دفتر 6 حکایت 111: عارف کا دائمی زندگی کے سر چشمہ سے مدد حاصل کرنا اور بے وفا چشموں سے مدد چاہنے، ان کی طرف مائل ہونے سے بے نیاز ہونا

دفتر ششم: حکایت: 111




بیانِ استمدادِ عارف از سرچشمۂ حیٰوۃِ ابدی و مستغنی شدن از استمداد و انجذابِ چشمہائے بیوفا کہ "عَلَامَۃُ ذَالِکَ التَّجَافِیْ عَنْ دَارِ الْغَرُوْرِ" کہ آدمی چوں بر مددہائے ایں چشمہا اعتماد کند در طلبِ چشمۂ دائم سست شود۔ چنانچہ حکیم الٰہی مے فرماید:

رباعی

کاریز درونِ جانِ تو مے باید گز عاریہ ترا درے نکشاید

یک چشمۂ آب از درونِ خانہ بہ زاں جوے کہ از بروں مے آید

بیان۔ عارف کا دائمی زندگی کے سر چشمہ سے مدد حاصل کرنا اور بے وفا چشموں سے مدد چاہنے، ان کی طرف مائل ہونے سے بے نیاز ہونا، کہ "اس کی علامت اس دھوکے کے مقام سے الگ ہونا ہے"۔ کیونکہ آدمی جب ان چشموں کی مدد پر اعتماد کرتا ہے تو چشمۂ دائم کی طلب میں سست ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ حکیم الٰہی (سنائی) فرماتے ہیں: رباعی

تیری روح کے اندر نہر ہونی چاہیے تاکہ عاریت کی نہروں سے تجھ پر دروازہ نہ کھلے

گھر کے اندر سے پانی کا ایک ہی چشمہ اس نہر سے بہتر ہے جو باہر سے آئے

1

حَبَّذا کاریز اصلِ چیزہا فارغت آرد ازیں کاریزہا

ترجمہ: بہت خوب ہے چشمہ (باطن) جو بہت سی اعلیٰ چیزوں کا اصل ہے۔ جو تجھ کو ان (ظاہری اسباب کے) سرچشموں سے (کہ لذّاتِ جسمانیہ کے ذرائع ہیں) بے نیاز کر دے گا۔

مطلب: عنوان سے پہلے حظوظِ جسم کے فانی اور حظوظِ روح کے باقی ہونے کا ذکر تھا۔ اب اس مضمون کی تائید فرماتے ہیں کہ اپنی روح کی اعلیٰ استعدادوں کو منصۂِ ظہور پر لا، اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر۔ پھر وہ تم کو قوائے مدرکہ جسمانیہ سے جو جسمانی لذات کی سرچشمہ ہیں، بے نیاز کر دے گی۔ آگے بھی اس کی تائید ہے:

2

چشمۂ آبے درُونِ خانۂ بہ ز رُودے کاں نہ در کاشانۂ

ترجمہ: ایک چشمہ پانی کا جو گھر کے اندر ہو، اس نہر سے بہتر ہے جو گھر میں نہ ہو۔ (بلکہ باہر سے آتی ہو۔ اگرچہ وہ چشمہ سے بڑی ہوتی ہے۔ پس حظِ کثیرِ ظاہری سے حظِ قلیلِ باطنی افضل ہے۔)

3

تو ز صد ینبوع شربت مے کشی ہرچہ زاں صد کم شود کاہد خوشی

ترجمہ: (اب) تم صدہا (خارجی) چشموں سے (پانی جو بمنزلۂ) شربت (ہے) کھینچ رہے ہو۔ ان سو میں سے جو (چشمہ) بھی کم ہو جائے (اس کی کمی سے تمہاری) خوشی کم ہو جاتی ہے۔

مطلب: یعنی یہ سامانِ مسرت باہر کی چیزیں ہیں۔ سکہ، اموال و اولاد، خدم و حشم جو ہر وقت معرضِ رواں میں ہیں۔ اگر کسی وقت ان میں سے کسی چیز یا سبب سے جدائی پیش آ جائے تو بس غم و پریشانی کی انتہا نہیں رہتی۔ بخلاف اس کے:

4

چوں بجوشد از درون چشمہ سنی زاستراقِ چشمہ ہا گردی غنی

ترجمہ: جب اندر سے ایک چشمۂ روشن جوش زن ہو تو تم (ان مذکور) چشموں سے خفیہ (آبِ لذت) حاصل کرنے سے غنی ہو جاؤ۔ (آگے باہر کے سو چشموں سے ایک یہ کم ہو جانے سے خوشی گھٹ جانے کی مثال ہے:)

5

قرۃ العینت ز آب و گل بود راتبۂ ایں قرہ دردِ دل بود

ترجمہ: (مثلًا) تیرا قرّۃ العین اگر آب و گِل سے ہے تو اس قرّۃ (العین) کا ثمرہ دردِ دل ہوگا۔

مطلب: یعنی اگر تیرا پیار کوئی ظاہری وجود والا ہے تو اس کا ثمرہ غم و الم ہے۔ کیونکہ دنیا میں فراق، مرض، موت وغیرہ کے صدہا امکان ہیں، اور ان کا نتیجہ بجز کلفت کے اور کچھ نہیں۔ بخلاف حظوظِ باطن کے کہ ان کے اسباب کا حاصل قربِ حق ہے جو لازوال ہے۔ آگے اندرونی چشمہ کے بیرونی نہر پر فائق ہونے کی دلیل ہے:

6

قلعہ راچوں آب آید از بُروں در زمانِ امن باشد برفزُوں

ترجمہ: (دیکھو) قلعہ کا پانی جب باہر سے آتا ہو تو زمانۂ امن میں وہ ترقی پر ہوگا (کیونکہ وہ اہلِ قلعہ کی نگرانی اور انتظام کے ماتحت ہو گا)۔

7

چونکہ دشمن گردِ آں حلقہ کند تاکہ اندر خون شاں غرقہ کند

ترجمہ: (لیکن) جب غنیم اس (قلعہ) کا محاصرہ کر لے تاکہ (اہلِ قلعہ) کو خون میں غرق (یعنی ہلاک) کر دے۔

8

آبِ بیرون را ببرند آں سپاہ تا نباشد قلعہ را زانہا پناہ

ترجمہ: (اور) وہ (دشمن کی) فوج باہر کے پانی کو بند کر دے تاکہ قلعہ کو ان (اہلِ سپاہ) سے پناہ (حاصل) نہ ہو۔

مطلب: یہ ترجمہ اس تقدیر پر ہے کہ "نباشد" فعلِ ناقص کا اسم "پناہ" اور اس کی خبر "حاصل" مقدّر ہو۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس پانی پر تسلّط دشمن کا ہے۔ پس اب بدستور اہلِ قلعہ کے لیے پانی پہنچتے رہنے کے یہ معنٰی ہوں گے کہ خود دشمن ان کے سامانِ رسد کا انتظام کر رہا ہے اور ان کے لیے پناہ بن گیا ہے اور ایسا ہونا دشمن کے مقصد کے خلاف ہے۔ لیکن اگر "باشد" کا اسم "خیر" مستتر راجع بہ "آب" ہو اور "پناہ" اس کی خبر، تو ترجمہ یوں ہوگا: تاکہ وہ پانی ان اہلِ سپاہ کی طرف سے اہلِ قلعہ کے لیے (پیاس سے) پناہ نہ بن جائے۔ جس کا مطلب ظاہر ہے۔

9

اک زماں یک چاہ شورے از دروں بہ ز صد جیحونِ شیریں از بُرون

ترجمہ: تو اس وقت قلعہ کے اندر ایک کھاری کنواں ایک سو میٹھے (پانی کے) دریاؤں سے بہتر ہے جو باہر سے (آتے) ہوں (آگے اس کی مثال کا حاصل ہے):

10

قاطع الاسباب لشکر ہائے مرگ ہمچو وے آید بقطعِ شاخ و برگ

ترجمہ: (اسی طرح) موت کی فوجیں جو اسباب (و علائق) کو کاٹ دینے والی ہیں۔ (وسائل لذاتِ ظاہری کے) شاخ و برگ کو قطع کرنے کے لیے خزاں کی طرح آتی ہیں۔

