دفتر 6 حکایت 83: ان تین مسافروں کی کہانی (جن میں سے ایک) مسلمان اور (ایک) یہودی اور (ایک) عیسائی (تھا) کہ وہ ایک مقام پر پہنچے اور کچھ خوراک پائی، عیسائی اور یہودی شکم سیر تھے اور مسلمان روزہ دار

دفتر ششم: حکایت: 83



داستانِ آں سہ مسافر مسلمان و جہود و ترسا کہ بمنزلے رفتند و لقمۂ یافتند، ترسا و جُہود سیر بودند و مسلمان صائمِ

ان تین مسافروں کی کہانی (جن میں سے ایک) مسلمان اور (ایک) یہودی اور (ایک) عیسائی (تھا) کہ وہ ایک مقام پر پہنچے اور کچھ خوراک پائی، عیسائی اور یہودی شکم سیر تھے اور مسلمان روزہ دار

1

یک حکایت بشنو اینجا اَے پسر! تا نگردی ممتحن اندر ہُنر

ترجمہ: اے عزیز! یہاں ایک کہانی سُن لو تا کہ (تم کو عبرت حاصل ہو اور پھر زیرکی کے) ہنر میں تمہارا امتحان نہ ہونے لگے۔ (جس کا نتیجہ ناکامی و ندامت ہو)۔

2

آں جہود و مومن و ترسا مگر ہمرہی کردند باہم در سفر

ترجمہ: اس یہودی اور مسلمان اور عیسائی نے (جن کا ذکر عنوان میں ہے) شاید (قصدًا کسی مصلحت سے) سفر میں رفاقت کی (ہو گی یا اتفاقًا ہو گئی ہوگی)۔

3

با دو گمرہ ہمرہ آمد مومنے چُوں خرد با نفس و با اَہرْمنے

ترجمہ: (اور ہاں تھی یہ عجیب بات کہ) دو گمراہوں کے ساتھ ایک مومن ہمراہ ہو گیا۔ جس طرح عقل (کہ) نفس اور شیطان کے ساتھ (ہمراہ ہے۔ احیانًا ایسا ہو ہی جاتا ہے)۔

4

مروزی و رازی اُفتد در سفر ہمرہ و ہمسفرہ پیشِ ہمدگر

ترجمہ: (جیسے) ایک مرو کا باشندہ اور ایک رے کا رہنے والا (باوجودیکہ دونوں کے وطن، زبانیں اور عادتیں مختلف ہیں) ایک دوسرے کے ساتھ ہمراہ اور ہم پیالہ ہو جائیں۔

5

در قفص اُفتند زاغ و چغد و باز جُفت شد در جلس پاک و بے نماز

ترجمہ: (اور ان کی مثال تو ایسی تھی جیسے) کوّا اور اُلّو اور باز ایک پنجرے میں آ پڑیں (اسی طرح ایک) پاک آدمی (یعنی مومن) اور (دو) بے نماز (یعنی یہودی و عیسائی) جمع ہو گئے۔

6

کردہ منزل شب بیک موضع بہم مشرقی و مغربی قانع بہم

ترجمہ: (اور ان کے اختلافاتِ مشرب کے لحاظ سے یہ ایسی مثال تھی جیسے) ایشیائی اور یورپین نے رات کو ایک مقام پر آپس میں قانع ہو کر منزل کی ہو۔

7

ماندہ در منزل زرہ خُرد و شگرف روزہا باہم ز سرما وز برف

ترجمہ: (اور ان کے فرقِ مراتب کے لحاظ سے یہ ایسی مثال تھی جیسے) ایک کم رتبہ اور ایک عالی رُتبہ کئی دن تک اکھٹے (سفر کر کے) سردی اور برف (کی مجبوری) سے راستے سے (کترا کر) ایک منزل میں ٹھہر جائیں۔

8

چُوں کشاید راہ و بردارند بند بگسلند و ہر یکے جائے روند

ترجمہ: (مگر یہ بے جوڑ صحبت تا بکے؟ آخر) جب راستہ (برف و باراں) سے کھُل جائے گا۔ اور مانع اُٹھا لیا جائے گا۔ تو (یہ ہم صحبت) قطع تعلق کر لیں گے اور ہر ایک (اپنی اپنی) راہ لگے گا۔

9

چُوں قفص را بشکند شاہِ خرد جمع مُرغاں ہر یکے سُوئے پرّد

ترجمہ: جب کوئی (انسان جو) عقل (کے زور سے جانوروں) کا حکمران (ہے پرندوں کے) پنجرے کو توڑ ڈالے تو پرندوں کی جماعت (میں سے ہر ایک پرندہ) ایک (ایک) طرف کو پرواز کر جائے۔

مطلب: قفص شکنی کے ساتھ اہلِ عقل کی خصوصیّت شاید اس لیے ملحوظ ہے کہ مخلوق غیر ذوی العقول پر متصرف ہونا ذوی العقول کا ہی کام ہے یا اس لیے کہ بے گناہ جانوروں کو ناحق پنجروں میں بند کرنا احمقوں کا کام ہے۔ اور ان پنجروں کو توڑ ڈالنا عقلمندوں کا۔

10

پر کشادہ پیش ازیں پُر شوق و یاد در ہوائے جنسِ خود سوئے معاد

ترجمہ: اس (قفص شکنی) سے پہلے (بھی وہ پرندے اپنے ہم) جنس (پرندوں) کی محبت میں (اپنے) مقام کی طرف (اُڑ جانے کے لیے) شوق اور یاد سے پُر ہو کر بازو کھولے ہوئے تھے۔

11

پر کشادہ ہر دمے با اشک و آہ لیک پرّیدن ندارد روئے و راہ

ترجمہ: (سب پرندے آزادی کی حسرت میں) ہر وقت اشک و آہ کے ساتھ پَر کشادہ (تھے) مگر اڑ جانے کی کوئی صورت اور طریقہ نہیں (کَمَا قَالَ بَعْضُ الْغُرَبَاءِ فِیْ قَیْدِ غُرْبَتِہٖ)؎

چوں مرغ اسیرے کہ باُمیدِ رہائی ہر چند کہ پرواز کنم در قفس افتم

12

چونکہ رہ وا شد پرّد ہر یک چو باد سوئے آں کز یادِ آں پر می کشاد

ترجمہ: جب (قفس کے ٹوٹنے سے) راستہ کھل گیا۔ تو ہر ایک (پرندہ) ہوا کی طرح اس (مقام) کی طرف اُڑ جاتا ہے۔ جس کی یاد (اور شوق) میں وہ پر کھولتا تھا۔

13

آں طرف کِش بود اشک و سوز و آہ چُونکہ فرصت یافت آں سُو کوفت راہ

ترجمہ: (یعنی) جس طرف (جانے کی حسرت میں) اس کی اشک باری اور سوز اور آہ (جاری) تھی۔ جب اُس نے موقع پایا تو ادھر راستہ طے کرنا شروع کر دیا۔

