مقالۂ ہشتم
وصول اور کشف کے بیان میں
شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں لکھا ہے، کہ اللہ تعالیٰ سے وصول (واصل ہونا) اس قبیل اور طریقے کا ہرگز نہیں، جیسا کہ ایک جسم کا دوسرے جسم سے وصال ہو یا عرض کا عرض سے یا جوہر کا جوہر سے یا علم کا معلوم سے یا عقل کا معقول سے یا کسی چیز کا دوسری چیز سے ہوتا ہے۔ "تَعَالٰی اللہُ عُلُوًّا کَبِیْرًا" ”اللہ تعالیٰ ان باتوں سے بہت بلند اور ارفع ہے“۔ یہ لفظ شریعت میں عُرفًا آیا ہے اور طریقت کے لوگوں کے گروہ میں معروف ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے ملنا (وصول پیوستی) کیا چیز ہے؟ یہ بات جان لیجیے کہ اللہ تعالیٰ سے واصل ہونا (پیوستن) یہ ہے کہ لوگوں سے اور حق تعالیٰ کے سوا دوسروں سے بالکل کٹ کے رہ جائے۔ اتصال اللہ تعالیٰ کے ساتھ شغل رکھنا ہوتا ہے اور یہ فراغت کے اندازے پر ہوتا ہے کہ انسان غیرِ حق سے فارغ ہو کے رہے، جتنا کوئی غیر اللہ سے فارغ اور جدا رہے گا اللہ تعالیٰ کے ساتھ نزدیک اور متصل رہے گا۔ اگر دنیا سے منفصل یعنی بالکل جدا اور علٰیحدہ ہو جاؤ تو اُس کے ساتھ قرب و اتصال پاؤ گے۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں جہانوں سے جدائی حاصل فرمائی تھی یہاں تک کہ حق تعالیٰ سے اتصال پا کر رہے۔ اور اگر اُس کے سِر اور خیال میں کوئی چیز رہ گئی ہو تو کہے کہ "اَللّٰھُمَّ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ کَذَا" ”اے اللہ! میں تجھ ہی سے اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں“ اور جب یہ کہا کہ "أَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ" تو یہ سچ کہا کہ اُس کے سِر اور خیال میں حق کے سوا کچھ بھی نہ رہا تھا۔ پس دُنیا سے علیحدگی اور جدائی (انفصال) عقبیٰ سے اتصال ہے، اور دونوں کونوں سے انفصال حق تعالیٰ سے اتصال ہے۔ اور اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ طواف کرتے وقت فرماتے تھے: "کُنَّا نَرَی اللہَ فِيْ ذٰلِکَ الْمَکَانِ" (لم أقف علی ہذا الأثر) ”اس مکان میں ہم نے مالک مکان کا دیدار حاصل کیا“ اور یہ بات اس وجہ سے فرمائی کہ اُن کا ظاہری جسم شریعت میں مشغول تھا اور اُن کا سِر اور خیال حقیقت میں منہمک تھا، حقیقت کے شغل میں شغلِ شریعت کو بھلا بیٹھا۔ نہ تو گھر کی خبر تھی اور نہ سلام کرنے والے کی، اللہ تعالیٰ کا شغل اُن کو ایسا بے خبر اور مست کر چکا تھا، اغیار کا سلام نہیں سنتا تھا۔ اور مالکِ مکان اور صاحب البیت کی تعظیم نے اُن کو ایسا از خود رفتہ بنایا تھا کہ اپنا گھر بھی اُنہیں یاد نہیں رہا۔ اسی وجہ سے فرمایا کہ "کُنَّا نَرَی اللہَ" ”ہم اللہ تعالیٰ کو دیکھتے تھے“ اور جس شخص نے اُس وقت اُن کو سلام کیا، وہ اس بات سے آگاہ نہ تھا اس لیے زجر و عتاب کرنے لگا، مگر چونکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو یہ مقام حاصل تھا اس لیے کچھ بھی نہ کہا، تو اس لیے یہ بات حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دعویٰ پر دلیل ہو گئی کہ وہ درست ہیں، جیسا کہ فقہاء فرماتے ہیں: "تَرْکُ الْبَیَانِ فِي مَوْضِعِ الحَاجَۃِ إِلَی الْبَیَانِ بَیَانٌ" (أصول الشاشي بمعناہ، رقم الصفحة: 262، دار الکتاب العربي، بیروت) یعنی جہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی ہے، اور کچھ نہ کہا جائے تو یہ بھی بیان اور کہنا ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اولین میدان میں ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ…﴾ (الأعراف: 182) کا عہد و پیمان ہر صاحب ایمان کی فطرت، روحانیت اور انسانیت کے خمیر میں خمیر کی مانند ڈالا گیا ہے، کہ "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلُمَۃٍ ثُمَّ رَشَّ عَلَیْھِمْ مِّنْ نُّوْرِہٖ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الإیمان، باب: ما جاء في افتراق ہذہ الأمۃ، رقم الحديث: 2642) ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت میں پیدا کیا، پھر اُن پر اپنے نور کا چھڑکاؤ کیا“ جام اَلست کے گھونٹ نے اُس کے حلق کو وہ ذوق عطا فرمایا کہ اُس کی روح سے اُس کا اثر نہیں نکل سکتا اور اُس کی تمام زندگی اُسی ذوق کی مرہون منت ہے۔ اُس نور کا قصد ہمیشہ کے لیے اپنے مرکز اور منبع پر ہوتا ہے، اس دنیا سے اُس کو الفت نہیں اور اس کے ساتھ اُس کا دل نہیں لگتا۔
رباعی ؎
عشاق تو مست الست آمدہ اند
سر مست ز بادۂ الست آمدہ اند
مے مے نوشند و پند نمے شوند
کایشان زازل مے پرست آمدہ اند
’’تمہارے عاشق الست سے مست آئے ہیں، اور الست کی شراب سے سرشار ہو کر آئے ہیں، شراب پیتے ہیں مگر نصیحت نہیں سنتے، کیونکہ یہ لوگ ازل سے مے پرست آئے ہیں‘‘۔
عشق و محبت کے وہ پروانہ صفت جانباز لوگ جن کی گردنوں میں الست کے دن کے جذبات اور الوہیت کے عہد و پیمان کے جذبات کی کمنڈ ڈالی گئی ہے، آج کے دن اتنے بال و پر کی طلب میں ہیں کہ شمع جلال کے جمال کے ارد گرد پرواز کر سکیں، تاکہ اس دعویٰ کی بناء پر کہ "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ زِرَاعًا" (الصحیح لمسلم، کتاب التوبۃ، باب: في الحض علی التوبۃ، رقم الحدیث: 2675) کہ جو کوئی میری طرف ایک بالشت بھر نزدیک آئے گا، میں اُس کی جانب ایک گز بھر نزدیک جاؤں گا۔ اور اس حقیقت کے تحت کہ "جَذْبَۃٌ مِّنْ جَذْبَاتِ الْحَقِّ تُوَازِيْ عَمَلَ الثَّقْلَیْنِ" ”حق کے جذبات میں سے ایک جذبہ بھی جنات اور انسانوں کے عمل نیک کے برابر ہے“ اُس کو اپنے کنار سے واصل کراتا ہے۔ تو کب تک ان ضعیف بال و پر کے ساتھ ہمارے جمال کے گرد پھرتے رہو گے؟ تم ان بال اور پروں کے ساتھ ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا…﴾ (العنکبوت: 69) ”جو لوگ ہماری راہ میں ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں“ کے مطابق کوشش کرو، تاکہ ہم اپنی سنت اور عادت کے مطابق ﴿لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا...﴾ (العنکبوت: 69) ”ہم اُن کو ضرور اپنی راہ دکھلائیں گے“ ہم تم کو اپنے انوار کی شعاع کے پروں سے نوازیں گے تاکہ تم ہمارے فضل و کرم سے راہ پا سکو۔ ﴿یَھْدِي اللہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (النور: 35) ”اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے نور کی طرف راہ دکھاتا ہے“ اگر تمام فرشتے جنات اور انسان اکھٹے ہو کر کوشش کریں تو ایک بندہ بھی اپنے آپ پر اللہ تعالیٰ کی صفت کی تجلی کا ظہور نہیں کر سکتا مگر یہ اللہ تعالیٰ کا جذبہ ہی ہے کہ بندہ کو اُس قرب تک پہنچاتا ہے جس کی جانب ﴿أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس لیے تمام مخلوقات کی کوششوں اور اعمال سے ایک جذبہ بہتر ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو خودی کے بند سے نجات پا چکے ہوں اور جذبات الوہیت کے تصرفات کی روشنی رکھتے ہوں تو اُن کی ایک سانس اہل دُنیا کے معاملات و معمولات کے برابر نکل آئے گی۔ اور اس خصوصیت کی طرف اس بیت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ بیت ؎
