مقالۂ پنجم
اللہ تعالیٰ کی محبت کے بارے میں
دوسری مخلوقات کا محبت سے کوئی واسطہ نہیں تھا کیونکہ وہ اس کی ہمت نہیں رکھتے تھے, اور ملائکہ، کہ امور کی درستگی اُن کے ذمہ ہے، ان سے محبت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا ہے، اور انسانوں میں جو یہ نشیب و فراز اور اونچ نیچ واقع ہے، یہ سب کچھ اس وجہ ہے کہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ…﴾ (المائدۃ: 54) ”اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ محبت کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں“ پس جس کسی کے دماغ میں محبت کی ذرا سی خوشبو بھی پہنچی ہو تو اُس کو کہہ دیجیے کہ اب سلامتی کو الوداع کہہ دیجیے، اور اپنے آپ سے ہاتھ دھو ڈالیے کیونکہ "اَلْمَحَبَّۃُ لَا تُبْقِيْ وَ لَا تَذَرُ" ”محبت کسی چیز کو بھی باقی نہیں رکھتی اور نہ کسی چیز کو چھوڑتی ہے“ بیت
؎ عشق تو مرا چنیں خراباتی کرد
ورنہ من بہ سلامت و سامان بودم
’’تمہاری محبت نے مجھے ایسا مدہوش بنا کر رکھ دیا، ورنہ میں صحیح و سالم تھا‘‘۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کی نوبت آئی تو تمام کائنات میں جوش و خروش اور شور مچ گیا اور فرشتوں نے احتجاجًا کہا کہ یہ کیا ہوا کہ ہمارے اتنے ہزار سالوں کی تسبیح و تہلیل رائیگاں ہوئی اور آدم خاکی کو نکال کر ہم پر مسلط اور منتخب کر لیا؟ انہوں نے ایک آواز سُنی کہ تم اُس کے خاکی جسم کو نہ دیکھو، تم اُس کی اُس خاص ودیعت اور جبلت کو نگاہ میں رکھو کہ ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ…﴾ (المائدۃ: 54) کہ خدا خود اُن سے محبت کرتا ہے اور وہ بھی اُس کی محبت کا دم بھرتے ہیں۔ اُن کے دلوں میں محبت کی آگ لگا دی گئی ہے اور آواز لگائی گئی ہے کہ "اَلْحَقُّ عَزِیْزٌ" تمام دل کباب ہو گئے اور تمام جگر پانی ہو کر کہہ رہے ہیں کہ یہ کیا ہوا؟ چنانچہ جیسا کہ وہ کسی کے مشابہ نہیں، اسی طرح اُس کے کام بھی کسی کے مشابہ نہیں۔ دیکھیے! دنیا کے بادشاہ اپنے خادموں کو خلعت، قبا و کلاہ عطا کرتے ہیں مگر جب وہ کسی کو نوازنا چاہے تو سب سے پہلے اُس سے کلاہ و قبا چھین لیتا ہے اور اُس کو بھوکا ننگا کرتا ہے۔ اس بات کی سنت، قاعدہ اور طریقہ یہ ہے کہ جب کسی کو اپنا درد عطا فرماتا ہے تو جب تک اُس کو اس درد میں فنا اور نابود نہ کرے اُس کو نہیں چھوڑتا۔ غوطہ زن اصحاب جب دریا میں اُترتے ہیں تو پھر جان کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ نہ تو یہ لوگ مچھلی کے طلب گار ہوتے ہیں جو موتی کی طرح قیمتی ہو، بلکہ ایسا کوئی گوہر ڈھونڈھتے ہیں جو کہ تاریک رات کو روشن کرے۔ یہ اپنے سر پر اور جان پر کھیلنے کا کام ہے، دکانداری اور تاجرانہ کام نہیں۔ وہ پاک طینت لوگ جانتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو یہ کام پیش آئے گا۔
