دفتر اول: حکایت: 41
آوردنِ پادشاہِ جہود زنے را با طفل، و انداختنِ او طفل را در آتش، و بسخن آمدنِ طفِل درمیانِ آتش
یہودی بادشاہ کا ایک بچے والی عورت کو لانا، اور اس کے بچے کو آگ میں ڈال دینا، اور آگ میں سے بچے کا بولنا
1
یک زنے با طِفل آورد آں جہُود
پیشِ آں بُت و آتش اندر شُعلہ بود
ترجمہ: وہ یہودی بادشاہ ایک بچہ والی عورت کو اس بت کے آگے لایا، اور آگ بھڑک رہی تھی۔
2
گفت اَے زن پیشِ اِیں بُت سجدہ کن
ورنہ در آتش بسوزی بے سخن
ترجمہ: (اور) کہنے (لگا) اے عورت اس بت کے آگے ماتھا ٹیک دے، ورنہ لامحالہ تو آگ میں جلے گی۔
3
بُود آں زن پاک دین و مومنہ
سجدۂ آں بُت نکرد آں موقِنہ
ترجمہ: وہ عورت پاک دین (والی) اور ایماندار تھی۔ (اس لیے) اس یقین (والی عورت) نے اس بت کے آگے ماتھا نہ ٹیکا۔
4
طِفل ازو بستید در آتش فگند
زن بترسِید و دِل از ایماں بکند
ترجمہ: (آخر) بچے کو اس سے چھین کر آگ میں ڈال دیا۔ عورت (یہ حال دیکھ کر) ڈر گئی، (کہ مبادا بچہ تلف ہو جائے) اور (بظاہر) دل ایمان سے ڈگمگانے لگا۔
مسئلہ۔ اگر کسی کو قتل یا قطعِ عضو کی دھمکی دے کر کلمۂ کفر یا بت کو سجدہ کرنے پر مجبور کیا جائے، تو اسکے لیے شرعًا جائز ہے کہ دل میں ایمان کی مضبوط نیت رکھ کر ظاہری طور پر حکم کی تعمیل کر دے، لیکن اگر تعمیل سے انکار کرے اور سزا منظور کر لے تو یہ افضل ہے، اور اسکو اجر ملے گا۔”وَ اِنْ اُکْرِہَ عَلَی الْکُفْرِ بِاللہِ تَعَالٰی اَوْ سَبِّ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِحَبْسٍ اَوْ قَیْدٍ اَوْ ضَرْبٍ لَمْ یَکُنْ ذٰلِکَ بِاِکْرَاہٍ حَتّٰی یُکْرَہَ بِاَمْرٍ یَخَافُ مِنْہُ عَلٰی نَفْسِہٖ اَوْ عَلٰی عُضْوٍ مِّنْ اَعْضَائِہٖ، فَاِنْ خَافَ ذَالِکَ وَسِعَهٗ اَن یُّظْھِرَ مَا اَمَرُوْهٗ بِہٖ، فَاِذَا اَظْھَرَ ذَالِکَ وَ قَلبُهٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِيْمَانِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ، وَ فِیْہِ نَزَلَ قَوْلُهٗ تَعَالٰی: ﴿إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِيْمَانِ﴾ وَ اِنْ صَبَرَ حَتّٰی قُتِلَ وَ لَمْ یُظْهِرِ الْکُفْرَ کَانَ مَاجُوْراً اَیْ یَکُوْنُ اَفْضَلَ مِنْ اِقْدَامِہٖ عَلَیْہِ“ (الجوہرۃ النيرۃ علی مختصر القدوری: کتاب الاکراہ) یعنی ”اگر اللہ تعالٰی کے ساتھ کفر کرنے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے حق میں نازیبا کلمات کہنے پر گرفتاری یا قید یا مار پیٹ کی دھمکی کے ساتھ مجبور کیا جائے، تو یہ کوئی اکراہ نہیں، یہاں تک کہ کسی ایسی سزا کے ساتھ مجبور کیا جائے جس سے اسکی جان یا کسی عضو کے تلف ہونے کا خوف ہو، چنانچہ اگر یہ خوف ہو، تو اسکو اجازت ہے کہ جس طرح وہ کہیں بظاہر اسکی تعمیل کر دے۔ دراں حالیکہ اسکا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اسپر کوئی گناہ نہیں، اور اس بارے میں اللہ تعالٰی کا یہ قول نازل ہوا ہے کہ: ﴿اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ﴾ (النحل: 106) ”مگر وہ شخص جو مجبور کیا جائے اور اسکا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو“ اور اگر صبر کرے یہاں تک کہ قتل کیا جائے اور کفر کی بات کا اظہار نہ کرے تو وہ ماجور ہے، یعنی اظہارِ کفر کرنے کی نسبت افضل ہے“۔
