حصہ 3 مقالہ 7: قلب، روح، نفس اور عقل کے بیان میں

مقالۂ ہفتم

قلب، روح، نفس اور عقل کے بیان میں

اوّل لفظ قلب ہے، جس کے دو معنے ہیں: "أَحَدُھُمَا اللَّحْمُ صَنُوْبَرِيُّ الشَّکْلِ" ”پہلا معنیٰ یہ ہے کہ وہ گوشت کا ایک لوتھڑا ہے جس کی شکل صنوبری (مخروطی) ہے“ "اَلْمُوْدَعُ فِي الْجَانِبِ الْأَیْسَرِ مِنَ الصَّدْرِ" ”جو کہ سینے کی بائیں جانب رکھا گیا ہے“ اور اُس کے درمیان خالی جگہ ہے، جس میں سیاہ خون ہوتا ہے۔ اور یہ روح کا سر چشمہ اور خزانہ ہے، اور یہ گوشت کا لوتھڑا اسی شکل میں جانوروں اور مَردوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور اس کا دوسرا معنیٰ ایک ربانی اور ایک روحانی لطیفہ ہے جو کہ اس گوشت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ لطیفہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور ایسی چیزوں کو معلوم کرتا ہے جو کچھ انسان کا وہم و خیال معلوم نہیں کر سکتا، اور وہ انسان کی حقیقت ہے۔ اور اسی معنیٰ میں یہ دل مخاطب ہے اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے ﴿إِنَّ فِيْ ذَالِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ…﴾ (ق: 33) ”اور اس میں اُن لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو کہ دل رکھتے ہیں“۔ اور قلب سے مراد یہاں وہ صنوبری شکل کا گوشت کا لوتھڑا ہو تو وہ ہر ایک میں موجود ہوتا ہے۔ اور جب یہ معلوم ہوا تو یہ جان لو کہ اس لطیفے کا اس صنوبری گوشت کے لوتھڑے کے ساتھ تعلق ہے، اور یہ بہت باریک تعلق ہے جو کہ بیان سے معلوم نہیں ہوتا لیکن مشاہدہ اور عیاں سے اُس کی خبر دی جا سکتی ہے۔ اور اگر اُس کا کچھ نہ کچھ ذکر کیا جا سکے تو وہ یہی ہے کہ یہ بمنزلہ ایک بادشاہ کے ہے اور یہ گوشت کا لوتھڑا اس کی ملکیت اور بادشاہت ہے، اگر دل کا اس گوشت کے ساتھ کچھ تعلق ہے تو وہ اعراض کا تعلق ہے، کیونکہ جو یہ کہا ہے یہ بالکل صحیح ہے: ﴿وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہٖ…﴾ (الانفال: 24) ”یہ بات جان لو کہ اللہ تعالیٰ آدمی اور اُس کے دل کے درمیان حائل اور مانع ہوتا ہے“۔

اور دوسری بات روح کی ہے، اور روح کے بھی دو معنیٰ ہیں: "اَلرُّوْحُ الطَّبْعِيُّ ھُوَ دُخَانٌ مَّنْبَعُہٗ دَمٌ أَسْوَدُ" ”روح طبعی ایک دھواں ہے جس کا منبع سیاہ خون ہے“ جو کہ اس صنوبری شکل کے گوشت کی خالی جگہ میں ہے، اور یہ دھواں تمام اجزائے بدن میں متحرک رگوں کے ذریعے منتشر ہو جاتا ہے۔ اور اُس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک گھر میں چراغ ہے جس سے گھر کے تمام گوشے روشن ہو جاتے ہیں اور وہی چیز ہے جس کو اطباء روح کہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا معنیٰ وہی لطیفۂ ربانی ہے جو معنیٰ حقیقت قلب میں ذکر ہوا، مگر روح اور قلب دونوں پر ایک ہی طرح وہ لطیفہ وارد ہوتا ہے۔ اور اسی کی جانب اللہ تعالیٰ کے کلام میں اشارہ ہے، فرمایا گیا ہے: ﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ…﴾ (الإسراء: 85) ”آپ سے روح کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجیے کہ روح امر ربی ہے“۔

اور تیسرا لفظ نفس ہے۔ اس کے بھی دو معنیٰ ہیں ایک معنیٰ یہ ہے کہ غضب، شہوت اور دیگر ذمیمہ اور بری صفتوں کا جمع کرنے والا۔ اور اس سے وہی مراد ہے جو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَعْدٰی عَدُوِّکَ نَفْسُکَ الَّتِيْ بَیْنَ جَنْبَیْکَ" (إحیاء العلوم، ربع المھلکات، بیان معنی النفس و الروح و القلب و العقل و ما ھو المراد بہذہ الأسامي، رقم الصفحۃ: 4/3، دار المعرفۃ، بیروت) ”تمہارا سخت ترین دشمن وہ ہے جو تمہارے دو پہلوؤں کے درمیان واقع ہے“ اور یہ ایک اشارہ ہے اس کے ساتھ مجاہدہ کرنے اور اس کو شکستہ کرنے کی جانب۔ اور اس کا دوسرا معنیٰ وہی لطیفۂ ربّانی ہے جو قلب و روح اور نفس کے ہم معنیٰ آیا ہے اور قلب اور روح اس لطیفہ پر اطلاق کرتے ہیں، یہ انسان کی حقیقت ہے جس کی وجہ سے تمام حیوانات سے اس کا فرق اور اس کی تمیز کی جاتی ہے، اور جس وقت یہ صاف اور پاک ہو جاتا ہے اور اللہ کے ذکر سے روشن ہو جاتا ہے اور اس سے شہوات اور تمام دیگر صفاتِ ذمیمہ محو ہو جاتی ہیں تو اس کا نام نفس مطمئنہ رکھا جاتا ہے۔ اور یہی اللہ تعالیٰ کے اس قول سے مراد ہے: ﴿یٰأَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِيْ إِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً﴾ (الفجر: 27-28) ”اے اطمینان اور تسلی یافتہ نفس (نفسِ مطمئنہ) لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف اس حالت میں کہ راضی ہو، اور راضی کیے گئے ہو“۔ اور جو نفس اس درجہ کو پہنچ جائے تو اُس کے باعتبارِ صفت دو درجے ہیں: ایک کو نفسِ لوّامہ کہتے ہیں، اور یہ وہ نفس ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر قسم فرمائی ہے: ﴿وَ لَا اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَّۃِ﴾ (القیامۃ: 2) کہ نفس لوامہ پر قسم کھاتا ہوں۔ اور یہ وہی نفس ہے جو انسان کو گناہ کرنے پر ملامت کرتا ہے، نہ تو گناہ کے پاس بھٹکتا ہے اور نہ گناہ پر راضی ہوتا ہے۔ اور اس درجہ کو پہنچنے سے پہلے بدی کے کام کرنے کا حکم دیتا رہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَۃٌ بِالسُّوْءِ…﴾ (یوسف: 53) اور یہ ایسی حالت میں ہوتا ہے کہ "لَا تَأْمُرُ بِالْخَیْرِ وَ لَا تَلُوْمُ عَلَی الشَّرِّ" ”نہ تو نیکی کا حکم دیتا ہے اور نہ بدی پر ملامت کرتا ہے“ اور یہ کم درجے کا نفس ہے، مطمئنہ اس سے زیادہ ہے اور لوامہ بین بین ہے جو کہ بدی پر راضی نہیں ہوتا اور نہ اُس کے نزدیک جاتا ہے اور نیکی کے بغیر اس کو اطمینان حاصل نہیں ہوتا اور نیکی سے مراد اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

