دفتر ششم: حکایت: 80
رجُوع بقصّۂ فقیرِ گنج طلب
خزانہ ڈھونڈنے والے فقیر کے قصہ کی طرف رجُوع
1
نِک خیالِ آں فقیرِ بے ریاعاجِز آورد از بیا و از بیا
ترجمہ: (ایلو!) اس فقیر سے ریا کے خیال نے (ادھر) آؤ اور (ادھر) آؤ (کے تقاضے) سے ناک میں دم کر دیا۔
2
بانگِ او تو نشنوی من بشنومزانکہ در اسرار، ہمرازِ وَے ام
ترجمہ: اس کی آواز کو تم نہیں سنتے میں سُنتا ہوں۔ کیونکہ میں (طلب کے) اسرار میں اس کا ہمراز ہوں۔ (یعنی وہ گنجِ مجازی کی طلب کرتا ہے۔ میں گنجِ حقیقی کا طالب ہوں۔)
3
طالبِ گنجش مبیں خود گنج اوستدوست کے باشد بمعنیٰ غیرِ دوست
ترجمہ: تم اس کو خزانہ کا طالب نہ سمجھو (بلکہ) وہ خود خزانہ ہے۔ (کیونکہ) دوست باطن کے اعتماد سے دوست کا غیر کب ہوتا ہے۔
مطلب: جو شخص خزانہ کا طالب ہو اس کی طلب کی بنا اسی کے نفس کی کسی کیفیت کی طرف راجع ہے۔ مثلاً حصولِ لذّت و قضائے شہوت یا دفعِ مضرت۔ پس اس کو مطلوب میں یہ بات نظر آ رہی ہے کہ اس سے یہ اغراضِ نفسانیہ پوری ہوں گی۔ اس لیے وہ اس کی طلب کر رہا ہے۔ تو واقع میں وہ اپنا ہی محبّ ہوا اور خود ہی طالب ہوا خود ہی مطلوب، خود ہی خزانہ اور خود ہی طالبِ خزانہ۔ بمعنی یعنی باطن اس لیے کہا کہ بظاہر تو دوسری چیز ہی مطلوب ہے اور یہ اپنی مطلوبیت جو مذکور ہوئی ایک امرِ مخفی اور محتاجِ قائل ہے۔ آگے اس کی تائید میں فرماتے ہیں:
4
سجده خود را مے کند ہر لحظہ اوسجده پیشِ آئینہ است از بہرِ رُو
ترجمہ: وہ (جو معشوق کے ساتھ انقیاد و خضوع سے پیش آ رہا ہے۔ تو واقع میں وہ) ہر لحظہ اپنے ہی سامنے انقیاد کر رہا ہے۔ (وجہ یہ کہ وہ مطلوب طلب کے اعتبار سے اس طالب کا آئینہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ) آئینے کے سامنے سجدہ کرنا (اپنے ہی) چہرہ کے لیے ہوتا ہے۔
مطلب: کیونکہ آئینہ میں اپنا ہی چہرہ نظر آتا ہے تو وہ سجدہ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ آئینہ کا وہ کمال جس نے اس کو مسجُود و مقصود بنایا یہی ہے کہ وہ چہرہ کا آلۂ رؤیت ہے۔ پس سجده کا مدار وہی چہرہ ٹھہرا اور وہی مسجود ہوا۔ اسی طرح آدمی جب کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو واقع میں اس کی یہ محبت اپنے نفس کے ساتھ ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کو اس چیز کے اندر اپنے نفس ہی کی اغراض نظر آ رہی ہیں جو مدارِ محبت ہیں۔ یہاں تک تو طالبِ گنج کے اسرار کا ذکر تھا۔ آگے اسرار میں اس کے ساتھ ہمراز ہونے کی بنا پر اپنے اسرارِ طلب کو پیش فرماتے ہیں:
5
گر بدیدے زائینہ او یک پشیزبے خیالِ او نماندے ہیچ چیز
ترجمہ: اگر وہ (طالبِ غیرِ حق) آئینے (کی مرئیات) سے ایک پائی برابر (بھی ان کی مرآتیت دیکھ لیتا تو اس (کے وجود) سے سوائے (وجودِ) موہوم کچھ بھی (باقی) نہ رہتا۔
6
ہم خیالاتش ہم او فانی شدےدانشِ او محوِ نادانی شدے