مطلب: اس قسم کے اجتماعات جو اتفاقی و عارضی ہوں محض قسری یعنی بلا میلانِ طبعی ہوتے ہیں۔ جیسے کہ ان تینوں مسافروں میں اجتماع تھا، یا مذکورہ مثالوں کی اشیاء میں ہوتا ہے۔ ایسے اجتماع میں ہر چیز کو بحالتِ اجتماع بھی اسی جنس کی طرف میلان اور کشش رہتی ہے۔ اور جونہی وہ رابطہ، جس نے ان کو خلافِ طبع باہم مجتمع کر دیا تھا، ٹوٹ جاتا ہے تو سب اشیاء اپنے اپنے مقتضائے طبعی کے تحت اپنی جنس کی طرف راجع ہو جاتی ہیں۔ آگے اس حکیمانہ تحقیق کا ثبوت ایک پُر عبرت مثال سے دیتے ہیں:

14

در تنِ خود بنگر ایں اجزائے تن از کجا جمع آمدند اندر بدن

ترجمہ: تم اپنے بدن میں (بھی) ان اجزائے بدن کو دیکھ لو کہ یہ بدن میں کہاں سے جمع ہو گئے۔

15

آبی و خاکی و بادی و آتشی عرشی و فرشی و رومی و کشی

ترجمہ: (ایک جز) پانی کا (ہے) اور (ایک جز) مٹی کا (ہے) اور (ایک جز) ہوا کا (ہے) اور (ایک جز) آگ کا (ہے۔ گویا ایک) آسمانی (ہے) اور (ایک) زمینی (ہے)، اور (ایک) رُوم کا (ہے) اور (ایک) کش کا۔

16

از امیدِ عود ہر یک بستہ طرف اندریں منزل بہم از بیمِ برف

ترجمہ: (ان اجزاء میں سے) ہر ایک جز نے واپسی کی امید کو (اپنے لیے) لازم بنا رکھا ہے (اور) وہ اس منزلِ (دنیا) میں برف کے خوف سے (جمع ہو گئے ہیں)۔

17

برفِ گوناگوں جمودِ ہر جماد در شتاے بُعدِ آں خورشیدِ داد

ترجمہ: برف (کیا ہے؟ یہ) ہر ساکن کا گوناگون سکون ہے۔ اس آفتابِ عدل کی دوری کے جاڑے میں۔

مطلب: آفتاب جس موسم میں زمین سے دور ہوتا ہے تو وہ جاڑے اور برف باری کا موسم ہوتا ہے۔ ان دنوں ہر چیز پر بے حسی اور افسردگی چھا جاتی ہے، پھر جب آفتاب قریب آ جاتا ہے تو اس کی حِدّت اور شدّتِ حرارت سے سردی دور ہو جاتی ہے اور ہر چیز میں سرگرمی کی حرکت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس تشبیہ کو مدِّنظر رکھ کر تخیّلِ شاعرانہ فرماتے ہیں کہ عدلِ قیامت کا آفتاب (بھی دور ہے) اس لیے دنیا میں سردی کے زور سے عناصر جہاں کہیں ٹھٹھرے ہوئے مجتمع پڑے ہیں۔ جب قیامت کو آفتابِ عدل اپنی تابش و تنویر دکھائے گا تو یہ افسردگی جاتی رہے گی اور یہ دنیاوی زندگی کے فنا ہو جانے سے، جو اجتماعِ اضداد کی باعث ہے، ہر چیز اپنی اصل کی طرف رجوع کرے گی، اور بڑی بڑی ہستیاں جو اس دورِ انجماد میں سکون و استقلال کا پاؤں جمائے بیٹھے ہیں، پرِ کاہ کی طرح اڑنے لگیں گی۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

18

چوں بتابد تفِ آں خورشیدِ خشم کوہ گردد گاہ ریگ و گاہ پشم

ترجمہ: (پھر) جب (قیامت کے آغاز میں) اس آفتابِ قہر کی تابش چمکے گی تو پہاڑ کبھی ریت (کی طرح پس کر باریک ہو جائیں گے اور کبھی اون (کی طرح اڑتے پھریں گے)۔

مطلب: پہاڑوں کے ریت ہو جانے کا ذکر اس ارشاد قرآنی کی بنا پر کیا۔ ﴿وَ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّاۙ۔ فَكَانَتْ هَبَآءً مُّنْۢبَثًّاۙ (الواقعہ: 5،6) ”اور پہاڑ (ٹکرا کر ایسے) ریزہ ریزہ ہو جائیں گے جیسے کیڑے اُڑ رہے ہیں“۔ اور ان کا اون کی مانند بن جانا اس ارشاد کی بنا پر ہے۔ ﴿وَ تَكُوْنُ الْجِبَالُ كَالْعِهْنِ الْمَنْفُوْشِ (القارعۃ:5) ”اور پہاڑ (ایسے اڑے اڑے پھر رہے) ہوں گے جیسے دھنکی ہوئی اون“۔

19

در گداز آید جماداتِ گراں چوں گدازِ تن بوقتِ نقلِ جاں

ترجمہ: (یعنی اس وقت پہاڑوں کی سی) بھاری جمادات ڈھلنے (اور فنا ہونے) لگیں گی جس طرح جان نکلنے کے وقت بدن (کے اجزا) کا ڈھلنا (اور اپنے اپنے مرکز کی طرف عود کرنا شروع ہو جاتا ہے)۔

20

چوں رسیدند ایں سہ ہمرہ منزلے ہدیہ شاں آورد حلوا مقبلے

ترجمہ: جب یہ تینوں ہمراہی ایک منزل میں پہنچے تو کوئی با اقبال (بندہ) ان کے لیے (کچھ) حلوا (بطور) ہدیہ لایا۔

21

برد حلوا پیشِ آں ہر سہ غریب محسنے از مطبخِ اِنِّیْ قَرِیْب

ترجمہ: کوئی احسان (و مروت) والا (بندہ) "اِنِّیْ قَرِیْبٌ" کے باورچی خانہ سے کچھ حلوا ان تینوں مسافروں کے پاس لے گیا۔

مطلب: یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ اِذَا سَاَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرۃ:186)۔ یعنی حق تعالیٰ جو طالبِ رزق کی دعا قبول کرتا اور اس کو رزق بخشتا ہے۔ یہ حلوا اسی کے ذخیرۂ انعامات سے تھا جو اس محسن کے ہاتھ سے ان مسافروں کو ملا۔