صوفیان در دمے دو عید کنند
عنکبوتان مگس قدید کنند
’’اہل تصوف کے حضرات ایک دم اور لمحہ میں دو عید مناتے ہیں۔ اور عنکبوت (مکڑی) قسم کے لوگ مکھی (مار کر اُس کے گوشت کو خشک کر کے اُس) کا ذخیرہ کرتے ہیں‘‘۔
صوفی فانی ہر گھڑی اور ساعت ایک نیا وجود جنم لیتا ہے اور وہ جذبہ کے تصرف سے محو ہو جاتا ہے، اور اُس محو ہونے سے ایک قدم آگے سیر کرتا ہے، جذبے کے تصرف سے عالمِ الوہیت میں ﴿یَمْحُوا اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ…﴾ (الرعد: 39) ”خدا سبحانہ و تعالیٰ جو چاہتا ہے اس کو محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے ثابت رکھتا ہے“ پس ہر گھڑی اُس کو محو و اثبات حاصل ہوتا رہتا ہے۔ صوفی اُس میں دو عیدیں مناتے ہیں: پہلی عید محو کی اور دوسری عید اثبات کی۔ اس مقام پر اگر دونوں کو روح اللہ اور سمۃ اللہ کہا جائے تو یہ بات زیب دیتی ہے اور یہ قبا صوفی کی قد و قامت پر ٹھیک بیٹھتی ہے۔ اے بھائی! یہ بات خواجگی کی پگڑی سر پر رکھتے ہوئے کسی کو کب ہاتھ آتی ہے۔
کشف کے بیان میں
اسی شیخ شرف منیری رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب میں آیا ہے کہ حقیقتِ کشف یہ ہے کہ پردے سے باہر ہو کر ظاہر ہو جائے۔ صاحب کشف کوئی ایسی چیز معلوم کر لیتا ہے کہ اُس سے پہلے کسی نے معلوم نہ کی ہو چنانچہ قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ ﴿فَکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَاءَکَ…﴾ (ق: 22) یعنی تمہاری نگاہ سے پردہ اُٹھایا، یہاں تک کہ تمہاری نگاہ کو وہ چیز ظاہر ہوئی جس کو تو پہلے نہیں دیکھتا تھا اور تیری نگاہ سے اوجھل تھی۔ اور حجاب کا مفہوم اور مراد وہ مانع اور پردہ ہے جو بندہ کی نگاہ کو حضرت رب العزت کے جمال سے محجوب و ممنوع کرتا ہے اور وہ حجاب یہ تمام مختلف عالم ہیں، جیسا کہ عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت اور ایک روایت میں اسی (80) ہزار عالم کہتے ہیں۔ اور انسان کی فطرت میں یہ اسی ہزار عالم موجود ہیں، اور ہر عالم کے مطابق انسان کی ایک آنکھ ہوتی ہے، کہ اُس عالم کو اُسی آنکھ سے دیکھا کرتا ہے۔ اور کشف کی حالت میں یہ اسی ہزار عالم (80000) دو عالم میں سماتے ہیں، جن سے نور و ظلمت مراد ہے یعنی ملک و ملکوت۔ اور اس کو غیب و شہادت بھی کہتے ہیں اور جسمانی و روحانی بھی کہتے ہیں اور دُنیا و آخرت بھی کہلاتے ہیں۔ یہ سب ایک ہیں، مگر ان کی عبارتیں مختلف ہیں۔ پس جب سالکِ صادق ارادت کے جذبہ کے ساتھ طبیعت کے اسفل السافلین سے قدم شریعت کے اعلی علیین میں رکھے اور صدق کے قدموں سے قانون شرع کے مطابق جادۂ طریقت پر چلتا جائے تو جس حجاب سے بھی آگے بڑھ کر گزر جاتا ہے تو اُن اسی ہزار حجابوں میں سے اُس مقام کی مناسبت سے اُس کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور اُس مقام کے حالات اُس کی نگاہ میں آ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے اُس کی عقل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور حجاب کے اُٹھنے اور ہٹ جانے کے اندازے پر اُس کو معقول معنیٰ دکھائے جاتے ہیں، اور معقولات کے اسرار و رموز اس پر کھل جاتے ہیں، اس کو کشف نظری کہتے ہیں۔ اس پر زیادہ اعتماد نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ جو کچھ نظر آ جائے وہ قدم میں نہیں آتا، اور اعتماد کے شایان نہیں ہوتا۔ مصرع
نے ہر چہ تو بینی بخشد اے دل