ترجمہ: (یعنی) اس کے (تمام) خیالات (و علوم) بھی اور وہ خود بھی (سب کے سب) فنا ہو جاتے۔ اس کا علم (اس) عدمِ علوم میں محو ہو جاتا۔
مطلب: طالبِ غیر حق کا مطلوبِ ظاہری خواہ کچھ ہی ہو، مگر اس سے اس کا مطلوبِ باطنی اپنا نفس ہی ہوتا ہے۔ وہ مطلوبِ ظاہری مطلوب بالغرض اور مطلوبِ باطنی اس کا مطلوب بالذات ہے۔ لیکن فی الواقع اس مطلوبِ باطنی کے پردے میں بھی ایک اور مطلوبِ باطنی مضمر ہے۔جس کے مقابلہ میں وہ پہلا مطلوب بالذات بھی مطلوب بالغرض بن کر رہ جاتا ہے۔ وہ مطلوب محبوبِ حقیقی ہے۔ گویا مرآۃ ہے اور دوسرا مطلوبِ باطنی حقیقی بمنزلہ مرئی۔ یہ دوسرا مطلوبِ باطنی نہ صرف عارف کا مطلوب ہے بلکہ ہر عامی و محجوب کا بھی مطلوب ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عارف کو اس کی مطلوبیت کا قصد و التزام ہے، محجوب کو نہیں۔ تاہم اس کی مطلوبیت کا از خود لزوم محجوب کے لیے بھی ہو جاتا ہے۔ ہاں چونکہ اس محجوب کو اس بات کی طرف التفات نہیں کہ یہ مطلوب جو مخلوق ہے، محض مِرآة ہے۔ مجھے اس مرئی کی طرف متوجہ ہونا چاہیے جو اس کے اندر مُشاہَد ہے۔ اس لیے وہ مرئی اس سے مخفی رہتا ہے اور عارف اس مخلوق کو محض مِرآئیت کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اس لیے وہ مرئی کا مشاہدہ کرتا ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ اگر یہ طالبِ غیرِ حق نے مخلوق کی مِرائیت میں کچھ بھی مرئی کا جلوہ دیکھا ہوتا تو اس کا اپنا وجود فنا ہو جاتا، اور اس کا علم بے علمی سے بدل جاتا۔ چونکہ یہاں نادانی و عدمِ علم کے لفظ سے جہلِ مذموم کا شبہ ہوتا ہے۔ اس لیے فرماتے ہیں:
7
دانشِ دیگر ز نادانیِّ ماسر بر آوردے عیاں کہ اِنِّیۤ اَنَا
ترجمہ: (مگر) ہمارے اس عدمِ علم (کا بھی یہ پایہ ہے۔ کہ اس) سے ایک دوسرا علمِ عیانی ظاہر ہو جاتا ہے۔ (اور وہ یہ ہے) کہ (عارف) ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کہنے لگتا ہے۔ (یعنی میں اللہ ہوں۔)
مطلب: یہ عدمِ علم مخلوق سے متعلق ہے۔ جس سے حق کا علم و مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ چونکہ مخلوق کے علم کا انعدام اور حق کا مشاہدہ غیب کی حالت میں ہوتا ہے۔ اور یہ حالت وہ ہے جس میں حُسین بن منصور کے منہ سے کلمۂ اَنَا الْحَقّ نکل گیا تھا۔ اس لیے اس حالت کے غلبہ میں سالکِ مذکور کی زبان سے بھی ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کا کلمہ صادر ہونے لگتا ہے۔ جس کی وجہ محض یہ ہے کہ سالک کی ذات اس حال میں حق کی مظہر ہوتی ہے۔ آگے اس مظہریت کی توجیہ اور تائید میں فرماتے ہیں:
8
اُسْجُدُوْ لِاٰدَمَ ندا آمد ہمےکادمید و خویش بینیدش دمے
ترجمہ: (دیکھو اسی بنا پر حق تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کو حکم ہوا تھا کہ) آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو (اور سجدہ کے وقت یکساں حال یہ) ندا (بھی) آ رہی تھی کہ (اے فرزندانِ آدم! جو ابھی ان کی صلب میں ہو ) تم (بھی) آدم ہی ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو (مظہرِ حق ہونے کے لحاظ سے) وہی سمجھو۔
