کیا سے کیا ہوگیا

کچھ کہتے کہتے رک میں گیا کچھ رکتے رکتے کہہ بھی دیا

آے ٔ جب میرے دل میں وہ تو اس میں فنا میں ہو بھی گیا

محبوب کی بات محبوب سے ہو آشکارا نہ ہو یہ غیروں پہ

بے صبری سے کچھ کہہ جو دیا تو اس پہ یہ پیغام ملا

وہ مجھ کو کرے ہے اشارا یہ میں دیکھتا رہوں بس اس کو ہی

جب دیکھا میں نے اس جانب تو روتے روتے ہنس پڑا‮1

ہے کس کو خبر وہ چاہے مجھے ہاں چاہے مجھے بے حد بے حد

یہ اس کی ادا معلوم ہوئ ی تو اس کی جانب میں لپکا

اس نے کہا اب صبر کرو کہ وقت ملن اب دور نہیں

میں شرم کے مارے پگھل ہی گیا جو اس کا پیار ایسا دیکھا

ہر جانب میرے وہ ہی ہے تو وصل کی کیا اب بات کروں

جو غم بھی ملن کا ہے دیکھو وہ بھی تو ہے میٹھا میٹھا

وہ کیا تھی زباں شبیر ؔ جس میں وہ دل کی کتاب میں لکھتا ہے

میں دل کی آنکھ سے پڑھنے لگا تو اس سے غزل یہ لکھنے لگا



  1. جب اس کا اپنے ساتھ پیار والا برتاؤ دیکھا تو میرا غم خوشی میں بدل گیا