دفتر ششم: حکایت: 79
معجزۂ ہود علیہ السّلام در تخلیصِ مومناں
حضرت ہود علیہ السلام کا معجزه مومنوں کو (ہوا کی اذیت سے) بچانے میں
1
ہودؑ گردِ مومناں خطّے کشیدتا ز باد آں قومِ او رنجے ندید
ترجمہ: حضرت ہود علیہ السلام نے (اپنی رسالت پر) ایمان لانے والوں کے گرد ایک خط کھینچ دیا۔ یہاں تک کہ ان کی اس جماعت نے ہوا سے کوئی تکلیف نہ دیکھی۔
2
مومناں از دستِ بادِ ضائرهجملہ بنشستند اندر دائرہ
ترجمہ: مومن لوگ ضرر رساں ہوا کے ہاتھ سے (بچ کر) سب کے سب دائرہ کے اندر بیٹھ گئے۔
3
باد طوفان بود و او کشتی عَسےہست ازیں طوفاں و ایں کشتی بسے
ترجمہ: ہوا ایک (بلا کا) طوفان تھی اور وہ (دائرہ) یقیناً (بمنزلہ) کشتی (تھا) اس قسم کے طوفان اور کشتیاں (خدا کی قدرت میں) بہت ہیں۔
4
باد طوفاں بود و کشتی لطفِ اوبس چُنیں کشتی و طوفاں دارد اُو
ترجمہ: ہوا ایک (بلا کا) طوفان تھی اور کشتی اس (تعالیٰ شانہ) کی مہربانی وہ ایسی بہت سی کشتیاں اور طوفان رکھتا ہے۔ (یعنی وہ بہت سی چیزوں کو آلۂ ضرر اور بہت سی چیزوں کو اس کے ضرر سے بچاؤ کا سامان بنا دیتا ہے۔ آگے اس کی چند نظائر ارشاد ہیں:)
5
پادشاہے را خدا کشتی کندتا بحرصِ خویش بر صفہا زند
ترجمہ: (مثلا) ایک بادشاہ کو خدا کشتی بنا دیتا ہے۔ (جس کی بدولت رعایا حملہ آوروں اور مفسدوں کے طوفان سے امن پاتی ہے۔) حتّٰی کہ وہ بادشاہ اپنی (کشور کشائی کی) حرص سے (دشمن کی) صفوں پر حملہ کرتا ہے۔
مطلب: جس طرح کشتی غیر ذی روح ہونے کی وجہ سے قصدِ فعل سے خالی ہے اس لیے اس کے تمام افعال اس کے قصد کے بغیر وقوع پاتے ہیں۔ بلکہ اس کا وجود میں آنا اور سواری کا کام دینا کسی دوسری ہستی کے تصرف سے ہے۔ اسی طرح بادشاہ کا رعایا کے لیے طوفانِ مفاسد میں کشتیِ امن بن جانا اس کے اپنے قصد سے نہیں بلکہ بمشيتِ حق ہے۔ ہر چند کہ وہ ذی رُوح ہے اہلِ ارادہ ہے۔ مگر یہاں کشتیِ امن بننے کا ارادہ وہ بالکل نہیں رکھتا۔ بلکہ اس کا نصب العین محض تسخيرِ عباد اور فتحِ بلاد ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کسی طرح اپنی مخلوق سے اس کے اراده کے بدون جو کام چاہتا ہے لے لیا کرتا ہے۔ آگے اس کی مزید تصریح ہے:
6
قصدِ شاه آں نے کہ خلق ایمن شوندقصدش آ نکہ مُلک گردد پائے بند
ترجمہ: بادشاہ کا یہ قصد نہیں ہوتا کہ مخلوق (فتنہ و فساد سے) امن پائے (بلکہ) اس کا قصد یہ ہوتا ہے کہ ملک تسخیر ہو۔
مطلب: اسی طرح اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے کسی چیز کو اس کے ارادہ کے بدون آلۂ ضرر اور کسی کو اس کے قصد کے بغیر دافع بنا دیتا ہے۔ اسی عادت پر اس نے زمین کو قارون کے لیے باعثِ قبر اور عصا کو فرعون کے لیے خوفناک اژدہا بنا دیا تھا۔ آگے اس کی چند مثالیں اور ارشاد ہیں:
7
آں خراسی می دَود قصدش خلاصتا بیابد او ز زخم آں دم مناص
ترجمہ: وہ خراس (یا رہٹ) کا جانور جو (مالک کی ضرب سے) دوڑتا ہے، اس کا قصد خلاصی پانا ہے۔ تاکہ وہ اس وقت ضرب سے بھاگنے (اور بچ نکلنے) کی جگہ پائے۔
8
قصدِ او آں نے کہ آبے برکشدیا کہ کنجد را بداں روغن کند
ترجمہ: اس کا یہ قصد نہیں ہوتا کہ (رہٹ کو چلا کر) پانی کھینچے یا اس (دوڑنے) سے (کوہلو کو چلا کر) تلوں کا تیل بنائے۔
9
گاؤ بشتابد ز بیمِ زخمِ سختنے برائے بُردنِ گردُوں و رخت
ترجمہ: (گاڑی کا) بیل (بھی اسی طرح گاڑیبان کی) سخت ضرب کے خوف سے دوڑتا ہے نہ کہ گاڑی کو اور اس پر لدے ہوئے، اسباب کو کھینچنے کے لیے۔
10
لیک دادش حق چنیں خوف و وجعتا مَصالح حاصل آید در تَبَع
ترجمہ: لیکن حق تعالیٰ نے اس کو (ضرب کے) درد کا ایسا خوف دیا ہے (جس سے اس کو دوڑنا پڑتا ہے) تاکہ تبعًا (گاڑی چلانے اور اسباب لے جانے کی) مصلحتیں حاصل ہوں۔
11
ہمچنیں ہر کاسبے اندر دُکاںبہرِ خود کوشد نہ اصلاحِ جہاں
ترجمہ: اسی طرح ہر پیشہ ور (اپنی) دکان کے اندر اپنے (کمانے کے) لیے کوشش کرتا ہے نہ کہ اہلِ عالم کی بہتری کے لیے۔
12
ہر یکے بر درد جوید مرہمےدر تَبَع قائم شده زیں عالمے
ترجمہ: ہر شخص (اپنی غرض اور مطلب کے) دُکھ کا مرہم طلب کرتا ہے (اور اس طلب سے) تبعًا (کسی دوسرے فریق کو فائدہ پہنچ جاتا ہے۔) (پس) اس (تعاونِ باہمی) سے جہان قائم ہے۔ (آگے حق تعالیٰ کی اس حکمت کا ذکر فرماتے ہیں جو مخلوق کی اس باہمی نفع رسانی غیر ارادی میں مضمر ہے:)
13
حق ستونِ ایں جہاں از ترس ساختہر یکے از ترسِ جاں در کار باخت