مطلب: حضرت آدم علیہ السلام بہت حق کے مظہرِ خاص تھے۔ اسی لیے حدیث میں وارد ہے ’’اِنَّ اللّٰهَ خَلَقَ اٰدَمَ عَلٰى صُوْرَتِهٖ‘‘ (مسلم شریف، حدیث نمبر 6821) تو اس حدیث سے بھی یہ ثابت ہوا کہ مظہرِ خاص کے ساتھ بعض احکامِ ظاہر صورةً متعلق ہو جاتے ہیں۔ جیسے کہ آدم علیہ السلام کے سامنے فرشتوں سے سجدہ کرایا گیا۔ پس اگر یہ قول کہ ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ بھی منجملہ احکامِ ظاہر ہے، مظہر کی طرف صورتاً منسوب ہو جائے تو اس میں کیا بُعد ہے۔ اور دونوں جگہ صورةً اس لیے کہا گیا ہے کہ واقع میں مسجود حق تعالیٰ ہیں۔ آدم علیہ السلام سمتِ سجدہ تھے، جس طرح کعبہ، کہ اسی مظہرِ تجلیاتِ خاصہ کے سبب سے جہتِ سجدہ ہے۔ اسی طرح ’’اَنَا الْحَقّ‘‘،’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کا قائل اگر کوئی بندہ ہے تو محض صورۃً ہے۔ واقع میں قائل حق تعالیٰ ہیں۔ پس اس مسجودیتِ آدم سے خاصانِ حق کے لیے ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کہنے کی توجیہ ہو گئی۔ اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس قصہ سے تو حضرت آدم علیہ السلام کا مظہرِ خاص ہونا ثابت ہوا ہے جس پر ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کا جواز مبنی ہے۔ اس لیے کسی اور کا مظہرِ خاص ہونا اور اس کے لیے یہ قول جائز ہونا کیونکر ثابت ہوا۔ دوسرے مصرعہ میں اس کا جواب ارشاد ہے۔ جس کا اصل یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کی مسجودیت کی بنا ان کی خلافت پر ہے اور یہ خلافت تمام مثالِ آدم کے لیے عام ہے۔ پس مسجودیت بھی عام ہے۔ چنانچہ جب آدم علیہ السلام کے آگے ملائکہ سجدہ کر رہے تھے تو یہ سجدہ تمام فرزندانِ آدم کے لیے بھی ہو گیا جو بھی ان کی صلب میں پنہاں تھے۔ اور یہ مسجودیت دلیل ہے مظہریت کی اور مظہریت کے ساتھ قولِ مذکور کا صدور جائز ہے۔ پس تمام امثالِ آدم کے لیے غلبۂ مشاہدہ میں قول ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کے صدور کی گنجائش نکل آئی۔ (کلید) آگے فرماتے ہیں کہ جس طرح آدم علیہ السلام کی مظہریت پر سجدۂ ملائکہ مبنی تھا۔ اسی طرح اس مظہریت کا علم بھی ملائکہ کو عطا فرما دیا تھا:
9
احولی از چشمۂ ایشاں دُور کردتا زمیں شد عین چرخِ لاجورد
ترجمہ: (حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اس مظہریتِ خاصہ کو فرشتوں پر ظاہر فرما کر) ان کی آنکھ سے (اس) کج بینی کو دور کر دیا (جو ابلیسِ لعین کے آنکھ میں تھی)۔ یہاں تک کہ (اس کشف سے آدم علیہ السلام کے وجود کی خاک جو) زمین (سے ماخوذ تھی۔ ان کی نظر میں) بالکل نیلگوں آسمان بن گئی۔
