دفتر ششم: حکایت: 123
بیان مجاہد کہ دست از مجاہدہ باز ندارد، اگرچہ داند کہ بسطت عطائے حق کہ آں مقصود ست از طرفِ دیگر و بسببِ عمل دیگر بدو برساند کہ در وہمِ او نبودہ باشد۔ و او ہمہ وہم وامید دریں طریقِ معین بستہ ہمیں در میزند۔ شاید کہ حق تعالیٰ آں روزی را از درِ دیگر برساند کہ او آں تدبیر نہ کردہ باشد ﴿وَ یَرْزُقْہٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ﴾(الطّلاق)، "اَلْعَبْدُ یُدَبِّرُ وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ" و بود کہ بندہ را وہمِ بندگی بود کہ مرا از غیر ایں در برساند اگر چہ حلقۂ ایں در میزنم حق سبحانہ، و تعالیٰ او را ہم ازیں در روزی رساند۔ فی الجملہ ایں ہمہ درہائے یک سرائے است
اس کوشش کرنے والے کا بیان جو کوشش سے دست بردار نہ ہو، اگر چہ وہ حق تعالیٰ کی عطا کی فراخی کو جانتا ہے کہ جو مقصود ہے وہ اسے کسی اور جانب سے اور کسی دوسرے عمل کے سبب سے اس کو پہچادیتا ہے۔ جو اس کے وہم میں بھی نہیں ہوتی۔ اور وہ تمام امیدیں اسی مخصوص راستے سے باندھ کر اسی دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے۔ شاید کہ حق تعالیٰ اسی روزی کو دوسرے دروازے سے پہنچا دے جس کی اس نے تدبیر نہ کی ہو۔ "اور وہ رزق پہنچاتا ہے ایسی جگہ سے جس کا اس کو گمان بھی نہ ہو"(الطّلاق)۔ "بندہ تدبیر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ تقدیر کرتا ہے"۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بندہ کو بندگی کے متعلق وہم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ مجھ کو اس بندگی کے دروازے کے سوا کسی اور دروازہ سے پہنچائے گا اگر چہ میں اس دروازہ کا کنڈا کھٹکھٹا رہا ہوں۔ حق سبحانہ تعالیٰ اس کو اسی دروازے سے روزی پہنچادیتا ہے۔ الغرض یہ سب دروازے ایک گھر کے ہیں۔
مطلب: یہاں شہزادے کے مقولہ سے انتقال ہے۔ سالک مجاہد کے مقولہ کی طرح یعنی جس طرح شہزادہ طلبِ محبوب میں جرأت و پامردی کا اظہار اور تحملِ شدائد و مصائب کا عزم کر رہا ہے اسی طرح سالک کہتا ہے کہ میں بھی مطلوبِ حقیقی کی طلب میں کوششِ بلیغ کروں گا جو سفرِ باطنی ہے۔ یہاں تک کہ(آگے شعر میں جملہ جاری ہے)
1
یادِ ایں راہ آیدم آں کارِ من
یا چو باز آیم ز رہ سوئے وطن
ترجمہ: یا تو اس راستے میں (سفر کے ذریعہ سے) میرا وہ مقصود حاصل ہو جائے گا یا جب سفر سے واپس آؤں تو وطن(کی جانب واپسی ہو) -
2
بوکہ موقوف ست کامم بر سفر
چوں سفر کردم بیابم در حضر
ترجمہ: ہوسکتا ہے کہ میرا مقصود سفر پر موقوف ہو (اور کچھ تعجب نہیں) جب سفر کر چکوں تو حضر(اس مقصود) کو گھر میں ہی پالوں۔