5
خواست تا اُو سجدہ آرد پیشِ بُت
بانگ زد آں طِفل کہ اِنِّیْ لَمْ اَمُتْ
ترجمہ: اس (عورت) نے چاہا کہ (جان بچانے کے لیے) بت کے آگے سجدہ کر دے۔ مگر وہ لڑکا چلّا اٹھا کہ ”میں مرا نہیں“۔
6
اندر آ مادر کہ من اینجا خوشم
گرچہ در صُورت میانِ آتشم
ترجمہ: اے ماں! (آگ کے) اندر چلی آ کہ میں یہاں خوش ہوں۔ اگرچہ بظاہر آگ میں ہوں۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
آتشِ گل ہمیشہ بہارست عشق را
پروانہ را بسیرِ گلستاں چہ حاجت است
7
چشم بندست آتش از بہرِ حجیب
رحمتست ایں سر برآوردہ ز جیب
ترجمہ: یہ آگ (رازِ غیب کے) پردے کے لیے ایک نظر بندی ہے۔ (ورنہ فی الواقع) یہ ایک رحمتِ خدا ہے جو جلوہ گر ہو رہی ہے۔
6
اندر آ مادر ببِیں بُرہانِ حق
تا بہ بِینی عِشرتِ خاصانِ حق
ترجمہ: اے ماں (آگ کے) اندر چلی آ (اور صداقتِ حق) کی دلیل دیکھ۔ تاکہ تو خدا کے خاص مقرّب لوگوں کی مزے کی زندگی دیکھے (جو آگ میں بآرام بسر کر سکتے ہیں۔)
7
اندر آ و آب بِیں آتش مثال
از جہانے کاتِش ست آبش مثال
ترجمہ: اندر چلی آ اور ٹھنڈا پانی دیکھ جو (بظاہر) آگ کا ہم شکل ہے، اس عالم سے نکل کر، جسکا پانی بھی آگ جیسا ہے (یعنی عالمِ دنیا۔)
مطلب: عالمِ دنیا کی لذّات، بظاہر نعمت ہیں لیکن فی الحقیقت موجبِ ہلاکت ہیں۔ بخلاف اسکے وہ آگ ایسے عالم سے تھی جسکی آگ بظاہر آگ اور درحقیقت گلزارِ فرحت بخش ہے۔
8
اندر آ اسرارِ ابراہیمؑ بِیں
کو در آتِش یافت ورد و یاسمیں
ترجمہ: اندر چلی آ (اور) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اسرار کا مشاہدہ کر۔ جنہوں نے (نمرود کی) آگ میں گلاب اور چنبیلی (کے) پھول (کھلے) پائے تھے۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
دلے کہ سوخت بداغ خلیلؑ میداند
کہ آتش دگران ست عشق و باغ من ست
9
مرگ میدیدم گہے زادن ز تو
سخت خَوفم بُود افتادن ز تو
ترجمہ: میں تجھ سے پیدا ہونے کے وقت کو موت (کے برابر) سمجھتا تھا۔ تجھ سے وضع ہونے کا مجھے سخت خوف تھا۔
مطلب: لڑکے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ ایامِ حمل میں رحم کے اند رہتے رہتے اسی قیام گاہ سے مانوس ہو گیا، اور دنیا چونکہ دیکھی نہ تھی اس لیے ایک اجنبی عالم میں ہچکچاتا اور ڈرتا تھا کہ نہ معلوم وہاں کیا تکالیف پیش آئیں گی مگر:
12
چُوں بزادم رستم از زندانِ تنگ
در جہانے خوش سرائے خُوب رنگ
ترجمہ: جب میں پیدا ہو گیا تو تنگ قید خانہ سے نجات پا گیا۔ (اور اپنی دانست میں) ایک اچھے اور خوبصورت مقام میں (آ گیا۔ یعنی دنیا میں۔)
13
ایں جہاں را چوں رحم دیدن کنوں
چوں دریں آتش بدیدم ایں سکوں
ترجمہ: اب جو میں اس آگ میں یہ آرام و راحت پاتا ہوں، تو یہ جہاں رحم کی طرح (تنگ و تاریک) نظر آتا ہے۔