مطلب: ابلیسِ لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کی صرف خاکِ وجود کو دیکھا تھا اور ان ملائکہ نے ان کی مظہریت و نورانیت کو دیکھا جو فلک کی طرح مطلعِ انوار تھی۔ آگے پھر اسی ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کے قائل کے متعلق فرماتے ہیں:
10
لَا اِلٰهَ گفت و اِلَّا اللّٰهُ گفتگشت لَا، اِلَّا اللّٰهُ و وحدت شگفت
ترجمہ: (کہ بظاہر تو اس نے ’’اِنِّیۤ اَنَا اللّٰہ‘‘ کہا ہے۔ لیکن واقع میں) اس نے ’’لَا اِلٰهَ‘‘ کہا اور ’’اِلَّا اللّٰہُُ‘‘ کہا۔ (مگر اس طرح کہا) کہ وہ ’’لَا‘‘ (خود) ’’اِلَّا اللّٰه‘‘ ہو گیا۔ اور وحدت ظاہر ہو گئی۔
مطلب: دوسرے لوگ تو اس کلمہ کو اس طرح ادا کرتے ہیں کہ پہلے غیر حق کی نفی کرتے ہیں۔ پھر حق کا اثبات کرتے ہیں۔ مگر اس شخص کی نفی عین اثبات ہے۔ کیونکہ اور لوگوں کی نفی و اثبات لفظی و قولی ہے اور الفاظ میں تعاقب ضروری ہے۔ اور اس شخص کی نفی اور اثبات عملی و حالی ہے کہ اس نے غیر کو فنا کر کے حق کا مشاہدہ کیا ہے۔ اور یہ دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔ بلکہ نفیِ غیر اور مشاہدۂ حق ایک ہی بات ہے۔ اسی لیے اس کا ’’لَا‘‘ اور اس کا ’’اِلَّا اللّٰهُ‘‘ ایک ہی ہے (کلید)۔ چونکہ یہ اسرار نہایت دقیق اور مُضرِ عوام ہیں۔ اس لیے آگے ان کے اظہار کا شرعاً ممنوع ہونا بیان فرماتے ہیں:
11
آں حبیب و آں خلیلِ با رَشَدوقت آں آمد کہ گوشِ ما کشد
ترجمہ: (اب) وہ وقت آ گیا کہ وہ حبیب اور خلیل ہادی (یعنی الله تعالیٰ) ہمارا کان کھینچے۔
12
سوئے چشمہ کہ دہاں زینہا بشوےزانچہ پوشیدیم از خلقاں، مگوے
ترجمہ: (اور ہم کو شریعت کے) چشمہ (رحمت) کی طرف (لے جائے اور حکم دے) کہ ان اسرار سے منہ دھو لو جو بات ہم نے مخلوق سے چھپا رکھی ہے اس کو بیان مت کرو۔
مطلب: چونکہ یہاں بیانِ اسرار حدِ شرع سے متجاوز ہو گیا۔ اس لیے حق تعالیٰ کی طرف سے احکامِ شرع کی طرف توجہ دلائی گئی اور حکم دیا گیا کہ پس اب مصلحتِ شرع کو ملحوظ رکھ کر خاموش ہو جاؤ۔ اسی لیے وحی کے ذریعہ ان اسرار کا اشارہ نہیں کیا گیا تاکہ عوام سے وہ مخفی رہیں۔ گو بعض عارفین پر ان کو کشفاً ظاہر کیا ہے۔ مگر عام مصالح ان سے متعلق نہیں اس لیے ان کا اظہار ممنوع کر دیا گیا۔ منہ دھونے کا مطلب یہ ہے کہ اظہارِ اسرار کا جو اثر منہ کے اندر لگا ہوا ہے اس کو زائل کر لو۔
13
ور بگوئی خود نگردد آشکارتو بقصدِ کشف گردی جُرم وار
ترجمہ: اور اگر تم بیان کر ہی دو گے تو وہ (اسرار) ظاہر (تو ہرگز) نہ ہوں گے (لیکن) تم اظہار کے قصد سے مجرم ہو جاؤ گے۔
مطلب: وہ راز اپنی شدتِ خفا کی وجہ سے ظاہر ہونے والا بھی نہیں اور اس کا اظہار مضر بھی ہے۔ تم جو اس کے اظہار کا قصد کرتے ہو تو یہ کوشش عبث ہے۔ ہاں تم ایک مضر چیز کے قصدِ اظہار کے مجرم ہو جاؤ گے۔ جو ان کو یہاں یا تو حق تعالیٰ کی طرف سے یہ الہام ہوا ہے، اسی کو حبیب کے "گوش کشیدن" سے تعبیر کیا ہے یا احکامِ شریعت کے عام کو حکمِ حبيب قرار دے دیا۔ شریعت کو چشمۂ رحمت بدیں اختیار کہا کہ اس پر عمل کرنے میں کوئی خطرہ نہیں۔ بخلاف علومِ مکاشفہ کے کہ ان میں حق و باطل کے دونوں احتمال ہیں۔ کشفِ حق پر عمل کرنے کی صورت میں مقبول ہونے کی توقع ہے تو باطل کی صورت میں مردود ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ بے شک ان وجوہ کی بنا پر اظہارِ اسرار ممنوع ہے لیکن میرا اظہارِ اسرار کچھ اور صورت رکھتا ہے:
14
لیک من اینک پریشاں می تنمقائلِ ایں سامعِ ایں ہم منم
ترجمہ: لیکن میں اس وقت (غلبۂ حال سے کچھ) اکھڑا اکھڑا (بیان کرنے میں) لگا ہوا ہوں (اور) اس کو بیان کرنے والا (بھی اور) سننے والا (بھی) میں ہی ہوں۔
مطلب: اس میں اپنے بیانِ اسرار کے تین عذر کیے ہیں۔ ایک تو یہ کہ میں مغلوب الحال ہوں اور برعایتِ شریعت بتکلّف وہ خاموش رہتا ہے جو ہوش میں ہو۔ دوسرے میرا بیان پریشان و غیر مربوط ہے جس سے نہ کوئی اصل مطلب سمجھ سکتا ہے نہ راز ظاہر ہو سکتا ہے۔ تیسرے میں عوام پر اظہارِ اصرار کرنے کا مرتکب نہیں بلکہ میں خود اپنے آپ کو سنا رہا ہوں۔ عوام پر یہ اسرار وہی مخفی کے مخفی ہیں۔ اب مولانا کو طالبِ گنج کا خیال آتا ہے۔ کیونکہ ایک قصہ کو چھیڑ کر سامعین کی خاطر اس کا پورا کرنا لازم ہے۔ مگر چونکہ مولانا اس وقت بعض دیگر اہم مضامین کے بیان میں مصروف ہیں اس بنا پر طالبِ گنج کا ذکر بادلِ ناخواستہ کرنا پڑا۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
15
صورتِ درویش و نقشِ گنج گورنج کیش اند ایں گروه از رنج گو
ترجمہ: (اے ناظمِ مثنوی! اب) درویش (طالبِ گنج) کے ظاہری (قصہ) اور گنج کے نقش (و الفاظ) کو کہو یہ (سامعینِ قصہ کا) گروہ تو (فضول) زحمت (پسندی) کے طریقہ والے لوگ ہیں پس تم یہ زحمت (افزا قصہ) بیان کرو۔
مطلب: قصص و حکایات سے عبرت و بصیرت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اگر یہ مقصود پیشِ نظر نہ ہو اور محض دلچسپی منظور ہو تو ایسے قصہ میں شغل خود اپنے لیے بھی فضول زحمت ہے اور قصہ گو کے لیے بھی۔ بقول مولانا رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہر چہ جز ذکر خدای احسن ستگر شکر خواری ست جاں کردن ست
مولانا سامعین کی رعایت سے یہ ناگوار شغل پھر اختیار کرنے لگے تھے مگر مصالح کی رعایت کے غالب آ جانے سے پھر چشمۂ صحت کے مضمون کی طرف عود کر گئے، جس سے شریعت مراد ہے اور اس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔
16
چشمۂ رحمت بر ایشاں شد حراممی خورند از زہرِ قاتل جام جام
ترجمہ: (یہ لوگ قصص و حکایات کے شغف میں شریعت سے اس قدر بیگانہ ہیں گویا یہ) چشمۂ رحمت ان پر حرام ہو چکا ہے۔ (قصہ خوانی کے علاوہ فلسفہ کے) زہر قاتل کے پیالے پر پیالے (بھی) چڑھاتے رہتے ہیں۔
مطلب: علومِ شرعیہ سے یہ لوگ بیگانہ ہیں حالانکہ ان علوم میں روحانی فرحت و راحت بھی ہے اور تحقیقِ حق بھی۔ مگر یہ لوگ تصریح کے لیے قصص کو اور تحقیق کے لیے فلسفہ کو اختیار کرتے ہیں۔
رکھ پختہ دل کو دینِ محمدؐ پر مصحفیؔمت جا فلاسفہ کے خیالِ خام پر