حضرت جبرئیل علیہ السلام، حضرت عزرائیل علیہ السلام کے پاس آئے کہ اگر ہم پر ایسی حالت آ جائے تو میرے سر پر ہاتھ رکھو گے؟ اُنہوں نے کہا: "یہ میرا کام ہے، مجھ پر چھوڑ لیجیے اور میرا نام لکھ دیجیے" خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے سنا ہے کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہٰ: 5) ”اللہ تعالیٰ نے عرش پر مقام کیا ہے“ میں نے عرش پر جا کر پوچھا کہ اس کی کیا حالت ہے؟ معلوم ہوا کہ اُس کو (یعنی عرش کو) ہم سے زیادہ پیاس لگی ہے، وہ زبان حال سے کہتا تھا:
؎ در تہمت عشق تو منم فرسودہ
بے آنکہ مرا با تو وصالے بودہ
در سرزنش خلق منم بے ہودہ
چوں گرک شکم تہی دین آلودہ
’’عشق کے الزام میں تہمت یافتہ ہوا، حال آنکہ مجھے تیرا وصال نہیں، بے ہودہ طور پر لوگوں کی ملامت اور سرزنش کی زد میں ہوں، اور میں اُس بھیڑیے کی طرح ہوں، جس کا پیٹ خالی اور بھوکا ہو۔ مگر منہ پر خون یا خوراک کی آلودگی لگی ہو‘‘۔
جب تم اُس کے جلال کو دیکھو گے تو دیکھو گے کہ غم زدہ دلوں کی راحت بس یہی تو ہے۔ عارف حضرات اُس کے جلال کے سامنے آگ میں پگھل رہے ہیں اور محبت کرنے والے اُس کے جمال کی دید و مشاہدے سے شاد و مسرور ہیں، اور اس پر ناز کرتے ہیں۔ اور انہی لوگوں کا کہنا ہے کہ "اَلْمَعْرِفَۃُ نَارٌ وَّ الْمَحَبَّۃُ نَارٌ فِيْ نَارٍ" ”معرفت آگ ہے، مگر محبت آگ میں آگ ہے“ اور ساری دُنیا اس شور و غل سے بھری پڑی ہے۔ (بیت)
؎ در کوئی من ز عشق زہے شور و زہے شر
در کوئے تو ز حسن زہی کار زہی بار
’’میرے کوچے میں عشق کی وجہ سے کبھی شور اور کبھی شر ہوتا ہے۔ اور تیرے کوچے میں حسن و جمال کی وجہ سے کبھی مشکل اور کبھی باریابی ہوتی ہے‘‘۔
روایت ہے کہ ایک خوبصورت عورت تھی جس کے حسن و جمال کا ثانی نہیں تھا، بغداد کے بازار میں ایک دفعہ سورج کی طرح چمکتی دمکتی ہوئی نکل آئی، لوگوں کے درمیان شور و غل مچ گیا، ہر ایک شخص اس کے پیچھے دوڑنے لگا، وہ گھر چلی گئی اور دروازہ بند کر لیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ جب کسی سے وصال نہیں کرتی تو یہ دکھلاوا اور نمائش کس لیے؟ اُس نے کہا کہ مجھے لوگوں کی یہ پریشانی اور شور و غل پسند ہے۔ آسمان والے سرگرداں ہیں اور اہل زمین حیران و پریشان ہیں، اُس کے بغیر کسی کو قرار نہیں، اور اُس کے پاس جانے کا کوئی راستہ نہیں۔ روزانہ عرش کرسی سے پوچھتا ہے: "ھَلْ عِنْدَکَ اَثَرٌ؟" ”کیا تمہارے پاس کوئی خبر ہے؟“ آسمان زمین سے کہتا ہے کہ "ھَلْ مِنْ طَالِبِ رَبِّکِ؟" ”کیا کوئی اللہ تعالیٰ کا طالب ہے؟“ زمین آسمان سے پوچھتی ہے کہ "ھَلْ سَافَرَ فِیْکِ عَاشِقٌ؟" ”تمہارے ہاں کوئی عاشق آیا ہے؟“