ترجمہ: حق تعالیٰ نے اس عالم کا ستون خوف (کے مادہ) سے بنایا ہے۔ (کہ) ہر شخص نے (اپنے) نفس (کی مصلحت فوت ہونے) کے خوف سے (کسی نہ کسی) کام میں جانبازی (اختیار) کر رکھی ہے۔ (آگے اس حکمت پر شکر کرتے ہیں:)
14
حمد ایزد را کہ ترسے را چنیںکرد او معمار و اصلاحِ زمیں
ترجمہ: شکر ہے اللہ تعالیٰ کا جس نے خوف کو یوں دنیا کی آبادی و بہتری (کا سبب) بنایا۔ (آگے اس خوف سے وجودِ صالح پر استدلال کرتے ہیں:)
15
ایں ہمہ ترسنده اند از نیک و بد ہیچ ترسنده نترسد خود ز خود
ترجمہ: (لو ایک نکتہ کی بات اور سنو کہ) یہ سب نیک و بد (لوگ کسی نہ کسی چیز سے) ڈرتے ہیں (اور یہ ظاہر ہے کہ) کوئی ڈرنے والا از خود نہیں ڈرتا۔
16
پس حقیقت بر ہمہ حاکم کسے ستکہ قریب ست او اگر محسُوس نیست
ترجمہ: پس فی الحقیقت (خوف وغیرہ تمام حوادث کا محرک اور) حاکم ایسی ذات پاک ہے جو قریب ہے۔ اگرچہ محسوس (بحواس) نہیں (﴿وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْهِ مِنْكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الواقعہ: 85))
17
ہست او اندر کمیں اے بوالہوستا نگردی فارغ از شب اے عسَس
ترجمہ: اے بوالہوس! (اس کے قریب اور غیر محسوس ہونے کی مثال یہ ہے کہ گویا) وہ (بادشاہ) گھات میں مخفی ہے۔ تاکہ اے شب گرد سپاہی! تو رات (کی نوکری) سے غافل نہ ہو جائے۔
مطلب: اگر حق تعالیٰ جو قادر، قاہر، جبار اور منتقم ہے۔ عام نگاہوں سے یوں مخفی نہ ہوتا بلکہ سب کی نظر کے سامنے آ جاتا ’’وَ تَعَالَی اللّٰہُ عَنْ ذٰلِکَ عُلُوًّا کَبِیْرًا‘‘ تو پھر سلیم الفطرت لوگوں کا امتحان نہ ہو سکتا۔ ہر شخص اس کے خوف سے خواہ مخواہ صالح و طاعت شعار بن جاتا۔ اگر وہ قریب نہ ہوتا تو مجرم اس کی گرفت سے خائف نہ ہوتے، اور ہر شخص کو گناہ کرنے پر جرأت ہوتی۔ شاہ اور عسَس کی مثال اس مضمون پر بالکل چسپاں ہے۔ یہ شعرگویا اس آیت کا ترجمہ ہے ﴿اِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ﴾ (الفجر: 24)۔ آگے ذاتِ حق کے خفاء و کتمان کے متعلق فرماتے ہیں:
18
ہست او محسوس اندر مکمنےلیک محسوسِ حسِ ایں خانہ نے
ترجمہ: (اس کو ہر شخص کی بصیرت سے مخفی نہ سمجھو بلکہ) وہ ایک گھات میں (خاص خاص حضرات کو) مُدرَک ہے۔ لیکن اس خانۂ (جسم) کے حواس سے مدرک نہیں ہوتا۔
مطلب: حق تعالیٰ مدرکاتِ عامہ اور عقلِ متوسط سے محسوس و مدرک نہیں ہو سکتا۔ باقی عقلِ عالی اور قوتِ قدسیہ سے اس کا ادراک ہوتا ہے۔ اور ان حضرات کو ہوتا ہے جن کی رُوح کو عالمِ غیب سے تعلق ہوتا جاتا ہے۔ اسی عالم کو مکمن یعنی گھات کی جگہ کہا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ذاتِ پاک اس طرف میں ہے کیونکہ حق تعالیٰ ظرف کے تعلق سے منزہ ہے۔ بلکہ اس مقام کے ساتھ اس کی تجلیِ خاص کا تعلق مراد ہے جیسے استواء علی العرش میں مراد ہے۔
19
آں حِسے کہ حق براں حِس مُظہر ستنیست حِسِّ ایں جہاں آں دیگر ست
ترجمہ: (بلکہ) وہ حِس (اس کا ادراک کر سکتی ہے) کہ جس حِس پر حق تعالیٰ ظاہر ہے۔ وہ اس عالمِ (ظاہر) کی حِس نہیں ہے۔ (بلکہ) اس دوسرے (عالمِ باطن) کی (حِس) ہے۔
20
حِسِّ حیواں گر بدیدے آں صُوَر بایزیدِ وقت بودے گاؤ و خر
ترجمہ: (ورنہ) اگر حیوانی حِس (جو عالمِ ظاہر کی حِس ہے) ان (غیبی) صورتوں کو محسوس کر سکتی (جن کا ادراک عقلِ عالی کا حصہ ہے)۔ تو بیل گدھے (بھی) بایزیدِ وقت ہو جایا کرتے۔ (ان ارشادات کے بعد مولانا اب پھر مضموں سابق کی طرف کہ: ع ’’بس چنیں کشتی و طوفاں دارد او‘‘ عود فرماتے ہیں یعنی حق تعالیٰ ہر چیز سے جو کام چاہے لے سکتا ہے۔ خواہ وہ کام اس چیز کا مقررہ فعل نہ ہو اور نہ اس کے قصد کو اس فعل سے تعلق ہو۔)
21
آنکہ تن را مظہرِ ہر روح کردوانکہ کشتی را براقِ نوحؑ کرد
22
گر بخواہد عین کشتی را بخُواو کند طوفانِ تو اے نور جُو
ترجمہ: جس (قادرِ مطلق) نے جسم کو ہر روح کا (جو اپنے جسم سے متعلق ہے) مظہر بنایا اور جس نے کشتی کو حضرت نوح علیہ السلام کے لیے (طوفان سے بچانے والا) براق بنایا۔ اے طالبِ نور! (اس کو یہ کیا مشکل ہے کہ) اگر چاہے تو عین کشتی کو خاصیت میں تیرے لیے طوفان بنا دے۔
23
ہر دمت طوفاں و کشتی اے مُقِلباغ و شادِیت کرد او مُتَّصِل
ترجمہ: اے مفلس! (دیکھ) اس نے ہر وقت تیرے (ایک) طوفان اور (ایک) کشتی کو تیرے غم اور خوشی کے ساتھ متصِل کر رکھا ہے۔