17
خاکہا پُر کرده دامن می کشندتا کنند ایں چشمہا را خشک و بند
ترجمہ: (ان کی حالت یہ ہے کہ) وہ (شکوک و شبہات کی) خاک دھول کے دامن (بھر) بھر کر لا رہے ہیں تاکہ (اس سے شریعت پاک کے) ان چشموں کو خشک اور بند کر دیں۔
مطلب: چشمہ کو خشک اور بند کرنے سے مراد یہ کہ شریعت کے احکام کو اصلی صورت پر نہ رہنے دیں جیسے کہ فلاسفۂ اسلام چاہتے ہیں کہ احکامِ شرع کو اپنی تحقیقاتِ فلسفہ پر منطبق کریں، رواج دیں۔
18
کے شود ایں چشمۂ دریا مددمُکْتَبَس زیں مشتِ خاکِ نیک و بد
ترجمہ: (مگر) یہ چشمہ جس سے دریا کو مدد مل رہی ہے اس نیک و بد کی مشتِ خاک سے کب پاٹا جا سکتا ہے۔ (دریا سے حق تعالیٰ کی امداد و حفظ مراد ہے۔ کما قال الله: ﴿ وَاِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ (الحجر: 9))
19
لیک گوید با شما من بستہ امبے شما من تا ابد پیوستہ ام
ترجمہ: لیکن وہ (چشمہ زبانِ حال سے) کہتا ہے کہ میں تمہارے حق میں تو (گویا) بند ہی ہوں (کہ تم لوگ مجھ سے فیضیاب نہیں ہو سکتے۔ اور) تمہارے علاوہ (دوسرے لوگوں کے حق میں) ابد تک کے لیے قائم و دائم ہوں۔ (قلمی نسخہ میں یا ابد یائے موعدہ ہے۔ اس صورت میں پیوستہ بمعنی متصل ہوگا۔ یعنی میں ابد کے ساتھ ملا ہوا ہوں۔)
20
قومِ معکوس اند اندر مُشتَہاخاک خوار و آب را کرده رہا
ترجمہ: یہ لوگ چند چیزوں کے متعلق اُلٹے (واقع ہوئے) ہیں (چنانچہ) وہ خاک کو کھاتے ہیں۔ (جو غیر مرغوب ہے۔ اور اس سے چشمہ کو پاٹنا چاہتے ہیں۔) اور پانی کو ترک کر رکھا ہے۔ (جو غیب ہے۔ اور وہ اس چشمے میں جاری ہے یعنی وہ شریعت کو چھوڑ کر تاویلاتِ باطلہ کو اختیار کرتے ہیں۔)
21
ضِدِّ طبعِ انبياء دارند خلقاژدہا را متَّکا دارند خلق
ترجمہ: (یہ) لوگ انبیاء کی طبیعت کی ضد ہیں (تمام انبیاء علیہم السلام طبعاً مائل بحق اور عوام طبعًا باطل پسند ہوئے ہیں)۔ (یہ) لوگ اژدہا (اور فلسفہ جیسی خطرناک چیز) پر بھروسا رکھتے ہیں۔ (آگے علومِ فلسفہ پر بھروسا رکھنے کی مذمت کرتے ہیں:)
22
چشم بندِ خلق چوں دانستۂہیچ دانی کز چہ دیده بستۂ
ترجمہ: (اے مخاطب!) جب تم نے (ہمارے اُوپر کے بیان سے) لوگوں کی آنکھ بند کر دینے والی چیز کو معلوم کر لیا۔ تو (اب ہم تم سے پوچھتے ہیں کہ) کیا تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے کیسی (بہترین) چیز سے آنکھ بند کی ہے؟ (اور:)
23
بر چہ بکشادی بدل آں دیدہ ہایک بیک بئس البدل داں آں ترا
ترجمہ: (اور) اس کے بدل میں کیسی (بدترین) چیز پر آنکھیں کھولی ہیں (ہاں) اس کو سر بسر اپنے لیے بدترین بدل سمجھو۔