مطلب: جس طرح میں پہلے غلطی سے رحم کو اچھی آرام گاہ سمجھتا تھا اور دنیا میں آنے سے ڈرتا تھا پھر جب پیدا ہوا تو دنیا کو اس سے اچھی آرام گاہ پایا۔ اسی طرح دنیا کی زندگی کو چھوڑنے اور آگ میں پڑنے سے ڈرنا میری غلطی تھی، کیونکہ اب آگ میں مجھے وہ آرام محسوس ہو رہا ہے جو عالمِ دنیا میں نہیں ہے۔ عمر خیام ؎
آسودہ کسے کہ او نزاد از مادر
و آسودہ تر آنکہ یک نفس زندہ نبود
14
اندرِیں آتش بدیدم عالمے
ذرّہ ذرّہ اندر و عیسیٰؑ دمے
ترجمہ: اس آگ میں (جسے الٹا مہلک اور قاتل سمجھا جاتا ہے) میں نے ایک ایسا عجیب عالَم دیکھا، جس کا ذرہ ذرہ (زندگی بخشنے اور جان ڈالنے میں) عیسیٰ علیہ السّلام کے دم کی طرح ہے۔
مطلب: یعنی عالمِ عقبٰی میں موت نہیں۔ کما قال اللہ تعالٰی: ﴿وَ اِنَّ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ لَهِیَ الْحَیَوَانُۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ (العنکبوت: 64) ”اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔“ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہستی ہے سفر عدم وطن ہے
دل خلوت و چشم انجمن ہے
15
نِک جہانے نیست شکلے ہست ذات
واں جہانے ہست شکلے بے ثبات
ترجمہ: دیکھ یہ ایک ایسا عالم (ہے) جو بظاہر معدوم اور دراصل موجود ہے۔ اور وہ دنیا بظاہر موجود ہے (مگر) بے ثبات (ہے)۔
خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ ؎
ہوں کشتۂ تغافل ہستیِ بے ثبات
خاطر سے کون کون نہ اس نے بھلا دیے
غنی رحمۃ اللہ علیہ ؎
عیشے کہ نمے ماند سرمایۂ افسوس است
ایں دستِ حنا بستہ بر ہم زدنی دارد
16
اندر آ مادر بحقِ مادری
بِیں کِہ ایں آذر ندارد آذری
ترجمہ: اے ماں! (تجھے) حقِ مادری کا واسطہ (دیتا ہوں) اندر چلی آ۔ (اور) دیکھ یہ آگ، آگ کا اثر نہیں رکھتی۔
16
اندر آ مادر کِہ اقبال آمد است
اندر آ مادر مدہ دولت ز دست
ترجمہ: اے ماں اندر چلی آ! کہ خوش قسمتی (کی ساعت) آ گئی ہے۔ اے ماں اندر آ جا (اور) اس دولت کو ہاتھ سے نہ دے۔
17
قدرتِ آں سگ بدیدی اندر آ
تا بہ بِینی قُدرتِ فضلِ خُدا
ترجمہ: تو اس کتے (یہودی) کی طاقت تو دیکھ چکی (کہ اس نے مومنوں کو آگ میں ڈال دیا، اب) تو اندر آ جا تاکہ فضلِ خدا کی قدرت (بھی) دیکھ لے (جو آگ کو گلزار بنا دیتا ہے۔)
18
من ز رحمت میکشایم پائے تو
کز طرب خود نیستم پروائے تو
ترجمہ: میں محض (فرزندانہ) شفقت سے تیرا پاؤں (حبِّ دنیا کی قید سے) کھول رہا ہوں (بار بار تجھ کو بلا رہا ہوں۔ ورنہ ہرگز نہ بلاتا) کیونکہ مجھ کو (شدتِ) سرور سے تیری پروا نہیں ہے۔
19
اندر آ و دِیگراں را ہم بخواں
کاندر آتش شاہ بنہادست خواں
ترجمہ: اندر آ جا، اور دوسروں کو بھی بُلالے۔ کیونکہ اس شہنشاہِ حقیقی نے آگ کے اندر خوانِ (کرم) بچھا رکھا ہے۔
حافظ رحمۃ اللہ علیہ ؎
عاشقاں را گر در آتش مے پسند و لطفِ دوست
تنگ چشمم گر نظر بر چشمۂ کوثر کنم
20
اندر آئید اے ہمہ پروانہ وار
اندر اِیں آتش کہ دارد صد بہار
