حمدِ باری تعالیٰ

یاد دل میں بسی ایسی تیری

صرف نظروں میں ہے ہستی تیری

 

تری ہستی کے سامنے ہیچ ہیں سب

سب پہ لازم ہے بندگی تیری

 

تجھ پہ ایماں ہو تجھ سے ڈرنا ہو

کتنی آساں ہے دوستی تیری

 

میں کیا ہوں کیا میرا ہوگا

چیزیں میری جو ہیں وہ بھی تیری

 

جو بھی مر مٹ کے تیرا بن جائے

نگہبان اس کی خدائی تیری

 

ہر کسی کو خوشی اپنی محبوب

مجھ کو محبوب ہے خوشی تیری

 

جو نہ پایا تجھے تو کیا پایا

کتنی پر لطف آگہی تیری

 

آنکھیں اندھی ہیں اس کی جس نے بھی

خود کو دیکھا شان نہ دیکھی تیری

 

کان دونوں ہی اس کے بہرے ہیں

بات سن کر بھی نہ سنی تیری

 

دل اس کا دل نہیں ہے پتھر ہے

جس نے بھی بات نہ سمجھی تیری

 

اس کی تعریف پہ مائل شبیر ؔ

زہے قسمت ، ہے شاعری تیری