پیغام محبت
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلِّی عَلٰی رَسُولِہٖ الْکَرِیْم اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ
ایمان والوں کے دل میں اللہ تعالی ٰ کی شدید محبت ہونی لازم ہے۔اگر نہیں ہے تو اس کا پیدا کرنا ضروری ہے ۔دوسری طرف دنیا کی محبت ایک حدیث شریف کے مطابق ساری خطاو ٔ ں کی جڑ ہے اس لیے دنیا کی محبت کو دل سے نکال کر اللہ کی محبت کو دل میں پیدا کرنا ہماری ایک اہم ضرورت ہے۔
محبت ایک قلبی کیفیت ہے اور ایک جذبہ ہے۔جذبات کو ابھارنے اور ان کو مثبت یا منفی رخ دینے میں شاعری کا بہت دخل ہے۔یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف منفی جذبات کو فروغ دینے میں شاعری پیش پیش ہے تو دوسری طرف مثبت جذبات کو اجاگر کرنے میں بھی شاعری کسی سے پیچھے نہیں ہے۔
اسی طرح دل کی اصلاح کے لیے بھی دو طریقے ہیں ایک سلوک کا جو کہ لمبا ہے اور دوسرا جذب کا جو کہ مختصر ہے۔اس طریقِ جذب کا محرک اہل محبت کی صحبت کے بعد اہل محبت کا کلام بھی ہوتا ہے جو کہ زیادہ تر شاعری پر مبنی ہوتا ہے۔اس کی ایک اچھی مثال مثنوی مولانا روم ؒ ہےجو تقریبا ً چھ ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔حافظ شیرازی ؒ ، حضرت عراقی ؒ اور مولانا جامی ؒ کا کلام اس طریق کی مثالیں ہیں۔
زیر نظر کتاب “پیغامِ محبت” بھی اسی طریق کی داعی ہے جس میں قلب میں اللہ تعالی ٰ کی محبت کو پیدا کرنے کے لیے قلبی کیفیات کا اظہار ہے۔چونکہ ایسا کلام دو دھاری تلوار کی طرح دونوں جانب کاٹ کرتا ہے ۔سمجھ دار لوگ اس کو سمجھ کر اپنے دل میں اللہ تعالی ٰ کی محبت کو بھر سکتے ہیں جبکہ نہ سمجھنے والے اس کو کچھ کا کچھ بنا سکتے ہیں اس لیے کوشش کی گئی ہے کہ ایسے اشعار کی ساتھ ساتھ تشریح بھی دی جائے۔
بعض دفعہ بعض مشہور شعراء کے کلام کا لوگ جو مطلب بیان کرتے ہیں تو قابل کوفت حیرت ہوتی ہے کہ ان شعراء نے کیا کہنا چاہا اور لوگ اس سے کیا مطلب لے رہے ہیں چنانچہ مجوزہ تشریح اس لیے بھی ضروری ہے۔
چونکہ اس کتاب میں بعض کلام بہت تیز ہے ۔ممکن ہے کہ بعض قوال اس کو مروجہ طریقے سے گانے کی کوشش کریں اور عوام کو چونکہ ان چیزوں کی صحیح سمجھ نہیں ہوتی اس لیے اس کے بارے میں بتانا ضروری ہے۔
<
سلسلہ عالیہ چشتیہ بہشتیہ کے بزرگ حضرت سلطان الاولیاء شیخ المشائخ محبوب الہی ٰ خواجہ نظام الدین ؒ نے فرمایا:
چندیں چیز می باید تاسماع مباح شود مستمع و مسمع آلہ سماع، مسمع یعنی گویندہ، مرد تمام باشد کودک نباشد وعورت نباشد ومستمع آنکہ می شنود ازیاد حق خالی نبا شد ومسموع انچہ بگویند فحش و مسخرگی نباشد وآلہ سماع مزامیر است چوں چنگ ورباب ومثل آں می باید درمیان نباشدایں چنیں سماع حلال است۔
یعنی چندچیزیں پائی جائیں تو سماع حلال ہوگا، سنانے والے تمام مرد بالغ ہوں بچے اور عورتیں نہ ہوں سننے والے اللہ تعال ی ٰ کی یاد سے خالی نہ ہوں کلام فحش ومذاق سے خالی ہو اور آلات سماع یعنی مزامیر مثل سرنگی اور طبلہ وغیرہ اس میں استعمال نہ ہوں تو ایسا سماع حلال ہوگا ۔
سیرالاولیاء ، باب نہم ، مرکز تحقیقات فارسی ایران و پاکستان ، اسلام آباد، ( ص۰۲۔ ۵۰۱)
حضرت محبوب الہی ؒ کے ملفوظات کریمہ فوائد الفواد جوکہ حضرت کے مرید رشید میر حسن علامہ سنجری قدس سرہ کے جمع کئے ہوئے ہیں ان میں بھی حضور کا صاف ارشاد مذکور ہے کہ مزامیرحرام ا ست۔ ( فوائد الفواد)حضرت ؒ کے خلیفہ حضرت مولانا فخر الدین زراوی قدس سرہ نے حضرت ؒ کے زمانہ میں ہی حضرت کے حکم سے سماع کے بارے میں ایک رسالہ عربیہ مسمِّی بہ کشف القناع عن اصول السماع تالیف فرمایا ،
اس میں ہے۔
اماسماع مشایخنا رحمھم اللہ فبرئ عن ہذہِ التھمۃ وھو مجرد صوت القوال مع الاشعارالمشعرۃ من کمال صنعۃ اللہ تعالیٰہمارے مشائخ کرام کا سماع اس مزامیر کے بہتان سے پاک ہے وہ تو صرف قوال کی آواز ہے ان اشعار کے ساتھ جو کمالِ صنعتِ ال ٰ ہی کی خبر دیتے ہیں۔ ( کشف القناع عن اصول السماع)
سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ حضرات سچے ہیں یا وہ جو اپنی ہوائے نفس کی حمایت کی خاطر ان بزرگوں پر مزامیر کی تہمت دھرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق وہدایت بخشے آمین!
حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں ایک دفعہ قوال نے اپنے ہاتھ کو کچھ حرکت دی جس کو حضرت نے دیکھ لیا ۔اس پر حضرت ؒ بہت ناراض ہوئے اور اپنی محفل میں اس پر پابندی لگادی۔بہت منت سماجت کی لیکن حضرت ؒؒ نے معاف نہیں فرمایا اور فرمایا کہ تو نے میری محفل میں ڈوموں کی طرح کیوں حرکت کی۔
یہ حضرات ؒ ان چیزوں سے پاک تھے ۔ان کے ہاں شعر خوانی خو ش آوازی کے ساتھ کرنے کو ہی سماع اور قوالی کہا جاتا تھا ۔ہمارے گاو ٔ ں میں پشتو میں کمینہ کا مطلب وہی ہے جو اردو میں ہے لیکن دریا کے دوسری طرف کمینہ خاکسار کو کہتے ہیں پس بعض دفعہ لفظ ایک ہی ہوتا ہے لیکن مختلف لوگ اس کے مختلف معنی متعین کرتے ہیں جس سے مفاہیم کا اختلاف ہوتا ہے اس لیے ہم اگر کسی اصطلاح کو استعمال کرنا چاہیں تو جو اس اصطلاح کے واضعین ہوتے ہیں ان سے اس کا مفہوم پوچھنا پڑے گا نہ کہ دوسروں سے۔پس سماع کے بارے میں زیادہ ذکر حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کا ملتا ہے اس لیے ہم اس کی تعریف ان کی کتابوں سے لیں گے جو اوپر مذکو ر ہے اور اس سے ظاہر ہے کہ اصلی سماع میں مزامیر نہیں ہوتے ۔دوسری بات اس کی محفل میں پورے مرد ہوتے ہیں جن کا عارف ہونا بھی ضروری ہے تاکہ وہ شعر کا مفہوم جانتے ہوں محض مزے کے لیے نہ سنیں۔پڑھنے والا بھی مرد ہونا چاہیےاور عارف ہو تاکہ پڑھنے کا حق ادا کرسکے اور کلام بھی عارفانہ ہونا چاہیے۔
بعض لوگ صرف کلام کے عارفانہ ہونے پر اکتفا کرتے ہیں باقی شرائط پوری نہیں کرتے حالانکہ ان تمام شرائط کا پوری کرنا ضروری ہے بصورت دیگر سماع یا قوالی حرام ہوگی۔ اس لیے ہم اپنے کلام کی حرام ادایئگی کی اجازت نہیں دے سکتے اور اگر کوئی کرتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
اس کتاب میں دو قسم کے مضامین ہیں ۔ایک اللہ تعالیٰ کی محبت کی طرف میلان پیدا کرنے کے اور دوسرے اس محبت کا اثر اعمال میں ظاہر کرنے کے ۔
اول الذکر مضامین تقریباً پہلے نصف پر محیط ہیں اور دوسرے آخری۔ البتہ ان کے بیچ میں ایسے مضامین پر مشتمل کلام بھی ہے جو حبِّ الہٰی کا محرک ہوسکتا ہے جیسے شیخ کے بارے میں ، سلسلوں کے بارے میں یا صحبتِ صالحین کے بارے میں۔
ابتدا میں ہمارا خیال تھا کہ اس میں چھانٹی کرکے جو اچھی معیار کی غزلیں اور رباعیات ہیں ان کو پیش کیا جاۓ اور باقی کلام کو بعد میں دیکھا جاۓ لیکن معاً یہ شرح صدر ہوا کہ یہ کلام گو کہ شاعری ہے لیکن اس میں شاعری مقصود نہیں بلکہ پیغام مقصود ہے اگر کم معیار کی شاعری کے ساتھ بھی اعلیٰ معیار کا پیغام جارہا ہو تو گو کہ طبع نازک پر کچھ گراں تو گزر سکتا ہے لیکن جن کا مطلب پیغام سے ہوگا وہ اپنا مطلب اس سے لے لے گا۔آخر نثر سے تو زیادہ ہی پر اثر ہوگا۔بندہ نے مشہور شعراء کو بھی اس قسم کے کلام میں شعری تکلفات کا زیادہ مکلف نہیں پایا ۔مثالوں کی فہرست بہت طویل ہے اس لیے پیش کرنے سے بندہ قاصر ہے ۔واللہ اعلم۔
بندہ نے اس سلسلے میں اس کتاب سمیت چار کتابیں لکھی ہیں ۔اس میں ایک تدریج ہے درج ذیل غزل ان کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔ان کتابوں کے کلام کے ورود میں بندہ کو صاف محسوس ہوتا تھا کہ بندہ کچھ بھی نہیں کررہا ہے بلکہ اس سے کرایا جارہا ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کو قبول فرماۓ۔آمین۔
یہ شاہراہ ہے محبت کی نہیں ہے راستہ یہ عام
اور اس کے بعد آئے گا محبت کا اہم پیغام
پہنچائے ہمارادل جو اہل دل ہیں ان کے ہاں
یہ دل والوں کا اک پیغام ان سارے دلوں کے نام
پھر اس کے بعد فکر آگہی کا بھی ارادہ ہے
مسلمانوں کا ہو اس دور میں کیا فکر اور کیا کام
پھر اس کے بعد ایک چھوٹی کتاب شجرہ رباعی کی
نظر آئے گی منظر پر پڑھیں گے اس کو خاص و عام
ہمارے سلسلے کے اولیاء کی نسبتوں کی بھی
رباعی اک شبیرؔ ہوگی بنے وہ عشق کا اک جام
سید شبیرؔ احمد کاکاخیل
خلیفہ مجاز حضرت صوفی محمد اقبال مدنی ؒ