں تو گڑ بڑ کروں اس پر بھی نہ شرماؤں میں

وہ تو ظاہر ہے اس کا پیار بھی ظاہر باہر

کھول کے رکھ دیا سب کچھ، کیا چھپاؤں میں

مجھ سے جو پیار پہ دیکھا تو جل گیا دشمن

اب تو شبیر ؔ اس کو اور بھی جلاؤں میں