حصہ دوم
دفتر چہارم: حکایت: 110
غرہ شدنِ آدمی بذکاوت و تصوراتِ طبعِ خویش و طلب ناکردنِ علمِ غیب کہ علمِ انبیاء ست
آدمی کا اپنی طبیعت کی ذہانت اور تخیلات پر مغرور ہونا اور علمِ غیب کو طلب نہ کرنا جو انبیاء علیہم السّلام کا علم ہے
1
دیدم اندر خانۂ من نقش و نگار
بودم اندر عشقِ خانہ بے قرار
ترجمہ: میں نے (دنیوی) ہستی کے گھر میں (دنیوی) نقش و نگار دیکھ لیے (افسوس کہ) میں (اس منقش) گھر کے عشق میں بے قرار رہا۔
2
ماندم اندر خانہ حیران و نزار
لابد از معنی شرم من عور و زار
ترجمہ: میں گھر (کے نقش و نگار) میں حیران اور لاغر ہو گیا تو لازمی طور پر کمالاتِ باطن سے خالی اور بد حال ہو گیا (حیرت و پریشان حالی میں مبتلا ہونے والا عموماً لاغر ہو جاتا ہے)۔
3
عشقِ خانہ در دلِ من کار کرد
لاجرم از گنج ماندم دور و فرد
ترجمہ: گھر کا عشق میرے دل میں کارگر ہو گیا اس لیے میں باطنی خزانے سے دور اور تنہا رہ گیا۔
4
بودم از گنجِ نہانی بے خبر
ورنہ دستنبوئے من بودے تبر
ترجمہ: میں (اپنے) باطنی خزانے سے بے خبر تھا ورنہ (اس گھر کو منہدم کرنے کے لیے) تیشہ میرا گلدستہ ہوتا (ایک مصنوعی خوشبودار گولا ہوتا ہے، جس کو تفریح کے لیے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ محاورہ کے لحاظ سے گلدستہ ترجمہ مناسب معلوم ہوا)۔
5
آہ گردِ او تبر را دادمے
ایں زماں غم را تبرّا دادمے
ترجمہ: افسوس اگر میں تیشہ کی قدر کرتا (اور گھر کو کرید ڈالنے میں اس سے کام لیتا، تو اس وقت غم پر تین حرف بھیجتا (”تبر“ را اور ”تبرّا“ کی تجنیس پُر لطف ہے)۔
6
چشم را بر نقش می انداختم
ہمچو طفلاں عشقہا می باختم
ترجمہ: میں نقش (ونگار) پر نظر کرتا رہا، بچوں کی طرح (اس کا) مشتاق رہا۔
7
پس نکو گفت آں حکیمِ کامیار
کہ تو طفلی خانۂ پر نقش و نگار
ترجمہ: سچ فرمایا ہے اس مراد مند حکیم (سنائی رحمۃ اللہ علیہ) نے کہ تو بچہ ہے اور گھر نقش و نگار سے پر۔ (حکیم سنائی کے اس شعر کی طرف اشارہ ہے) ؎
ہمہ اندازِ من بتو این ست
کہ تو طفلی وخانہ رنگین ست (بحر)
8
در الہٰی نامہ بس انداز کرد
کہ برار از دودمانِ خویش کرد
ترجمہ: الٰہی نامہ میں اس نے بڑی نصیحت کی ہے کہ اپنے گھرانے کو برباد کر دو (یہاں تک جس قدر حذف بیان ہوئے ہیں، اگرچہ وہ مولانا کے اقوال تھے، مگر ایک حیثیت میں وہ موسیٰ علیہ السلام کی تقریر! ان کی تقریر کا ترجمہ تھا۔ اس لیے اب فرعون کہتا ہے)۔
9
بس کن اے موسیٰؑ بگو وعدۂ سِوُم
کہ دلِ من ز اضطِرابش گشت گم
ترجمہ: اے موسیٰ (علیہ السلام) اس تقریر کو ختم کرو۔ تیسرا وعدہ بیان کرو، کیونکہ میرا دل اس کے (انتظار میں) اضطراب سے بیٹھا جا رہا ہے۔