مطلب: یعنی تیرا غم اور خوشی جو کچھ ہر وقت تیرے دل میں موجود رہتے ہیں۔ تیرے لیے بمنزلہ طوفان و کشتی ہیں۔ یعنی غم کبھی دفعۃً خوشی بن جاتا ہے۔ ﴿وَ عَسىٰ اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾ (البقرۃ: 216) اور یہی خوشی گاہے بغتۃً غم ثابت ہوتی ہے ﴿وَ عَسٰى اَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَّ هُوَ شَرٌّ لَكُمْ﴾ (البقرۃ: 216)۔ یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ ہمارے دل میں یہ کیفیتیں ہر وقت کہاں رہتی ہیں۔ بعض اوقات دل میں نہ غم ہوتا ہے نہ خوشی۔ آگے اس کا جواب دیتے ہیں:
24
گر نہ بینی کشتی و دریا بہ پیشلرزہا بیں در ہمہ اجزاۓ خویش
ترجمہ: اگر تو (خوشی کی) کشتی اور دریا(ئے غم کے طوفان) کو اپنے سامنے نہیں پاتا تو (اس کا سراغ پانے کے لیے اپنے) تمام اجزائے بدن میں (وقتاً فوقتاً) لرزے پر لرزہ دیکھ لے۔
مطلب: حاصلِ جواب یہ ہے کہ اگر خوشی و غم کی مغلوب کر دینے والی کیفیت ہر وقت نہیں ہوتی۔ تو کم از کم کوئی نہ کوئی امید اور کوئی نہ کوئی خطرہ تو ہر شخص کے دل میں ہر وقت رہتا ہے۔ جن کے لیے خوشی و غم لازم ہے۔ پس تم ان دونوں کیفیتوں کے اعتبار سے اپنے اندر ہر وقت کچھ نہ کچھ خوشی کا اہتزار اور غم کا اضطراب محسوس کر سکتے ہو۔ آگے اس وجودِ صانع پر استدلال کرتے ہیں اور یہ اسی سابقہ مضمون کی طرف عود ہے جو نو شعر اوپر شعر ؎ ”ایں ہمہ ترسندہ اند از نیک و بد“ الخ میں مضمر تھا۔
25
چوں نہ بیند اصلِ ترسش را عیوںترس دارد از خیالِ گوناگوں
ترجمہ: چونکہ (اس خائف کی ظاہری) آنکھیں اس کے خوف کے مبدا کو نہیں دیکھتیں (اس لیے) وہ گوناگوں خیالات سے (ان کو اصل باعثِ خوف سمجھ کر) ڈرتا (رہتا) ہے۔
مطلب: اس خائف سے مراد فلسفی دہری ہے جو منکرِ حق ہو کر ہر شے کا فاعل اسبابِ طبعیہ کو سمجھتا ہے۔ چنانچہ ایسے ایسے خوفوں کا فاعل بھی ان کے سببِ طبعی کو سمجھتا ہے جو محض خیالات ہیں اور ان میں سے بھی اکثر غیر واقعی ہوتے ہیں۔ آگے اس کورِ باطن کی مثال ہے:
26
مشت بر اعمٰی زند یک جلفِ مستکو پندارد لکد زن اُستر ست
ترجمہ: (اس شخص کی مثال اُس) اندھے کی سی ہے جس کو کوئی جفا کار مست ایک گھونسہ لگائے۔ (اور وہ) اندھا سمجھے کہ لات مارنے والا (کوئی) خچر ہے (یہ اسی نے لات ماری ہے)۔
27
زانکہ آں دم بانگِ اُستر می شنیدکور را گوش ست آئینہ، نہ دید
ترجمہ: کیونکہ اسی وقت وہ خچر کی آواز سن رہا تھا۔ (اس سے قیاس کر لیا کہ یہ اسی کی لات کی ضرب ہے اور قاعدہ ہے کہ) اندھے کا آئینہ (ادراک) کان ہے نہ کہ آنکھ۔ (جس سے وہ مارنے والے کو دیکھ لیتا۔)
28
باز گوید کور نے ایں سنگ بودیا مگر از قبۂ پُر طنگ بود
ترجمہ: پھر (کسی قرینہ سے وہ اندھا) کہتا ہے، نہیں یہ (خچر کی لات نہیں بلکہ) پتھر تھا جو کسی نے پھینک کر مارا یا شاید کسی قبہ پر آواز سے (گر کر لگا) تھا۔
29
ویں نبود و آں نبود و او نبودآنکہ او ترس آفرید اینہا نمود
ترجمہ: حالانکہ (اس ضرب کا باعث) نہ یہ (قبہ پر آواز سے گرنے والا پتھر) تھا۔ اور نہ وہ (یعنی کسی کا پھینکا ہوا پتھر) اور نہ وہ (یعنی خچر کی لات تھی۔ بلکہ) جس (ذات پاک) نے (اندھے کے دل ہیں) خوف پیدا کیا اسی نے یہ چیزیں (اندھے کے ذہن میں) ظاہر کیں۔
30
ترس و لرزہ باشد از غیرے یقیںہیچ کس از خود نترسد اے حزیں
ترجمہ: (پس) خوف اور لرزہ (مذکورہ) کسی اور ہی (قادرِ مطلق ہستی) کی طرف سے (آتا اور طاری) ہوتا ہے۔ اے غم ناک! کوئی آدمی از خود نہیں ڈرتا۔
31
آں حکیمک وہم خواند ترس را فہم کژ کرده است او ایں درس را
ترجمہ: (مگر) وہ ناچیز فلسفی خوف کو وہم (پر مبنی) بتاتا ہے۔ اُس نے اس درس کو اُلٹا سمجھا۔
مطلب: فلسفی کہتا ہے ’’اَلْوَھْمُ خَلَّاقُ الْاَشْیَاءِ‘‘ یعنی ”وہم فرضی اشیاء ذہن میں پیدا کر دیتا ہے۔“ وہی باعثِ خوف ہو جاتی ہیں۔ آگے فلسفی کی کج فہمی کا ثبوت پیش فرماتے ہیں:
32
ہیچ وہمے بے حقیقت کے بودہیچ قُلبے بے صحیحے کے روَد
ترجمہ: کوئی وہم اصلیت کے بدون کب ہوتا ہے؟ (مثلا) کوئی کھوٹا سکہ کھرے سکے کے بغیر کب رواج پاتا ہے؟
مطلب: پہلے کھرا سکہ رائج ہوتا ہے۔ پھر جعل ساز لوگ اس کے ہم شکل کھوٹے سکے بنا کر رائج کر دیتے ہیں۔ اگر پہلے کھرا سکہ نہ ہوتا تو کھوٹے سکے کس کی نقل ہوتے اور ان کو کون پوچھتا۔ اسی طرح وہم جن خوفناک فرضی چیزوں کو پیش کرتا ہے خارج میں ان چیزوں کی کچھ نہ کچھ اصلیت ہوتی ہے۔ جو بذاتِ خود خوفناک اور دہشت خیز ہوتی ہے۔ انہی کی نقلِ تصویر کو وہم پیش کرتا ہے۔ پس ان وہمی چیزوں سے ڈرنا درحقیقت اصلی اور موجود فی الخارج چیزوں سے ڈرنا ہوا۔ آگے اس کی ایک اور مثال ارشاد ہے:
33