چوتھا لفظ عقل ہے اور اُس کے متعدد معانی ذکر ہوئے ہیں اور ہمارا ارادہ ہے کہ اُن میں سے دو معنیٰ ذکر کریں۔ ایک اُن میں سے اشیاء کی حقیقت کا علم ہے اور دوسرا معنیٰ وہ عالم ہے کہ علم اُس کی صفت ہو۔ اور یہ معنیٰ وہی لطیفہ ربانی ہے جس کا ذکر ابھی گزر گیا، چونکہ یہ ممکن نہیں کہ عقل کے معنیٰ اوّل الذکر مراد ہو کیونکہ اللہ کے رسول ﷺ کا قول مبارک ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ الْعَقْلَ ثُمَّ قَالَ لَہٗ أَقْبِلْ فَأَقْبَلَ ثُمَّ قَالَ لَہٗ أَدْبِرْ فَأَدْبَرَ" (إحیاء العلوم، کتاب العلم، باب: في العقل و شرفہ و حقیقتہ و أقسامہ، رقم الصفحۃ: 83/1، دار المعرفۃ، بیروت) ”سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل پیدا کی ہے پھر اُس کو کہا کہ منہ کر تو اُس نے منہ کیا، پھر اُس کو کہا کہ پیٹھ پھیر تو اُس نے پشت کی“ جب اخبار و آیات وغیرہ میں قلب، عقل، نفس اور روح کا لفظ آ جائے تو اُس سے وہی لطیفۂ ربانی مراد ہوتا ہے، پس جب ہم یہ الفاظ کہتے ہیں تو اس سے وہی لطیفہ مراد لیتے ہیں اور اس کو جاننا چاہیے، اسی طرح احیاء العلوم میں بھی ہے۔

یہ جان لو کہ روح چار ہیں: ایک ناطقی جو کہ انسان رکھتا ہے، دوسری قسم شایتی جو کہ جانور رکھتے ہیں، تیسری قسم جسمی جو کہ درخت رکھتے ہیں اور چوتھی قسم ناموست جو کہ پتھر اور جواہر رکھتے ہیں۔ یہ بات جان لو کہ روح کا مقام سارا جسم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: "اَلرُّوْحُ فِي الْبَدَنِ کَالسَّمْنِ فِي اللَّبَنِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”روح جسم میں ایسی ہے جیسا کہ دودھ میں روغن“ یا پھول میں خوشبو، لیکن اُن چند مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے، جو کہ روح کی گزرگاہ ہیں۔ روح کا عرش کھوپڑی ہے، اس کی آرام گاہ جسم، سننے کی جگہ کان، جائے کلام منہ اور مسکن سینہ ہے، تفکر کی جگہ دل، نقل گاہ گدی اور خلوت گاہ ناف ہے۔ روح بادشاہ ہے جس کی مملکت دل ہے، روح کا کوتوال بیداری اور ہوشیاری ہے اور روح کا قاضی حق بات کرنا ہے، اور روح کا شوق عبادتوں کا جمع کرنا ہے، روح کی زین سننا ہے۔ روح کا ذخیرہ گویائی ہے، روح کے دیوان کا سربراہ کام کی زیادتی ہے، روح کا خزانہ منع کرنا ہے، روح کا مست ہاتھی نفس ہے، روح کا گھوڑا ہوا ہے، روح کا اسلحہ سچائی ہے اور اُس کا لشکر عہد و پیمان ہے۔ لیکن روح کا کام معرفتِ حق، عبودیت اور فرماں برداری کرنا ہے۔ اور روح کی پہچان اسرار و رموز کی پہچان ہے، چنانچہ مؤمنوں نے سلوک کی یہ اصل بیان کی ہے۔ بیت

؎ دل را گر صیقل کنی جان را عیاں بینی درو

جان را گر صیقل کنی جان جہاں بینی درو

’’اگر تو دل کو صیقل کر کے زنگ سے صاف کرے گا، تو تم اُس میں جان دیکھو گے، اور اگر روح کو صیقل کرو گے تو اس میں جان جہان کا مشاہدہ کرو گے‘‘۔

مقامِ محمود سے مراد سعادت کا دیکھنا ہے، یہی مقامِ محمود تجھے حاصل ہو جائے گا کیونکہ مقامِ محمود روح کی بارگاہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿عَسٰی أَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ (بنی اسرائیل: 79) ”جلد اللہ تعالیٰ تم کو مقامِ محمود تک پہنچائے گا“۔ اور اسرار المشائخ نام کے رسالے میں بھی ایسا آیا ہے۔

یہ بات جان کر یاد رکھو کہ دل کی چار اقسام ہیں: ایک سنگی یعنی پتھر کا ہے جو کافروں کے دل ہیں، اور ان کا کام اور عمل و کردار شرک و منافقت کرنا ہے۔ دوسرا دل تاریک دل ہے جو کہ منافقوں کا ہے، ان کا کام فراموشی، بھول اور ایک جگہ پر قائم نہ ہونا ہے، دل میں ایک بات اور زبان دوسری بات کہنا اور ان کے قول کو ثبات نہیں ہوتا۔ تیسری قسم نور ہے، جو کہ مؤمن رکھتے ہیں، ان کا کام روزہ، نماز، نیک اعمال، اللہ تعالیٰ کی طلب، دیدارِ حق کی خواہش اور تڑپ، غریبوں کے ساتھ احسان کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہوتا ہے۔ چوتھی قسم، دل زندہ ہوتا ہے یہ اولیاء اور انبیاء کا دل ہوتا ہے۔ انبیاء اور اولیاء کا فعل یہ ہوتا ہے کہ ہمیشہ طلبِ مولیٰ، عبادت، معرفتِ حق، مصائب پر صبر، امانت داری اور رضائے حق کی جستجو میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں، اور یہی بات اسرار المشائخ نامی کتاب میں لکھی ہوئی ہے۔

سوال:

انسان کا تن کیا چیز ہے، اور اُس کی صفت کیا ہے؟

جواب:

جان لو کہ انسانی جسم کو اللہ تعالیٰ نے دس چیزوں سے آراستہ کیا ہے، چنانچہ کہا گیا ہے کہ جسم میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دس اشیاء ہیں: ایک دیکھنا، دوسرا سننا، تیسرا کہنا، چوتھا سونگھنا، پانچویں روح، چھٹا دل، ساتواں نفس، آٹھویں ہوا، نویں عقل اور دسواں ایمان۔ چار چیزیں والد کی جانب سے ودیعت ہیں: ایک منی، دوسری رگ، تیسری ہڈی اور چوتھا مغز۔ اور چار اشیاء والدہ کی جانب سے ہیں: ایک خون، دوسرا چمڑا، تیسرا گوشت اور چہارم اندام کے بال، لیکن جسم میں سات پردے ہیں: ایک بال، دوسرا چمڑا، تیسرا خون، چوتھا گوشت، پانچواں رگ، چھٹا ہڈی اور ساتواں پردہ مغز ہے۔ بارہ برج ہیں، سات ستارے ہیں اور نو نرم مقامات ہیں اور دس دروازے ہیں: ایک منہ، دوسرا دو نتھنے، جو کہ شمس و قمر کے مناسب ہیں۔ تیسرا دو آنکھیں، چوتھا دو کان، پانچواں ناف، چھٹا دو شرمگاہ اور تین سو ساٹھ رگ ہیں، یہ دریاؤں کی مناسبت سے ہیں۔ سات دریا ان میں سے غالب ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: جیحون، سیحون، قلزم، فرات، رودِ نیل، شہریار اور اصغث۔ اور چار سو چوالیس ہڈیاں ہیں جو کہ دنیا کے پہاڑوں کی مناسبت سے ہیں۔

سوال:

دل کیا ہے، کیا چیز ہے، کس چیز سے پیدا ہوا ہے اور اس کی صفت کیا ہے؟

جواب:

دِل کی صفت جیسا کہ اس کی تخلیق کے بارے میں کہا گیا ہے، کہ سب سے پہلے دل کے گوہر کے نور کو اللہ تعالیٰ نے نو لاکھ سال اپنے قبضۂ قدرت میں رکھ کر اس کی پرورش کی، اس کے بعد دل کے گوہر کے نور سے دوسرے دس عدد گوہر پیدا فرمائے، پہلے گوہر سے آسمان اور زمین پیدا فرمائے، دوسرے گوہر سے عرش پیدا فرمایا اور تیسرے گوہر سے کرسی پیدا کی۔ چوتھے گوہر سے لوح پیدا فرمائی، پانچویں گوہر سے قلم، چھٹے سے بیت المعمور، ساتویں سے جنت، اٹھویں سے دوزخ، نویں سے سورج اور دسویں سے چاند پیدا فرمایا۔ خالقِ کائنات نے ان دس گوہروں کو دل کے گوہر سے پیدا کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں فرمایا ہے کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ أَکْبَرُ مِنَ الْعَرْشِ وَ أَوْسَعُ مِنَ الْکُرْسِيِّ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”مؤمن کا دل عرش سے بڑا اور کرسی سے چوڑا ہے۔ اور دل کو اس وجہ سے اکبر یعنی بڑا کہا ہے کہ اُس میں سات خزانے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ہر خزانے میں گوہر رکھا ہے۔ پہلا گوہر گوہرِ عشق ہے، دوسرا گوہر محبت ہے، تیسرا گوہر سر، چوتھا گوہر روح، پانچواں گوہر معرفت، چھٹا گوہر ذکر اور ساتواں گوہر فکر ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے دل کو نو لاکھ اسی ہزار سال کی درازی اور تین لاکھ ایک ہزار سال کی فراخی عنایت فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ "لَا یَسَعُنِيْ أَرْضِيْ وَ لَا سَمَائِيْ وَ لٰکِنْ یَّسَعُنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ" (إحیاء العلوم بمعناہ، ربع المھلکات، بیان معنی النفس و الروح و القلب و العقل و ما ھو المراد بہذہ الأسامي، رقم الصفحۃ: 15/3، دار المعرفۃ، بیروت) ”نہ تو آسمان میری طاقت رکھتا ہے اور نہ زمین میری طاقت رکھتی ہے کہ میں اُن میں سما سکوں، مگر میں بندۂ مومن کے دل میں سما سکتا ہوں۔

؎ ارض و سما یہ کب تیری وسعت کو پا سکا

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکا

اور دل کی یہ وسعت دل کے گوہر کا نور ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس نور کی نو لاکھ سال اپنے قبضہ قدرت میں پرورش فرمائی اور اُس کو یہ دو کلمے سنوائے: "یَا عَبْدِيْ أَنْتَ عَاشِقِيْ وَ أَنَا عَاشِقُکَ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اے میرے بندے تو میرا عاشق ہے اور میں تیرا عاشق ہوں“ اور نو لاکھ سالوں میں ہر گھڑی نو لاکھ بار رحمت و کرامت کی نگاہ فرماتا تھا، اور انوار و تجلیات کا اُس پر کشف کرتا تھا، کیونکہ دل اللہ تعالیٰ کے عشق و محبت کا محل ہے، اور دل کے سات پہلو ہیں اور ہر پہلو میں گوہر کی جگہ ہے جیسا کہ اوپر شرح میں بیان کیا گیا ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ "اَلْقَلْبُ بَیْتُ الرَّبِّ" ”دل خانۂ خدا ہے“ یہ بات بالکل درست ہے کہ دل خدا کا خاص حرم ہے، یہ گوشت کا لوتھڑا خدا کا خاص حرم نہیں بلکہ دل کی اصلی صورت اللہ تعالیٰ کا حرمِ خاص ہے، بلکہ دل کی اصلی صورت وہ گوہر ہے اور گوہر دل کا اصل نور ہے اور یہ نور خدا کے نور سے ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللہِ وَ الْمُوْمِنُوْنَ مِنْ نُّوْرِيْ" (روح البیان بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 56/9، دار الفکر، بیروت) ”میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور مؤمن میرے نور سے ہیں“ (بیت)

اہل دل را ذوق و فہم دیگر است

کاں ز فہم ہر دو عالم برتر است

چوں سمائے دل در آمد در وجود

آفتاب جان درو تابان نمود

’’اہل دل کا ذوق اور سوچ و فہم ایک جدا چیز ہے، جو کہ دونوں جہانوں کے لوگوں کی فہم سے بالا ہے، جب دل کا آسماں پیدا ہوا تو روح کا سورج اُس میں چمک اُٹھا‘‘۔

روح کے تنوع، ماہیت، اوصاف اور تجلیات کے بیان میں

"قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ رُوْحِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 72/3، دار الفکر، بیروت) ”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے میری روح کو پیدا کیا ہے“۔ رسول اللہ ﷺ کی روح نور احدیت کے پرتو سے پیدا ہوئی ہے، اور روح محمدی ﷺ کے نور سے مؤمنوں کی روح پیدا ہوئی ہے۔ "أَنَا مِنَ اللہِ وَ الْمُوْمِنُوْنَ مِنِّيْ" (روح البیان بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 56/9، دار الفکر، بیروت) ”میں خدا سے ہوں اور مؤمن مجھ سے ہیں“ اس معنیٰ کا ایک سِر مندرجہ بالا حدیث نبوی ہے۔

ہمارے مرشد اور خواجہ شیخ رحمکار نے روح کی ماہیت بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ روح کی کوئی شکل یا ہیئت نہیں مگر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو کشفِ روح عطا فرماتا ہے تو اُس کو روح بطور تمثیل دکھائی جاتی ہے، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام حضور ﷺ کے پاس دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی شکل میں تشریف لاتے تھے۔

فائدہ:

اسی طرح جبرئیل علیہ السلام بی بی مریم علیہا السلام کے پاس ایک خوبصورت مرد کی شکل میں آئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿فَأَرْسَلْنَا إِلَیْھَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَھَا بَشَرًا سَوِیًّا﴾ (مریم: 17) ”ہم نے اس کے پاس اپنی روح یعنی فرشتہ بھیج دیا، جس نے اپنے آپ کو ایک خوبصورت مرد کی شکل میں اُس پر ظاہر کر دیا“ کے بھی یہی معنیٰ ہیں۔ (ابو اسد اللہ مؤلف)

ایک محقق کہتا ہے کہ "اَلرُّوْحُ رُوْحَانِ: رُوْحٌ جَارٍ وَّ رُوْحٌ مُّقِیْمٌ فَالرُّوْحُ الْجَارِيُّ یَخْرُجُ بِالنَّوْمِ وَ الرُّوْحُ الْمُقِیْمُ لَا یَخْرُجُ إِلَّا بَالْمَوْتِ" ”روحیں دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک روح آتی جاتی ہے، اور ایک روح قائم رہتی ہے۔ پس آنے جانے والی روح نیند کے وقت جاتی ہے، اور بیداری کے وقت واپس آ جاتی ہے۔ اور دوسری روح قائم ہے جو کہ موت کے بغیر قائم رہتی ہے“ نیند میں روح ناطقہ چلی جاتی ہے، اور روح متحرکہ و ناحیہ باقی رہ جاتی ہے۔

روح کی ماہیت:

عین القضات ہمدانی کے رسالہ میں آیا ہے کہ روح چار ہیں: ناحیہ، متحرکہ، ناطقہ اور قدسی؛ ناحیہ انسان تمام حیوانات نباتات اور جمادات میں مشترک ہے اور خارج میں تمام مخلوق کے پرورش اور نشوونما اسی سے ہے۔ ﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَیْنَھُمَا…﴾ (السجدہ: 4) ”آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، پیدا کیا“ اور روح متحرکہ، یہ روح انسان اور حیوانات میں مشترک ہے، اور نباتات کی روح اس سے خارج ہے، اس کو روحِ حیوانی بھی کہتے ہیں کیونکہ حیوانات کی حرکت اس روح کی وجہ سے ہے، یہ روح بھی مخلوق ہے اور یہ دونوں روحیں عناصر (کے ظہور ترکیب) کی تاثیر پر منحصر ہیں۔ اور روح ناطقہ انسان کے ساتھ مخصوص ہے، یہ روح حیوانات اور نباتات میں نہیں ہوتی، اور اس کو روحِ انسانی کہتے ہیں، اور یہ عالم امر سے ہے، عناصر کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ﴿وَ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ…﴾ (الإسراء: 85) ”کہہ دیجیے کہ رُوح امر ربی سے ہے“ اللہ تعالیٰ اس کے بارے میں کہتا ہے۔ اور روح قدسی، یہ روح انبیاء اور مخصوص اولیاء کے ساتھ مخصوص ہے اور اس روح کو سکینہ کہتے ہیں۔ ﴿فَأَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْھِمْ…﴾ (الفتح: 18) ”اور ان پر سکینہ نازل فرمائی“ میں اس کا بیان ہے۔ اور اس کو منفوخ بھی کہتے ہیں۔ ﴿وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِيْ…﴾ (ص: 72) ”اور میں نے اُس میں اپنی روح میں سے پھونک دیا“ اس پر شاہد ہے۔ انبیاء کرام اور خاص الخاص اولیاء رحمھم اللہ کی کرامات، معجزات، باطن کے معانی کا فہم و ادراک، مکاشفات، احیاءِ اموات اور اماتتِ احیاء اس روح کی تاثیر سے ہوتی ہیں۔ یہ تاثیر عام انسانوں میں نہیں ہوتی۔ "اَلرُّوْحُ عَالِمٌ بِمَا کَانَ وَ بِمَا یَکُوْنُ" ”جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہوگا، روح کو اُس کا علم ہوتا ہے“ دوسری روح کی ماہیت اگر شریعت، حقیقت کی دیوانگی کی قید نہ لگاتی تو میں بیان کرتا کہ روح کیا ہے، لیکن غیرت ِالٰہی نے اجازت نہ دی کہ بیان کروں۔

عیسیٰ علیہ السلام کو روح القدس کی خلعت ودیعت فرما گئی تھی۔ ﴿وَ أَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدِسِ…﴾ (البقرۃ: 87) میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام اور جو کوئی بھی حضرت آدم علیہ السلام کی صفت رکھتا ہو، نے اسی روح کی بدولت سب پر فضیلت پائی۔ ﴿وَ أَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ…﴾ (المجادلۃ: 22) ”اور اُس نے اپنی روح سے اُن کی مدد کی“ اور روح کو عالم خدا سے قالب میں ارسال فرمایا۔ ﴿وَ کَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوْحًا…﴾ (الشوری: 52) ”اور ہم نے آپ کو روح ارسال کی“ جہاں کہیں بھی روح کا حسن و جمال جلوہ افروز ہو اور اُس کے جمال کا پرتو جس چیز تک پہنچ جائے تو اس چیز کو قدر و منزلت بخش دیتا ہے، شب قدر نے جو عزت و منزلت پائی تو روح القدس سے پائی۔ ﴿تَنَزَّلُ الْمَلٰئِکَۃُ وَ الرُّوْحُ…﴾ (القدر: 4) ”اس میں روح اور فرشتے بھیجے جاتے ہیں“ اور یہی بات ہے جو فرمایا گیا ہے کہ ﴿یُلْقِي الرُّوْحَ مِنْ أَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَاءُ…﴾ (غافر: 15) ”اپنے امر سے جس پر کہ چاہتا ہے، روح بھیج دیتا ہے“ جب تم خود اپنے آپ سے اور سارے جہاں سے گذر نہ جاؤ گے تو روح کو نہیں دیکھو گے۔ خواجہ ابو سعید ابو اظیر صاحب فرماتے ہیں۔ بیت۔

؎ اے دریغا جان قدسی کز ہمہ پوشیدہ است

پس کہ دیدہ روئے او را نام کہ بشنیدہ است

ہر کہ بیند در زمان دل ذہن او کافر شود

اے دریغا کیں شریعت گفت گو ببریدہ است

کون و کان برہم زن و ز خود بروں آنارسی

کاین چنین جان را خدا از دو جہاں بگزیدہ است

’’افسوس کہ روح القدس سب سے پوشیدہ ہے اُس کا چہرہ کس نے دیکھا ہے، اور اُس کا نام کس نے سنا ہے۔ جو کوئی دل کو اٗس وقت دیکھتا ہے، تو اُس کا ذہن کافر ہو جاتا ہے۔ افسوس کہ شریعت نے گفتگو کا سلسلہ بند کیا ہے۔ ساری کائنات کو چھوڑ کر اور اپنے آپ سے باہر نکل آتا، کہ منزل روح کو پہنچ جاؤ۔ ایسی جان کو اللہ تعالیٰ نے دونوں جہانوں سے منتخب فرمایا ہے‘‘۔

تم نے اب تک اپنا دل نہیں دیکھا تو جان کو کیسے دیکھو گے، اور جان کو نہیں دیکھا تو خدا کو کہاں دیکھو گے؟ روح قالب میں نہ تو داخل ہے اور نہ خارج ہے، نہ متصل، نہ منفصل اور داخل بھی ہے اور خارج بھی اور متصل بھی اور منفصل بھی۔ نظم ؎

اے دریغا جان قدسی اندرون دو جہان

کس ندیدستش عیاں و کس ندانستش نشاں

گر کسے گوید کہ دیدم در مکان و لا مکان

بر درخت غیرتش آویختہ شد پیش ازاں

’’افسوس کہ روح پاک کو دونوں جہانوں میں کسی نے عیاں طور پر نہیں دیکھا، اور نہ کوئی اُس کا نشان جانتا ہے، اگر کوئی کہہ ڈالے کہ میں نے اُس کو مکان یا لا مکان میں دیکھا ہے تو وہ اس کا کہتے ہی اُس کی غیرت کے درخت سے لٹکایا جاتا ہے‘‘۔

﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ…﴾ (الإسراء: 85) کا معنیٰ یقینًا اہل معرفت ہی جانتے ہیں، کہ روح امر ربی سے ہے، اور امر ربی اُس کی ارادت اور قدرت ہے۔ ﴿إِنَّمَا أَمْرُہٗ إِذَا أَرَادَ شَیْئًا أَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ﴾ (یٰس: 82) ”یقینًا امر اللہ کے لیے ہے، جس وقت وہ کوئی چیز چاہے، تو اُس کو کہتا ہے کہ ہو جا (کُن) تو وہ ہو جاتی ہے“۔

ماہیتِ روح:

رسالۂ غریب میں روح کی چار خاصیتں ہیں، جب وہ عناصر کو پہنچ جاتی ہے تو نباتی ہو جاتی ہے، دوسری مرتبہ میں وہ حیوانی ہو جاتی ہے، تیسری مرتبہ میں نفسانی ہو جاتی ہے اور چوتھی مرتبہ میں انسانی ہو جاتی ہے۔ روح کے باطن کا نور ایک آئینہ ہے اور شہوات اور غصّے کی آگ اس آئینہ کو سیاہ بنا دیتی ہے۔ مخلوق تو روح کے ساتھ وابستہ اور متعلق ہیں مگر روح سے آگاہ نہیں۔ اور روح حق کی تلاش میں ہے لیکن حق سے بے خبر نہیں۔ عین القضات نے فرمایا ہے کہ روح نہ تو قالب کے ساتھ متصل ہے نہ اس سے جدا اور منفصل، اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کل عالم کے ساتھ ہے۔ بیت؎

حق بہ جان اندر نہاں و جان بدل اندر نہاں

اے نہاں اندر نہاں اندر نہاں اندر نہاں

’’حق جان میں مستور ہے اور جان دل میں پوشیدہ ہے، تو حق پوشیدہ کے پوشیدہ میں پوشیدہ ہے‘‘۔

نورِ ذات روح میں پنہاں اور پوشیدہ ہے اور روح دل میں اور دل قالب میں پنہاں ہے۔

ماہیت روح دیگر از رسالہ سر اللہ:

ارواح کی معرفت تین قسم پر ہیں: عام، خاص اور اخص۔ عام روح کے وجود کی تاثیر جانتا ہے خاص اُس کی حرکات اور اثر کی خاصیت کو پہچانتا ہے اور خاص الخاص یعنی اخص مکاشفہ میں ذات روح دیکھتا ہے۔ جیسا کہ بطور تمثیل یا اُس کے کسی جزو کو اُسے دکھایا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص روح کو دیکھے جیسا کہ وہ اصل میں ہے، تو وہ اُس پر عاشق ہو جائے گا، کیونکہ خدا کی خلوت کا اثر اُس کے حسن و جمال پر ہے۔ اُس کی آنکھوں میں نورِ لا یزال ہے اور اُس کے کانوں میں صبوحی کا گوشوارہ ہے اور اُس کے جسم پر الوہیت کا لباس ہے اور وہ حق کی پوشاک رکھتی ہے اور وہ حق کی شاہد ہے۔ جو کچھ عالمِ الوہیت میں ہے، اُس کا عکس آدمی کی روح میں ظاہر ہے اور اُس عکس کو کوئی شخص بھی نہیں سمجھتا مگر وہ لوگ اس کو سمجھ پاتے ہیں جن کو (اللہ تعالیٰ کی جانب سے) سمجھایا جائے۔ بیت

؎ گفتم اے جان کجا بدی نگوئی تو

از کجائی مرا نگوئی تو

گفت من گرد کوئے لاہو تم

قائد و رانمائے ناسوتم

’’میں نے پوچھا، کہ اے میری جان تم کہاں تھے، کیا تو مجھے نہیں بتائے گی؟ اور تم کہاں سے ہو، یہ مجھے نہ کہو گی؟ اُس نے کہا کہ میں عالم لاہوتی سے ہوں، اور عالم ناسوتی کی قائد اور رہنما ہوں‘‘۔

کہتے ہیں کہ آدمی کے جسم میں روح ہے جس کو ناطقہ کہتے ہیں، اور بانسری ڈھول اور اسی طرح کی چیزوں سے جو اچھی آواز نکلتی ہے، وہ اُس کے کلام کے جمال کا اثر ہے۔ مصنف (شیخ عبد الحلیم) کا شعر ہے، بیت: ؎

فہم معنیٰ ہائے ایں اصوات پر کس کے کُند

عاشقان و عارفان دانند سرور رمز آں

’’ان آوازوں کے معنیٰ اور مفہوم کو ہر کوئی کب جانتا ہے، صرف عاشق اور عارف لوگ اس کے اسرار و رموز کو پہچانتے ہیں‘‘۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالوں سے روح کی دوسری ماہیت:

جو احکام حق (اللہ تعالیٰ کی جانب) سے روح کو آتے ہیں اسے کافر اور مسلم کی روح جانتی ہے اور اُسے دیکھتی ہے، کیونکہ وہ عالم ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ جب اسے دیکھتا اور جانتا ہے تو پھر کفر کیوں کرتا ہے؟ تو میں اُس کو جواب میں کہوں گا کہ گناہوں کے بکثرت کرنے کی وجہ سے وہ محجوب ہو جاتا ہے اور کافر ہو جاتا ہے۔ خواجہ ابو بکر واسطی کے رسالے میں آیا ہے، کہ "اَلرُّوْحُ لَا تَدْخُلُ تَحْتَ کُنْ" کہ روح (کُن) کے حکم کے تحت نہیں۔ یعنی جب کن و کان کے زمرے میں نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق نہیں اور خالقیت کے عالم سے ہوگی اور ازلی اور قدیمی صفات رکھتی ہے۔

ایک محقق کا قول ہے کہ جب روح کو امر ہوا کہ قالب میں چلی جاؤ تو روح نے کہا کہ اے خدا! میں حکم کی فرمانبردار ہوں لیکن میں ایک لطیف گوہر ہوں اور یہ قالب تاریک قید خانہ ہے۔ حکم صادر ہوا کہ "اُدْخُلِيْ کَارِھَۃً وَاخْرُجِيْ کَارِھَۃً" ”ناخوشی سے داخل ہو جاؤ، اور اسی طرح ناخوشی سے خارج ہو جاؤ۔ جب روح کے داخل ہونے کے وقت روح کے انوار دماغ تک پہنچ گئے، تو اُس کو حسب الحکم قضا و قدر چند نور ظاہر ہوئے تو اُس کو ایک چھینک آئی تو اُس نے کہا: "اَلْحَمْدُ لِلہِ تَعَالٰی" رب العزت نے فرمایا: "یَرْحَمُکِ رَبُّکِ" ”تمہارا رب تم پر رحم فرمائے“۔ ایک محقق کا قول ہے کہ انسان کے سر میں ایک باریک سوراخ ہے جو کہ نہایت نرم اور باریک ہے، اُس سوراخ کو "یافوج" کہتے ہیں۔ جب عارفوں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کی خواہش ہوتی ہے کہ عالمِ بالا کو عروج کریں تو اُس "یافوج" نام کے سوراخ میں ایک براق لاتے ہیں، عارفوں اور محبوں کی روحیں اس پر سوار کرا کے لے جاتے ہیں۔

ماہیت روح دیگر:

رسالہ غریب میں آیا ہے کہ کفار کی ارواح تاریکی میں قید ہیں جو کہ نہیں جانتے کہ اُن کے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ اور متقی و پارسا لوگوں کی ارواح دنیا کے آسمان میں اپنے اعمال و عبادات سے خوش و خرم ہوتی ہیں۔ اور مریدوں کی ارواح چوتھے آسمان میں نہایت لذت اور مزوں کے ساتھ اپنے تمام اعمال کے ساتھ اور ملائکہ کے ساتھ ہوں گی۔ اور شہیدوں کی ارواح پرندوں کے پروں میں جنت میں جہاں چاہتی ہیں، آتی جاتی ہیں۔ اور مشتاقوں کی روحیں انوار کے پردوں پر نہایت ادب سے قیام کرتی ہیں۔ اور عارفوں کی ارواح رات دن حق تعالیٰ کی باتیں سن سن کر لطف اندوز ہوتی ہیں اور جنت میں اپنے مقامات دنیا سے دیکھ لیتی ہیں۔ اور محبوں اور عاشقوں کی روحیں مقام کشف اور مشاہدات جمال میں مستغرق اور محو رہتی ہیں۔

اوصاف روح:

عین القضات کی تمہیدات سے نقل ہے: "اَلْأَرْوَاحُ جُنْدٌ مِّنْ جُنُوْدِ اللہِ تَعَالٰی لَیْسَ بِمَلَائِکَۃٍ، لَھُمْ رُؤُوْسٌ وَّ أَیْدٍ وَّ أَرْجُلٌ یَّأْکُلُوْنَ الطَّعَامَ" ”ارواح اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہیں، یہ فرشتوں جیسی نہیں، ان کے سر، ہاتھ اور پاؤں ہوتے ہیں۔ اور یہ کھانا کھاتی ہیں“۔ رسالہ مرصاد سے نقل ہے کہ روح کی سات صفتیں ہیں: (1) نورانیت، (2) محبت، (3) علم، (4) حلم، (5) انس، (6) بقا اور (7) حیات۔ اور ان صفتوں میں سے ہر ایک صفت سے دوسری صفتیں پیدا ہوتی ہیں۔ چنانچہ نورانیت سے تین صفتیں پیدا ہوئیں: سمع، بصر اور تکلم۔ اسی طرح محبت سے بھی تین صفت موجود ہوئیں: شوق، طلب اور صدق۔ علم سے دو صفتیں ارادت و معرفت ظاہر ہوئیں۔ حِلم سے چار صفتیں وجود میں آئیں: وقار، حیا، تحمل اور سکوت۔ اسی طرح اُنس سے دو صفتیں پیدا ہوئیں: شفقت اور رحمت۔ اور بقا سے بھی دو صفتیں: ثبات و دوام عالم وجود میں آئیں۔ اور حیات سے دو صفتیں: عقل و فہم کا تولد ہوا۔ اور روح کی دیگر دو صفتیں ہیں، ایک قوتِ مدرکہ، دوسری قوت محرکہ، اور دوسرے لفظوں میں اسے نظری اور عملی بھی کہتے ہیں۔ روح کی سعادت اور خوش نصیبی یہ ہے کہ ان دو قوتوں سے تمام کمالات کے ساتھ کام کرے۔

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب سعادت نامہ میں لکھا ہے کہ جو نقش یا تحریر تختی پر لکھی جائے، جب اُس پر دوسرا نقش یا تحریر لکھی جائے تو پہلی تحریر دوسرے کو قبول نہیں کرتی اور دونوں گڑ بڑ ہو جاتی ہیں، لیکن روح میں کئی ہزار نقش بنتے ہیں، اور یہ نقوش ایک دوسرے کے ساتھ کوئی آمیزش نہیں کرتے اور نہ خراب و باطل ہوتے ہیں۔

روح کی ایک دوسری صفت :

مرصاد نام کے ایک رسالے میں کہا گیا ہے کہ روح سب سے پہلے محبت کی ایک صفت سے پرورش پا چکی ہے، ورنہ اُس کی کیا طاقت تھی کہ ﴿وَ یُحِبُّوْنَہٗ…﴾ (المائدۃ: 54) کی دولت سے سرفراز ہوتی۔ رسالہ مرصاد سے نقل کیا گیا ہے کہ حق کے ساتھ وصال حاصل کرنا روح کے لیے عشق و محبت کے وسیلے کے بغیر ناممکن ہے، کیونکہ روح کی مثال ظلمت کی سی ہے۔ کہا گیا ہے: "إِنَّ اللہَ خَلَقَ الْخَلْقَ فِيْ ظُلْمَۃٍ" (سنن الترمذي بمعناہ، أبواب الإیمان، باب: افتراق ہذہ الأمۃ، رقم الحدیث: 2642) ”اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ظلمت (تاریکی) میں پیدا کیا ہے“۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ کی روح پاک احدیت کے نور کے پرتو سے ہے تو اس کو ظلمت و کدورت سے کیسی تشبیہ دی جاتی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ذات احدیت لطف و قہر دونوں سے موصوف ہے، جو کچھ روح میں نورانیت اور صفائی ہے وہ لطف کا پرتو ہے اور جو کچھ ظلمت تاریکی و کدورت ہے وہ قہر کا اثر ہے۔

شیخ واسطی کے رسالے میں آیا ہے: "خَلَقَ اللہُ الْأَرْوَاحَ مِنْ نُّوْرِ الْجَلَالِ وَ الْجَمَالِ فَلَوْ لَا أَنَّہٗ سَتَرَ لَسَجَدَ لَہَا کُلُّ کَافِرٍ" ”اللہ تعالیٰ نے ارواح کو اپنے جلال و جمال کے نور سے پیدا کیا ہے، اگر اس کو مستور اور پوشیدہ نہ رکھتا تو سب کافر اس کو لامحالہ سجدہ کرتے“۔ رسالۂ نور الارواح سے نقل ہے کہ روح کا فعل حجاب کو جلانا ہے اور اُس کا کہنا "أَنَا الْحَقُّ" ہے۔ حق بغیر کسی واسطے کے سننا ہے۔ اور حق کو بغیر کسی حجاب اور پردے کے دیکھنا ہے اپنے نفس کو بغیر دیت اور خون بہا ادا کرنے کے قتل کرنا ہے۔ اُس کے دیکھنے سے آنکھیں بے بس اور عقل اُس موتی کی معرفت اور شناخت سے قاصر ہیں۔ عارف اُس کو دیکھتے ہیں مگر حقیقت میں اُس کو نہیں جانتے، جو کوئی اُس کو دیکھتا ہے گویا حق کو دیکھتا ہے، جس نے اُس کو پہچانا حق کو پہچانا۔ "مَنْ عَرَفَ رُوْحَہٗ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”جس نے اپنی روح کو پہچانا اُس نے اپنے رب کو پہچانا“۔ روح حکم کرتے وقت حاکم ہے اور عبودیت میں منفرد مقام رکھتی ہے۔ اور اُس کے غور و فکر میں مصروف و محو رہتی ہے، لیکن حق کے دیکھنے سے حجاب میں ہے۔ روح شیشے کی مانند ہے، حق اس کے ساتھ ہے، اور حق اُس کے بغیر ہے۔ (حق با او ہست و حق بے او ہست) ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّيْ…﴾ (الإسراء: 85) نے اس کو اشکال سے جدا اور ممیز کر دیا۔ بیت

؎ بیش ازیں وصف روح نتواں کرد

فہم آں در ضمیر کے گنجد

’’اس سے بڑھ کر روح کی کیا تعریف کی جا سکتی ہے کہ اس کا فہم کسی کی ضمیر میں کب آتا ہے‘‘۔

شمائل اتقیاء میں رسالۂ مرصاد سے نقل کیا گیا ہے کہ روح جب قالب سے پیوست نہ ہوئی تھی تو وہ ایک بچہ تھا۔ روح کی تجلی جو کہ حق کے قرب کا سبب ہے، اُس تجلی کا استحقاق نہیں رکھتا تھا، جلال کے لطف کی غذا سے پروش پاتا تھا۔ اگرچہ علوم روحانیت کے معارف کے کلیات سے آگاہ تھا لیکن متنوع غذاؤں کے کھانے سے جو کہا ہے کہ "إِنِّيْ أَبِيْتُ يُطْعِمُنِيْ رَبِّيْ وَ يَسْقِيْنِيْ" (الصحیح للبخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ، باب: ما یکرہ من التعمق و التنازع فی العلم، رقم الحدیث: 7299) ”میں اپنے رب کے پاس پرورش پاتا ہوں، جو مجھے کھلاتا ہے، اور مجھے پلاتا ہے“ اس سے محروم تھا۔ عالم شہادت کی کلیات و جزئیات کا ادراک انسانی حواس بشری قوتوں اور نفسانی صفتوں کے بغیر محض روح کے لیے ممکن نہ تھا، ہاں تو جب روح نے قالب کے ساتھ اتصال کیا تو وہ ابھی بچہ تھا۔ پہلے اُس نے اوامر و نواہی کی غذا سے پرورش پائی تاکہ نفسانی حرکتوں اور برائیوں کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائے۔ اُس کے بعد طریقت اور حقیقت کے سینے کے دو پستانوں سے اُس کو دودھ دیا گیا، یہاں تک کہ عقل کے بلوغ کو پہنچ گیا، اور شیخ (مرشد) کے ساتھ عہد و پیمان (ارادت) کے نتیجے میں تصفیہ اور تزکیہ حاصل کر گیا، یہاں تک کہ غیبی خطابات اور اُن کے متعلقہ جوابات کا مستحق ہو گیا۔ بیت

؎ اگر خواہی کہ چشم جان شود باز

برو جان بر کمال دانش انداز

’’اگر چاہتے ہو کہ تمہاری روح کی آنکھیں کھل جائیں تو عقل کے کمال کے حصول میں جان کھپاؤ‘‘۔ بیت

؎ چو شد وقوف بر اسرار و قلب و روح کنون

حصول معرفتِ حق بود زنور عقول

’’جب قلب و روح کی اسرار پر اب بات موقوف ہو گئی، تو معرفت حق کا حاصل کرنا عقل کے نور سے ہوتا ہے‘‘۔

انسانی عقلوں کے تنوع اور رنگا رنگی جس سے انسان مخصوص ہے، کے بیان میں

رسالہ اسرار اللہ سے یہ بات نقل کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوق سے عقل کی وجہ سے مخصوص و ممتاز کیا ہے، تاکہ عقل کی وجہ سے حق و باطل میں فرق کر سکے۔ عقل روح کی وزیر ہے اور جسم کی خزانچی، وحی و الہام کی کاتب اور اخلاقیات کے دفتر کی لکھنے والی، اخلاق کی مربی، معلم، حواس کو تہذیب دینے والی، انفاس کو ادب سکھانے والی، وسوسوں اور شکوک کو دور کرنے اور جھٹکنے والی اور کدورتوں اور میل کچیل کو دھونے والی ہے۔ اور عقل نہ ہوتی تو انسان عبودیت کے راستے اور صراط مستقیم پر نہ ہوتا، عقل ملکوت کے کارخانے کی نقاش ہے، جو کچھ بزرگوں سے سن لیتی ہے تو اس کے وسیلے سے خیال اُس کا لطف اٹھا کر پہچان لیتا ہے اور اُس کے وجود کو اپنے ڈبے میں نقل کرتا ہے، "کَذَا مِنْ شَمَائِلِ أَتْقِیَاءَ"۔

عقلیں چار ہیں: عزیزی، الہامی، مجازی اور حقیقی۔ عزیزی وہ فکر و دانش ہوتی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے انسان میں ودیعت فرمائی ہے تاکہ اس کے ذریعے نیک اور بُرے اعمال میں تمیز کرے، اور تمام جانوروں میں سے صرف آدمی اس کے لیے مخصوص ہے۔ اور عقل عزیزی کا مقام دِماغ میں ہے اور یہ دل کی حالت کی محتاج ہے، وہاں سے علوم الٰہی حاصل کرتی ہے۔ اور کم و بیش ہوتی ہے کیونکہ یہ مستقل حالت پر نہیں ہوتی، مگر فی نفسہ مستقل ہوتی ہے۔ (2) عقل الہامی فرشتوں کی مخاطبت ہوتی ہے، جو کہ لحظہ بہ لحظہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور اُس کی برکت سے افعال حق کو افعال خلق سے اور صنائع اور تقدیر الٰہی کو پہچان لیتے ہیں، اور اُس کو جاری کرتے ہیں، اور اس عقل الہامی کے نور سے آیات قرآن میں سے بیش از بیش فیض حاصل کرتے ہیں اور قدیم کو حادث سے جدا کرتے ہیں اور اس کے متعلقہ حالات کو علیحدہ کرتے ہیں۔ اس عقل کا فعل دل میں ہوتا ہے، اگر یہ نہ ہوتی تو شیطان دل کو تکلیف دے دیا کرتا اور دل کتاب و سنت اور شریعت سے بالکل آگاہ نہ ہوتا جو کہ حقیقت کے موافق ہے۔ (3) عقل مجازی ایک ادراک ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے دل کی جبلت میں پیدا کیا ہے، اور دل انقلاب پذیر ہوتا ہے، اپنے ارادے سے کبھی غصّہ اور قہر میں پڑ جاتا ہے، اور کبھی لطف و رافت میں۔ اس مجازی عقل کی حالت ہمیشہ ایک طرح کی نہیں ہوتی، جو مجازی عقل قائم ہوتی ہے تو کسی طاعت سے اُس میں نقصان نہیں پڑتا۔ اور جو مستغرق ہو تو مناہی اور امور ممنوعہ سے سر باہر نکالتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہو کہ قضا و قدر کو بشری دُنیا میں قائم کرے تو اس عقل کو دل میں اطمینان سے سرفراز کرتا ہے۔ (4) عقل حقیقی وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے قبل محض اپنے نور سے پیدا کیا ہے اور اُس سے خطاب کیا ہے اور ربوبیت کے عجائب اُس کو دکھائے ہیں، تاکہ وہ عبودیت میں مضبوط رہے۔ اور ایجاد کرنے کے بعد اُس کو عالم جسمانی میں بھیج دیا اور روح کو عطا کر دیا، اس عقل کا مقام روحِ مقدس ہے اور موحدوں کی زندگی کلی طور پر اس سے قائم ہے۔ اور تمام انسانوں میں ظاہر ہے، تاکہ ہر گھڑی روح ناطقہ اس کو سونگھ لیا کرے اور بقاء جاودانی حاصل کیا کرے اور نور تجلی سے مزید انوار حاصل کرے تاکہ حق کے پاس رہے۔

عام معرفت عقل عزیزی کے جوہر کی وجہ سے حاصل ہے جو کہ اتنا زیادہ نہیں، اور معرفت خاص عقل الہامی کے طفیل سے ہے۔ اور معرفت خاص الخاص عقلِ کل کی وجہ سے ہے، اور یہ عقل حقیقی ہے جو کہ مسند حق کا غیب کے دروازے پر خلیفہ ہے۔ شمائل اتقیاء میں ایسا ہے۔

عقلِ کل کی صفت:

نور الٰہی کے معارف میں ایک موج ہوئی جس کا نام عقلِ کل، عشق و قلم اور نورِ محمد ہوا۔ یہی بات اس طرح شمائل اتقیاء میں ہے۔ اور شیخ احمد کے مکتوب میں آیا ہے کہ "اَلْعَقلُ الْکُلِّيُّ نُوْرٌ یُّفِیْضُ عَلٰی قَلْبِ الْمُحِبِّ مِنَ المَحبُوبِ فَیُنَوِّرُ بَاطِنَہٗ وَ یَصْفُوْا لَطَائِفَہٗ فَحِیْنَئِذٍ یَّصِیْرُ عِلْمُہٗ فَانِیًا فِيْ عِلْمِ الْمَحْبُوْبِ، فَبِعِلْمِہٖ یَعْلَمُ الْأَشْیَاءَ وَ بِبَصَرِہٖ یُبْصِرُ الْأَشْیَاءَ وَ بِسَمْعِہٖ یَسْمَعُ الْأَصْوَاتَ وَ فِيْ ہٰذِہِ الْحَالَةِ یَتَبَدَّلُ أَوْصَافُہ الذَّمِیْمَۃُ بَالاوْصَافِ الْحَسَنَۃِ وَ یَحْصُلُ لَهٗ شُعُوْرٌ تَامٌ مِّنْ عِنْدِ اللہِ وَ شَوْقٌ کَامِلٌ یَّتَوَاجَدُ بِہٖ" ”عقلِ کلی ایک نور ہے جو کہ محبوب کی جانب سے محب کے دل پر نازل ہوتا ہے تو اس کے باطن کو نورانی بنا دیتا ہے، اور اس کے ظاہر کو پاک و صاف بنا دیتا ہے۔ اسی عالم میں اس کا علم محبوب کے علم میں فنا ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اُس کے علم سے اشیاء کو جانتا ہے، اور اُس کی آنکھ سے اشیاء کو دیکھتا ہے، اور اُس کے کان سے سُنتا ہے، اور اس حالت میں اُس کی بُری صفتیں اچھی صفتوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور اُس کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے شعور تام حاصل ہو جاتا ہے، اور اُسی کی وجہ سے کامل عشق پا لیتا ہے۔“