11

درجہاں نبود مددِ شاں از بہار جز مگر در جاں بہارِ روے یار

ترجمہ: تو ان (مرنے والوں) کو (گذشتہ) بہار سے (جس سے یہ شاخ و برگ پیدا ہوئے تھے) کوئی مدد نہیں پہنچتی، سوائے اس کے کہ اگر روح میں روئے یار کی بہار ہو (تو وہ بہار اس خزاں کو موجبِ غم نہیں ہونے دیتی۔ غنی کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ؎)

دیدہ و رخسارِ خوباں دوختن خوش دولت ست کاش ہر مرگانِ من چشمے چوں سوزن داشتے

آگے گذشتہ بہار سے مدد نہ ملنے کے مضمون پر تفریع ہے:

12

زاں لقب شد خاک را دارالغرور کوکشد پا را سپس یوم العبور

ترجمہ: اس لیے خاکدان (دنیا) کا نام دھوکے کا گھر مقرر ہو گیا، کیونکہ وہ (دنیا اور دنیا کا ہر ساتھی) کوچ کے دن قدم پیچھے ہٹا لیتا ہے (اور رفاقت سے جواب دیتا ہے)۔

مطلب: پہلا مصرعہ اس آیت کے مضمون سے ماخوذ ہے۔ ﴿وَ مَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ (الحدید: 20) "اور دنیا کی زندگی تو نرا دھوکے کا سامان ہے"۔ مطلب یہ کہ موت کی راہ میں کوئی رفیق نہیں۔ نظامی گنجوی رحمۃ اللہ علیہ؎

بریں زریں حصار آں شد برومند کہ از خود برگرفت ایں آہنی مسند

کہ مال و ملک و فرزند و زر و زور ہمہ ہستند با تو طالبِ گور

روند ایں ہمہ ہاں غمناک با تو رفیقانت ہمہ دیت ز گردند

ز تو ہر یک براہے باز گردند


13

پیش ازاں بر راست و بر چپ می دوید کہ بچنیم دردِ تو چیزے نچید

ترجمہ: پہلے یہ حال تھا کہ دائیں بائیں دوڑتا پڑتا تھا (اور کہتا تھا) کہ تیری تکلیف کو میں اپنے اوپر لے لوں گا (مگر) کچھ (بھی تو) نہ لی۔

14

او بگفتے مر ترا وقتِ غماں دور از تو رنج و دَہ کُہ درمیاں

ترجمہ:۔ وہ (دنیوی یار) تجھ کو غم کے وقت کہا کرتا تھا (کہ غم نہ کر) دکھ تجھ سے (بہت) دور ہے اور (گویا) دس پہاڑ (تیرے اور اس دکھ کے) مابین ہیں۔

15

چوں سپاہِ رنج آمد بست دم خود نمے گوید ترا من دیدہ ام

ترجمہ: (مگر) جب دکھ کی فوج آ گئی تو (مدعیِ اعانت) نے چپ سادھ لی اور یہ بھی تو نہیں کہتا کہ میں نے تجھ کو کبھی دیکھا ہے (محبت و قرابت تو درکنار گویا کوئی تعارف بھی نہ تھا)۔

اختلاف: ایک شارح نے "بست دم" کا ترجمہ کیا ہے کہ سپاہِ رنج نے آ کر دم بند کر دیا۔ یعنی اس کو قبضِ روح سے کنایہ سمجھا ہے، جو غلطی ہے۔ "دم بستن" کے معنٰی غیاث میں مصطلحات سے "خاموش شدن" منقول ہیں۔ اور یہ فعل یہاں سپاہِ رنج کا نہیں بلکہ مدعیِ اعانت کا ہے۔ معنٰی یہ کہ وہ اب خاموش ہو گیا۔ یہ عام محاورہ ہے جیسے کسی نے کہا ہے۔؎

دو چیز طیرۂ عقل ست دم فروبستنی بوقتِ گفتن و گفتن بوقتِ خاموشی

16

حق پئے شیطان بدیں ساں زد مِثل کو ترا در رزم آرد با حِیَل

ترجمہ: اسی لیے تو حق تعالیٰ نے شیطان کی ایک مثال بیان فرمائی ہے کہ وہ تم کو لطائفُ الحِیَل سے جنگ میں لے آتا ہے۔