کے دروغے قیمت آرد بے ز راستدر دو عالم ہر دروغ از راست خاست
ترجمہ: کوئی جھوٹی بات سچ کے بدون کیا مقبول ہوتی ہے؟ دونوں جہانوں میں جھوٹ سچ ہی سے پیدا ہوتا ہے۔
34
راست را دید او رواجے و فروغبر اُمِّيدِ آں رواں کرد او دروغ
ترجمہ: (چنانچہ اس کی صورت یہ ہے کہ) سچ کو اس (جھوٹ بولنے والے) نے رواج اور قدر پاتے دیکھا تو اس نے اسی امید پر (اپنا) جھوٹ جاری کر دیا۔
سوال: یہ جو کہا ہے ”در دو عالم ہر دروغ از راست خاست“ تو کیا آخرت میں بھی جھوٹ کا وجود ہو گا اور وہ بھی سچ سے پیدا ہو گا؟
جواب: ہاں آخرت میں جھوٹ بولنے کا ارتکاب کیا جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ ’’اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ يُقْضٰى عَلَیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ رَجُلٌ اسْتُشْھِدَ فَاُتِیَ بِہٖ فَعَرَّفَہٗ نِعْمَتَہٗ فَعَرَفَھَا فَقَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِیْھَا؟ قَالَ قَاتَلْتُ فِیْکَ حَتَّی اسْتُشْھِدْتُّ، قَالَ کَذِبْتَ وَ لٰکِنَّکَ قَاتَلْتَ لِاَنْ یُّقَالَ جَرِیٌّ۔۔۔ ‘‘ یعنی ’’قیامت کے روز سب سے پہلے فیصلہ اس شخص کے خلاف ہو گا جس نے شہادت پائی تھی۔ پھر اس کو حاضر کیا جائے گا تو حق تعالیٰ اس کو اپنی نعمت یاد دلائے گا۔ وہ شخص اس کا اعتراف کرے گا۔ تو حق تعالیٰ فرمائے گا تو پھر تو نے اس میں کیا عمل کیا۔ وہ کہے گا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ تو جھوٹ بکتا ہے۔ تو نے اس لیے جہاد کیا کہ بہادر کہلائے، الخ‘‘ (مشكوٰۃ)۔ اسی حدیث میں عالم اور مالدار کے اپنے اپنے دعوائے عمل پیش کرنے اور حق تعالیٰ کی طرف سے ان کی تکذیب کرنے کا بھی ذکر ہے۔ تو یہ شہید اور عالم اور مالدار جب دیکھیں گے کہ خلوصِ نیت کے ساتھ جہاد میں شہید ہونے اور علم دین کے پڑھنے پڑھانے اور مال راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جو سچا دعویٰ پیش ہو وہ مقبول اور موجبِ اجر ہوتا ہے۔ اسی امید پر وہ بھی اپنے اپنے جھوٹے دعویٰ کو سچ کے رنگ میں پیش کریں گے۔ اسی طرح سچ سے جھوٹ پیدا ہو گا۔ آگے بطور تفریح جھوٹ کو فرضی مخاطب بنا کر کہتے ہیں:
36
اے دروغے کہ ز صِدقت ایں نواستشکرِ نعمت کُن مکُن انکارِ راست
ترجمہ: اے جھوٹ! جس کا یہ سامانِ (مقبولیت) سچ کے سبب سے ہے تو (اس) نعمت کا شکر کر (اور شکر کی صورت ہے کہ) سچ (کے وجود) کا انکار مت کر (کہ دنیا میں سچ کوئی چیز ہی نہیں۔ آگے مولانا عوام سے کنارہ کشی کرنے کی ترغیب کی طرف انتقال فرماتے ہیں:)
37
از مفلسِف گویم وسوداۓ اُو یا ز کشتیہا و دریاہائے اُو
ترجمہ: (اب میں سوچ رہا ہوں کہ) فلسفی اور اس کی خام خیالی کے متعلق (کچھ) بیان کروں۔ یا حق تعالیٰ کی کشتیوں اور دریاؤں کے متعلق (کچھ کہوں کیونکہ اس وقت یہی دونوں مضمون زیرِ بحث تھے)۔
38
بل ز کشتیہاش کاں بندِ دل ستگویم از کل، جزو دَر وے داخل ست
ترجمہ: (نہیں اب فلسفی کے متعلق کچھ نہیں کہتا) بلکہ کشتیوں ہی کے متعلق (کہتا ہوں) کیونکہ وہ (مضمون) قلوب کو مسخر کرنے والا ہے۔ (اس لیے) میں کُل کے متعلق کہتا ہوں (کہ) جزو (خود) اس میں داخل ہے۔
مطلب: کشتیوں کو کُل اور فلسفی کو جزو قرار دیا۔ یعنی جب میں خدا کی کشتیوں کا ذکر کروں گا تو فلسفی کا ذکر اسی کے ضمن میں آ جائے گا، یعنی آگے یہ بیان ہو گا کہ صحبتِ عوام کے طوفان سے بچنے کے لیے صحبتِ اہل اللہ کی کشتی میں پناہ لینی چاہیے اور عوام میں فلسفی بھی داخل ہے۔ اس طرح اس کا ذکر ضمناً آ جائے گا۔ کشتیوں کے ذکر کو مسخرِ قلوب اس لیے کہا کہ اس میں حق تعالیٰ کے لطف و عنایت اور حفاظتِ خلق کا ذکر مقصود بالذات ہے اور محبوب کا ذکر جاذبِ طبع اور مسخرِ قلب ہوتا ہی ہے۔ آگے اس کشتیِ حق یعنی اولیاء کا ذکر چلتا ہے:
39
ہر ولی را نوح و کشتی باں شناسصحبتِ ایں خلق را طوفاں شناس
ترجمہ: ہر ولی کو نوح اور کشتی بان (اور اس کی صحبت کو کشتی) سمجھو۔ (اور) اس مخلوق کی صحبت کو طوفان جانو۔
40
کم گریز از شیر و اژدرہائے نرزاشنایاں وز خویشاں کُن حذر
ترجمہ: تم شیر اور اژدھائے نر سے (اس قدر) نہ بھاگو (جس قدر کہ یہ ضروری ہے کہ) آشناؤں اور خویشوں سے احتیاط کرو (ان سے بہت ضرر پہنچنے کا احتمال ہے)۔
41
در تلاقی روزگارت مے برندیادہا شاں غائبی ات می چرند
ترجمہ: (چنانچہ ان کا ضرر یہ ہے کہ) ملاقات میں تمہارا وقت ضائع کرتے ہیں (اور) ان کی یادیں تمہاری غَیبت کے اوقات کو چرتی (یعنی تلف کرتی) ہیں۔ (غرض ان کا تعلق حضور اور غیبت دونوں میں مضمر ہے۔)