22

نانِ گرم و صحنِ حلوائے عسل بُرد آں کاندر ثوابش بُد امل

ترجمہ: (غرض) وہ (شخص) جس کو ثواب کی امید تھی گرم روٹیاں اور شہد کے حلوے کا طشت ان کے پاس لے گیا۔ (حلوہ لانے والے کو مولانا نے مقبل اور امیدوارِ ثواب بتایا ہے تو اس سے اس کا مسلمان ہونا ظاہر ہے۔ کیونکہ کافر نہ مقبل ہو سکتا ہے نہ امیدوارِ ثواب۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُم بِالأخْسَرِينَ أَعْمَالاً۔ الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ في الْحَياةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا۔ أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ كَفَرُواْ بآياتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلاَ نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْناً (الکھف: 103 تا 105) "(اے پیغمبر! کافروں سے) کہہ دو کہ کہو، تو ہم تمہیں وہ لوگ بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے بڑے گھاٹے میں ہیں۔ (ہاں تو یہ) وہ لوگ (ہیں (جن کی دنیاوی زندگی کی کوشش (سب) گئی گزری ہوئی اور وہ (اپنی غلط فہمی سے) اسی خیال میں ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں کو اور اس کے حضور میں حاضر ہونے کو نہ مانا۔ تو اس کے عمل اکارت گئے قیامت کے دن ہم ان (کے اعمالِ نیک) کا (رتی برابر) وزن (بھی حساب میں) نہیں رکھیں گے"۔ اگر کافر بدانستِ خود اپنے اعمالِ بِرّ کے اجر و ثواب کا امیدوار ہو تو وہ امید نہیں غرور ہے۔ چونکہ ان مسافروں نے ایسی جگہ منزل کی تھی جہاں کوئی خانہ بدوش جماعت مقیم تھی۔ انہی میں سے کسی نے ان سے یہ سلوک کیا تھا اس لیے مولانا اہلِ بادیہ کی مہمان نوازی کا ذکر فرماتے ہیں:

23

اَلْکِیَاسَۃُ وَالْاَدَبُ لِاَھْلِ الْمَدَرْ اَلضِّیَافَۃُ وَ الْقِرٰی لَاَھْلِ الْوَبَرْ

ترجمہ: دانائی اور تہذیب شہر والوں کا حصہ ہے اور ضیافت و مہمانداری (کا وصف) اہلِ بادیہ کے لیے ہے۔

24

اَلضِّیَافَۃُ لِلْغَرِیْبِ وَ الْقِرٰی اَوْدَعَ الرَّحْمٰنُ فِیْ اَھْلِ الْقُرٰی

ترجمہ: مسافر کے لیے ضیافت اور مہمانداری حق تعالیٰ نے اہل دیہات کو بخشی ہے۔

25

کُلَّ یَوْمٍ فِی الْقُرٰی ضَیْفٌ حَدِیْث مَا لَہٗ غَیْرُ الْاِلٰہِ مِنْ مُّغِیْث

ترجمہ: دیہات میں ہر روز ایک (نہ ایک) نیا مہمان (وارد) ہوتا (رہتا) ہے۔ جس کا خدا کے سوا کوئی فریاد رس نہیں (یعنی اللہ تعالیٰ بھوکے مسافروں کی فریاد رسی اہلِ بادیہ کے ذریعہ کرتا ہے۔)

26

کُلُّ لَیْلٍ فِی الْقُرٰی وَفْدٌ جَدِیْدٌ مَالَھُمْ ثَمَّ سِوَی اللّٰہِ الْمَجِیْد

ترجمہ: دیہات میں ہر شب (کوئی نہ کوئی) نیا وارد ہونے والا (وارد) ہوتا (رہتا) ہے۔ جن کا اس جگہ خداوندِ بزرگ کے سوا کوئی (مددگار) نہیں ہوتا۔

27

تُخمہ بودند آں دو بیگانہ ز خود بُود صائم روزِ آں مومن مگر

ترجمہ: وہ دونوں (یہودی و عیسائی جو خدا سے) بیگانہ (تھے اس سے پہلے) خوراک سے (پیٹ بھر چکنے کے سبب) بد ہضمی میں تھے (مگر) وہ مسلمان (بہت بھوکا تھا) شاید دن کو روزے سے تھا۔

28

چوں نمازِ شام آں حلوا رسید بود مومن ماندہ در جوعِ شدید

ترجمہ: جب شام کی نماز کے وقت وہ حلوا پہنچا تو مومن کو سخت بھوک لگ رہی تھی۔

29

آں دو کس گفتند ما از خود پُریم امشبش بنہیم و فردایش خوریم

ترجمہ: ان دو شخصوں نے کہا۔ ہم تو غذا سے پر ہو رہے ہیں (فی الحال اس کو کھا نہیں سکتے اس لیے مناسب ہے کہ) آج کی شب اس کو رکھ چھوڑیں۔ کل کو اسے کھائیں۔

30

صبر گیریم از خور امشب تن زنیم بہرِ فردا لوت را پنہاں کنیم

ترجمہ: آج کی رات کھانے سے صبر کریں (اور) خاموش رہیں کل کے لیے لذیذ کھانے کو محفوظ رکھیں۔

31

گفت مومن امشب ایں خوردہ شود صبر را بنہیم تا فردا بود

ترجمہ: مسلمان نے کہا یہ (حلوا) آج ہی رات کھا لیا جائے (اور) صبر کو ہم (کل کے لیے) ملتوی رکھیں۔ حتٰی کہ کل (کا دن) آ جائے۔

مطلب: یعنی تم جو آج کی شب صبر اختیار کرتے ہو اور حلوے کو کل پر ملتوی رکھتے ہو، یہ خلافِ اصول کام ہے۔ نقد چیز تو موجود وقت کے لیے موزون ہے۔ اور نایابی کا صبر آنے والے وقت کے لیے زیبا ہے کہ اس وقت پھر حلوا مل گیا تو سبحان اللہ، ورنہ صبر کا عزم تو ہو ہی چکا ہے۔ مگر دونوں حریف بفحوائے "اَلْمَرْءُ یَقِیْسُ عَلٰی نَفْسِہٖ" مومن کی اسی بات سے بد گمان ہوئے:

32

پس بدو گفتند زیں حکمت گری قصدِ تو آن ست تا تنہا خوری

ترجمہ: تو وہ (دونوں) اس سے کہنے لگے۔ اس حکمتِ عملی سے تیرا فیصلہ یہ ہے کہ تو اکیلا کھا جائے (یعنی اگر تینوں اسی وقت اکھٹے کھانے بیٹھ گئے تو ہم دونوں تو کچھ نہ کھا سکیں گے، تو اکیلا اُڑا جائے گا)۔

33

گفت اَے یاراں کہ نے ما سہ تنیم چُوں خلاف افتاد ما قسمِت کنیم

ترجمہ: اس نے کہا کہ اے دوستو! (یہ بات) نہیں (جو تم سمجھے بلکہ) ہم تین شخص ہیں۔ جب ہماری (رائے میں) اختلاف واقع ہوا تو ہم سب اس کو آپس میں) تقسیم کر لیں۔

34

ہر کہ خواہد قسمِ خود بر جاں زند وانکہ خواہد قِسمِ خود پنہاں کند

ترجمہ: (پھر تقسیم کے بعد) جس کا جی چاہے اپنا حصہ بہ (دل و جان تناول کرے)۔ اور جس کا جی چاہے اپنا حصہ (دوسرے وقت کے کھانے کے لیے) چھپا کر رکھ دے۔

35

آں دو گفتندش ز قسمت درگذر گوش کُن قَسَّامٌ فِی النَّارِ از خبر

ترجمہ: ان دونوں نے اس سے کہا (میاں) تقسیم سے باز آؤ۔ حدیث (نبوی) سے (یہ حکم) سن لو کہ تقسیم کرنے والا جہنم میں (جانے کا مستوجب) ہے۔