17

کہ ترا گوید کہ پشتم من ترا در بلا و در جفا و در عنا

ترجمہ: (وہ حیلہ یہ ہے) کہ وہ (تم سے) کہتا ہے کہ میں تمہاری پشت پناہ ہوں، بلا میں اور سختی میں اور مشقت میں۔

18

کہ ترا یاری دہم من با تو ام در خطرہا پیشِ تو من مے دَوَم

ترجمہ: اور یہ کہ میں تم کو مدد دوں گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ خطروں میں تمہارے آگے دوڑوں گا۔

19

اسپرت باشم گہِ تیرِ خدنگ مخلصِ تو باشم اندر وقتِ جنگ

ترجمہ: تیرِ خدنگ (پڑنے) کے وقت میں تیری ڈھال ہوں گا۔ جنگ کے وقت میں تیرا مخلص (مددگار) ہوں گا۔

20

جاں فدائے تو کنم در انتعاش رستمی، شیری، ہلا مردانہ باش

ترجمہ: میں (تیرے جوش و) برانگیختگی میں تجھ پر جان قربان کر دوں گا تو رستم (ثانی) ہے تو (ایک) شیر ہے۔ ہاں مردوں کی طرح بہادر بن۔

21

سوئے کفرش آورد زیں عشوہا آں جُوالِ خدعہ و مکر و دغا

ترجمہ: (غرض) ان فریب کی باتوں سے اس کو کفر پر آمادہ کر دیتا ہے۔ وہ ملعون جو مکر و فریب اور دغا کا تھیلا (ہے۔ کفر پر آمادہ کر دیتا ہے۔ اس لیے کہا کہ دین کے سبب مسلمانوں سے جنگ کرنا کفر ہے۔)

22

چوں قدم بنہاد در خندق فتاد او بقاہا قاہِ خندہ لب کشاد

ترجمہ: جوں ہی اس (فریب خوردہ) نے (میدان جنگ میں) قدم رکھا تو خندق میں گرا۔ ادھر اس (شیطان) نے ہنسی کے قہقہہ میں لب کھولے۔

23

ہِیں بیا من طمعہا دارم ز تو گویدش رَو رَو کہ بیزارم ز تو

ترجمہ: (اس وقت وہ شیطان سے کہتا ہے کہ) ہاں (حسبِ وعدہ تو اب مدد کے لیے) آ، میں تجھ سے امیدیں رکھتا ہوں، وہ اس کو جواب دیتا ہے کہ جا جا میں تجھ سے بیزار ہوں۔

24

تو نترسیدی ز عدلِ کردگار من ہمے ترسم تو دست از من بدار

ترجمہ: اور یہ بھی کہتا ہے کہ تو خدا کے عدل سے نہ ڈرا (جو اہلِ حق کے مقابلہ میں آ گیا، مگر) میں تو (خدا سے) ڈرتا ہوں۔ تو مجھ سے دست بردار ہو۔

مطلب: شیطان کے مکر و فریب کی یہ تمثیل ان آیات سے ماخوذ ہے۔ (1) ﴿كَمَثَلِ الشَّیْطٰنِ اِذْ قَالَ لِلْاِنْسَانِ اكْفُرْۚ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَاۤ اَنَّهُمَا فِی النَّارِ خَالِدَیْنِ فِیْهَاؕ وَ ذٰلِكَ جَزٰٓؤُا الظّٰلِمِیْنَ (الحشر: 16،17) ”(ان منافقوں کی مثال) شیطان کی سی ہے کہ وہ آدمی کو کفر کی تعلیم دیتا ہے۔ پھر جب وہ کفر کر بیٹھتا ہے (اور کفر کا وبال اس کو آتا ہے اور وہ شیطان سے مدد مانگتا ہے) تو شیطان کہتا ہے کہ مجھے تجھ سے کوئی سروکار نہیں۔ میں تو اللہ رب العٰلمین (کے غضب) سے ڈرتا ہوں، پھر ان دونوں کا انجام یہی ہوتا ہے کہ دونوں دوزخ میں دھکیل دیے جائیں گے اور اسی میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا اور (تمام) سرکشوں کی یہی سزا ہے۔“