رسول اللہ ﷺ سے حدیث میں روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقل کو نور سے پیدا فرمایا اور اُس کو اپنے علم کے پردے میں محفوظ رکھا کہ نہ تو کسی فرشتے کو اُس کا علم ہوا اور نہ کسی پیغمبر کو۔ پھر اس کے لیے علم کو تن مقرر فرمایا۔ فہم کو اُس کی جان، زہد و تقویٰ کو اُس کے اسرار، اخلاص کو اُس کا چہرہ، شرم کو اُس کی آنکھ، خیر، نیکی اور سچ بولنے کو اُس کی زبان، تواضع کو اُس کی گردن اور ہوشیاری کو اُس کا گلا بنایا۔ اچھے کاموں کی پسند کو اُس کا سینہ، تفویض کو اُس کا دل، خود پسندی کو اس کا پیٹ، توکل کو اُس کی پشت (پیٹھ)، سعادت کو اس کے ہاتھ، مواصلت کو انگلیاں، پرہیز کرنے کو اُس کا چمڑا، فصل اور جدا کرنے کو اُس کی پنڈلیاں، استقامت کو اُس کے پاؤں، خوف و ترس کو اُس کا نچھلا دھڑ اور اُمید و رجا کو اُس کا اوپر دھڑ بنایا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اُس کو کہا کہ مجھ سے اپنی حاجت طلبی کر، تو عقل نے عرض کیا یا الٰہی! اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما جس میں تو مجھے رکھے۔ خداوندِ جلیل و جبّار کی جانب سے آواز آئی کہ اے میرے فرشتو! تم اس بات کے گواہ رہنا کہ میں نے اُس شخص کو بخش دیا، جس شخص میں میں نے عقل کو ان اوصاف کے ساتھ رکھ دیا اور فرمایا: ﴿وَ أَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَ نَهَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَإِنَّ الْجَنَّۃَ ھِيَ الْمَاْوٰی﴾ (النازعات: 49-40) ”جس نے اپنے رب کے آگے کھڑے ہونے کے وقت اور حالت کا خوف کیا، اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے بچائے رکھا، تو اُس شخص کی آرام گاہ جنت ہے“۔ (لم أقف علی ہذا الحدیث)

اور عقل کی تخلیق کے برعکس ہوا (یعنی خواہشاتِ بد) کو پیدا کیا، جہالت کو اُس کا تن، غفلت کو اُس کی جان، اُمیدوں کو اُس کا سر بنایا، ریاکاری کو اُس کا چہرہ، شہوت کو اُس کی آنکھ، کبر و غرور کو اُس کی گردن، بیہودہ پن کو اُس کے کان، غرور کو اُس کا سینہ، لالچ کو اس کا منہ، جھوٹ کو اُس کی زبان، حسد کو اس کا دل، فسق کو اُس کا چہرہ، حرص کو اُس کا پیٹ، ظلم کو اُس کی پیٹھ، پلید کاری کو اُس کی شرم گاہ، فراموشی اور بھولنے کو اُس کی پنڈلیاں بنائیں۔ اب جو کوئی عقل رکھتا ہو اور ہوا و ہوس کے مطابق اعمال بجا لائے، وہ بھی ویسا تصور ہوگا، کہ اُس نے ہوا اور اپنی خواہشات کو اپنا خدا تسلیم و مقرر کیا ہے۔ اور جو کوئی اپنی خواہشات کے تحت عمل کرے تو ہاویہ (دوزخ) اُس کا مقام ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اطلاع ہم کو عطا فرمائی ہے: ﴿مَنِ اتَّخَذَ إِلٰھَہٗ ھَوَاہٗ…﴾ (الجاثیۃ: 23)

حدیث میں ہے کہ عاقل کون ہے عاقل وہ ہے جو کہ دنیا کے ساتھ محبت نہ کرے، اور آزاد وہ ہے جو کسی بندہ سے طمع نہ کرے۔ اور جو کوئی اللہ تعالیٰ کے بغیر مشغول ہو، اگرچہ وہ حلال فعل ہو تو وہ زیاں کار ہے اور اُس کو عاقل نہیں کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿يَآ أَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَ لَآ أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللهِ ۚ وَمَنْ يَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَأُولٰٓئِكَ هُـمُ الْخَاسِرُوْنَ (منافقون: 9) ”اے وہ لوگو! جو کہ ایمان لا چکے ہو، تم کو تمہارے مال و اولاد اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہ کریں۔ اور جس کسی نے ایسا کیا تو وہ زیان کار اور نقصان یافتہ ہے“ عقل معرفت کی وزیر و مشیر ہے اور اُس کا مقام دل میں ہے۔ اور عاقل اپنے گھر کو پاک و صاف رکھتی ہے تاکہ بادشاہ وہاں تشریف فرما کر نزول اِجلال فرمائے۔ اور امر و نہی عاقلوں کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بہترین اور بزرگ ترین نعمت اور محبت اُس کا اپنے بندوں کو عقل کا دینا ہے، پس باطن کے تمام اُمور عقل سے کیے جاتے ہیں۔ اور جو کچھ دل کے خزانے میں ہے، عقل کے نور کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب تک نور معرفت اور نور عقل دونوں اکھٹے نہ ہوں، تو عاقل نہیں ہو سکتا، بلکہ ﴿أُوْلٰئِکَ کَالْأَنْعَامِ بَلْ ھُمْ أَضَلُّ ۚ أُوْلٰئِکَ ھُمُ الْغَافِلُوْنَ﴾ (الأعراف: 179) ”وہ جانوروں اور چوپایوں جیسے ہیں، بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے ہیں، اور وہ غافل لوگ ہیں“ جس دل میں بُری باتیں زیادہ ہو جائیں، تو اچھی باتیں وہاں راہ نہیں پاتیں، کیونکہ یہ ایک مسلمہ بات ہے کہ "اَلضِّدَّانِ لَا یَجْتَمِعَانِ" ”دو ضدیں جمع اور اکھٹے نہیں ہو سکتیں“ اپنے ذمائم یعنی بُری باتوں کو حمائد یعنی نیک باتوں سے تبدیل کرنا، تاکہ تُو عاقل ہو جائے۔ قول سے عقل کی تحقیق ہونی ہے۔ اور عقلِ عزیزی کا مغز یہ ہے کہ جو کچھ ظاہر ہو جائے اُس کو پہچان جائے، اور حال کا کمال اور حال کا فہم باطن سے تعلق رکھتا ہے۔ بیت

؎ تو کہ بر معنیٰ عقل و دولت واقف شدی

بکنی فہم کنوں معرفت ذات و صفات کنی

’’تم عقل و دل کے مفہوم و معانی سے واقف ہو گئے ہو، تو اب خیال کرو اور ذات و صفات کی معرفت حاصل کرو‘‘۔