مطلب: مولانا بحر العلوم کے نزدیک قُسّام بضمِ قاف بر وزن حُکّام صیغہ جمع ہے۔ نیز انہوں نے اس قول کو حدیث تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں "در حدیث آمدہ القسامہ فی النار قسمت کنندہ کاندر نار اند (انتہٰی)۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں اگر یہ حدیث ہو، جس کی مجھے تحقیق نہیں، تو اس کے یہ معنٰی نہیں جو ان قائلین نے سمجھے۔ حقوقِ مشترکہ میں امتیازِ حصص کر دینا تو تمام عمل میں عبادت ہے۔ بلکہ مراد اس سے وہ قسّام ہے جو اپنی نفسانی غرض مثل رشوت وغیرہ کے لیے ایک شریک کے نفع کے لیے دوسرے کو ضرر پہنچائے۔ (انتہٰی)۔ اگر یہ حدیث پایۂ صحت کو نہ پہنچے تو بھی اس کا مضمون صحیح ہے۔ جس کی تائید دیگر احادیث سے ہوتی ہے۔ مثلًا: "قَاضِیَانِ فِی النَّارِ وَ قَاضٍ فِی الْجَنَّۃِ، قَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَقَضٰی بِہٖ فَھُوَ فِی الْجَنَّۃِ، وَ قَاضٍ عَرَفَ الْحَقَّ فَجَارَ مُتَعَمِّدًا اَوْ قَضٰی بِغَیْرِ عِلْمٍ فَھُمَا فِی النَّارِ۔" (الجامع الصغیر للسیوطی) یعنی "دو قاضی دوزخ میں جائیں گے اور ایک قاضی بہشت میں۔ جو قاضی حق کو پہچان کر حق کے مطابق فیصلہ دے تو وہ جنت میں جائے گا۔ اور جو قاضی حق کو پہچان کر دانستہ ظلم کرے یا بلاعلم فیصلہ دے تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔“ اہلِ شرکت جس شخص کو اپنا منصف تسلیم کر کے اس کی تقسیمِ حصص پر راضی ہو جائیں وہ ان کے لیے گویا قاضی ہے۔ پھر اگر وہ دانستہ کسی فریق کو نقصان پہنچائے یا تقسیم و انصاف کی قابلیت نہ رکھتا ہو تقسیم کرنے بیٹھ جائے تو دونوں صورتوں میں اس کا موردِ عتاب ہونا حدیثِ مذکور سے ظاہر ہے۔ پس یوں سمجھنا چاہیے کہ "اَلْقُسَّامُ فِی النَّارِ" میں حدیثِ مذکور کی ایک شق یعنی "قَاضِیَانِ فِی النَّارِ" لفظًا مذکور ہے۔ اور دوسری شق معنًا ملحوظ۔

36

گفت قسّام آں بود کو خویش را کرد قسمت بر ہوا نے بر خدا

ترجمہ: (مسلمان نے جوابًا) کہا تقسیم کرنے والا (دوزخی تو) وہ ہوتا ہے جو (خود) اپنے آپ کو ہوا (ئے نفسانی) پر تقسیم کرے نہ کہ خدا پر۔

مطلب: مومن کا جواب ظاہرًا یہ تھا کہ تم نے حدیث کا مفہوم غلط سمجھا ہے۔ حدیث میں صرف غیر عادل قسام کو جہنمی ٹھہرایا گیا ہے نہ کہ عادل کو۔ اگر ہم اس حلوے کو عدل و انصاف سے تقسیم کر لیں تو پھر یہ وعید ہم پر صادق نہیں آتی۔ مگر اس نے اس جواب کو ایک اور لطیف انداز میں ادا کیا ہے۔ یعنی غیر منصفانہ تقسیم کرنے والا ہی جہنمی ہوتا ہے جو نہ صرف اس چیز کے بعض حصص کو غیر مستحقین پر تقسیم کر رہا ہے بلکہ اس صورت میں وہ خود اپنے وجود کو بھی ہوائے نفسانی پر تقسیم یعنی اس کے سپرد کر دیتا ہے۔ کیونکہ اسی کے تقاضے سے اُس نے یہ تقسیم کی ہے۔ حالانکہ اس کو چاہیے تھا کہ اپنے تمام افعال و اقوال کو مرضیِ حق کے تابع رکھتا۔ جس کے لیے عدل و انصاف لازم ہے۔ آگے بطورِ التفات ایسے قسّام جور پیشہ سے خطاب ہے:

37

ملکِ حق و جملہ قِسمِ اوستی قِسم دیگر را دہی دو گوستی

ترجمہ: (ارے) تو تو حق تعالیٰ کا مملوک اور بالکل اسی کا حصّہ ہے (پھر باوجود اس کے) تو دوسرے کو حصّہ دیتا ہے (تو معلوم ہوا کہ) تو دو کا قائل (اور مرتکبِ شرک) ہے۔

38

ایں اسد غالب شدے ہم بر سگاں گر نبودے نوبتِ آں بد رگاں

ترجمہ: (غرض مومن کی اس دلیل سے وہ دونوں لاجواب تو ہو گئے اور قریب تھا کہ) یہ شیر ان کتوں پر غالب بھی آ جاتا اگر ان بد طینتوں کا دور دورہ نہ ہوتا (مگر چونکہ وہ دو تھے اور یہ اکیلا اس لیے ان کے آگے اس کی کچھ پیش نہ گئی)۔

39

ایں اسد غالب شدے ہم بر بقُور گر نبودے نوبتِ آں گاوِ زُور

ترجمہ: یہ شیر ان بیلوں پر غالب بھی آ جاتا۔ اگر ان بے انصافوں کا دور دورہ نہ ہوتا۔

40

قصدِ شاں آں کاں مسلماں غم خورد شب برو در بے نوائی بگذرد

ترجمہ: (چنانچہ) ان دونوں کا ارادہ یہ تھا۔ کہ وہ مسلمان (حلوے کے بجائے) غم کھائے (اور) رات اس پر بے سامانی (اور فاقہ) میں گزرے۔

41

بود مغلوب او بہ تسلیم و رضا گفت سَمْعًا طَاعَۃً اَصْحَابَنَا

ترجمہ: وہ (غریب مومن ان دو کے آگے) مغلوب تھا (اپنی اس مغلوبیت کے مقتضائے تقدیر سمجھ کر) تسلیم و رضا کے ساتھ بولا (اے ہمارے رفیقو! اچھا یونہی سہی) میں نے آپ کا ارشاد سن لیا، مان لیا۔

42

پس بخفتند آں شب و برخاستند بامداداں خویش را آراستند

ترجمہ: پھر اس رات وہ (تینوں) سو گئے۔ اور صبح کو اُٹھے اور اپنے آپ کو آراستہ کیا۔

43

روئے شستند و دہان و ہر یکے داشت اندر وِرد راہ و مسلکے

ترجمہ: (یعنی تینوں نے اپنا اپنا) چہرہ دھویا۔ اور منہ (مسواک اور کلی سے صاف کیا) اور ہر ایک (اپنے اپنے) ورد (و وظیفہ) میں ایک (جداگانہ) طریق اور مسلک رکھتا تھا۔