(2) ﴿وَ اِذْ زَیَّنَ لَهُمُ الشَّیْطٰنُ اَعْمَالَهُمْ وَ قَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَ اِنِّیْ جَارٌ لَّكُمْۚ فَلَمَّا تَرَآءَتِ الْفِئَتٰنِ نَكَصَ عَلٰى عَقِبَیْهِ وَ قَالَ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّنْكُمْ اِنِّیْۤ اَرٰى مَا لَا تَرَوْنَ اِنِّیْۤ اَخَافُ اللّٰهَؕ وَ اللّٰهُ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (الانفال: 48) ”اور جب شیطان نے ان (کافروں) کی حرکات ان کو عمدہ کر دکھائیں اور ان سے کہا کہ آج لوگوں میں کوئی ایسا (سورما) نہیں جو تم پر غالب آ سکے اور میں تمہارا پشت پناہ ہوں، پھر جب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو اپنے الٹے پاؤں چلتا بنا اور لگا کہنے، مجھ کو تم سے کچھ سروکار نہیں۔ میں جو چیز دیکھ رہا ہوں، جو تم کو نہیں سوجھ پڑتی (یعنی فرشتے) میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مار بڑی سخت ہے۔“

ان واقعات سے شیطان کا دھوکا دینا ظاہر ہے کہ پہلے توقع دلائی، پھر خلاف کیا۔ اب یہاں احتمال تھا کہ شاید قیامت میں اس شخص کا یہ عذر قبول ہو جائے کہ مجھ کو دھوکا دیا گیا ورنہ میری نیت بری نہ تھی اور اگر مجھے شیطان نہ بہکاتا تو میں ہر گز نافرمانی کرنے والا نہ تھا۔ آگے اس احتمال کو دفع کرتے ہیں کہ بعض مجرم ایسا عذر کریں گے مگر ان کو حق تعالیٰ کی طرف سے جواب دیا جائے گا۔ چنانچہ:

25

گفت حق او خود جدا شد از بہی تو بدیں تزویرہا ہم کے رہی

ترجمہ: حق تعالیٰ فرمائے گا۔ وہ شیطان خود نیکو کاری سے الگ ہو چکا تھا (جو تجھے معلوم تھا۔ پھر تو نے اس کا کہا کیوں مانا۔ پس اس حالت میں) تو (بھی) ان حیلوں سے کیونکر چھوٹ سکتا ہے۔

26

گفت حق او خود ز نیکی شد جدا کے رہی ہم تو بدیں تزویرہا

ترجمہ: (پھر سن لو) حق تعالیٰ فرمائے گا۔ وہ خود نیکی سے جدا ہو چکا تھا۔ تو بھی ان فریب کی باتوں سے کب رہائی پا سکتا ہے۔

27

فاعل و مفعول در روزِ شمار روسیاہ اند و حریف و سنگسار

ترجمہ: (فریب کا) کام کرنے والا جس کے ساتھ (فریب کا) کام کیا گیا (دونوں) قیامت کے روز سیاہ اور شریکِ حال اور سنگسار ہوں گے۔

28

رہزدہ و رہزن یقین در حکم و داد درچَہِ بُعد اند و در بِئْسَ الْمِھَاد

ترجمہ: یعنی راہ زدہ اور راہزن (دونوں) یقینًا حکم اور عدل میں لعنت کے کنوئیں میں ہیں اور برے بستر پر۔

29

غول را و گول را کورا فریفت از خلاص و فوز مے باید شگیفت

ترجمہ: شیطان کو اور اس احمق کو جسے اس نے دھوکا دیا، نجات اور کامیابی سے نا امید رہنا چاہیے۔

30

ہم خر و خرگیر اینجا در گِل اند غافل اند اینجا و آنجا آفل اند

ترجمہ: یہاں گدھا اور گدھے کا قابض دونوں دلدل میں (پھنسے ہوئے) ہیں۔ یہاں (وہ دونوں) غافل ہیں اور وہاں (عذابِ جہنم میں) ڈوبنے والے ہیں۔

