مقالۂ ششم
عقلی، نظری اور شہودی اور سلبی، ثبوتی اور ذاتی صفات کی معرفت اور خلوت اور رسالت پناہ ﷺ کے نفس کی عظمت اور جلالتِ شان کی معرفت اور عام عارفوں، خاص عارفوں اور خاص الخاص عارفوں کے شمائل اور معرفت کی حدود کے بارے میں
"قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذاریات: 56) أَيْ لِیَعْرِفُوْنِ" ”اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ میں نے انسانوں اور جنات کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں“ یعنی مجھے پہچان جائیں۔ اور کلماتِ قدسی میں آیا ہے یعنی حدیثِ قدسی ہے کہ "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِأُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ في الأخبار الموضوعۃ بمعناہ، رقم الحدیث: 353) ”میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پس میں نے مخلوق پیدا کی، تاکہ میں پہچانا جاؤں“ اب سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے علمِ معرفت کی تعریف اور عارفوں کے خصائل بیان کرتا ہوں اور اس کے بعد عارفوں کی دقیق باتیں بیان کروں گا۔
"طوالع" نام کے رسالے میں ہے کہ "اَلشَّرِیْعَۃُ أَقْوَالِيْ وَ الطَّرِیْقۃُ أَفْعَالِيْ وَ الْحَقِیْقَۃُ أَحْوَالِيْ" ”شریعت میں میرا قول ہے، طریقت میں میرا فعل اور حقیقت میں میرا حال ہے“ اور دوسری بات یہ ہے کہ "وَ الْمَعْرِفَۃُ رَاْسُ أَعْمَالِيْ" ”معرفت میرے سب اعمال کا سر ہے“ ایک محقق نے کہا ہے کہ "اَلشّرِیْعَۃُ أَقْوَالُ النَّبِيِّ مَعَ خَلْقٍ" ”شریعت پیغمبر ﷺ کی لوگوں کے ساتھ باتیں ہیں“ "وَ الطَّرِیقَۃُ أَفْعَالُ النَّبِيِّ مَعَ النَّفْسِ" ”طریقت پیغمبر ﷺ کا عمل ہے اپنے نفس کے ساتھ“ "وَ الْحَقِیْقَۃُ أَحْوَالُ النَّبِيِّ مَعَ اللہِ" ”حقیقت نبی ﷺ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ احوال ہیں“۔ رسول اللہ ﷺ کو خطاب ہوا کہ اے محمد! ﷺ جو کوئی شریعت کا بوجھ اُٹھاتا ہے تو اُس کا حساب تجھ پر ہے، اور جو کوئی طریقت اور حقیقت کا بارِ گراں برداشت کرتا ہے، اُس سے آپ فارغ ہو جائیں کہ اُس کا حساب ہم پر ہے۔ جناب شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اس سلسلے میں مبارک قول یہ ہے کہ شریعت اوامر کو پورے طور پر کرنا اور مناہی کو بالکل ترک کرنا ہے۔ اور طریقت اللہ کے بے انتہا ذکر پر قائم رہنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو چیز ہے، اس کی ہمیشہ کے لیے نفی کرنا۔
رسالہ غریب میں روایت ہے کہ شریعت جوارح کو پاک رکھنا یعنی اعضا کا تزکیہ ہے، اور یہ تزکیہ اوامر کے کرنے اور نواہی سے منع ہونے سے ہوتا ہے۔ اور طریقت دل کو صاف کرنا ہے اور دل کا یہ تصفیہ اس سے حاصل ہوتا ہے کہ تمام برے اخلاق کو اچھے اخلاق میں تبدیل کرنا۔ اور حقیقت روح کا تخلیہ ہے جو کہ ما سویٰ اللہ سے دل کو بالکل خالی کرنا ہوتا ہے۔ شریعت کے اعمال ظاہر سے تعلق رکھتے ہیں، طریقت کے اعمال باطن سے۔ اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "وَ قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: إِنَّ أَعْمَالَ الْبَاطِنِ خَیْرٌ مِّنْ أَعْمَالِ الظَّاھِرِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”اعمالِ باطنی کا ذرہ بھر بھی اعمال ظاہر کے بڑے اور زیادہ عمل سے بہتر ہے“۔