ترجمہ: لوگو! سب کے سب پروانے کی طرح (شوق سے) اس آگ کے اندر چلے آؤ، جو سینکڑوں بہاریں رکھتی ہے۔
مطلب: لڑکا بار بار پکار رہا ہے کہ آگ میں چلے آؤ، چلے آؤ،۔ جس طرح پروانہ آگ کی سوزش کی پروا نہیں کرتا، تم بھی کچھ پروا نہ کرو۔
سعدی رحمۃ اللہ علیہ ؎
نگہ کن کہ پروانۂ سوزناک
چہ گفت اے عجب گر بسوزم چہ باک
نہ دل دامِنِ دلستاں میکشد
کہ مہرش گریبانِ جاں میکشد
مرا چوں خلیل آتشے در دل ست
کہ پنداری ایں شعلہ بر من گل ست
نہ خود را بر آتش بخود میزنم
کہ زنجیرِ شوق ست در گردنم
21
اندر آئید اے مُسلماناں ہمہ
غَیر عذبِ دین عذاب ست آں ہمہ
ترجمہ: اے مسلمانو! سب اندر چلے آؤ۔ (کیونکہ) دین کے شیریں پانی کے سوا (جو کچھ ہے) سب عذاب ہے۔
22
اندر آئید و ببینید ایں چنیں
سرد گشتہ آتِشِ گرمِ مہیں
ترجمہ: اندر چلے آؤ، اور دیکھو یہ دہکتی ہوئی اتنی بڑی آگ، کیونکر سرد پڑ گئی؟
الخلاف: بعض نسخوں میں یہ شعر درج نہیں ہے۔
23
اندر آئید اے ہمہ مست و خراب
اندر آئید اے ہمہ عَینِ عتاب
ترجمہ: اے (دنیوی عیش و راحت کے) مست و خراب لوگو! اندر چلے آؤ۔ اے سر بسر شاہی عتاب بن جانے والو، اندر چلے آؤ (تاکہ اس موہوم راحت اور اس عذاب و عتاب سے نجات پا جاؤ۔)
24
اندر آئید اندریں بحرِ عمیق
تاکہ گردد رُوح صافی و رقِیق
ترجمہ: اس (رحمتِ الٰہیہ کے) گہرے سمندر میں داخل ہو جاؤ۔ تاکہ تمہاری روح (حُبِّ دنیا کی کثافت سے) پاکیزہ اور لطیف ہو جائے۔
مرزا جان جاناں مظہر رحمۃ اللہ علیہ ؎
ز عشقِ او بداغے کے تسلی مے شوم مظہؔر
کہ غرقِ سوختن چو شعلہ مے خواہم سراپا را
25
مادرش انداخت خود را اندر او
دستِ او بگرِفت طِفلِ مِہر جو
ترجمہ: اس لڑکے کی ماں نے اپنے آپ کو اسی (آگ) میں ڈال دیا۔ تو اس محبت والے لڑکے نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
26
اندر آمد مادرِ آں طِفلِ خورد
اندر آتِش گوئے دَولت را ببُرد
ترجمہ: اس ننھے بچے کی ماں (جو) آگ کے اندر چلی گئی۔ (تو گویا) اس نے دولت کی بازی جیت لی۔
مطلب: دولت سے دولتِ عشق مراد ہے، اور اس دولت کا حق دار وہی ہوتا ہے جو آگ میں کود پڑنے سے بھی گریز نہ کرے۔
جامی رحمۃ اللہ علیہ ؎
آں گرم رو بعشق ہنر دگر کمالِ شوق
پروانہ وش بآتِش سوزاں دروں رود
27
مادرش ہم زاں نسق گفتن گِرفت
دُرِّ وصفِ لطفِ حق سُفتن گِرفت
ترجمہ: اس کی ماں نے بھی اسی طرح کہنا اور (لوگوں کو آگ کی طرف بلانا) شروع کیا۔ (اور) وہ لطفِ حق کی تعریف کے موتی پرونے لگی۔
28
بانگ میزد درمیانِ آں گروہ
پُر ہمے شد جانِ خلقاں از شکوہ
ترجمہ: وہ اس جماعت کے درمیان آوازیں دے رہی تھی۔ (اور اس کی صدا کی) عظمت و جلال سے مخلوق کی جان میں ایک جوش پیدا ہو رہا تھا۔
29
نعرہ میزد خلق را کاے مردماں
اندر آتِش بنگرید اِیں بوستاں
ترجمہ: (وہ عورت) مخلوق کو چِلّا چِلّا کر پکارتی تھی، کہ اے لوگو! (آؤ اور) آگ کے اندر یہ باغ مشاہدہ کر لو۔
صائب رحمۃ اللہ علیہ ؎
نہ از سوزش در آتش نالہ و فریاد میکردم
ازیں دولت جدا افتادگاں را یاد میکردم