44

یک زمانے ہر یکے آورد روئے سوئے وردِ خویش از حق فضل جُوئے

ترجمہ: (اسی کے موافق) ہر شخص ایک (خاص) وقت میں اپنے ورد (و وظیفہ) کی طرف متوجہ ہوا (اس حالت میں کہ وہ) حق تعالیٰ سے فضل کا طالب (تھا)۔

45

مومن و ترسا جہود و گبر و مُغ جملہ را رو سوئے آں سلطانِ اُلُغ

ترجمہ: (کیونکہ) مسلمان اور عیسائی اور یہودی و گبر و آتش پرست (وغیرہ) سب کا رُخ اسی (حقیقی) بادشاہِ بزرگ کی طرف ہے۔

46

مومن و ترسا جہود و نیک و بد جملگاں را ہست رو سوئے اَحَد

ترجمہ: مسلمان اور عیسائی اور یہودی اور (دیگر) نیک و بد (خواہ کوئی ہو) سب کا رخ (خداوندِ) واحد کی طرف ہے۔

رفعِ اشتباہ: بعض لوگوں کو یہ شبہ عارض ہوا کرتا ہے کہ جب مثلًا آتش پرست آگ کی پرستش میں اور بُت پرست بُت کی پوجا میں پورے خلوص سے کام لے رہا ہے اور آگ یا بُت کو بعض صفاتِ حق کی مظہر سمجھ کر اس کے ذریعہ سے اپنے اعتقاد کے موافق خدا ہی کی عبادت کر رہا ہے۔ چنانچہ مولانا بھی آتش پرست وغیرہ سب کے متعلق فرماتے ہیں۔ ”جملگاں را ہست رُوسوئے احد“ تو پھر اس کی عبادت کیوں مقبول نہیں ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی عبادت کرنے اور اس کی درگاہ میں قرب حاصل کرنے کا وہی طریقہ مقبول ہے جو اس نے خود تجویز کیا ہے۔ اور اپنے پیغمبروں کے ذریعہ اس کی ہدایت فرمائی ہے۔ لوگوں کے خود ساختہ طریقے یا شیطان کے ایجاد کئے ہوئے دستور یہاں مفید نہیں ہو سکتے۔ اگرچہ لوگ ان کو کیسے ہی خلوصِ ارادت اور صفائیِ اعتقاد سے بجا لائیں۔ دیکھو حکامِ ملک کی عدالتوں میں اپنا دعوٰی زیرِ سماعت لانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دعوٰی ایک خاص کاغذ پر لکھایا جائے جو سرکار نے مقرر کر رکھا ہے اور اس پر سرکاری مُہر ثبت ہے۔ اور وہ خاص مقررہ قیمت پر ملتا ہے۔ اور خاص آدمی اس کو لکھتا ہے۔ جو اس کام پر مامور ہے۔ اور وہ خاص عنوان اور خاص قاعدے اور پیرائے کے ساتھ اس کو لکھتا ہے۔ تو پھر اہلِ عدالت اس کاغذ کو پکڑتے اور پڑھتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ایسے ویسے خانگی کاغذ پر دعویٰ لکھائے یا ایسے شخص سے لکھا لائے جو اس کام پر مامور نہیں یا ایسے انداز اور پیرائے میں لکھوائے جو سرکاری ضابطہ میں مقرر نہیں تو اس کا یہ کاغذ اہلِ عدالت ہرگز نہیں لیں گے۔ خواہ وہ نہایت اعلیٰ پایہ کی ہو۔ اور دعوٰی پیش کرنے والا بھی بالکل سچا اور مظلوم ہو۔ اس لیے کہ اُس نے اپنے دعوٰی کے پیش کرنے میں سرکاری قاعدے کی پابندی اختیار نہیں کی اور سرکار بلا پابندیِ قواعد کوئی دعوٰی سماعت نہیں کرتی۔ اسی طرح خداوند تعالیٰ قرب و قبولیت اس شخص کو بخشتا ہے جو اس کے مقرر کئے ہوئے طریقۂ حصولِ قرب پر عمل کرے اگر وہ کوئی خود ساختہ یا شیطان کا ایجاد کردہ طریقہ اختیار کر کے قرب حاصل کرنا چاہے تو اپنی مراد میں نا کام رہے گا۔ خواہ وہ کیسا ہی راسخ الاعتقاد اور مخلص اور عاشقِ حق کیوں نہ ہو۔ سعدی رحمۃ اللہ علیہ

؎ خلاف پیمبر کسے راہ گزید کہ ہرگز بمنزلہ نخواہد رسید

مشرکینِ عرب کا یہی اعتقاد تھا کہ بت ان کے معبود بالذّات نہیں۔ بلکہ وہ عبادتِ حق کا ایک ذریعہ اور قربِ حق کا وسیلہ ہے۔ وہ کہتے تھے: ﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى (الزمر: 3) "ہم تو ان کی پرستش صرف اس لیے کرتے ہیں۔ کہ وہ ہم کو خدا کے نزدیک کر دیں"۔ مگر چونکہ انہوں نے حُصولِ قرب کا وہ طریقہ اختیار کر رکھا تھا جو شیطان نے ایجاد کیا تھا۔ اور جس سے ان کا مقصود ان لوگوں کو اور زیادہ گمراہ اور مبتلائے کفر کرنا تھا۔ اس لیے وہ مشرک کے مشرک رہے۔ کفار و مشرکین کے اسی خلوصِ ارادت اور رسوخِ اعتقاد کو دیکھ کر جو وہ اپنی پُوجا پاٹ اور جپ تپ میں اختیار کرتے ہیں۔ بعض لوگ اس شبہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید اللہ تعالیٰ ان کی نیک نیتی دیکھ کر ان کو نجات بخشے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ناطق فیصلے سے اس شبہ کا قلع و قمع کر دیا: ﴿وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (آل عمران: 85) ”اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کی تلاش میں ہو تو خدا کے ہاں اس کا وہ دین مقبول نہیں۔ اور وہ آخرت میں زیاں کاروں میں ہو گا“۔ آگے مولانا مخلوقات کی اس توجہ الی اللہ کے ذکر میں بطور ترقی فرماتے ہیں:

47

بلکہ سنگ و خاک و کوہ و آب را ہست واگشتِ نہانی با خدا

ترجمہ: بلکہ پتھر اور مٹی اور پہاڑ اور پانی کو خداوند تعالیٰ کے ساتھ پوشیدہ توجہ ہے۔