اے بھائی! ہر کونے میں اُس کا دل جلا ہے اور ہر گوشے میں اُس کا مقتول ہے۔ وہ کونسی جان ہے جو اُس کے قد و جبروت سے پگھلی ہوئی نہیں اور کون سا دل ہے جو کہ اُس کے لطف و عنایت و نوازش کا مرہون نہیں؟ اگر درویشوں کی خلوت میں جا کر دیکھو گے تو اُسی کا شور پاؤ گے اور اگر شراب خانے کے گلی کوچے میں نظر کرو گے تو اُس کی نایافتگی کی طلب میں ایک عالَم کو سرگرداں و پریشان دیکھو گے، اور اگر عیسائیوں کے گرجے اور کلیسا میں جاؤ گے تو سب اُس کی تلاش و طلب کی خوشی میں از خود رفتہ نظر آئیں گے اور اگر یہودیوں کے کنشت اور معبد میں تمہارا گزر ہو تو وہ سب کے سب اُس کے جمال کے شوق میں ہوں گے۔ مثنوی
؎ ہزار عاشق آمد بہ طمع محبت ما
نثار کرد دل و دیدہ و خادماں مرا
ہمہ ز اندوہ ہجراں اوش سوختہ اند
کہ کس ندید و ندانست خود نشان مرا
’’ہماری محبت کی طمع اور لالچ کرتے ہوئے ہزاروں عاشق آئے، اور میرے خادموں پر دیدہ و دل نثار کرتے ہیں، سب اُس کے ہجر کے غم سے جل گئے ہیں، اور کسی نے نہ میری نشانی کو دیکھا اور نہ پہچانا‘‘۔
عرش پر یہی الزام پڑا کہ اُس کے بارے میں کہا گیا کہ ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰی﴾ (طٰہٰ: 5) اور وہ غریب یعنی عرش درد کی وجہ سے فریاد کرتا ہے کہ بیت ؎
تہمت زدۂ عشق یکے من اویم
جز خاموشی ام ہمے ندارد اویم
’’مجھ پر اُس کے عشق کی تہمت لگی ہے، اور بغیر خاموشی کے وہ مجھے کچھ نہیں کہتا‘‘۔
سبحان اللہ! سات لاکھ سال بیت گئے کہ اس آگ کی تپش روزانہ تیز ہوتی جاتی ہے اور ہر جانب ہزاروں لوگ سوختہ یعنی جلے ہوئے پڑے ہیں، ڈر ہے کہ کون و مکان نہ جل اُٹھیں اور معدوم نہ ہو جائیں۔ ازل سے یہ فروزاں ہے اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں، آب و خاک کی دولت میں کچھ کمی نہیں اور آدم و آدمیوں کا کام بھی تھوڑا نہیں، عرش، کرسی، لوح و قلم، آسمان اور زمین؛ سب اُس کے طفیل قائم ہیں۔
"اللہ تعالیٰ کی طرف راستے" کے عنوان سے ایک خط میں لکھا گیا ہے کہ لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی جانب وصول کے راستے کے بارے میں بایزید رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ "کَیْفَ الطَّرِیْقُ إِلَی اللہِ؟ فَقَالَ لِلسَّائِلِ: إِنْ غِبْتَ عَنِ الطَّرِیْقِ تَصِلُ إِلَی اللہِ" کہ اللہ تعالیٰ کی جانب کون سا راستہ ہے؟ تو اُنہوں نے سائل کو جواب دیا کہ اگر تم راستے سے غائب ہو جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاؤ گے۔ اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کوئی راستے کو دیکھتا ہے، خدا کو نہیں دیکھتا، اور ایک خود بین حق بین نہیں ہوتا۔ مجھے اور آپ کو اپنے آپ سے کام پڑا ہے، اور ہم اپنے سر اور داڑھی کی فکر میں ہیں، چونکہ ہم خود اپنے آپ کو دیکھتے ہیں اِس لیے ہم اپنے آپ کی پرستش کرتے ہیں، اور اگر ہماری نگاہ اپنی نادانی اور جہالت کی وحشت اور اپنے نفس کے بت پر پڑ جائے اور ہم ان کا خیال رکھیں تو پھر ہم ہرگز مسلمانی نہیں کریں گے۔ اور یہ نگاہ تم اُس وقت کر سکو گے کہ شریعت کے جام سے ایک قطرہ تمہاری زندگی کے منہ میں پڑ جائے اور تمہارے دل کی آنکھ کھل جائے تو پھر اُس وقت تم اس شعر کے معنی سمجھ جاؤ گے۔ فرمایا ہے: بیت ؎