’’اے دل تو جو کچھ دیکھتا ہے وہ تم کو نہیں بخش دیتے‘‘۔
حکماء اور فلاسفر اس مقام پر رہ گئے اور اس مقام کو مقام حقیقی تک رسائی تصور کر لیا۔ مگر جب ایک صادق سالک اس کشف معقولات سے آگے گذر جائے تو پھر کشف دلی ظاہر ہو جاتا ہے اور اُس کو کشف شہودی کہتے ہیں، اس وقت مختلف انوار کشف ہوتے ہیں۔ اس کے بعد مکاشفات سری پیش آتے ہیں اور اُس کو کشف اِلہامی کہتے ہیں۔ پس اُس کو وجود کی آفرینش اور تخلیق کی حکمت ہر چیز ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ اُن الفاظ کے معانی ہیں جو کہا ہے۔ رباعی۔
اے کرد غمت غارت ہوش و دل ما
درد تو شدہ خانہ فروش دل ما
سرے کہ مقدسان ازاں بے خبرند
عشق تو فروگرفت بگوش دل ما
’’کہ تیرے غم نے میرے ہوش اور دل کو غارت کر کے لوٹ لیا، اور تمہارے درد نے ہمارے دل کے گھر کو ویران کر دیا۔ وہ راز جس سے مقدس ہستیاں آگاہ تک نہیں، تمہارے عشق نے آ کر سب کا سب چپکے سے ہمارے دل کےکان میں کہا‘‘۔
اس کے بعد مکاشفات روحی آتے ہیں جن کو مکاشفات روحانی کہتے ہیں۔ اور اس مقام میں جنت، دوزخ، فرشتے، ان کے ساتھ باتیں کرنا، اور ان کی باتیں سننا ظاہر ہوتا ہے۔ اور جب روح بالکل صاف ہو جاتی ہے اور کدورات جسمانی سے بالکل پاک ہو جاتی ہے تو ایک لامتناہی عالم کا کشف حاصل ہو جاتا ہے اور ازل و ابد کا دائرہ اُسے نصیب ہو جاتا ہے، اس مقام پر زمان و مکان کے حجابات اُٹھ جاتے ہیں، یہاں تک کہ مستقبل میں جو ہونے والا ہو وہ حال میں جان لیتا ہے۔ چنانچہ حارث رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "کَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلٰی أَھْلِ الْجَنَّۃِ وِ إِلٰی أَھْلِ النَّارِ" (المعجم الکبیر للطبراني بمعناہ، باب: الحاء، الحارث بن مالک الأنصاري، رقم الحدیث: 3367) ”گویا کہ میں اہل جنت اور اھل دوزخ کو دیکھ رہا ہوں“ پس دُنیاوی مکان کا حجاب اُٹھ جاتا ہے اور زمان و مکان اُخروی ظاہر ہو جاتے ہیں۔ یہی مقام ہوتا ہے جہاں حجاب و پردہ اُٹھ جاتا ہے۔ پیچھے سے بھی ایسا دیکھ پاتے ہیں جیسا کہ آگے سے دیکھ لیتے ہیں۔ اور جس کو لوگ کشف و کرامت کہتے ہیں، اسی مقام میں ہوتے ہیں۔ دلوں کی بات جاننا اور دوراں کے مختلف کاموں کی اطلاع، پانی، آگ، ہوا اور ساری زمین پر چلنا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس قسم کی کرامات پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسی کرامات اہلِ دین اور غیر اہل دین دونوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ جب مجاہدہ سے اپنی روح کو صاف کیا جائے، تو اس قسم کی کرامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ابن صیاد سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ "مَا تَرٰی؟ قَالَ أَرَی الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ ذٰلِکَ عَرْشُ إِبْلِیْسَ" (مرعاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح بمعناہ، رقم الصفحۃ: 149/1، إدارۃ البحوث العلمیۃ، بنارس، الھند) ”تم کیا دیکھتے ہو؟ تو ابن صیاد نے جواب دیا کہ میں پانی پر تخت کو دیکھتا ہوں، تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ یہ ابلیس کا تخت ہے“ اور اسی قسم کی باتیں دجال کو بھی حاصل ہوں گی۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کو قتل کرے گا پھر اُس کو زندہ کرے گا۔ ہاں جس کو حقیقت میں کرامت کہتے ہیں اہل دین کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں۔