مطلب: تمام کائناتِ عالم کی توجہ و رجوع حق تعالیٰ کی طرف خصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ یَسْجُدُ لَهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُ وَ النُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَ الشَّجَرُ وَ الدَّوَآبُّ وَ كَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ۔۔۔ (الحج: 18) ترجمہ پیچھے گزر چکا۔ اور فرمایا۔ ﴿وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ وَ لٰكِنْ لَّا تَفْقَهُوْنَ تَسْبِیْحَهُمْ۔۔۔ (بنی اسرائیل: 44) یعنی "ہر چیز اس کی حمد کے ساتھ تسبیح و تحمید کر رہی ہے۔ لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھتے نہیں"۔ اشیائے عالم کی تسبیحِ و تحمید کو نہانی اس لیے کہا ہے کہ لوگ اس کو سمجھ نہیں سکتے۔

آگے قصہ کی طرف عود فرماتے ہیں:

48

ایں سخن پایاں ندارد ہر سہ یار رُو بہم کردند آں دم یار وار

ترجمہ: یہ (کائنات کے توجّہ الٰی الحق کا) مضمون تو انتہا نہیں رکھتا (اب قصّہ سنئے) تینوں رفیقوں نے اس وقت ایک دوسرے کی طرف رُخ کیا۔ جس طرح دوست (کیا کرتے ہیں)۔

49

آں یکے گفتا کہ ہر یک خوابِ خویش آنچہ دید او دوش گو آور بہ پیش

ترجمہ: ایک نے کہا، ہر شخص اپنا اپنا خواب جو کچھ اس نے شبِ گذشتہ میں دیکھا ہو (اس سے) کہو کہ بیاں کرے۔

50

ہر کہ خوابش بہتر ایں را او خورد قِسمِ ہر مفضول را فاضل بُرد

ترجمہ: (پھر) جس کا خواب (سب سے) اچھا ہو۔ اس (حلوے) کو وہ (تنہا) کھائے۔ اور ہر کم رتبہ کے حصے کو عالی رُتبہ اُڑا لے۔

51

آنکہ اندر عقل بالا تر رود خوردنِ او خوردنِ جملہ بود

ترجمہ: (کیونکہ اچھا خواب عقل کی دلیل ہے اور) جو شخص عقل میں فائق تر ہو اس کا کھانا (گویا) سب کا کھانا ہے (جو شخص قوم کا رُکنِ اعظم ہو، قوم کے لیے اس کا وجود مفید اور اس کی سلامتی مُغتَنم ہے۔ اس لیے اس کی بقائے حیات کی کوشش خود قوم کی بقائے حیات کا سامان ہے۔)

52

فائق آید جانِ پُر انوارِ اُو باقیاں بس بود تیمارِ اُو

ترجمہ: اس (اچھا خواب دیکھنے والے) کی رُوح (بھی) پُر انوار (ہو گی۔ اس لیے وہ رُوح دوسری ارواح پر) فائق ہوگی۔ (اور اس وجہ سے بھی اچھا خواب دیکھنے والے کو سب پر ترجیح ہے اور) باقی لوگوں کے لیے اس کی خدمت کرنا کافی ہے (کہ وہ اسے حلوا کھلائیں اور وہ کھائے)۔

53

عاقلاں را چوں بقا آمد اَبد پس بمعنی ایں جہاں باقی بود

ترجمہ: اہلِ عقل کو چونکہ ابدی زندگی حاصل ہے۔ (پس ان کی بدولت) ازرُوئے معنٰی یہ عالم بقا رکھتا ہے۔

مطلب: عاقلان سے اہلِ ایمان مراد ہیں۔ کیونکہ بہترین عقل وہی ہے جو ایمان باللہ کی مقتضی ہے اور مومنوں کا خلود فی الجنۃ نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے۔ چونکہ مومن لوگ اس عالم کے افراد ہیں۔ اس لیے ان کی بقا فی الجملہ بقائے عالم کے ہم معنٰی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہودی و عیسائی نے پہلے موقع پا کر یہ سازش کی ہوگی کہ مسلمان کو حلوے سے محروم کرنے کے لیے اس تدبیر سے کام لیا جائے۔ اور خواب دونوں نے یا تو جھوٹ موٹ گھڑ لیے ہوں گے، بدیں خیال کہ مسلمان اس طرح طبع زاد خواب پیش کرنے سے قاصر رہے گا ،یا فی الواقع ان کو یہ عجیب خواب نظر آئے ہوں گے جن کا ذکر آگے آتا ہے۔ اور وہ اپنے سوئے ظن سے مسلمان کو اس قابل نہیں سمجھتے ہوں گے کہ اس پر کوئی ایسا خواب اِلقاء ہو۔ جیسے کہ مذہب کے جاہل پیرو دوسرے مذاہب کے لوگوں کو ہر قسم کے علمی و عملی کمال سے بے بہرہ سمجھا کرتے ہیں۔ مجھے ایامِ طالب علمی کا ایک واقعہ یاد ہے، جس کا خیال آ جانے سے اب بھی ہنسی آیا کرتی ہے۔ ایک ریاستی نوجوان سکھ جس کو اپنی ہمہ دانی پر بہت ناز تھا۔ ٹرین میں بیٹھا اپنے دوستوں سے کہہ رہا تھا کہ فلاں شخص مہاراجہ صاحب کے پیش ہوا۔ مہاراجہ صاحب نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ چھوٹے سے بیج سے ایک بڑا درخت اور اس کا موٹا تنا اور صدہا ٹہنے، ٹہنیاں اور بے شمار پتے کیونکر بن جاتے ہیں؟ پھر اس نوجوان نے کہا مگر وہ بیچارہ مسلمان ہی تو تھا، اس کا کیا جواب دے سکتا تھا۔ گویا اس نوجوان کے نزدیک اس کے لاجواب ہونے کی وجہ یہی تھی کہ وہ مسلمان تھا۔ ورنہ اگر وہ سکھ ہوتا تو فورًا عالمِ نباتات کی فلاسفی اور عجائباتِ عناصر کا کچا چٹھا اور طبقات الارض کے دفتر کھول کر رکھ دیتا۔ سچ ہے۔ ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ (المومنون: 53) اور یہودی کا خواب سنیے:

54

پس جہود آورد آنچہ دیدہ بُود تا کجا شب روحِ او گردیدہ بُود

ترجمہ: (غرض پہلے) یہودی جو کچھ کہ اس نے (خواب میں) دیکھا تھا (معرضِ بیان میں) لایا کہ اس کی رُوح شب کو کہاں کہاں پھرتی رہتی تھی۔

55

گفت در رہ مُوسیَم آمد بہ پیش گُربہ بیند دنبہ اندر خوابِ خویش

ترجمہ: وہ کہنے لگا (کہ میں گویا کہیں جا رہا ہوں تو) راستے میں موسیٰ علیہ السلام میرے سامنے آئے۔ (مولانا فرماتے ہیں) بلّی اپنے خواب میں دنبہ (کی چکی) کو ہی دیکھتی ہے (کیونکہ اسے اس کی چربی مرغوب ہے۔ ہندی مثل ہے بلی کو چھچھڑوں کے ہی خواب آتے ہیں)۔

