حصہ 3 مقالہ 4: اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں

مقالۂ چہارم

اللہ تعالیٰ کی معرفت کے بارے میں

یہ بات جان لینی چاہیے کہ معرفت مؤمن کی روح کا جوہر ہے، جس کسی کو معرفت حاصل نہیں وہ خود موجود نہیں۔ صانع یعنی بنانے والے کی پہچان اور معرفت مصنوع سے حاصل ہوتی ہے، پہلی معرفت یہ ہے کہ تمام چیزوں اور ساری کائنات کو مغلوب، عاجز اور محکوم پہچان جائے اور اپنی نیت سب سے قطع کرے اور یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اُس کی ذات و صفات قدیم ہیں۔ ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيْءٌ وَّ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: 11) ”اُس کی مثل کی مانند کوئی چیز نہیں اور وہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے“ اور صانع کی معرفت کا دوسرا راستہ یہ ہے، جیسا کہا گیا ہے: "مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ" ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا اُس نے اپنے رب کو پہچانا“ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اپنی قدرت کو آسمانوں اور کائنات میں ظاہر فرمایا، اور وہ قدرتِ کاملہ یہ ہے کہ کائنات کی اشیاء کو ہست و نیست اور موجود و فنا کرتا ہے، اور مخلوقات کے حالات کو تغیر دیتا ہے، دن رات کا پیدا کرنا اور اُن میں کمی بیشی کرنا اور فراخی و تنگی کو اپنی مخلوقات کے درمیان پیدا کرنا اور حکومت کا لینا اور دینا، اور جو کچھ دنیا کے حالات ہیں، وہ آفاق میں ظاہر کر لیتا ہے تاکہ مُوحِّدین اور توحید پرست لوگ اُن نشانیوں کو دیکھ کر معرفت حاصل کریں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے: ﴿سَنُرِیْھِمْ اٰیَاتِنَا فِي الْآفَاقِ…﴾ (فصلت: 53) ”ہم اپنی معرفت کی نشانیاں زمانے اور دنیا میں ظاہر کریں گے“ چونکہ آفاق کا یہ راستہ عارف کے واسطے بہت دراز اور طویل تھا اس لیے ایک چھوٹا اور مختصر راستہ بھی بتلا دیا اور فرمایا: ﴿وَ فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذٰاریات: 21) ”تمہارے خود اپنے نفسوں میں دکھایا گیا ہے، کیا تم غور و فکر نہیں کرتے“ آدمی کے نفس کو موجودات کی مثال پر بنایا ہے اور اس کو اپنی معرفت کے لیے ایک سیڑھی بنا رکھا ہے تاکہ اپنے نفس کو پہچان جائے، تو اُس سے صانع کو خود بخود پہچان جائے گا، اور وہ معرفت خود اپنے نفس کی تغییرِ احوال ہے، مثلًا بیماری، تندرستی، نیند، بیداری، موت، زندگی، غمی اور شادی اور "فِی الْآفَاقِ" کے معنیٰ یہ ہیں کہ سب مخلوق کی تغییر و تبدیلی ان کے اختیار و ارادہ کے بغیر اس بات کی دلیل ہے کہ ایک مدبر اور قادر موجود ہے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ ساری کائنات محکوم و مجبور اور اسیر و پابند ہے۔

اصحاب طریقت معرفت کی راہ میں ہمیشہ اپنے آپ سے ابتدا کرتے ہیں اور اپنی فطرت سے ابتداء کرتے ہیں، اور تمام کثیف و لطیف اور خشک و تر اشیاء اپنے نفس سے طلب کرتے ہیں اور اپنے خالِق و صانع خدا کی نشانیاں اور دلیل اپنے نفس میں پا لیتے ہیں، ﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِاُوْلِي الْأَلْبَابِ﴾ (الزمر: 21) یعنی اس بات میں اہل دانش و خرد کے لیے لمحہ فکریہ اور درس عبرت موجود ہے۔ اور بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ غور و فکر اور نظر کرنے کا کام حوالے کرتا ہے، تاکہ فکر و نظر کے بعد موجودات کے حالات کو دیکھ کر اُس کو پہچان جائیں، جیسا کہ فرمایا ہے: ﴿قُلِ انْظُرْوْا مَا ذَا فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ…﴾ (یونس: 101) ”کہہ دیجیے کہ جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہے اُن کو نظر کرو اور دیکھو“ اور بعض لوگوں کو مجاہدات و ریاضت کے راستے معرفت کی منزل تک پہنچایا جاتا ہے ﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69) یعنی جو کوئی ہمارے بارے میں کوشش اور مجاہدہ کریں تو اُن کو ہم خود ضرور اپنی معرفت کے راستے کی ہدایت و رہنمائی کرتے ہیں، اور بعض کو بغیر کسی سبب اور وسیلہ کے اچانک ہدایت کا نور اُن کے دل میں داخل کیا جاتا ہے اور معرفت کا دروازہ اُن کے لیے کھول دیا جاتا ہے۔ ﴿فُھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ…﴾ (الزمر: 22) یعنی وہ اپنے رب کی طرف سے نورِ ہدایت پر ہے۔ اور بعض کو معرفت کی حقیقت سے بے نصیب اور محجوب رکھا جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ ﴿مَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ…﴾ (الزمر: 67) "أَيْ مَا عَرَفُوا اللہَ حَقَّ مَعْرِفَتِہٖ" ”اللہ تعالیٰ کی قدر جیسا کہ اس کی قدر اور حق ہے انہوں نے نہیں کی، یعنی جیسا کہ مناسب اور لازم ہے کہ اس کی معرفت کو نہ جان سکے“ اور بعض لوگوں کو مکمل اور حتمی طور پر اپنی معرفت سے محروم اور بے نصیب کیا گیا ہے اور فرمایا گیا کہ ﴿خَتَمَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ…﴾ (البقرۃ: 7)”اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں پر مہر لگائی ہے تاکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہ کر سکیں“ ابیات۔