مطلب: مقصود سے مراد معیتِ حق اور سفر سے مراد مجاہدہ اور وطن و حضر سے مراد فطرت ہے۔ پس سالک اس معیت کی تحصیل کے لیے مجاہدہ کرتا ہے اور مجاہدہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ معیت تو فطرت سے حاصل تھی۔ پس ایسی مثال ہو گئی کہ ایک چیز اپنے گھر میں موجود ہے مگر چونکہ اس کو دیکھا نہیں یا پہچانا نہیں، اس لیے خبر نہیں کہ گھر میں ہے۔ اس کو ڈھونڈنے کو گھر سے نکلا۔ بڑے سفر کیے، سفر میں کسی نے پورا پتا بتلایا کہ وہ ایسی چیز ہے اور تمہارے گھر میں ہے۔ گھر میں آ کر وہ مل گئی۔ جیسے کہ آگے اس تائید میں ایک حکایت آئے گی۔ اس طرح حق تعالیٰ کی معیت فطری ہے مگر اس کا انکشاف ہر شخص کو نہیں ہے۔ اس کے انکشاف کے لیے مجاہدہ کیا جاتا ہے۔ مجاہدہ کے بعد انکشاف ہوتا ہے تو دیکھتا ہے کہ یہ تو وہی امر ہے جو پہلے میسر تھا۔ (کلید)
گو حق تعالیٰ نے یہ خبر دے دی ہے کہ ﴿وَھُوَمَعَکُمْ اَیْنَمَاکُنْتُمْ﴾ (الحدید: 4) جس کے بعد ظاہرًا عدمِ انکشاف مستبعد اور تکذیبِ نص کو مستلزم ہوتا ہے لیکن اس میں دو مرتبہ ہیں۔ ایک معیتِ عقلیہ اعتقادیہ عامہ دوسری معیتِ ذوقیہ حالیہ خاصہ تو آیت سے قبلِ ذوق مرتبۂ اول مفہوم ہوتا ہے۔ چنانچہ اہل ظاہر نے یہی سمجھا ہے اور ذوق کے بعد مرتبۂ ثانیہ بھی آیت کا مدلول معلوم ہوتا ہے۔ پس اخبارِ الٰہی کے بعد عدمِ انکشاف مرتبۂ ثانیہ کا کچھ مستبعد نہیں کیونکہ مرتبۂ اولیٰ کے ماننے سے بھی تصدیق آیت کی ہو جاتی ہے۔
اس معیتِ خاصہ حالیہ کا انکشاف حقیقۃً تو محض فضل و عنایت پر موقوف ہے جس کو جذب کہتے ہیں لیکن عادتًا دو امر پر موقوف ہے۔ ایک یہ سمجھنا کہ یہ معیت حاصل نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ طلب یعنی مجاہدہ سے حاصل ہو گی جس کو سلوک کہتے ہیں۔ امر اول پر توقف اس لیے ہے کہ اگر کوئی شخص سمجھے کہ یہ مجھ کو حاصل ہے تو وہ طلب ہی کیوں کرے گا کہ تحصیلِ حاصل محال ہے اور امر ثانی پر توقف اس لیے ہے کہ اگر کوئی یہ تو سمجھے کہ مجھ کو حاصل نہیں مگر یہ نہ سمجھے کہ طلب و مجاہدہ سے اس کا حصول ہو گا تو ظاہر ہے کہ وہ بھی طلب و مجاہدہ نہیں کرے گا اور گو بعد انکشاف کے یہ معلوم ہو گا کہ میرا یہ سمجھنا کہ مجھ کو معیت حاصل نہیں، خلاف واقع نکلا کیونکہ معیت حاصل تھی اور اسی طرح یہ بھی ہو گا کہ اس کا حصول مجاہدہ سے نہیں ہوا کیونکہ یہ قبل مجاہدہ بھی حاصل تھا لیکن پھر بھی ان دونوں امر کا اعتقاد ہونا کہ مجھ کو معیت حاصل نہیں اور یہ کہ مجاہدہ سے حاصل ہو گی، مجھ کو مفید ہوا کہ بدوں انکشاف یہ نہ کرتا اور بدوں مجاہدہ اس کا انکشاف نہ ہوتا اور بدوں انکشاف یہ نہ معلوم ہوتا کہ پہلے سے میسر ہے۔ (کلید)
ان دونوں اعتقادوں کو جو خلاف واقع کہا گیا ہے، یہ باعتبارِ ظاہر کے ہے ورنہ واقع میں دونوں اعتقاد واقع کے مطابق ہیں یعنی معیت کا جو درجہ اب حاصل ہوا ہے، اس کا پہلے حاصل نہ ہونا بھی اور مجاہدہ کے بعد حاصل ہونا بھی لیکن اگر پہلے سے یہ معلوم ہوتا کہ یہ صرف درجہ حاصل نہیں اور نفسِ معیت حاصل ہے تو چونکہ اس وقت دونوں درجوں میں فرق نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے درجۂ حاصلہ کو کافی سمجھ کر درجۂ غیر حاصلہ کو طلب نہ کرتا۔ اس لیے حاصل کے حصول کا استحضار اس کو مضر تھا۔ پس ضرورت اس کی تھی کہ اس کا استحضار نہ ہو تو اس عدم استحضار کو صورۃً اعتقادِ عدمِ حصول کہا گیا۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ مبتدی کو جو کمالات حاصل ہیں، اگر ان کو مستحضر رکھے تو عجب وغیرہ کا خوف ہے۔ اس لیے کہا جائے گا کہ تم اپنے کو معرا سمجھو اور اس سے یہ شبہ بھی جاتا رہا کہ جہل قبیح ہے اور معیتِ حسن کو تحصیلِ حسن کے لیے اعتقادِ قبیح شرط و موقوف علیہ کیسے ہو سکتا ہے ورنہ اس قبیح کی تحصیل کا مطلوب ہونا لازم آئے گا کیونکہ بوجہ شرطیت کے اس کی تحصیل کے بدوں اس حسن کا حصول ممکن نہیں۔ عقلًا یا عادتًا جیسی شرط ہو، البتہ قبیح حسن کے لیے سببِ محض ہو تو کچھ حرج نہیں کیونکہ بوجہ توقف کے اس کی تحصیل تو لازم نہیں آتی۔ جب وہ حاصل ہو گا اس کی طرف مفضی ہو جائے گا۔ یہ چند احکام ہیں صحبتِ معیت کے متعلق جن سے آئندہ اشعار کے سمجھنے میں سہولت ہو گی:
3
یار را چنداں بجویم جَد و چُست
تا بدانم کے نمے بایست جُست
ترجمہ: میں محبوب کو اس قدر کوشش اور چستی سے ڈھونڈوں گا کہ مجھے معلوم ہو جائے گا کہ (اب) طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔
مطلب: یعنی مجھے معیتِ خاصہ منکشف ہو جائے جو سیر الی اللہ کی انتہا ہے اور طلب سے یہی مراد ہے جو یہاں آ کر ختم ہو جاتی ہے۔ آگے سیر فی اللہ شروع ہو جاتی ہے جس کی کوئی انتہا نہیں:
4
آں معیت کے رود در گوشِ من
تا نگردم گردِ دورانِ زمن
ترجمہ: وہ معیّت (بشارت بن کر) میرے کان میں کب جائے گی جب تک کہ میں زمانہ (بھر) کے دائرہ (مجاہدات) کے گرد نہ پھر جاؤں۔
5
تاحساب خُطْوَتَان وقَدْ وَصَل
گرددم روشن شود اشکالِ حل
ترجمہ: تاکہ (ایک مشہور مقولہ) "دو قدم اور وصال ہوا" کے حساب (مصداق) میرے لئے (بھی) روشن اور اشکال حل ہو جائے۔
مطلب: معیّت کے کان میں پہنچنے سے مراد اس کا مشاہدہ ہے۔ بطور اطلاق الخاص علی العام کیونکہ سننا بھی ایک قسم کا مشاہدہ ہے۔ دائرۂ جہاں کے گرد پھرنا کنایہ ہے مجاہدہ سے خطوتاں اس مشہور قول کی طرف اشارہ ہے۔ ﴿خُطْوَتَانِ مَنْ قَطَعَھُمَا فَقَدْ وَصَلْ﴾ یعنی ”دو قدم ایسے ہیں کہ جس شخص نے ان کو طے کر لیا، وہ واصل ہو گیا“ اور ان دونوں قدموں کی تفسیر یوں ہے۔ ع یک قدم بر فرقِ خود نہ و آں دگر کوئے دوست ایک قدم اپنے سر پر رکھو یعنی اپنے آپ کو فنا کر لو اور دوسرا قدم محبوب کے کوچے میں رکھو یعنی باقی باللہ ہو جاؤ۔ یہ دو قدم کنایہ ہے مجاہدہ سے کہ اس سب کا حاصل فنا و بقا ہے اور اس کا حساب روشن ہونا کنایہ ہے مقصودِ معیّت کے حصول سے اور حلِ اشکال سے یہی مراد ہے۔ مطلب یہ کہ میں اس قدر مجاہدہ کروں گا کہ اس کا ثمرہ متحقق ہو جائے۔ آگے رفتن معیت در گوش اور گشتن گردِ دوران کی تفسیر ہے جن میں قدرے ابہام تھا:
6
کے کنم از معیّت فہمِ راز
جز مگر بعد از سفرہائے دراز
ترجمہ: میں معیت کے راز کو کب سمجھ سکتا ہوں مگر مجاہدات کے لمبے سفروں کے بعد۔