توبہ کردم ز ہر چہ دانستم
نامہ چوں نام تو زبر کردم
’’جو کچھ میں جانتا تھا، اس سے بالکل توبہ کی، جب سے میں نے تمہارا نام یاد کیا‘‘۔
علماء نے کہا ہے کہ بے نیازی کا سورج جب علم اور علماء کے دریا پر چمک اُٹھا تو تمام دریاؤں میں ایک قطرہ تک نہ رہا۔ لوگوں نے کہا کہ اے صادق! تمہاری کلید (کنجی) سے تمام بندشیں کُھل جاتی ہیں، تمہارا دروازہ کیوں بند ہوا؟ تم کو علم ہے کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ ستاروں اور سیاروں کو اپنے وجود کا دعوٰی اُس وقت تک ہوتا ہے جب تک سورج کا بادشاہ نہیں نکل آتا ہے، جب سلطان آفتاب طلوع ہو جائے تو پھر کسی کے وجود کا دعویٰ باقی نہیں، نہ اُن کے دعوے ہیں، نہ چمک دمک اور نہ گلہ باتیں۔ اس حقیقت کو دیکھ کر یہ سمجھ لو کہ وجود کی ذات کی توحید کی برق کے سامنے کیا طاقت ہے، جب اُس کے علم کا آفتاب نمایاں ہو کے چمکے تو تمام علوم جہل بن جاتے ہیں، اور جب اُس کی ارادت کی روشنی ضیا پاشی کرے تو تمام ارادے نیست و نابود ہو جاتے ہیں، اور جب اس کی قدرت ضوفنائی پر اُتر آئے تو تمام قدرتوں کا ناطقہ بند ہو جاتا ہے، اور جب اُس کی عزت کا جلال رونمائی کرے تو تمام جلال اور تمام عزتیں ذلت کی مٹی میں مِل جاتی ہیں، اور جب اُس کی وحدانیت اپنے جمال سے پردۂ کبریائی سرکائے تو تمام موجودات عدم کے صحرا میں نابود ہو جاتے ہیں، جہاں تک تم سے ہو سکے، کچھ ہونے یا کچھ کر سکنے کا دعویٰ نہ کرو، اگرچہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت کچھ عطا فرمایا۔ اور تم کو سرمایہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیا ہے لیکن با ایں ہمہ تم اپنے آپ کو اور اپنی حیثیت کو فراموش نہ کرو، اور اپنی انانیت کے دعوے سے باز آؤ۔ یہ نہ کہو کہ میں ایسا ہوں اور ایسا دعویٰ رکھتا ہوں، ورنہ تمہارے ساتھ بھی وہی کچھ کرے گا جو کہ فرعون سے کیا تھا جس نے یہ بڑ ہانکی تھی کہ ﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی﴾ (النازعات: 24) ”میں تمہارا سب سے بڑا رب اور پالنے والا ہوں“ اور تمہارا نفس، جبہ و دستار کی آڑ اور پندار میں تم سے کہتا ہے کہ "أَنَا رَبُّکُمْ" ”میں تمہارا رب ہوں“ تمہارا نفس بھی وہی دعویٰ کرتا ہے جو دعویٰ فرعون کا نفس کرتا تھا لیکن فرعون کا نفس جیسا کہ وہ تھا برملا بلا کم و کاست اپنے آپ کو ظاہر کرتا تھا، مگر تمہارا نفس مسلمانی کے لباس میں تم سے کہتا ہے اور تم غرور اور دھوکے کے جام چڑھاتے رہتے ہو، تمہارے نفس کا بھی وہی دعویٰ ہے جو کہ فرعون کے نفس کا تھا لیکن تمہارے نفس کو جان کا خوف ہے، اگر وہ یہ دعویٰ کرے تو خطرہ ہے کہ برباد ہو جائے گا۔ یاد رکھو اور ہوش میں رہو کہ خداوند، آقا اور مالک نہ بنو، بلکہ غلام ہو کر رہو۔ کیونکہ یہاں توحید کی شمشیر بُراں نکالی گئی ہے، جو کوئی پیدا ہوتا ہے اُس کا سر قلم کیا جاتا ہے، چنانچہ ابلیس پیدا اور ظاہر ہوا تو اُس کا سر اُڑا دیا۔ بندہ اور غلام کی کچھ ملکیت نہیں ہوتی اور نہ اُس کی بادشاہی ہوتی ہے، چاہے جو کچھ کرے اپنے مالک کی اجازت سے کرے، نہ کہ اپنی مرضی اور اختیار سے کرے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے کہ ﴿ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَيْءٍ…﴾ (النحل: 75) ”اللہ تعالیٰ نے مثال دی ہے ایک مملوکہ بندے کی جو غیر کا مملوک اور بندہ ہے، اور کسی چیز کے کرنے کی قدرت نہیں رکھتا“
ایک عالم کے لیے معرفت چاہیے اور ایک پیرِ کامل کا سایہ چاہیے، کیونکہ ایک پیرِ کامل کے دربار کے بغیر علم و معرفت حاصل کرنا مشکل ہے۔ کہا گیا ہے کہ "مَنْ لَّمْ یَکُنْ إِمَامُہٗ فِي الدِّیْنِ فَإِمَامُہُ الشَّیْطٰنُ" ”جس کا کوئی امام اور مرشد دین میں نہ ہو تو اس کا امام شیطان ہوتا ہے“ اور علماء نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِلْمُ یُؤْخَذُ مِنْ أَفْوَاہِ الرِّجَالِ" ”علم لوگوں کی زبان سے حاصل کیا جاتا ہے“ جو کوئی اپنی مراد و خواہش سے اپنا معاملہ طے کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ ایک ہوشیار شخص کتاب سے یاد کرے اور پھر وہ کہہ ڈالے۔ اگرچہ وہ عالم ہوتا ہے مگر چونکہ بے اُستاد ہوتا ہے اس لیے ٹھیک نہیں ہوتا۔ پس یہ بات جان لو کہ جب تم نے توبہ کی تو تمہارا لقمہ بدل جائے گا اور تمہارا کام بدل جائے گا، اور اگر تم ہزار مرتبہ اپنے لباس و خوراک کو تبدیل کرو گے، جب تک کہ خود تبدیل نہیں ہوتے تو یہ سب کچھ، کچھ فائدہ نہیں دیتا۔ اس بات سے معلوم ہوا کہ اس گروہ کے درمیان اصلی چیز گردش ہے اور مجاہدہ ریاضت اور خلوت سے مراد گردش ہے۔ گردش کے بغیر کوئی روشنی حاصل نہیں ہوتی، تم جس کو بھی دیکھو گے اپنی ظاہری شکل کے ساتھ چمٹا ہوا ہے، اپنی پگڑی، چہرے، جوتے کے غم میں اور کپڑوں کی درازی، سفیدی اور سبز رنگ کی فکر میں گرفتار ہے، یعنی انہی شکل و صورت کی فکر میں ہے، اور خود اپنی پرستش کرتا ہے، یا تو تم اپنی غلامی کرو گے اور یا دین کی غلامی کرو گے، کیونکہ "اَلضِّدَّانِ لَا یَجْتَمِعَانِ" ”دو ضدیں اور مخالف چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہوا کرتیں“۔ جس وقت تک تم اپنے دل میں اپنے لیے جاہ و جلال اور شان و شوکت کی آرزو و خواہش اور لوگوں میں مقبولیت کی تمنا رکھتے ہو اور جب لوگ تم کو حقیر جانیں اور تم اُن کی بے عزتی اور بے حرمتی کا ارادہ رکھتے ہو اور اُن کے بارے میں تمہارے دل میں غصّہ ہو تو سمجھ لو کہ تم وہی ہوشیار آدمی ہو یا کوئی محترم خواجہ ہو، اور ابھی تک دین نے تم کو قبول نہیں کیا ہے، تم کو چاہیے کہ اپنے آپ کو تبدیل کرو، تم صرف کپڑے تبدیل کرتے ہو، اس سے کوئی فائدہ اور نفع نہیں، اگر تم ایک ہزار سال بھی ایک ہی خرقہ میں گزارو اور تمام عمر ایک پاؤں پر کھڑے رہو اور صومعہ میں مقیم رہو اور اُس کے دروازے کو بالکل بند کر دو تاکہ کوئی شخص تم کو نہ دیکھے اور پرندے تم پر گرمی کے موسم میں سایہ کریں، تو خیال کرو کہ اپنے نفس سے دھوکہ نہ کھاؤ کہ سب نفس کا فریب، دھوکہ اور فکر ہے۔ خیال کرو، تاکہ تمہارے جسم کا ہر بال تمہارے کفر پر گواہی نہ دے اور تم سے بیزاری اختیار نہ کرے، تم پر سعادت کا دروازہ نہیں کھولا جائے گا اور دین کا بادشاہ تمہاری حمایت نہیں کرے گا، آخر تم نے دیکھا ہوگا کہ سانپ اور بچھو سردی کے موسم میں حرکت نہیں کرتے اور کسی مقام میں خلوت گزین ہوتے ہیں، اُن کا یہ عمل اصلاح اور تقویٰ کی وجہ سے نہیں، بلکہ حالات اُن کے حق میں نہیں ہوتے، جب ہوا گرم ہو جاتی ہے اور گرم ہوا چلنے لگتی ہے اور حالات اُن کے موافق ہو جاتے ہیں، تو تم اُس وقت دیکھو اور تماشا کرو کہ وہ کیا کرتے ہیں، انسان کا نفس اُس کا سانپ اور بچھو ہے، اگر کچھ عرصہ وہ گھر میں بیٹھے اور اپنی اصلاح خود کرے تو سمجھ لو کہ یہ سب کچھ کیا ہے، معاملہ اُس کے حسبِ خواہش نہیں، اُس کی خواجگی اور سرداری میں کچھ نقصان پڑ چکا ہے، یہ چاہتا ہے کہ اس کی سرداری بڑائی اور خواجگی میں جو کمی واقع ہوئی ہے وہ اسی دھوکہ اور فریب سے چھپ جائے۔ چنانچہ تم نے بہت سے اہل روزگار ملازم پیشہ اور کارداروں کو دیکھا ہوگا کہ جب وہ اپنے کام سے معزول ہو جائیں اور اُن کے اختیارات اور فرمان روائی میں فرق اور کمی آجائے تو وہ مصلیٰ بچھا کر اُس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ اور رحل سامنے رکھ کر اُس میں قرآن کریم رکھ کر قرآن خوانی کرتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، نفل پڑھتے ہیں، اور لمبی لمبی نمازیں پڑھتے ہیں، اور جو کوئی ان کو دیکھ پاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اگر کچھ کام ہے تو یہی کام ہے، لیکن حقیقت میں یہ کام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر احسان فرمایا ہے، یہ باتیں حقیقت میں درست اور صحیح ہیں مگر ان سے وہ مراد نہیں جو وہ ظاہر کرتے ہیں۔ تم نہیں دیکھتے کہ اگر اُس کو وہ شغل، وہ مرتبہ اور وہ مقام پھر سے دیا جائے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے گا، اور پیروں، مرشدوں اور بزرگوں کی روح پر دعویٰ کرے گا۔ اس طرح ایک آدمی اپنے گھر میں کچھ عرصے کے لیے بیٹھ جاتا ہے اور زبان کو درست کرتا ہے اور اُس تلوار کو زہر کا پانی دیتا ہے تاکہ اُس سے لوگوں کو مارتا جائے، اور جہالت کی وجہ سے اپنے نفس کے اس زہر کو دین پر غیرت کرنا کہتا ہے، اور اپنی حماقت اور نادانی سے نفس کی پاسداری اور عزت کو شریعت کی نگہبانی کہتا ہے۔ خیال رکھو! یہ بات کبھی بھی اُس سے قبول نہ کرو اور غلطی نہ کھاؤ۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ کسی کے لیے بھی پیر کے بغیر اس راہ میں قدم رکھنا درست نہیں، کیوں کہ بزرگوں نے کہا ہے کہ روح عالمِ استغراق میں ایک پرندے کی طرح دام میں پھنسی ہوئی ہے، وہ جتنا بھی پھڑکتی اور حرکت کرتی ہے، اُس کے ہاتھ پاؤں زیادہ سختی سے کس کر بندھتے جاتے ہیں۔ اور کسی ایسے شخص کی محتاج ہوتی ہے جو اُس کو اس قید و بند سے آزاد کرے، اور وہ شخص پیر و مرشد ہی ہوتا ہے۔ اور پیغمبروں اور دوسرے بزرگوں کے بھیجنے کا راز یہی ہے کہ ابتدائے حال میں مریدِ حق کے انوار قبول کرنے کا اہل اور قابل نہیں ہوتا، کیونکہ اُس کی مثال چمگادڑ کی طرح ہوتی ہے کہ اُس کی آنکھیں سورج کی روشنی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور تاریکی میں تگ و دو کرنا محض گمراہی اور ضلالت ہے اور ہلاک ہونے کا خطرہ اس میں ہوتا ہے۔ پس اس کے لیے روشنی چاہیے جو کہ سورج سے کم تر ہو تاکہ اُس سے فائدہ حاصل کیا جائے اور اُس روشنی کے ذریعے راستے پر چلا جا سکے، اور وہ روشنی مرشدوں اور پیروں کا دل ہوتا ہے جو کہ چاند کی روشنی کی طرح انوارِ غیب کے قابل ہوتا ہے۔ جس گھڑی مرید کے دل میں طلب کا درد پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس دردِ طلب کی شفا کی تلاش و جستجو میں پڑ جاتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کیا کیا جائے اور کیا کرنا چاہیے، تب اللہ تعالیٰ کا احسان و عنایت اُس کو کسی پیر کے درِ دولت تک پہنچا دیتا ہے اور اسی طرح درِ دولت سے اندرون خانہ راستہ پا لیتا ہے اور پیر کے ذریعہ اور توسل سے اُس کے دل و دماغ میں پیر کی خوشبو پہنچ جاتی ہے، اور اُسی کے حکم کے آگے گردن رکھ کر سکون پا لیتا ہے اور اسی کا نام ارادت ہے۔ اے بھائی! اس مشتِ خاک میں یہ اسرار و رموز ہیں اور اس میں یہ عزت و اکرام ودیعت فرمائی گئی ہے۔ مثنوی
؎ آں را کہ ز محبوب سلامے باشد
از حضرت او بہ او پیامے باشد
در حلقۂ بند گانش خورشید منیر
قصۂ چہ کنم کم از غلمانکے باشد
’’جس کسی کو یہ سعادت اور شرف حاصل ہو کہ اُس کو محبوب کا سلام و پیام پہنچے، تو میں اُس کے مقام رفیع اور اوج سعادت کے بارے میں کیا کہوں، بلکہ مختصر طور پر یہ کہوں گا، کہ یہ چمکتا ہوا سورج اُس کے غلاموں کے درجہ اور پایہ سے کم شمار ہوتا ہے‘‘۔
(منقول از مکتوب شیخ شرف منیری)