42
چوں خرِ تشنہ خیالِ ہر یکےاز قِفِ تن فکر را شربت مکے
ترجمہ: ہر ایک (عزیز و دوست) کا خیال پیاسے گدھے کی طرح قیفِ جسم سے فکر کا شربت چوس رہا ہے۔
مطلب : روح میں جو قوتِ فکر ہے اس کی نسبت اللہ کے ساتھ اپنی روحانی حلاوت کے لحاظ سے مشابہ بہ شربت ہے اور روح کے تعلقِ جسمی کے واسطہ سے اس نسبتِ شیریں کا اثر اعضائے جسم پر طاعت و عبادت کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب احباب و اقارب کا کوئی پریشان کن خیال آتا ہے۔ اور وہ اس قوتِ فکر کو اپنی طرف کھینچتا ہے تو وہ نسبتِ شیریں جو مشابہ بشریت ہے اس پر مبذول ہو جاتی ہے اب نہ وہ نسبت روح میں رہتی ہے نہ جسم میں۔ چنانچہ روح یادِ حق سے غافل اور جسم ادائے طاعت میں کاہل ہو جاتا ہے۔ جسم کو قیف سے تشبیہ اس لیے دی کہ قیف کے ذریعہ سے سیال چیز کسی دوسرے ظرف میں پہنچتی ہے۔ جس طرح درخت کی جڑ کے ذریعہ سے زمین سے رطوبت شاخوں کو پہنچتی ہے۔ اسی طرح جسم کے ذریعہ اس نسبتِ شیریں کا اثر اعضاء کو پہنچ کر نشاطِ عبادت پیدا کرتا ہے۔ جس کو اب خیالِ اقارب نے بالکلیہ چوس لیا (ملخص از کلید)۔ آگے اس شربتِ مذکور کی تعیین فرماتے ہیں:
43
نشف کرد از تو خیال آں وُشاتشبنمے کہ داری از بحر الحيات
ترجمہ: ان چغل خوروں (دوستوں اور رشتہ داروں) کے خیال نے اس شبنم (مشابہ بہ شربت) کو جو حیات (حقیقيہ) کے دریا سے تھی تم سے چوس لیا (اور خشک کر دیا)۔
مطلب: احباب و اقارب کے خیال نے تعلق باللہ کا اثر تمہارے جسم سے زائل کر دیا۔ اسی لیے اب جسم طاعت و عبادت میں سست ہے۔ اگر جسم کو درخت کے تنہ سے اور اس کے اعضاء کو شاخوں سے تشبیہ دی جائے تو چونکہ تنے کی رطوبت شاخوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے، اس بنا پر شاید تم کہو کہ تعلق باللہ کی شبنم کو خیالِ احباب و اقارب نے نہیں بلکہ جسم سے اعضائے جسم نے جذب کر لیا تو یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو:
44
پس نشاں نشفِ آب اندر غصونآں بود کہ می بجُنبد در رُکُون
ترجمہ: پھر پانی کے (تنہ درخت سے منتقل ہو کر) شاخوں میں جذب ہونے کی یہ نشانی ہوتی کہ وہ (شاخیں تر و تازہ ہونے کی وجہ سے) میل کرنے میں (بخوبی) جنبش کرتیں۔
45
عضو چوں شاخِ تر و تازه بودمی کشی ہر سو کشیده می شود
ترجمہ: (اسی طرح) عضو بھی تر و تازہ شاخ کی مانند ہوتا ہے تم (اس کو طاعت و عبادت وغیرہ امورِ خیر کے لیے) جس طرف کھینچ کر لے جاؤ چلا جائے گا۔ (آگے مشبہ بہ کی حالت کی تفصیل ہے:)
46
گر سبد خواہی توانی کردنشہم توانی کرد چنبر گردنش
ترجمہ: (چنانچہ تر و تازہ شاخ اس قدر نرم ہوتی ہے کہ) اگر چاہو تو اس کا ٹوکرا بنا سکتے ہو۔ نیز اس کو (موڑ کر) گلے کا حلقہ بنا سکتے ہو۔
47
چوں شد آں ناشف ز نشفِ بیخِ خودناید آں سوئے کہ امرش می کشد
ترکیب: شد بضم بمعنی رفت و گذشت (غیاث) شد عموماً فعل ناقص کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ یعنی مرادف کان و صار مگر احيانًا فعل تام بمعنی ’’ذَھَب وَ فَاتَ‘‘ بھی آتا ہے جیسے ؎
شد غلامے کہ آبِ جو آردآبِ جو آمد و غلام ببُرد
یہاں اسی معنی میں آیا ہے۔
ترجمہ: (اور یہ بات اسی وقت تک ہے۔ جب وہ نمی کو جڑ سے جذب کرتا ہو۔ اور تازہ رہے مگر) جب وہ (نمی کو) جذب کرنے والی (شاخ) اپنی جڑ سے (نمی) جذب کرنے کی صفت سے جاتی رہے۔ (تو پھر) اس طرف نہیں مڑتی۔ جدھر (موڑنے والے کا حکم) اسے کھینچتا ہے۔
48
پس بخواں قَامُوْا کُسَالٰی از نُبیچوں نیابد شاخ از بیخش طُبی
ترجمہ: (یہی حال جسمِ انسان اور اس کے اعضا کا ہے) پس تم (اس کے ثبوت میں) قرآن مجید سے آیۃ ﴿قَامُوْا کُسَالٰی﴾ (النساء: 142) پڑھ لو۔ جب کہ شاخ اپنی جڑ سے (رطوبت کا دودھ پہنچانے والا) پستان نہ پائے۔
مطلب: جب اعضاء کو قوائے جسمانیہ سے مدد نہ پہنچے، تو وہ عبادت میں سست ہو جاتے ہیں، اور قوائے جسمانیہ سے مدد اس لیے نہیں پہنچتی کہ خود ان میں روح سے جوش و نشاط خالص نہیں ہوتا اور جوش و نشاط کے عدمِ فیضان کی وجہ یہ ہے کہ روح کے تعلق باللہ کی نسبت معدوم یا مضمحل ہو چکی ہے۔ آگے مولانا قصہ کی طرف عود کا قصد کر کے عشق و فنا کے مضمون کی طرف انتقال فرماتے ہیں:
49
آتشین ست ایں نشاں کوتہ کنمبر فقیر و گنج و احوالش زنم
ترجمہ: یہ (تعلق باللہ کا) نشان (جس کو تم نے عبادات کے لیے نشاط و شوق کی صورت میں ظاہر کیا تھا۔ ایک) آتشیں مضمون ہے۔ (کیونکہ یہ عام سامعین کے لیے مضر ہے۔ اس لیے اس مضمون کو چھوڑ کر) فقیرانہ اور خزانہ پر اور اس کے احوال پر متوجہ ہوتا ہوں۔