رسالۂ "زبدۃ الحقائق" سے نقل ہے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ شریعت، طریقت اور حقیقت سے آراستہ و پیراستہ ہو۔ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا ہے اُس کو قبول کرنا شریعت ہے، اور پیغمبر ﷺ نے جو کچھ کیا ہے اُس کو عمل میں لانا طریقت ہے، اور جو کچھ آپ ﷺ نے سُنا ہے، اس کو سننا حقیقت ہے اور اُس کا سننے والا اہل حقیقت میں سے ہے، جو کوئی یہ تینوں رکھتا ہے، تو وہ تینوں کو رکھتا ہے۔ اور جو کوئی دو رکھتا ہے، تو وہ دو رکھتا ہے اور جو کوئی ایک رکھتا ہے، وہ ایک رکھتا ہے۔ اور جو کوئی کچھ بھی نہیں رکھتا تو اُس کو کچھ بھی حاصل نہیں۔ جو گروہ تینوں شریعت، طریقت اور حقیقت رکھتے ہیں وہ کام والے اور کامل ہیں اور لوگوں کے پیشوا ہیں۔ اور جو گروہ تینوں نہیں رکھتے وہ ناقص ہیں اور جانوروں میں شامل اور داخل ہیں۔ انسان کا کمال چار چیزوں میں ہے: نیک اقوال، نیک افعال، نیک اخلاق اور نیک علم۔ اور جس شخص کے یہ ہوں تو اُس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، شیخ، مقتدا، ہادی، دانا، بالغ، کامل، مکمل، امام، خلیفہ، قطب، جامِ جام، جہاں نما، آئینہ گیتی وغیرہ وغیرہ۔ اور متقی لوگوں کے خصائل میں سے ہے کہ شریعت جسم کا شعار ہے، طریقت دل کا تاب ہے اور حقیقت جان کا لباس ہے اور اُس کا بیان مشکل ہے۔
حق اور حقیقت کے درمیان فرق یہ ہے کہ حق صفاتی ہے، اور حقیقت ذاتی، کیونکہ حق مجمل ہے اور حقیقت خاص ہے۔ جو کوئی شریعت کے بغیر طریقت کا ارادہ کرے وہ ایسا ہوگا کہ کوئی چھت پر جانے کا ارادہ کرے اور سیڑھی کے بغیر جانا چاہے، وہ اپنے آپ کو دیوار سے گرائے گا، اور چھت کو خراب کرے گا، جتنا کہ اوپر جانے کی کوشش کرے گا اتنی ہی دفعہ گر جائے گا۔ اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ایسا ہوگا کہ کوئی شخص ایک پتھر کو کسی طریقے سے ہوا میں پھینکے تو تھوڑی دیر بعد وہ واپس گر پڑے گا، اور زمین پر واپس آئے گا۔
اُصول الشاشی سے نقل ہے کہ "کُلُّ لَفْظٍ وَّضَعَہٗ وَاضِعُ الْلُغَۃِ بِإِزَاءِ شَيْءٍ فَھُوَ حَقِیْقَۃٌ لَّہٗ" (رقم الصفحۃ: 42، دار الکتاب العربي، بیروت) "کَالْإِنْسَانِ وَ الْأَسَدِ" ”وضع کرنے اور مقرر کرنے والے نے جو لفظ کسی چیز کے لیے بنایا، اور وضع کیا ہے، تو وہ حقیقت ہے، جیسا کہ انسان اور شیر“ کہ ہر دو لفظ انسان اور شیر کے لیے حقیقت ہیں، اور ان کی دوسری چیز کے لیے اضافت کرنا جائز نہیں۔ اسی طریقہ پر حقیقت ذاتی ہے اور حق صفاتی ہے، اور وہ مجمل ہوتا ہے۔ شریعت میں رخصتوں پر عمل کرنا ہوتا ہے، اور طریقت میں عزیمت پر۔ اصول الشاشی میں ہے کہ "اَلْعَزِیْمَۃُ ھِيَ الْقَصْدُ" (رقم الصفحۃ: 383، دار الکتاب العربي، بیروت) ”عزیمت قصد ہے“ یعنی دل کو ایک کام پر آمادہ کرنا اور اُس کے کرنے کی تاکید کرنا۔ "وَ الرُّخْصَۃُ فَعِبَارَۃٌ عَنِ الْیُسْرِ وَ السَّہُولَۃِ" (رقم الصفحۃ: 385، دار الکتاب العربي، بیروت) یعنی رخصت شرع میں آسانی اور نرمی کو کہتے ہیں۔ چنانچہ شریعت میں یہ رخصت ہے کہ دورانِ سفرِ افطار کرے، یعنی روزہ نہ رکھے اور عزیمت یہ ہے کہ روزہ رکھے۔ اور یہ رخصت ہے کہ چہار رکعت کی بجائے دو ادا کرے مگر یہ عزیمت ہے کہ چار رکعت ادا کرے۔ یہ رخصت ہے کہ مجبوری کے وقت کلمہ کفر کہے اور رسول اللہ ﷺ کو بُرا کہے مگر عزیمت یہ ہے کہ اپنے آپ کو قتل کرائے مگر کلمۂ کفر سے بچا رہے کیونکہ یہ کلمے نہ کہنا مغفرت اور جزاء کا سبب ہے۔ اور جو شخص طریقت میں شریعت کے مطابق نہ ہو وہ طریقت کی نعمت سے محروم اور بے بہرہ ہوتا ہے۔
رسالۂ سعیدی میں کہتے ہیں کہ شریعت دُنیا کو ترک کرنا اور طریقت ترکِ عقبیٰ ہے اور حقیقت ما سویٰ اللہ کو چھوڑنا ہے۔ اور اپنے مولیٰ تک پہنچنا ہے۔ شریعت کپڑوں اور جسم کی ظاہری پلیدی اور نجاست سے حفاظت کرتی ہے اور طریقت دل کی بشری کدورت اور برائیوں سے حفاظت اور بچاؤ ہے اور حقیقت میں ما سویٰ اللہ سے دل بالکل دھو کر صاف کرنا ہوتا ہے۔ شریعت سے طریقت تک جانا خواص کا کام ہے اور طریقت سے حقیقت کی طرف جانا خاص الخاص لوگوں کا شیوہ ہے۔ شریعت یہ ہے کہ حق کی نافرمانی نہ کرے، کسی پر بد گمانی نہ کرے اور قرآن سنتے ہوئے اور اذان کے وقت باتیں نہ کرے، لوگوں کی عیب جوئی نہ کرے اور طریقت یہ ہے کہ آئندہ اور گذشتہ کے بارے میں لا یعنی باتیں نہ کرے اور اتنا مجاہدہ نہ کرے کہ عبادت اور طاعت سے رہ جائے۔ اور ارباب حقیقت کا عمل یہ ہے کہ سچی اور جھوٹی قسمیں نہ اُٹھائے دوسری یہ کہ سچی جھوٹی باتیں نہ کہے۔ تیسری یہ کہ سچا اور جھوٹا وعدہ نہ کرے۔ چوتھی بات یہ کہ سچی اور جھوٹی گواہی نہ دے۔ پانچویں بات یہ کہ بغیر وضو کے نیند نہ کرے۔
شمائل اتقیاء اور شیخ شرف منیری کے مکتوب میں شریعت اور حقیقت کے بیان میں لکھا گیا ہے کہ اس قوم کے لیے شریعت اور طریقت عبادت ہے جیسا کہ حق و حقیقت۔ ظاہری حالت کی صحت کو شریعت کہتے ہیں اور باطن کی حالت کی صحت کو حقیقت کہتے ہیں۔ اور ظاہر باطن سے جدا کوئی علیحدہ بات نہیں۔ جیسا کہ بغیر قول اور اقرار کے تصدیق کرنا ایمان نہیں ہوتا۔ اور اسی طرح بغیر تصدیق کے قول "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" حقیقت ہے اور "مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ" شریعت ہے۔ اگر صحت کی حالت میں کوئی چاہے کہ ایمان جدا کیا جائے تو نہیں کر سکتا، اور ایسا کرنا غلط ہوگا، لیکن حکم میں شریعت حقیقت سے جدا ہے کیونکہ قول اور تصدیق کا فرق ظاہر ہے۔ اور علماء ظاہر کہتے ہیں کہ فرق نہ کیا جائے کیوں کہ شریعت خود حقیقت ہے اور حقیقت شریعت ہے، اور یہ غلط بات ہے۔ اور یہ ملحدوں کا مذہب ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر روا ہو، وہ کہتے ہیں کہ جب حقیقت کا حال ظاہر اور واضح ہو تو شریعت ختم ہو کر اُٹھ جاتی ہے، اس اعتقاد اور مذہب پر لعنت ہو۔ پس جان لو کہ حقیقت عبارت ہے اُس معنیٰ سے جس کا منسوخ ہونا جائز نہ ہو، اور آدم علیہ السلام سے دنیا کے فنا ہونے تک یہ حکم برابر ہے، جب کہ معرفتِ حق اور شریعت عبارت ہے اُس معنیٰ سے کہ جس میں نسخ اور تبدیلی جائز ہو، جبکہ احکام اس وقت ہوتے ہیں جب شریعت نہیں ہوتی، اور اُس وقت ہوتے ہیں جب شریعت نہیں ہو گی لیکن اُس وقت احکام نہیں ہوتے جبکہ حقیقت نہ ہو، پس شریعت بندے کا فعل ہے اور حقیقت اللہ تعالیٰ کی حفاظت، عصمت، اور نگہداشت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا…﴾ (العنکبوت: 69) ”جو کوئی کوشش کرے تو ہم اُس کو خود اپنا راستہ بتلا دیتے ہیں“ مجاہدہ اور کوشش شریعت ہے اور ہدایت حقیقت ہے۔ شریعت بندے کا احکام ظاہری کا اپنے اوپر محافظت کرنا ہے اور دوسری چیز (حقیقت) اللہ تعالیٰ کا بندے کے احوال باطن کی حفاظت عصمت کرنا ہے۔ پس شریعت مَکاسب یعنی کسب و عمل ہے اور حقیقت مواہب یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا و فضل ہے۔ شریعت مادہ کی طرح اور حقیقت قلب کی طرح ہے اور مادہ کا قوام قلب سے ہے، اور قلب کی منزل مادہ ہے۔ پس شریعت قالب کی طرح اور حقیقت روح کی طرح ہے۔ چنانچہ انسان کی زندگی ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں، اسی طرح ایمان کی موجودگی اور صحت کی حالت میں حقیقت کے بغیر شریعت اور شریعت کے بغیر حقیقت بھی محال ہے۔ اور یہ ایک ایسا گروہ ہے جو کہ علم شریعت اور حقیقت کے ساتھ مخصوص ہے، اور یہ معاملات اور عمل و کردار میں شریعت و حقیقت کے عامل ہوتے ہیں نہ کہ صرف مقالات اور گفتگو کی حد تک اس کے قائل ہوتے ہیں۔
اور علمِ حقیقت کے تین رکن ہیں: پہلا رکن اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کا علم اور اُس کی وحدانیت کو جاننا اور اُس کے مشابہ اور مثال کی نفی، دوسرا رکن اللہ تعالیٰ کی صفات و احکام کا علم اور تیسرا اُس کے افعال و حکمت کا علم۔ اور اسی طرح علم شریعت کے بھی تین رکن ہیں: ایک کتاب، دوسرا سنت، تیسرا اجماع امت۔ علمِ حقیقت کی اقامت شریعت کے بغیر زندیقوں کا فعل ہے اور علم شریعت کی اقامت حقیقت کے بغیر نفاق ہے۔ اور طریقت سے مراد یہ ہے کہ دل آئینہ کی طرح ہو جائے اور آئینے کی طرح منور، شفاف اور صاف ہو جائے اور عوام کے زمرہ سے بڑھ کر خواص کی صفت سے موصوف ہو جائے۔ اور طریقت یہ ہے کہ ان معاملات کی حقیقت اور ان مشروعات کے حالات معلوم کر لیے جائیں اور ضمیر کی صفائی اچھے اعمال و کردار سے کی جائے اور طبعی کدورت و کثافت سے اخلاق کو صاف اور پاک کیا جائے۔ طبعی کدورت اور کثافت ریا، ہوا و ہوس، جفا اور شرک اور اس جیسی دوسری خباثتیں ہیں۔ اس قسم کی صفائی، تہذیب و تطہیر جو کہ ظاہر کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، شریعت ہے اور جو کچھ باطن کے تزکیہ اور صفائی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، وہ طریقت ہے۔ مثلًا کپڑوں اور لباس کو پلیدی سے پاک کرنا شریعت ہے اور بشری کدورتوں سے دل کو صاف و پاک کرنا طریقت ہے۔ پس نماز کے لیے وضو کرنا شریعت ہے اور ہمیشہ با وضو رہنا طریقت ہے۔ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا شریعت ہے اور دل کا رُخ ہمیشہ کے لیے قبلہ کی طرف رکھنا طریقت ہے۔ جو کچھ حواسِ ظاہری کے تحت آئے، اس کی رعایت کرنا شریعت ہے اور جو کچھ قالب کے پردے کے اندر ہے اُس کا خیال کرنا طریقت ہے۔