فائدہ:
جو کچھ ولی سے صادر ہوتا ہے اُس کو کرامت کہتے ہیں اور جو غیر ولی سے صادر ہوتا ہے اُس کو سحر، جادو اور استدراج وغیرہ کہتے ہیں۔ اور ولی کی تعریف کے لیے دیکھئے باب کرامات و خرق عادات، شیخ المشائخ قطب مدار شیخ رحمکار صاحب، مندرجہ کتاب ہٰذا حصّہ اوّل یعنی مقامات قطبیہ مؤلف۔
کشف روحی کے بعد مکاشفات خفی ظاہر ہوتے ہیں، کیونکہ روح کافر اور مسلمان دونوں کی ہوتی ہے، لیکن خفی خاص الخواص کے سوا کسی کی نہیں جو کہ روح حضرتی ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے ﴿کَتَبَ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَ أَیَّدَھُمْ بُرُوْحٍ مِّنْہُ…﴾ (المجادلۃ: 22) ”ان کے دلوں میں ایمان کو لکھ دیا اور روح سے اُن کی امداد فرمائی“ اور رسول اللہ ﷺ کے بارے میں فرمایا کہ ﴿وَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ أَمْرِنَا…﴾ (الشوریٰ: 52) ”تمہاری طرف ہم نے اپنے امر سے روح کو بھیج دیا“ ﴿وَمَا کُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْکِتَابُ وَ لَا الْإِیْمَانُ وَ لٰکِنْ جَعَلْنَاہُ نُوْرًا نَّھْدِيْ بِہٖ مَنْ نَشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا…﴾ (الشوریٰ: 52) ”آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ ایمان کو جانتے تھے، لیکن ہم نے اپنے نور کو بنایا جس سے ہمارے بندوں کو جن کو ہم چاہیں، ہدایت بخشتے ہیں“ یعنی ہم روحِ نورانی و حضرتی اپنے بندوں کو عطا کرتے ہیں تاکہ اُس کے ذریعہ اُس راستے کو پا لیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے عالَم صفات کی جانب جاتا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ رستم کو رستم کا گھوڑا لے جاتا ہے۔ اسی طرح روح نورانی اور حضرتی اللہ تعالیٰ کے عالم صفات کا ادراک کرتی ہے۔
کہتے ہیں کہ خفی دونوں جہانوں کا واسطہ اور ذریعہ ہے، ایک تو صفات خداوندی دوسرا عالمِ روحانیت، تاکہ دل اللہ تعالیٰ کے مکاشفات کے قابل ہو جائے۔ اور اس کے برعکس عالم روحانیت کو اخلاق بخشتا ہے اور "تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللہِ" (بیان تلبیس الجھمیۃ فی تأسیس بدعہم الکلامیۃ، الفرق بین العلو و الاستواء، رقم الصفحۃ: 518/6، مجمع الملک فہد) ”اللہ تعالیٰ کے اخلاق پر اپنے اخلاق سنوارو“ کے مقام سے مشرف ہو جاتے ہیں، اس کو کشف صفاتی کہتے ہیں۔ اور اگر سالک کو اس صفتِ عالمی کا کشف ہو تو اُس کو علم من لدن حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر صفتِ سمیعی یعنی سننے سے حاصل ہو تو اس کو خطاب و کلام کا سننا حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر بصیری یعنی دیکھنے کی صفت سے کشف حاصل ہو تو اُس کو رؤیت اور مشاہدہ حاصل ہوتا ہے۔ اور اگر صفتِ جمالی سے مکشوف ہو جائے تو اُس کو ذوقِ شہود اور جمال حضرتی ظاہر ہوتا ہے۔ اور اگر صفت جلالی سے ظاہر ہو جائے تو فنا حقیقی حاصل ہو جائے۔ اور اگر صفتِ وحدانیت سے کشف ہو جائے، تو وحدت ظاہر ہوتی ہے۔ باقی صفات کو بھی اسی پر قیاس کریں۔ کسی نے اس مقام کی طرف ان شعروں میں اشارہ کیا ہے۔ بیت
تا بر سر کوئے عشق تو منزل ماست
سر دو جہان بہ جمہ کشف دل ماست
و انجا کہ قدم دل مقبل ماست
مطلوب ہمہ جہان حاصل ماست
’’جب تمہارے عشق کے کوچے کو ہم نے اپنی منزل بنایا، تو دونوں جہانوں کے اسرار ہمارے دل پر منکشف ہوئے، جس جگہ ہمارے آگے جانے والے دل کے قدم ہیں، تو تمام جہان کا مطلوب ہمیں حاصل ہے‘‘۔