50
آتشے دیدی کہ سوزد او نہالآتشِ جاں بیں کزو سوزد خیال
ترجمہ: تم نے ایسی آگ تو (بہت) دیکھی ہے، جو درخت کو جلا دے (مگر) آتشِ جان کو (بھی) دیکھو کہ وہ خیال کو جلاتی ہے۔ (آگے اس آتشِ جان کا مصداق ظاہر فرماتے ہیں۔ یعنی وہ آتشِ عشق ہے:)
51
زاتشِ عشق ست سوزاں جاں و دللیک بے انوار زو آں جاں و دِل
ترجمہ: آتشِ عشق سے جان و دل جلے جاتے ہیں۔ لیکن وہ جان و دِل اس سے بے نور ہیں۔ (جو قابل نہ ہوں ان کو اس آگ سے جلنا تو کہاں نصیب۔)
52
نے خیال و نے حقیقت را امانزیں چنیں آتش کہ شعلہ زد ز جاں
ترجمہ: ایسی آتش (عشق سے) جو جان سے شعلہ زن ہوئی ہے، نہ خیال کو امن ہے نہ حقیقت کو۔ (یعنی اس سے فنائے علمی جو علوم و خیالات سے متعلق ہے اور فنائے حسی جو اخلاقِ ذمیمہ سے متعلق ہے۔ حاصل ہو گئی۔)
53
خصم بر شیر آمد و بر رُوبہ اُوكُلُّ شَیْءٍ هَالِكٌ اِلَّا وَجْهَهٗ
ترجمہ: وہ (ہر قوی مثل) شیر (پر) اور (موجود ضعیف مثل) روباہ پر غالب آ گیا۔ (چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ کہ) اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ (موجود قوی سے موجوداتِ خارجیہ اور موجود ضعيف سے موجوداتِ ذہنیہ مراد ہیں اور ان کی مغلوبیت سے وہی خیال و حقیقت کی فنا مقصود ہے جو اوپر کے شعر میں مذکور تھی۔)
54
در وجوه وجہِ او رو خَرَج شوچوں الف در بسم در رو درج شو
ترجمہ: جاؤ اس (محبوبِ حقیقی) کی ذات کی تجلیات میں فنا ہو جاؤ۔ جاؤ الف کی طرح بسم (اللہ) میں درج ہو جاؤ۔
مطلب: بِسْمِ الله اصل میں بِاسْمِ اللهِ تھا۔ بقاعدۂ علمِ صرف ہمزہ کو حذف کر کے ب کو سین کے ساتھ وصل کیا گیا۔ چونکہ ہمزہ اپنی جگہ سے بالکل منتفی نہیں بلکہ معنی مراد ہے۔ ورنہ بسم کے کوئی معنی نہ ہوں گے۔ اگرچہ وہ ظاہراً و لفظاً ساقط ہے۔ اس لیے مولانا کی مراد ہے کہ جس طرح ہمزہ نے بسم کے اندر جذب ہو کر اپنے وجود کو مستقل نہیں رکھا بلکہ اس میں فنا کر لیا۔ اسی طرح تم بھی تجلیاتِ حق کے اندر اپنے وجود کو فنا کر لو، اور ان میں اس طرح جذب و نابود ہو جاؤ کہ تمہارا وجود محض حِسًا موجود رہ جائے۔ التفاتًا و استحضارًا نہ رہے۔ یہ خیال رہے کہ یہاں تشبیہ ایک لحاظ سے موجود ہونے اور ایک لحاظ سے معدوم ہونے میں ہے، ورنہ تشبیہ کی دونوں طرفوں میں پورا تقابل نہیں۔ آگے ہمزہ کی اسی کیفیتِ خفا کا ذکر ہے:
55
آں الف در بسم پنہاں کرده ایستہست او در بسم ہم در بسم نیست
ترجمہ: اس ’’ہمزہ‘‘ نے ’’بسم‘‘ میں پنہاں طور پر قیام کیا ہے۔ (پس) وہ معنًا و مرادًا) ’’بسم‘‘ کے اندر (موجود) ہے۔ اور ساتھ ہی (لفظًا و ظاهرًا) ’’بسم‘‘ کے اندر (موجود) نہیں۔
56
ہم چنیں جملہ حروف گشتہ ماتوقتِ حذفِ حرف از بہرِ صِلات
ترجمہ: اسی طرح ان تمام حروف (کا حال ہے) جو (ہر) حرف کے اتصالات (كلمات) کے لیے حذف ہونے کے وقت معدوم ہو جاتے ہیں۔
مطلب: شعر اور اس کے ترجمہ کی پیچیدگی مثال سے سُلجھ جائے گی۔ جیسے ’’غُلَامُ زِیْدٍ‘‘ اصل میں ’’غُلَامٌ لِّزَیْدٍِ‘‘ تھا جب غلام کو زید کے ساتھ اضافت کے لیے منتقل کیا تو اس اتصال کی وجہ سے لام حذف ہو کر معدوم ہو گیا۔ پس یہ حرف لام بھی من وجہ موجود ہے اور من وجہ معدوم ہے۔ جس طرح ہمزہ وصل میں بیان کیا گیا۔ یہاں تک ترغیبِ فنا کا مضمون ختم ہوا۔ آگے فنا کا شرطِ وصال ہونا بھی اسی مثال سے واضح فرماتے ہیں:
57
او صلہ است و بے و سین زو وصل یافتوصل بے و سین الف را برنتافت
ترجمہ: (دیکھو) وہ (ہمزه) واسطۂ وصل ہے، اور ’’ب‘‘ اور ’’س‘‘ نے اسی سے اتصال پایا ہے۔ (مگر) ’’ب‘‘ و ’’س‘‘ کا اتصال (اس) سے ’’ہمزه‘‘ کو برداشت نہیں کر سکا۔
مطلب: ’’ب‘‘ اور ’’سین‘‘ کا وصل ہمزه کے ساتھ جمع نہیں ہو سکا۔ پس جس طرح یہاں ’’ب‘‘ اور ’’س‘‘ کے وصل کے لیے ہمزہ کا حذف ہونا شرط ہے۔ باوجودیکہ یہ ہمزه اتصال کا واسطہ بھی ہے، اور اسی لیے ہمزه وصلی کہلاتا ہے۔ چنانچہ اگر اس ہمزہ کے بجائے کوئی دوسرا ایسا حرف ہو جو حذف نہیں ہوتا تو اس کے ما قبل و ما بعد میں اتصال حاصل نہ ہوتا۔ مثلاً ہمزہ قطعی ہوتا تو وه بحالہٖ رہتا۔ جیسے ’’قُمْتُ لِاِکْرَامِہٖ‘‘ میں اکرام کا ہمزہ قطعی ہے۔ اس لیے وہ حذف نہیں ہوا۔ اور نہ اس کلمہ کے ’’لِکْرَامِہٖ‘‘۔ بن جانے سے لام کا کاف سے وصل ہوا۔ بخلاف اس کے ’’قُمْتُ لِاِسْتِقْبَالِہٖ‘‘ میں استقبال کا ہمزہ وصلی ہے۔ اس کو ’’لِسْتَقْبَالِہٖ‘‘ پڑھیں گے۔ ہمزہ محض کتابت میں موجود رہے گا۔ قراعت میں نہیں۔ اسی طرح عبد و معبود کے وصل میں عبد کی ہستی کا حذف یعنی اس کا فنا ھونا شرط ہے۔ گو وہی ہستی واسطۂ وصل بھی ہے (کلید بزیادت مثال ہمزہ قطعی و وصلی)۔ آگے اس سے ایک اور فائدہ نکال کر بطور تصریح فرماتے ہیں:
58
چونکہ حرفے برنتابد ایں وصالواجب آمد کہ کنم کوتہ مقال
ترجمہ: جب یہ وصال ایک حرف کو برداشت نہیں کرتا تو ضروری ہوا کہ میں کلام کوتاہ کروں۔
مطلب: کیونکہ کلام میں تو بہت حروف بلکہ کلمات اور جملے ہیں۔ یہ مجھ کو وصالِ حق سے کیوں نہ مانع ہوں گے اس لیے مجھ کو چاہیے کہ کلام کو بھی حذف کروں۔ توضیح اس کی یہ ہے کہ کلام بھی تو آثارِ ہستی سے ہے، اور فنا میں ان کا عدم ضروری ہے۔ پس عدمِ کلام ضروری ہوا۔ اور یہ حکم کہ فنا کے لیے عدمِ کلام ضروری ہے باعتبارِ بعض مراتبِ فنا کے ہے۔ مثلًا استغراق- سو ممکن ہے کہ مولانا اس وقت اس مرتبہ کو اپنے اوپر وارد کرنا چاہتے ہوں۔ اس لیے کلام کو نافع سمجھا (کلید بلفظہٖ)۔ آگے بھی اسی کی تاکید ہے:
59
چوں یکے حرفے فراقِ سین و بے ستخامُشی ایں جا مہم تر واجبے ست
ترجمہ: جب ایک حرف (یعنی ہمزہ) ’’سین‘‘ اور ’’بے‘‘ کے لیے (باعثِ) فراق ہے۔ تو خامشی اس جگہ بہت ہی ضروری ہے۔ (چونکہ فنا کا ثمرہ بقا ہے۔ آگے اس کو اسی مثال سے بیان فرماتے ہیں:)
60
چوں الف از خود فنا شد مکتنِفبے و سین بے او ہمی گویند اَلِف
ترجمہ: جب ’’ھمزہ‘‘ اپنے (وجود) سے فنا ہو گیا، (اور بے اور سین کی) پناہ لینے والا (بن گیا) تو ’’بے‘‘ اور ’’سین‘‘ اس کے (وجودِ ظاہری کے) بدوں (بزبانِ حال) کہہ رہے ہیں کہ (یہاں) ’’ھمزہ‘‘ (معتبر ہے)۔
61
مَا رَمَيْتَ اِذْرَمَيْتَ بے ویستہم چنیں قَالَ اللّٰه از ضمنش بجست
ترجمہ: (اسی طرح جب بندہ فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ تو پھر حق تعالیٰ کا مقولہ) ﴿مَا رَمَيْتَ اِذْ رَمَيْتَ﴾ (الانفال: 17) (بھی) بدوں اس کے (وجود کے واقع ہوتا) ہے۔ (یہ مقولہ بندہ کے افعال سے متعلق ہے اور) اسی طرح اس کے ضمن سے ’’مَا قُلْتَ اِذْ قُلْتَ وَ لٰكِنْ قَالَ اللّٰه‘‘ نکل آیا۔
مطلب: یعنی حاصل بقا کا یہ ہے کہ بندے کے افعال و اقوال اس کے حق کے ساتھ کمال موافقت ہونے کی وجہ سے گویا عین حق کے افعال و اقوال ہوتے ہیں، جیسے عبد سے صادر ہی نہیں ہوئے اس سے فنا کا شرطِ وصول اور مفید ہونا مقصود ہے۔ آگے اس کی ایک مثال ارشاد ہے:
62
تا بوَد دارُو ندارد اُو عَملچونکہ شُد فانی کند دفعِ خلل
ترجمہ: (دیکھو) جب تک دوا (اپنی صورت نوعیہ پر باقی) ہے، وہ عمل (اور اثر) نہیں کرتی۔ (اور) جب وہ اپنی صورت بدل کر بدن میں سرایت کر گئی اور) فنا ہو گئی۔ تو مرض کو دُور کرتی ہے۔
مطلب: جب دوا نے اپنے وجود کو مریض کے جسم میں فنا کر لیا تو وہ مفید ہوئی۔ ورنہ غیر مفید تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ فنا مفید ہے۔ اور حصولِ مطلوب کے لیے شرط ہے۔ چونکہ اس قسم کے مضامینِ فنا وغیرہ نے مثنوی شریف کا پایہ بہت بلند کر دیا۔ اس لیے اب مولانا مثنوی کی تعریف فرماتے ہیں:
63
گر شود بیشہ قلم دریا مدیدمثنوی را نیست پایانی امید
ترجمہ: اگر سارا جنگل (اپنے نرکلوں، سرکنڈوں اور درختوں سمیت) قلم (کا ذخیرہ) بن جائے (اور) دریا سیاہی ہو جاوے (تو بھی) مثنوی کے (مضامین کے) ختم ہونے کی امید نہیں۔
مطلب: مدید بکسر دال و یائے مجہول امالہ ہے مداد کا جس کے معنی روشنائی و سیاہی کے ہیں۔ مثنوی کی بے پایانی کا یہ دعوٰی اس بنا پر کیا ہے کہ وہ کلمات الله پر مشتمل ہے اور کلمات اللہ کی بے پایانی کے متعلق خود حق تعالیٰ فرماتا ہے۔ ﴿قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا﴾ (الکہف: 109)
64
چار چوبِ کشت زن تا خاک ہستمی دہد تقطيعِ شعرش نیز دست
ترکیب: معنیِ شعر میں شارحین کی رائے مختلف ہے۔ بعض کے نزدیک اس میں مولانا اپنے آپ سے خطاب فرما رہے ہیں۔ اس لحاظ سے ’’زن‘‘ فعل امر ہوگا۔ ’’چار چوب خشت‘‘ اس کا مفعول بہ۔ دوسرا مصرعہ ’’چوب‘‘ امر اور اکثر کے نزدیک یہ شعر جملہ خبریہ ہے۔ یعنی ’’چار چوب خشت‘‘ مبتدا ’’تا خاک‘‘ متعلق خبر مقدر، باقی کا یہ مصرعہ تمثیل ہے۔ دوسرے مصرعہ کا مضمون ممثل لہٗ اب ترجمہ دونوں طرح کا ملاحظہ ہو:
ترجمہ: (1) (اے ناظمِ مثنوی!) اشعار کی اینٹوں کا سانچہ پھیرے جا جب تک کہ (مضامین شعریہ کی) مٹی (میسر) ہے۔ تجھے اس کے اشعار کی موزونیت بھی میسر ہوتی رہے گی۔