56

درپئے موسیٰؑ شدم تا کوہِ طور ہرسہ ما گشتیم ناپیدا ز نور

ترجمہ: میں موسیٰ علیہ السلام کے پیچھے پیچھے کوہِ طور تک گیا۔ (اور) ہم تینوں (یعنی میں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہ طور نور (حق) سے چھپ گئے۔)

57

ہر سہ سایہ محو شد زاں آفتاب بعد ازاں زاں نور شد یک فتح باب

ترجمہ: (ہم) تینوں (جو اس نور کے سامنے مثل) سایے (کے تھے) اس (نورِ حق کے) آفتاب سے محو ہو گئے۔ اس کے بعد اس نور سے ایک (اور فیض کا) دروازہ کُھلا۔

58

نورِ دیگر از دلِ آں نور رُست پس ترقی جُست آں ثانیش چُست

ترجمہ: (یعنی) اس نور کے اندر سے ایک اور نور نکل پڑا۔ پھر اس (پہلے نور) کے (بعد پیدا ہونے والے) اس دوسرے (نور) نے بہت جلد ترقی حاصل کی۔

59

ہم من و ہم موسیٰ و ہم کوہِ طور ہر سہ گم گشتیم زاں اِشراقِ نُور

ترجمہ: (حتٰی کہ) میں بھی اور موسیٰ علیہ السلام بھی اور کوہِ طور بھی تینوں نور کی اس درخشانی سے گم ہو گئے۔

مطلب: پہلے نور میں صرف ناپید ہوئے تھے۔ یہ دوسرا نور جو اس سے زیادہ ترقی کر گیا۔ اس میں گم ہی ہو گئے۔ گم ہونا ناپید ہونے سے ابلغ ہے۔ کیونکہ گم شدگی کو ناپیدائی لازم ہے۔ اور ناپیدائی کو گم شدگی لازم نہیں۔

60

بعد ازاں دیدم کہ کُہ سہ شاخ شد چونکہ نورِ حق درو نفّاخ شد

ترجمہ: اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کوہ (طور) تین ٹکڑے ہو گیا۔ جب کہ حق تعالیٰ کا نُور اس میں پھونک مارنے والا ہو۔

61

وصفِ ہیبت چوں تجلی زد برو می گسُست از ہم ہمی شد سُو بسُو

ترجمہ: (یعنی حق تعالیٰ کی) صفتِ ہیبت نے جب اس پر تجلّی کی تو وہ منقطع ہونے لگا۔ (اور) اس کا ایک ایک ٹکڑا ادھر اُدھر سرکتا تھا۔

62

زاں یکے شاخے کہ آمد سوئے یم گشت شیریں آبِ تلخ ہمچو سم

ترجمہ: (ان ٹکڑوں میں سے) ایک ٹکڑے کی وجہ سے جو دریا کی طرف آیا۔ زہر کا سا کڑوا پانی شیریں ہو گیا۔

63

آں یکے شاخش فرو شد در زمیں چشمۂ زاد و بروں آمد مَعیں

ترجمہ: وہ اس کا ایک ٹکڑا (جو) زمین کے اندر اتر گیا (تو اس کے اثر سے) ایک چشمہ پیدا ہوا اور وہ بہتا ہوا باہر نکلا۔

64

کہ شفائے جملہ رنجُوراں شد آب از ہمایُونی وحیِ مستطاب

ترجمہ: کہ (اس کا) پانی وحی کی برکت سے تمام بیماروں کے لیے (باعثِ) شفا بن گیا (کوہِ طور محلِ وحی ہے۔ اس لیے اس کے ٹکڑے کے ذریعہ پانی کے اندر وحی کی برکت کا یہ اثر پہنچ گیا)۔

65

واں یکے شاخے دگر پرّید زود تا جوارِ کعبہ کہ عرفات بُود

ترجمہ: اور وہ ایک اور (تیسرا) ٹکڑا جلدی اڑا (اور) کعبہ کے نزدیک تک (پہنچا) جو (کوہِ) عرفات بن گیا۔

66

باز زاں صعقہ چو با خود آمدم طور بر جا بود نے افزوں نہ کم

ترجمہ: پھر جب میں اس بیہوشی سے (نکل کر) ہوش میں آیا۔ تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوہ طور (جُوں کا تُوں) قائم تھا نہ زیادہ (تھا) نہ کم۔

67

لیک زیرِ پائے موسیٰؑ ہمچو  یخ می گدازید و نماندش شاخ و شخ

ترجمہ: لیکن وہ موسیٰ علیہ السلام کے پاؤں کے نیچے یخ کی طرح پگھل رہا تھا۔ اور اس کا کوئی (الگ) ٹکڑا اور کوئی سخت (حصہ) نہ رہا (یعنی نہ وہ مثل سابق منقطع تھا اور نہ اس میں ایسی سختی تھی کہ وہ پگھلنے سے منع ہو۔ اگر شخ مخّففِ شاخ مانا جائے۔ تو پھر یہ لفظ شاخ کا تابع ہو سکتا ہے۔ یعنی اس میں کوئی ٹکڑا اور قطعہ نہ تھا)۔

68

با زمیں ہموار شد کُہ از نہیب گشت بالایش ازاں ہیبت نشیب

ترجمہ: پہاڑ ہیبت (تجلی) سے زمین کے ہموار ہو گیا۔ اس کی بلند چوٹی اس ہیبت سے پست ہو گئی۔

69

باز با خود آمدم زاں انتشار باز دیدم طور و موسیٰؑ برقرار

ترجمہ: پھر میں اس بدحواسی سے ہوش میں آیا۔ تو پھر میں نے کوہِ طور اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو (اصلی حالت) پر قائم دیکھا۔

70

واں بیاباں سر بسر در ذیلِ کوہ پُر خلائق شکلِ موسیٰؑ باشکوہ

ترجمہ: اور وہ جنگل سب کا سب پہاڑ کے دامن میں ایسے لوگوں سے پُر تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے ہم شکل اور باوقار تھے۔

71

چوں عصا و خرقۂ او خرقہ شاں جملہ سوئے طور خوش دامن کشاں

ترجمہ: (یعنی) انہی کے عصا اور خرقہ کا سا، ان کا (عصا اور) خرقہ ہے (اور) سب کے سب طور کی طرف بخوشی ایک ناز کے ساتھ (جا رہے ہیں)۔

72

جملہ کفہا در دعا افراختہ نغمۂ اَرِنِیْ بہم در ساختہ

ترجمہ: سب نے دعا میں ہاتھ اٹھائے ہوئے تھے (اور سب "رَبِّ اَرِنِیْ"، "رَبِّ اَرِنِیْ) کے گیت میں ہم آواز تھے۔ (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر دُعا کی تھی: ﴿رَبِّ اَرِنِیْ اَنْظُرْ اِلَیْکَ یعنی”الٰہی مجھے اپنا دیدار دکھا“ تو خطاب آیا: ﴿لَنْ تَرَانِیْ (الأعراف:43) "تم مجھے دیکھ نہیں سکتے"۔

73

باز آں غشیاں چو از من رفت زود صورتِ ہر یک دگر گُونم نمُود!