مطلب: علومِ فلسفیہ کو جو تم نے اختیار کیا اور علومِ شریعت سے غافل ہو گئے تو تم نے ان علومِ مبارکہ کا بئس البدل اختیار کر لیا۔ یہ تو فلاسفہ کا ذکر تھا۔ جن کا اصل اعتقاد فلسفہ پر ہے اور شرائع کو وہ اسی حد تک مانتے ہیں جہاں تک وہ فلسفہ کے خلاف نہ ہوں۔ آگے ایک اور گروہ کا ذکر ہے جو طرزِ بحث اور طریقِ استدلال میں انہی کے ہم رنگ ہیں، مگر ان میں نسبتاً کسی قدر تدیّن ہے۔ فلاسفہ کی نظر شریعت پر فلسفہ کے لیے ہوتی ہے۔ اور وہ شریعت کو فلسفہ کا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ لوگ فلسفہ پر شریعت کے لیے نظر کرتے ہیں۔ ان کا بڑا قصور یہ ہے کہ ان کے نزدیک بعض وہ ظواہر جن کو سلف نے بھی ظاہر پر ہی محمول لیا ہے واجب التاویل ہیں ۔ اس لیے وہ اپنے علومِ ناقصہ کی بنا پر ان کی تاویل کرنے میں سلف کی مخالفت کرتے ہیں۔ مگر ساتھ ان کی تدیُّن سے یہ بھی متوقع ہے کہ اگر کسی امر میں ان کو تاویل نہ ملے تو شریعت کا انکار ہرگز نہیں کریں گے۔ یہ جماعت اہلِ بدعت مثل معتزلہ (خوارج) کے متکلمین کی ہے۔ چونکہ اوپر کے مضمون سے شبہ ہوتا ہے کہ شاید فلاسفہ کے ساتھ یہ لوگ بھی شامل اس لیے مضمونِ بالا سے ان کو مستثنٰی کرتے ہیں۔
24
لیک خورشیدِ عنایت تافتہ استآئیساں را از کرم دریافتہ است
ترجمہ: (گو فلسفہ کو ماننے والے عموماً بُرے ہیں۔) لیکن (سب یکساں نہیں۔ چنانچہ ان میں سے بعض وہ ہیں۔ جن پر حق تعالیٰ کی) عنایت کا آفتاب (کسی نہ کسی درجے میں) درخشاں ہوا ہے۔ (اور) اس نے (ان ایمان کی روشنی سے) مایوس ہو جانے والوں کی دستگیری کی ہے۔
مطلب: ان لوگوں پر حق تعالیٰ کی مہربانی کا آفتاب محض اس درجے میں درخشاں ہوا ہے کہ وہ شریعت پر ایمان رکھتے ہیں اور شریعت پر ان کی توجہ اوّلاً اور بالذات ہے۔ اور فلسفہ پر اگر نظر ہے تو ثانیاً اور بالعرض ہے۔ تاہم وہ تمام مدارج پر مستحقِ عنایت نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ ظواہرِ نصوص کے عامل اور اتباعِ سلف سے مُعرِض ہیں۔ خداوند تعالیٰ کا یہ بھی کیا کچھ تھوڑا کرم ہے کہ یہ دولتِ ایمان سے محروم ہونے نہیں پائے۔ چنانچہ:
25
نرد بس نادر ز رحمت باختہعینِ کفران را انابت ساختہ
ترجمہ: اس (رؤف و رحیم) نے ان کے ساتھ عجیب رحمت کی نرد کھیلی ہے۔ (یعنی) ان کے پورے کفران کو بمنزلہ رجوع (الٰی اللہ کے) کر دیا۔
مطلب: کفران سے مراد ان متکلمینِ اہلِ بدعت کا فسادِ عقائد ہے جو حدِ کفر تک نہیں پہنچا۔ دوسرے مصرعہ کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے ناقص ایمان کو بھی جس کی بنا ان فاسد عقائد پر ہے، قبول کر کے باعثِ نجات بنا دیا۔ آگے بھی یہی مضمون ہے۔
26
ہم ازیں بدبختی خلق آں جوادمنفجر کرده دو صد چشمہ دَواد
ترجمہ: اُس کریم نے (ان مبتدع) لوگوں کی اسی (فسادِ عقائد کی) بدبختی میں سے (جس سے بعض کے شعلے بھڑکنے چاہیے تھے) محبت کے دو سو چشمے جاری کر دیئے۔ (آگے چند مثالوں سے حق تعالیٰ کی اس شان کا اظہار فرماتے ہیں کہ وہ کبھی سببِ ضرر کو بھی باعثِ نفع بنا دیتا ہے:)
27
غنچہ را از خار سَرمایہ دھدمہرہ را از مار پیرایہ دھد