مطلب: حرف جز دوسرے مصرعہ میں زائد آیا ہے جس طرح نیز کے ساتھ ہم کا کلمہ زائد کئی جگہ جمع ہوا ہے۔ گو آیت میں مطلق ہے۔ ﴿وَ ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید: 4) جس کے بعد معیّت میں تصدیق کا مجاہدہ پر موقوف ہونا غیر صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ:
7
حق معیّت گفت و دل را مُہر کرد
تاکہ عکس آید بگوشِ دل نہ طرد
ترجمہ: حق تعالیٰ نے معیت کی خبر بھی دی ہے اور دل پر مہر بھی کر دی ہے تاکہ (عقلِ استدلالی کے) گوشِ دل میں (اس کی) جامعیت کا (مرتبہ) نہ کہ مانعیت کا (مرتبہ)۔
مطلب: جامعیت کے مرتبہ سے معیّت کے معنی عام مراد ہیں جو مرتبۂ عقلیۂ اعتقادیہ ہے اور مرتبہ مانعیت سے مراد معیت کے معنی خاص ہیں جو مرتبۂ ذوقیۂ حالیہ ہے اور وجہ تعبیر ظاہر ہے کہ معنی عام سے اگر خاص کی تعریف کی جائے تو اس تعریف کا افراد محدود کے لیے جامع ہونا یقینی ہے مگر مانع نہ ہو گی اور معنی خاص سے اگر تعریف کی جائے تو وہ جامع ہونے کے ساتھ مانع بھی ہو گی۔ مثلًا انسان کی تعریف حیوان کے ساتھ کرنا جامع تو ہے مگر مانع نہیں اور حیوانِ ناطق جامع و مانع دونوں ہے۔ اسی طرح معنیٰ عام باعتبارِ معیت خاصہ کے جامع تو ہے مگر مانع نہیں اور معنی خاص مانع بھی ہے، حاصل جواب کا یہ ہوا کہ معیت منصوص تو ہے مگر چونکہ معنیٰ خاص کا انکشاف نہیں ہے جس کو مہر کرنا کہا ہے۔ اس لیے وہ معنیٰ خاص جو کہ جامع و مانع ہے، مفہوم نہیں ہوتے۔ معنی عام جو کہ صرف جامع ہیں مفہوم ہوتے ہیں۔ پس آیت کی تعریف اس معنیِ عام کے ساتھ کرنے سے آیت کی تصدیق بھی ہوئی اور معنیِ خاص کے لیے مجاہدہ کی ضرورت کا حکم بھی صحیح رہا۔(کلید)
صاحب منہجِ القوٰی نے اس شعر کی آسان اور اقرب الی الفہم شرح یوں کی ہے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے اپنی معیت سے آگاہ فرما دیا ہے لیکن دل پر مہر لگا دی ہے۔ پس کوئی اس معیّت کی کیفیت کو سمجھ نہیں سکتا اور بندہ اس مقدار پر قناعت نہیں کرتا اور کہتا ہے اگر اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہے اور اپنے فرمانِ صادق کی بنا پر ضرور ہے تو مجھے کیونکر معلوم ہوا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔ پس لازم ہے کہ مومن معیت سے نکلے اور مدت تک سیر الی اللہ میں مصروف رہے۔ یہاں تک کہ سیر مع اللہ کے مرتبہ کو پہنچ جائے۔ پھر اس کو اللہ تعالیٰ کی معیت ہر حال اور ہر مکان میں حاصل رہتی ہے اور وہ اس کا مشاہدہ کرتا ہے ورنہ صرف منہ سے معیّت کا قائل ہونا مفید نیہں۔ (انتہٰی)
8
چوں سفرہا کرد و دادِ راہ داد
بعد ازاں مہر از دلِ او برکشاد
ترجمہ: (پھر) جب (مجاہدات کے) بہت سے سفر کیے اور راہِ (سلوک) کا حق ادا کیا تو اس کے بعد اس کے دل سے مہر کھول دی (اور معیتِ خاصہ کا انکشاف ہو گیا۔)