ترجمہ: (2) (جس طرح) خشت زن کا (اینٹ بنانے کا) سانچہ مٹی (کی موجودگی) تک (باقی) ہے۔ اسی طرح اس (مثنوی) کے اشعار کی تقطیع بھی (میسر و) موجود رہے گی۔
65
چوں نماند خاک و بادش حف کندخاک سازد بحرِ او چوں کف کند
ترجمہ: جب (یہ) زمین نہ رہے گی اور (انقلابِ عظیم کی) ہوا اس کو برباد کر دے گی۔ تو اس (مثنوی) کا دریا ایک اور زمین بنائے گا۔ جب وہ (جوش زن ہو کر) کف لائے گا۔
مطلب: اوپر کہا تھا کہ جب تک مٹی موجود ہے مثنوی کا سلسلہ جاری رہے۔ اب فرماتے ہیں کہ مٹی یعنی زمین کے شکست و ریخت ہونے کے بعد بھی مثنوی کا فیضان جاری رہے گا۔ یعنی دنیا کے فنا ہونے کے بعد بھی مثنوی کی برکات رہیں گی۔ پہلے مصرعہ میں ہوا سے مراد وہ ہوا ہے جس کے اثر سے قیامت میں پہاڑ اور زمین اس طرح اڑتے پھریں گے جیسے گرد و غبار۔ چنانچہ ارشاد ہے۔ ﴿اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا 0 وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا 0 فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا﴾ (الواقعہ: 4-6)۔ دوسرے مصرعہ میں سمندر کی اس حالت سے تمثیل مقصود ہے۔ جوش کھانے کے بعد کسی مقام سے اتر جاتا ہے۔ اور اس سے کوئی جزیرہ پیدا ہو جاتا ہے۔ آگے بھی اسی مضمون کا اعادہ ہے:
66
چوں نماند بیشہا سر در کشندبیشہا از عینِ دریا سرکشند
ترجمہ: جب (اس عالم کے) جنگل نہ رہیں گے (اور پردۂ عدم میں) روپوش ہو جائیں گے تو (اور دوسرے) جنگل (اس عالم کے) عین دریا سے ظاہر ہوں گے۔
مطلب: یہاں مثنوی سے مراد کلمات اللہ ہیں۔ جن پر اس کے مضامین مشتمل ہیں۔ اس کے جوش سے مراد وہ ثمرات و نتائج ہیں جو وہ کلمات اللہ کے اعتقاد و انقیاد پر مترتب ہوں گے اور زمین یا بیشہ جدید سے مراد دارالجزاء کا مقام ہے۔ اب مطلب ظاہر ہے کہ یہ کلمات اللہ ایسے دائم البرکات ہیں کہ اس دار العمل کے منقطع ہونے کے بعد وہ كلمات اللہ جن میں تمام دین مضمر ہے اس امر کے مقتضی ہوں گے کہ عامل کو اس کے اعتقاد و انقیاد کا اجر ملے۔ پس حق تعالیٰ دارالجزا میں ان کلمات اللہ پر اجر عطا فرمائے گا۔ (کلید)۔ آ گے ان کلمات اللہ کے بے پایاں ہونے کا ذکر فرماتے ہیں:
67
بہرِ ایں گفت آں خداوندِ فَرجحَدِّثُوْا بَحْرَنَا اِذ لَا حَرَجْ
ترجمہ: اس لیے اس خداوندِ کشایش (تعالیٰ شانہ) نے فرمایا ہے کہ ہمارے (كلمات اللہ کے) دریا سے حکایتیں (بیان) کیے جاؤ۔ کیونکہ (ان میں) تنگی (اور کمی) نہیں ہے۔ یہ روایت بالمعنی ہے۔ (کیونکہ یہ مضمون آیۃ ﴿قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ﴾ (الکہف: 109) سے ناشی ہوتا ہے (کذا فی الکلید)۔ آگے اپنے آپ سے خطاب ہے:)
68
باز گرد از بحر و رُو در خشک نِہہم ز لُعبت گو کہ کودک راست بہ
ترجمہ: (اے ناظمِ مثنوی!) تم دریا (ئے مذکور) کے ذکر سے باز آؤ اور (ظاہری قصّے کی) خشکی کی طرف توجہ کرو۔ کھیل کی بات بھی کہہ لو۔ کیونکہ بچے کی سی (لہو پسند طبائع) کے لیے (وہی) بہتر ہے۔
69
تا ز لُعبت اندک اندک در صباجانش گردد با یمِّ عقل آشنا
ترجمہ: (بہتر اس لیے ہے) تاکہ اس کی جان طفلی میں کھیل کی بدولت تھوڑا تھوڑا دریائے عقل سے آشنا ہو جائے۔
70
عقل زاں بازی ہمی گیرد صبیگرچہ با عقل ست در ظاہر اَبی
ترجمہ: لڑکا اس کھیل سے عقل حاصل کر لیتا ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ (کھیل) عقل سے منافی ہے۔ (لیکن فی الواقع وہ کھیل عقل سے مناسبت رکھتا ہے۔ چنانچہ:)
71
کودکِ دیوانہ بازی کَے کندجُزو باید تاکہ کُل را پے کند
ترجمہ: (اتنا تو سوچو کہ) دیوانہ لڑکا کب کھیلتا ہے؟ (کچھ عقل ہو گی تو کھیلے گا۔ پس) کچھ نہ کچھ (عقل) تو ضروری چاہیے تاکہ اعلےٰ (عقل) کا سُراغ لگا سکے۔
مطلب : بچہ لکڑی کی تلوار سے کھیلتا کھیلتا تیغ زنی کے داؤ سیکھ جاتا ہے۔ اگر اس کو اس عمر میں اصلی تلوار کھیلنے کے لیے دی جائے تو بعید نہیں کہ سب سے پہلے اپنے ہی ہاتھ پاؤں کاٹ کر رکھ دے۔ اسی طرح عام لوگ قصص و حکایات کے ذریعہ اسرارِ سلوک بتدریج معلوم کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو بلا واسطہ یہ اسرار بتائے جائیں تو ان کے لیے مضر ہو سکتے ہیں۔ اور جس طرح کھیل اور عقل میں بظاہر تباعد ہے۔ مگر درحقیقت اس سے عقل ادنیٰ حالت سے اعلی درجہ تک ترقی کرتی ہے۔ اسی طرح قصص اور علومِ مقصودہ میں بظاہر عدمِ مناسبت ہے۔ مگر واقعہ میں ان کے ذریعہ سے اسرارِ سلوک کے لیے بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ ہاں پہلے کچھ عقل کا ہونا شرط ہے۔