مطلب: حاصلِ اشعار یہ کہ شیطان کے دھوکے میں آنے والوں کا عذر نہیں سنا جائے گا۔ ضالّ و مُضِلّ، مُغوی و غاوی، بہکانے والا اور بہکنے والا، فریب دینے والا، فریب کھانے والا، سب داخلِ جہنم ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ یَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیْعًاۚ یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ قَدِ اسْتَكْثَرْتُمْ مِّنَ الْاِنْسِۚ وَ قَالَ اَوْلِیٰٓؤُهُمْ مِّنَ الْاِنْسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَّ بَلَغْنَاۤ اَجَلَنَا الَّذِیْۤ اَجَّلْتَ لَنَاؕ قَالَ النَّارُ مَثْوٰىكُمْ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ (الانعام: 128) "اور جس دن خدا (سب آدمیوں اور جنات) کو (اپنے حضور میں) جمع کرے گا اور شیطان کی طرف مخاطب ہو کر فرمائے گا کہ اے گروہِ جنات! بنی آدم میں سے تو تم نے کافی بڑی جماعت اپنی طرف کر لی اور (جو لوگ) بنی آدم میں سے (دنیا میں) شیطانوں کے دوست بنے ہوئے تھے (وہ) کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! دنیا میں تو ہم ایک دوسرے سے فائدہ اٹھاتے رہے اور (نتیجۂ اعمال کے بھگتنے کا) جو وقت تو نے ہمارے لیے مقرر کیا تھا، ہم نے اپنے اس وعدہ کی منزل تک پہنچ گئے (کہ اب کیا ارشاد ہے؟) خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہارا سب کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اسی میں ہمیشہ ہمیشہ رہو گے۔ آگے خدا کی (یعنی ہماری) مرضی۔ (اے پیغمبر) تمہارا پروردگار حکمت والا ہے، بڑا با خبر ہے" (الانعام: 128)

چونکہ مذکورہ بیان سے جس میں قیامت میں عذر قبول نہ ہونے کا ذکر ہے، یہ شبہ پڑتا تھا کہ شاید دنیا میں بھی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ اس کے آگے دنیا کے اندر توبہ کرنے والوں کو مستثنٰی فرماتے ہیں:

31

جز کسانے را کہ وا گردند ازاں دربہارِ فضل آیند از خزاں

ترجمہ: سوائے ان لوگوں کے جو اس (گمراہی سے) رجوع کر لیں (اور خزاں سے نکل کر خدا کے) فضل (و کرم) کی بہار میں داخل ہو جائیں۔

32

توبہ آرند و خدا توبہ پذیر امرِ او گیرند و او نِعْمَ الْاَمِیْر

ترجمہ: توبہ کر لیں اور خداوند تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے۔ اس کا حکم مانیں اور وہ اچھا حاکم ہے۔

مطلب: پہلا مصرعہ اس آیت کے مضمون پر مبنی ہے: ﴿وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(الشوریٰ: 25) ”اللہ تعالیٰ ہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور (ان کی) خطاؤں کو درگزر فرماتا ہے اور جیسے عمل تم لوگ کرتے ہو، ان سے واقف ہے“۔

دوسرے مصرعہ میں اس قسم کی آیات کا مضمون درج ہے: ﴿اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُؕ (یوسف: 40) ”اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے۔ اس نے تو یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو“۔

33

چوں برارند از پشیمانی حنین عرش لرزد از اَنِیْنِ الْمُذْنِبِیْنَ

ترجمہ: (پس) جب یہ لوگ ندامت سے رونے کی آواز نکالتے ہیں تو گنہگاروں کی آوازِ گریہ سے عرش لرز جاتا ہے۔