مطلب: یہاں تک یہ ذکر ہوا ہے کہ انکشاف معیّتِ مجاہدہ پر موقوف ہے جس کی تفصیل پیچھے تقریر منقولہ میں گزر چکی ہے۔ آگے فرماتے ہیں کہ گو انکشاف کے بعد معیت کا عدمِ حصول غیر واقع ثابت ہوا ہے کہ معیت حاصل تھی، تاہم اس کے عدمِ حصول کا اور مجاہدہ پر حصول کے توقف کا اعتقاد ہونا مفید ہے۔ اس کا مفصل ذکر بھی اسی گزشتہ تقریر میں گزر چکا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
9
چوں خطائیں آں حسابِ باصفا
گرددش روشن ز بعدِ دو خطا
ترجمہ: خطائیں کی طرح (کہ) وہ (ایک) پُر لطف حساب (کا قاعدہ ہے) وہ (معیت) اس کو دو خطاؤں کے بعد منکشف ہوتی ہے۔
مطلب: جس طرح خطائیں بے حساب ہیں، دو غلطیاں ہیں۔ ایک خاص عمل کی وجہ سے وصول الی المطلوب کا سبب بن گئیں۔ اسی طرح یہاں سالک کو دو امر جن کا خلاف واقع ہونا انکشاف کے بعد معلوم ہوا یعنی ایک معیت کا علمِ حصول دوسرا اس کے حصول کا انحصار مجاہدہ پر ایک خاص وجہ سے مطلوب یعنی معیت کے حصول کا ذریعہ بن گئے اور ان سب اجمالات کی تفصیل پیچھے آغازِ فصل کے بعد دوسرے شعر کے نیچے ایک تقریر منقولہ میں گزر چکی۔ آگے یہ بیان ہے کہ مجاہدہ سے پہلے جو معیت کا علم نہیں ہوتا تو اس عدمِ علم میں بھی ایک مصلحت ہے جس کا مفصل ذکر اسی مذکورہ تقریر میں گزر چکا ہے۔
10
بعد ازاں گوید اگر دانستمے
ایں معیّت را کے او را جُستمے
ترجمہ: اس کے بعد وہ (اس انکشاف پر خوش ہو کر) کہتا ہے کہ اگر مجھے یہ معیت (مجاہدہ سے) پہلے معلوم ہوتی تو کیوں اس کو طلب کرنے کی مشقت اٹھاتا (مگر حقیقت یہ ہے کہ بدونِ طلب یہ انکشاف کب میسر ہوتا۔ پس طلب میں وہ اس انکشاف کے برکات سے محروم رہتا۔)
11
دانشِ آں بود موقوفِ سفر
ناید آں دانش بہ تیزیِ فکر
ترجمہ: اس (معیت) کا (پورا ذوق حالِ) علم تو سفر (و مجاہدہ) پر موقوف تھا (کیونکہ) وہ علم (بدون ذوق کے صرف) افکاری تیزی سے میسر نہیں آتا۔ (اور ذوق بدون مجاہدہ کے نہیں ہوتا۔ پس یہ علم بدون مجاہدہ کے نہیں آتا۔ آگے اس توقف عادی کی ایک مثال پیش فرماتے ہیں:)
12
آنچنانکہ وجہ وامِ شیخ بود
بستہ و موقوفِ گریہ آں وجود
ترجمہ: (یہ توقف ایسا ہے) جیسا کہ شیخ کا قرض ادا ہونے کی سبیل۔اس (کودک کی) ہستی کے گریہ پر موقوف و معلق تھی (جو حلوا فروخت کرتا پھرتا تھا)
13
کودکِ حلوائیے بگریست زار
توختہ شد وامِ آں شیخِ کبار
ترجمہ: (یعنی) ایک حلوا فروش کا لڑکا زار زار رویا تو (اس کے رونے پر) اس شیخ بزرگان کا قرضہ ادا کر دیا گیا۔ شیخ کبار کے لفظ سے اس شیخ کی عظمت کا اظہار مقصود ہے یعنی وہ شیخ اکابر اہل اللہ کا مرشد تھا۔ ظاہر ہے کہ گریۂ کودک کا ادائے قرض سے کوئی خاص مؤثر تعلق نہیں۔ یہ محض رحمتِ حق تھی۔ اسی طرح مجاہدہ ایک بہانہ ہے رحمتِ حق کی توجہ کا اور اصل علت خود رحمتِ حق ہے۔ کما قیل؎
رحمتِ حق بہانہ مے جوید
رحمت حق بہا نمے جوید
14
گفتہ شد آں داستانِ معنوی
پیش ازیں اندر خلالِ مثنوی
ترجمہ: وہ با معنی داستان اس سے پہلے اثنائے مثنوی میں بیان ہو چکی ہے۔
15
ایں سخن در دفترِ دویم گذشت
گر نمے دانی کن آنجا باز گشت
ترجمہ: یہ بات دوسرے دفتر میں گزری ہے۔ اگر تمہیں یاد نہیں تو اس جگہ رجوع کرو۔
مطلب: اس قصہ کا ملخص یہ ہے کہ ایک بزرگ قرض لے لے کر خیرات و برات میں خرچ کرتے تھے۔ اپنی موت کا وقت قریب آیا تو قرض خواہ آ کر تقاضا کرنے لگے۔ شیخ حالتِ نزع میں بستر پر خاموش لیٹے پڑے تھے اور قرض خواہوں کے تند و تیز تقاضوں کی کچھ پروا نہ کرتے تھے۔ اتنے میں خانقاہ سے باہر کسی حلوائی کا لڑکا حلوا بیجتا پھرتا تھا۔ شیخ صاحب کے حکم سے اس کو بلایا گیا اور اس کا طشتِ حلوا قرض خواہوں کے آگے رکھ دیا گیا کہ شوق سے کھائیں۔ جب وہ کھا چکے تو لڑکے نے قیمت حلوے کا تقاضا کیا۔ شیخ اب بھی خاموش تھے۔ لڑکا رونے چلانے لگا۔ قرض خواہ اس نئے واقعہ سے اور بھی برہم ہوئے۔ آخر جب لڑکے کا گریہ و نالہ حد سے بڑھ گیا تو رحمت جوش میں آئی۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شخص ایک طشتری میں نقد مال لایا اور اسے شیخ کی نذر کیا۔ جب اس رقم کا شمار کیا گیا تو قرض خواہوں کا پورا قرض اس سے ادا ہو گیا۔ کچھ نقدی الگ بھی اس میں رکھی تھی۔ وہ پوری حلوائی کی قیمت تھی، سب حاضرین شیخ کی اس کرامت کے قائل اور اپنی گستاخی سے تائب ہوئے۔ وہاں مولانا نے فرمایا
تا گرید کودک حلوا فروش
بحر بخشایش نمے آید بجوش
یہاں تک سالک کے مجاہدہ و طلب کا مضمون تھا جس کے ضمن میں یہ بھی مذکور ہوا کہ اس نے مجاہدہ کو حصولِ مقصود کا سبب سمجھا مگر وہ محض ایک بہانہ تھا۔ مقصود اس کو دوسری جگہ سے یعنی عنایتِ حق سے ملا۔ اس کے بعد ایک مثال دی جس سے معلوم ہوا کہ اس میں کچھ تخصیص مقصود سلوک کی نہیں۔ دوسرے مقاصد میں بھی حق تعالیٰ خلافِ توقع موقع سے مقصود عطا فرما دیتے ہیں۔ آگے اسی بات کو بطور کلیہ کے بیان فرماتے ہیں تاکہ زیادہ تعمیم ہو جائے۔ جس کے عموم میں سالک کے ایسے معاملات بھی داخل ہیں کہ بعض اوقات وہ اپنی اصلاح و تربیت کے لیے ایک طریق تجویز کرتا ہے مگر یہ مقصود کسی دوسرے ایسے طریق عمل سے حاصل ہوتا ہے جس کا گمان بھی نہ تھا اور اہلِ سلوک اس کا شب و روز مشاہدہ کرتے ہیں۔ سرخی میں اس عموم اور اس کے معاملات کی تصریح ہے اور اس کے ساتھ آخیر میں شہزادہ کے قصے کو چسپاں کرتے ہیں۔ اس کلیہ کی تائید میں آگے مردِ میراث یافتہ کا قصہ آئے گا۔
پس فرماتے ہیں کہ جیسے اوپر معلوم ہوا کہ جس چیز کو سبب سمجھتے ہیں، وہ غیر سبب ثابت ہوتی ہے۔ جیسے مجاہدہ وصول کے لیے اور جس امر پر کسی طرح بھی سبب ہونے کا گمان نہیں ہوتا، وہ سبب بن جاتا ہے۔ جیسے گریۂ کودک ادائے قرض کے لیے سبب بن گیا۔
16
در دلت خوف افگند از موضعے
تا نباشد غیر آنت مطمعے
ترجمہ: (اسی طرح حق تعالیٰ بعض اوقات) تمہارے دل میں ایسی جگہ سے خوف پیدا کر دیتا ہے کہ (فی الحقیقت اس جگہ) کے سوا اور کوئی جگہ تمہارے لیے امید گاہ نہیں ہوتی۔
17
در طمع خود فائدہ دیگر نہد
واں مرادت از کسے دیگر دہد
ترجمہ: (اور وہ) طمع (و امید بھی خالی از مصلحت نہیں کہ اس) میں بھی (کوئی) دوسرا فائدہ رکھتا ہے اور وہ مراد تم کو دوسرے شخص سے دیتا ہے۔
18
اے طمع بربستہ در یک جائے سخت
کایدم میوہ ازاں عالی درخت
ترجمہ: اے ایک جگہ امیدِ واثق رکھنے والے! کہ اس بلند درخت سے مجھے میوہ ملے گا۔
19
آں طمع آنجا نخواہد شُد وفا
بل از جائے دیگر آید آں عطا
ترجمہ: (یہ بات ممکن سمجھ لے) وہ امید وہاں سے پوری نہ ہو گی بلکہ وہ عطا دوسری جگہ سے آئے گی۔
20
آں طمع را پس چرا در تو نہاد
چوں نبودش نیتِ اکرام و داد
ترجمہ: (اب پھر یہ سوال رہا کہ) بس اس طمع کو کس لیے تمہارے اندر پیدا کیا جب کہ اس کا قصد تم کو اس جگہ سے عزت اور عطا (دلانے) کا نہ تھا۔
21
از برائے حکمتے و صنعتے
نیز تا باشد دِلت در حیرتے
ترجمہ: (تو جواب یہ ہے کہ) کسی حکمت اور نادرہ کاری کے لیے (یہ طمع تمہارے اندر رکھی تھی) نیز (علم باطنی کا مناسب بھی ایک فائدہ ہے وہ یہ کہ) تاکہ تمہارا دل حیرت میں (غرق) ہو جائے۔
22
تا دلت حیراں بود اے مستفید
کہ مرادم از کجا خواہد رسید
ترجمہ: اے مستفید! تاکہ تمہارا دل حیران ہو جائے کہ میری مراد کہاں سے ملے گی۔
23
تا بدانی عجزِ خویش و جہلِ خویش
تا شود ایقانِ تو در غیب بیش
ترجمہ: (اور حیرت کا فائدہ یہ ہے) تاکہ تم اپنے عجز اور جہل کو سمجھ لو (اور) تاکہ غیب کے متعلق تمہارا یقین زیادہ ہو جائے۔
مطلب: عجز کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ کرنا چاہا تھا کچھ اور ہو گیا کچھ اور جہل و علم کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ مطلوب کی توقع کسی اور جگہ سے تھی اور حاصل ہوا کسی اور جگہ سے۔ تو اپنی کمزوری سے حق تعالیٰ کے علم اور قدرت کا یقین کامل ہو جاتا ہے کہ وہ سب کے علم و قدرت پر غالب ہے۔
24
ہم دِلت حیراں بود در منتجع
کہ چہ رویاند مصرف زیں طمع
ترجمہ: نیز (یہ فائدہ ہے کہ) تمہارا دل آب و علف کے مقام میں حیران رہے کہ دیکھئے تصرف کرنے والا اس طمع سے کیا چیز پیدا کرتا ہے۔
مطلب: یعنی سالک کو یہ حیرت دامن گیر رہتی ہے کہ دیکھئے حق تعالیٰ میری فلاں آرزو کو کس صیغے سے بر لاتا ہے اور اس عالمِ اسباب میں کس طرح سبب پر کون اثر مرتب کرتا ہے۔ پس یہ حیرت خود بھی ایک حال عالی ہے اور راز اس میں یہ ہے کہ یہ ایک تجلی کا اثر ہے اور یہ حیرتِ محمودہ کہلاتی ہے جس کا سبب تجلیات کا تواتر و توارد ہے۔ جیسے یہاں ہوا کہ حق تعالیٰ کے تصرفات متنوعہ اس کے پیشِ نظر ہو کر حیرت ہو گئی کہ خدا جانے اس سبب کو وہ فلاں طریق سے پیدا کرے گا یا فلاں طریق سے۔ پس یہ کثرت علوم حیرت کا سبب ہو گئی۔ آگے اس کی بعض مثالیں ہیں۔
25
طمع داری روزیئےدر درزیئیِ
تا ز خیّاطی بری زر تا زیئی
ترجمہ: تم روزی کی طمع درزی کے پیشے میں رکھتے ہو تاکہ جب تم زندہ رہو خیاطی میں روپیہ کماتے رہو۔
26
رزقِ تو در زرگری آرد پدید
کہ زو ہمت بود آں مکسب بعید
ترجمہ: (لیکن) وہ تمہارا رزق زرگری میں پیدا کرتا ہے جبکہ وہ پیشہ تمہارے وہم سے بعید تھا۔
27
بس طمع در درزیئیِ بہر چہ بود
چوں ترا در جائے دیگر در کشود