ترجمہ: پھر جب تھوڑی دیر میں وہ بیہوشی (بھی) مجھ سے جاتی رہی تو ہر ایک کی صورت مجھے جداگانہ نظر آئی۔

74

انبیا بودند ایشاں اہلِ وُد اتحادِ انبیا ام فہم شد

ترجمہ: (معلوم ہوا کہ) وہ انبیا علیہم السلام تھے جو اہلِ محبت ہیں (اور ان کے اتحادِ صورت سے) مجھے انبیا کا (باہم دین و مشرب میں) اتحاد سمجھ میں آ گیا۔

مطلب: اہل وُد میں یا تو حق تعالیٰ کی محبت مراد ہے کہ اسی لیے سب کے سب "رَبِّ اَرِنِیْ" کے تمنّائی ہیں، یا اس سے ان کی آپس کی محبت مراد ہے اور سب کا بالاتفاق ایک نغمہ سے مترنّم اور ایک شکل میں متشکّل ہونا اس کی دلیل ہے۔

75

باز املاکے ہمی دیدم شگرف صورتِ ایشاں بُد از اجرامِ برف

ترجمہ: پھر میں عجیب (عجیب) فرشتوں کو دیکھتا تھا۔ جن کی صورت (گویا) برف کے مادے سے تھی (یعنی سفید (براق)۔

76

حلقۂ دیگر ملائک مستعین صورتِ ایشاں ہمہ بُد آتشین

ترجمہ: ملائکہ کی ایک دُوسری جماعت (حق تعالیٰ سے) مدد چاہنے والی (تھی) ان کی شکل سر بسر آگ کی تھی۔

77

زیں نسق می گفت آں شخصِ جہُود بس جہودے کاخرش محمود بود

ترجمہ: (غرض) اسی طرح وہ یہودی آدمی (اپنا خواب) بیان کر رہا تھا (اور تعجب نہیں کہ اس نے یہ خواب دیکھا ہو اور وہ قابلِ تعبیر بھی ہو، کیونکہ) بہتیرے یہودی ایسے ہیں کہ ان کا انجام اچھا ہوا ہے۔

مطلب: یہودی کے خواب کے شروع میں تو مولانا کا خیال تھا کہ یہ خواب اس کا محض ایک خیالی پلاؤ ہے۔ چنانچہ وہاں فرمایا تھا کہ بلی چھچھڑوں کے خواب ہی دیکھا کرتی ہے۔ یہاں ان کو خیال ہوا کہ تعجّب نہیں کہ اس کا یہ خواب درست ہو اور ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ مرنے سے پہلے ایمان لانے والا ہو۔ اس لیے ایک سچا اور مبارک خواب دیکھنے کا اس کو موقع مل گیا ہو۔ جس کو حدیث میں نبوت کا ایک جُز ٹھہرایا گیا ہے۔ اسی بنا پر آگے فرماتے ہیں کہ کسی کافر کو قطعی مردود نہ سمجھنا چاہیے، شاید وہ مرنے سے پہلے ایمان لے آئے۔

78

ہیچ کافر را بخواری منگرید کہ مسلماں مُردنش باشد اُمید

ترجمہ: کسی کافر کو (اپنی مسلمانی کے غرور میں) حقارت سے نہ دیکھو۔ کیونکہ اس کے بحالتِ اسلام مرنے کی امید ہوتی ہے۔

79

چہ خبر داری ز ختمِ عُمرِ او تا بگردانی ازو یکبارہ رُو

ترجمہ: تم کو اس کی زندگی کے خاتمہ کی کیا خبر ہے! (کہ کیسا ہوگا کفر پر یا ایمان پر) کہ تم اس سے یکبارگی اعراض کر رہے ہو۔

مطلب: تحقیر سے مراد وہ اہانت نہیں جو کافر کے لیے مامور بہ اور شعبہ ہے بغض فی اللہ کا، جس کا منشا حق تعالیٰ کی محبت ہے۔ بلکہ مراد اس سے وہ تحقیر ہے جس کا منشا اپنے ایمان پر عُجب اور کسرِ نفس ہے (کلید) اور اپنی مسلمانی پر مغرور و متعجّب ہونا تو رہا درکنار، اپنے آپ کو اچھا سمجھنا بھی بُرا ہے۔ حضرت المجدد رحمۃ اللہ علیہ اپنے متعلق فرماتے ہیں: "ہرکہ در عالم است حتٰی کہ کافرِ فرنگ و ملحد و زندیق، از خود بوجوہ بہتر می داند و بدترینِ ہمہ اینہا خود را می انگارد (مکتوباتِ دفتر اول مکتوب) آگے عیسائی کے خواب کی باری آئی ہے۔

80

بعد ازاں ترسا در آمد در کلام کہ مسیحم رُو نمود اندر منام

ترجمہ: اس کے بعد عیسائی بولنے لگا کہ مجھے خواب میں عیسیٰ علیہ السلام دکھائی دیے۔

81

من شدم با او بچارُم آسمان مرکز و مثوائے خورشیدِ جہاں

ترجمہ: (اور گویا) میں ان کے ہمراہ چوتھے آسمان پر پہنچا (جو) آفتابِ عالم کا مرکز اور مقام ہے۔

انتباہ: عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانِ چہارم پر ہونا مشہورِ عام کی بنا پر ہے۔ ورنہ حدیثوں میں آپ کا آسمانِ دوم پر ہونا مذکور ہے۔ علیٰ ہذا، خورشید کا فلکِ چہارم پر ہونا اہلِ ریاضی کے تخمینہ کی بنا پر ہے۔ ورنہ اس پر دلیل نہ ہونے کا اعتراف ان کو بھی ہے۔ (کلید)

82

خود عجب ہائے قلاعِ آسماں نسبتش نبود بآیاتِ جہاں

ترجمہ: (اور ظاہر ہے کہ) آسمانی قلعوں کے عجائبات کو دنیا کی نشانیوں کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں (چہ نسبت خاک را با عالمِ پاک)۔

83

ہر کسے دانند اے فخر البنین کہ فزوں باشد فنِ چرخ از زمین

ترجمہ: (بلکہ) اے فخرِ فرزندانِ (آدم) تمام لوگ جانتے ہیں کہ آسمان کا حال زمین (کے حال) سے بڑھ کر ہوتا ہے۔

مطلب: فخر البنین مخالف کو بتقاضائے جوشِ تخاطب کہہ دیا۔ جیسے ایک ہم مرتبہ مخاطب کو اپنے جوشِ تکلّم میں اس کی توجہ کو منعطف کرنے کے لیے جی حضور! جی جناب! وغیرہ کلمات کہنے کا رواج ہے۔ عیسائی کا مطلب یہ ہے کہ مجھ کو یہودی کی طرح لمبا چوڑا خواب بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ میرے مختصر خواب کی افضلیت کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ آسمان سے متعلق ہے۔ اور یہودی کا خواب زمین سے تعلق رکھتا ہے۔ آگے آسمان کی شان کے زمین سے بلند ہونے کی تائید میں ایک حکایت ارشاد ہے: