شو ق دل میں مرے مچلتا ہےکہ حق بندگی ادا میں کروں
ہاتھ میں کیا ہے مرے کیا ہوں میں سوچتا رہتا ہوں کہ کیا میں کروں
دل سے آواز ایک آئی ہے یہ مرا نفس جس کا باغی ہے
اسے پابندِ سلاسل میں کروں جو کہے وہ اس پہ چلا میں کروں
جان و مال وقت مجھے دے کر اس نے کام ان کا مجھے بتا یا ہے
جن سے بچنے کو کہا ہے ان کو جان لوں اور ان سے بچا میں کروں
مجھے اپنا بنا کے زور دے کر کہا کہ غیر کا کبھی بھی نہ بنو
اس کا غیر جو بھی ہے کہیں بھی ہے کبھی اس سے نہ اب ملا میں کروں
مجھے شوقِ جنوں کہے اپنا ہر وقت یاد رہے وہ ہی شبیر ؔ
پھر اس کی یاد میں مست ہوہو کر جو کہوں اس کو پھر لکھا میں کروں