ترجمہ: وہ (قادرِ مطلق) خار دار (درخت) سے غنچہ (پیدا ہونے) کا سامان (کر) دیتا ہے۔ مہرہ کو سانپ (کے جسم) سے لباس بخشتا ہے۔ (یعنی زہریلے سانپ کے اندر مہره پیدا کرتا ہے۔ جو واقعی زہر ہوتا ہے۔ اور وہ سانپ اس مہرہ پر مشتمل ہونے کے سبب سے بمنزلہ اس کے لباس کے ہو جاتا ہے۔ شعر مرصّع ہے اور خوب ہے۔)
28
از سوادِ شب بروں آرد نہاروز کفِ معسر بروياند یسار
ترجمہ: وہ رات کی تاریکی سے دن پیدا کرتا ہے۔ اور (کبھی) تنگ دست کے ہاتھ سے تونگری نکال لاتا ہے (کہ وہ جدھر ہاتھ ڈالتا ہے۔ ثروت ہی بڑھتی چلی جاتی ہے)۔
29
آرد سازد ریگ را بہرِ خلیلؑکوہ با داؤدؑ گردد ہم رسیل
ترجمہ: وہ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام کے لیے ریت کو آٹا بنا دیتا ہے۔ پہاڑ بھی اس کے حکم سے حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ ہم آہنگ بن جاتا ہے۔ (حضرت خلیل علیہ السلام کے مذکورہ معجزہ کا ذکر پیچھے ایک جگہ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے اس معجزہ کا ذکر کئی جگہ گزر چکا ہے۔)
30
کوه با وحشت دراں ابرِ ظلَمبرکشاید بانگِ چنگ و زیر و بم
ترجمہ: (دیکھو) وحشت ناک پہاڑ (حضرت داؤد علیہ السلام کی ہم آہنگی کے لیے) اس کالی گھٹا میں سارنگی کی سی آواز اور زیر و بم (کے نغمے) الاپ رہا ہے۔
مطلب: پہاڑوں کا حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تسبیح میں ہم آہنگ ہونے کا ذکر قرآن مجید میں صرف یوں آیا ہے کہ ﴿يَا جِبَالُ أَوِّبِيْ مَعَهٗ﴾ (سبا: 10)کہ ”اے پہاڑو! تم داؤد کے ساتھ تسبیح کیا کرو‘‘ پس اس میں لحنِ داؤدی کی ہم آہنگی کے لیے پہاڑوں سے زیرو بم کا وقوع تو مسلّم ہے مگر ابرِ تاریک کا کوئی اشاره مفہوم نہیں ہوتا۔ صاحبِ کلید فرماتے ہیں کہ جب وہ تسبیح دائم تھی تو ابر میں بھی ہوتی ہوگی۔ پس ابر کے ذکر سے پہاڑوں کی وحشت ناکی کی زیادتی کا اظہار مقصود ہے۔ یعنی اس وقت بھی ان کی تسبیح جاری تھی۔
31
خیز اے داؤدؑ از خلقاں نفیرترکِ آں کردی عوض از ما بگیر
ترجمہ: (اور اس کی تسبیح کرو کے متعلق یہ اشارہ ہوا کہ) اٹھو اے داؤد! جو خلائق سے نفرت کر کے تنہائی اختیار کرنے والے ہو۔ تم نے اس (مخلوق) کو ترک کر دیا ہم سے اس کا عوض لو۔ (یعنی اس مخلوق کے بجائے پہاڑوں کو تسبیح خواں بنا دیا۔)
32
حدّ ندارد گنجِ بے پایانِ اُوباز رَو سوئے فقیرِ گنج جُو
ترجمہ: (ان معارف کو کہاں تک بیان کرتے جاؤ گے) اس (خداوند بے ہمتا کے اسرارِ قدرت) کا بے پایاں خزانہ (تو کوئی) حد نہیں رکھتا (لہٰذا اب تم) فقيرِ طالبِ خزانہ (کی حکایت) کی طرف واپس چلو۔ (وَ لَعَمْرِیۤ أَنَّ اَبْيَاتِ هٰذَا الفَصْلِ كَانَتْ غَامِضَةَ المَعَانِیْ جِدّاً لِرِقَّةِ مَا فِيهَا مِنَ الاَسْرَارِ وَ كَثْرَةِ المُقَدَّرَاتِ۔ وَ نَشْكُرُ لِصَاحِبِ الكَلِيْدِ حَيْثُ فَتَحَ كُلَّ مُغْلَقٍ وَ اَضَاءَ كُلَّ مُظْلَمٍ مِّنْهَا بِبِيَانِهِ الوَاضِحِ۔ وَ مَا اعْتَمَدْنَا فِی شَرْحِ هٰذِهِ الاَبْيَاتِ اِلَّا عَلیٰ بِيَانِهٖ وَاسْتَفَدْنَا مِنْهٗ تَارَةً نَقْلاً وَ اُخْرٰی تَلَخُّصًا اَوْ تَتَمَاسّاً بِهٖ)