34

آنچناں لرزد کہ مادر بر ولد دستِ شاں گیرد ببالا می کشد

ترجمہ: (اور) اس طرح کانپتا ہے جس طرح ماں اپنے بچے (کی تکلیف) پر کانپ اٹھتی ہے۔ (پس اس وقت عرش) ان کا ہاتھ پکڑتا ہے (اور) اوپر کھینچ لیتا ہے (جس طرح ماں بچے کو گود میں لے لیتی ہے۔ اس طرح وہ مرنے کے بعد خدا کے جوارِ رحمت میں پہنچ جاتے ہیں)۔

35

کاے خدا تاں وا خریدہ از غرور نِک ریاضِ فضل و نِک رَبِّ غفور

ترجمہ: (اور عرش ان سے کہتا ہے) کہ اے لوگو! خدا نے تم کو (شیطان کے) دھوکے سے چھڑا لیا ہے۔ اب (خدا کے فضل و کرم کے) باغ ہیں اور اب پروردگار بخشنے والا ہے۔

36

بعد ازیں تاں برگ و رزقِ جاوداں از سحابِ حق بود نہ ز ناوداں

ترجمہ: (اور) اب اس (توبہ) کے بعد تم کو سامان اور رزقِ دائمی حق تعالیٰ کے ابر (کرم) سے ملے گا نہ کہ (اپنی کوشش کے) پرنالہ سے۔

مطلب: سحاب سے مراد وہب اور ناوداں سے مقصود کسب ہے۔ کیونکہ ناوداں بندہ کا بنایا ہوا ہوتا ہے اور سحاب حق تعالیٰ کی قدرت سے بنتا ہے۔ مطلب یہ کہ یہاں اللہ تعالیٰ کے جوارِ رحمت میں تم جو رزق پاؤ گے، اس میں کسب و تلاش جو دنیا میں ذرائعِ رزق ہیں، دخل نہیں۔ یہ محض خدا کے کرم سے بلا ان ذرائع سے ملے گا۔ آگے ایک انتقال ہے اس مضمون کی طرف کہ جنت میں توکّل بمعنی ترکِ اسبابِ مظنونہ سب کے لیے عام ہو گا جیسے کہ ابھی بیان ہوا۔ مگر خواص اہل اللہ دنیا میں بھی اس فضیلت سے مشرف ہیں۔ چنانچہ:

37

چونکہ دریا بر وسائط رشک کرد تشنہ چوں ماہی بترکِ مشک کرد

ترجمہ: جب (حق تعالیٰ کے) دریائے (کرم) نے وسائط (و اسباب) پر غیرت کی تو (رضائے حق کے اس) پیاسے نے مچھلی کی طرح مشک کو ترک کر دیا۔

مطلب: یعنی جب ان خواص اہل اللہ کو ذوقًا اپنے اور حق تعالیٰ کے معاملہ میں یہ مکشوف ہوا کہ وہ ان کے لیے اسبابِ مذکورہ میں مشغول ہونا پسند نہیں فرماتا۔ یہ توکّلِ کامل کے خلاف ہے۔ تو انہوں نے محض رضائے حق کے لیے ان اسباب کو ترک کر دیا حتی کہ فضلِ خداوندی شامل ہوا۔ اگر اختیارِ اسباب سے آبِ مرادات کی ایک شب ہی میسر آتی تھی تو اب دریا موجزن ہیں۔ جنت کے ذکر میں ان حضرت کا ذکر اس لیے بھی مناسب ہے کہ تارکینِ اسباب کا بلا حساب جنت میں داخل ہونا حدیث شریف سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ "عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلّى اللّٰه عليه وسلّم یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مِنْ اُمَّتِیْ سَبْعُوْنَ اَلْفاً بِغَیْرِ حِسَابٍ، ھُمُ الَّذِیْنَ لَا یَسْتَوْقُوْنَ وَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَ عَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ۔" متفق علیہ ”ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے فرمایا: میری امت سے ستر ہزار اشخاص بلا حساب داخلِ جنت ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ٹونا منتر نہیں کرتے اور نہ شگون کرتے ہیں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں“۔ (مشکوٰۃ)

38

قصہ شہزادگاں آور بہ پیش کایں حدیث از حد امکان ست بیش

ترجمہ: (اب) شہزادوں کا قصہ پیش کرو کیونکہ یہ (توکّل کا) مضمون حدِّ امکان سے زیادہ ہے۔