ترجمہ: پھر خیاطی میں (رزق کی) طمع کس لیے تھی جب کہ تمہارے لیے دوسری جگہ (رزق کا) دروازہ مفتوح بنایا۔
28
بہرِ نادر حکمتے در علمِ حق
کہ بنشت آں حکم را در سبق
ترجمہ: کسی عجیب حکمت کے لیے جوعلمِ حق میں(ہے) جس کو روزِ ازل میں لکھ دیا ہے۔
29
نیز تا حیراں شود اندیشہ ات
تاکہ حیرانی بود کل پیشہ ات
ترجمہ: تاکہ تمہاری قوتِ فکریہ حیران رہے (اور) تاکہ حیرانی تمہارا پورا شغل بن جائے۔ (آگے رجوع ہے قصہ کی طرف کہ شہزادہ نے کہا، یہی میرا عقیدہ ہے کہ یہ کام خدا کے قبضے میں ہے۔ وہ جس طرح چاہے گا، سر انجام ہوگا۔ چنانچہ:)
30
یا وصالِ یار زیں سعیَم رسد
یا ز راہِ خارج از سعی جَسَد
ترجمہ: یا تو میری اس سعی سے وصالِ محبوب میسر ہو جائے گا یا ایسے طریق سے جو جسمانی سعی سے ماورا ہے۔
31
من نگویم زیں طریق آید مراد
مے طپم تا از کجا خواہد کشاد
ترجمہ: میں (یہ) نہیں کہتا کہ اس طریق سے مراد بر آئے گی۔ میں تو بے چینی کے ساتھ منتظر ہوں کہ وہ کدھر سے فتح یاب کرے گا۔
32
سر بریدہ مرغ ہر سو میفتد
تا کدامیں سُو رہد جاں از جسد
ترجمہ: (میرے اضطراب و قلق کی مثال ایسی ہے جیسے) مرغِ بسمل ہر طرف گرتا پھرتا ہے (گویا وہ اس طلب میں ہے) کہ کونسی جگہ (اس کی) جان جسم سے خلاصی پائے گی۔
33۔
یا مرادِ من براید زیں خروج
یا ز برجِ دیگر از ذاتُ البُرُوج
ترجمہ: (اسی طرح) یا تو میری مراد (شاہِ چین کی طرف) اسی سفر کرنے سے بر آئے گی یا برجوں والے (آسمان) کے کسی دوسرے برج سے۔
مطلب: سماء ذات البروج سے بطور استعارہ عالمِ اسباب اور برج سے سبب مراد ہے۔ تشبیہ کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ نجوم ستاروں اور برجوں کو حوادث کے اسباب سمجھتے ہیں۔ یہاں تک یہ بیان ہوا کہ عالمِ اسباب میں ظہورِ مراد کا سبب ذہن میں کچھ اور ہوتا ہے اور اس کا ظہور ہوتا ہے۔ کسی اور ہی غیر متوقع سبب سے جس کی طرف قیاس کسی طرح نہیں کیا جا سکتا تھا۔ آگے اس کی تائید میں ایک قصہ ارشاد ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ کسی بغداد کے باشندے نے خواب میں دیکھا کہ مصر میں ایک خزانہ ہے۔ وہ اس کی تلاش میں مصر پہنچا، کوتوال نے پکڑ لیا۔ اس نے عذر کیا کہ میں چور نہیں ہوں، صرف ایک خواب کی بنا پر خزانہ تلاش کرنے آیا ہوں۔ کوتوال کو اس کی صاف گوئی پر یقین آ گیا اور بولا تو بھی بڑا عجیب شخص ہے کہ خواب کے بھروسے پر اتنا لمبا سفر کیا، خواب میں تو مجھ کو بھی بارہا یہ نظر آیا ہے کہ بغداد کے فلاں محلّہ اور فلاں گھر میں ایک خزانہ ہے مگر میں نے کسی خواب کا اعتبار نہیں کیا تھا۔ اس شخص کو یہ خواب سن کر ایک حیرت انگیز خوشی ہوئی کیونکہ کوتوال نے جس گھر کا پتا بتایا تھا، وہ خود اسی گھر کا تھا۔ گھر آ کر صحنِ خانہ کی زمین کھودی تو خزانہ مل گیا۔ پس اس نے جو خواب دیکھا تھا کہ خزانہ مصر میں ہے تو اس کی تعبیر یہ تھی کہ خزانہ کا سراغ مصر سے ملے گا جس کا اس کو بالکل تصور نہ تھا۔