چوں جمالش صد ہزاراں روے داشت

بود در ہر ذرہ دیدار دیگر

لا جرم ہر ذرہ را بنمود یار

از جمال خویش رخسار دیگر

’’جب اس کا جمال لاکھوں چہرے رکھتا ہے۔تو ہر ذرہ میں الگ ہی دیدار ہے، یقیناً یار نے ہر ذرہ کو اپنے جمال سے الگ رخسار عطا کیا‘‘۔

یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس انداز سے عبادت کرنا کہ گویا تم خدا کو دیکھ کر اُس کی عبادت کرتے رہو۔ اور اگر ایسا تم سے ممکن نہ ہو، تو پھر ایسی عبادت کرنا، کہ گویا وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔

جنان کیا ہے؟

"اَلْجَنَانُ ھُوَ الْقَلْبُ الَّذِيْ یَکَوْنُ الْمَعْرِفَۃُ فِیْہِ" ”جنان وہ دل ہے جس میں اللہ تعالٰی کی معرفت ہو“ "وَ الْقَلْبُ وِعَاءٌ لَّہٗ" ”اور معرفت کے لیے قلب یعنی دل ایک برتن ہے“ "وَ ھُوَ الْمُشْتَقُّ مِنَ الْجِنِیْنِ" ”اور جنان کا لفظ جنین سے مشتق ہے“ "وَ الْجِنِیْنِ کَانَ فِي الرَّحِمِ" ”اور جنین رحم میں ہوتا ہے“ "و الرَّحِمُ فِي الْبَطْنِ" ”اور رحم پیٹ میں ہوتا ہے“ "یَعْنِي الْبَطْنَ وِعَاءُ الرَّحِمِ" ”یعنی پیٹ رحم کا برتن اور ظرف ہے“ "وَ الرَّحِمُ وِعَاءٌ لِّلْجَنَانِ" ”اور رحم جنین یعنی بچے کا برتن ہے“ "قَوْلُہٗ: ھُوَ الِانْقِیَادُ" انقیاد اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے گردن رکھنا، اور اللہ تعالیٰ کے احکام اور رزق پر راضی رہنا۔ اور اللہ تعالیٰ جو بیماری اور مصیبت نازل کرے اُس پر صبر کرنا اِنقیاد کہلاتا ہے۔

مسئلہ:

"سُئِلَ شَقیْقٌ الْبَلْخِیُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عَنِ الْإِیْمَانِ وَ الْمَعْرِفَۃِ وَ التَّوْحِیْدِ وَ الشَّرِیْعَۃِ وَ الدِّیْنِ فَقَالَ: "اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِوَاحْدَانِیَّۃِ اللہِ تَعَالٰی وَ أَمَّا الْمَعْرِفَۃُ مَعْرِفَۃُ اللہِ تَعَالٰی بِلَا کَیْفِیَّۃٍ وَّ لَا تَشْبِیْہٍ وَّ أَمَّا التَّوْحِیْدُ فَھُوَ إِقْرَارٌ بِتَوَحُّدِ رَبِّہٖ بِأَنَّہٗ وَاحِدٌ بِلَا ابْتِدَاءٍ وَّ لَا انْتِھَاءٍ وَّ أَمَّا الشَّرِیْعَۃُ فَھُوَ الِانْقِیَادُ لِرَبِّہٖ بَتَقْدِیْمِ أَوَامِرِہٖ وَ الِاجْتِنَابِ عَنْ نَّوَاھِیْہٖ وَ أَمَّا الدَّیْنُ فَھُوَ الدَّوَامُ وَ الثُّبُوْتُ عَلٰی ھٰذِہِ الْأَرْبَعَۃِ إِلَی الْمَوْتِ" (لم أعثر علی ہذہ العبارۃ)

ترجمہ: شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایمان، معرفت، توحید، شریعت اور دین کیا ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرنا ہے، اور معرفت اللہ تعالیٰ کی معرفت بغیر کسی کیفیت اور تشبیہ کی کرنا ہے، اور توحید اللہ تعالیٰ کی یکتائی اور وحدانیت کا ایسا اقرار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی ابتداء اور بغیر کسی انتھاء کے ایک اور واحد ہے، اور شریعت اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ماننا اور اُن پر عمل کرنا اور اس کے ممنوعہ کاموں یعنی نواھی سے جان بچا کر رکھنا، اور دین ان چار اُمور پر موت کے وقت تک قائم اور ثابت قدم رہنا ہے۔

"قَوْلُہٗ: مِنْ غَیْرِ تَشْبِیْہٍ" بغیر کسی تشبیہ سے کیا مراد ہے؟ "یَعْنِيْ یَنْبَغِيْ لِلنَّاسِ أَنْ لَّا یُشَبِّہُوا اللہَ تَعَالٰی شَیْئًا مِّنَ النُّوْرِ وَ الظُّلُمَۃِ وَ الشَّجَرِ وَ الْجَوَاھِرِ" ”یعنی لوگوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی مشابھت کسی چیز کے ساتھ نہ کریں، نہ نور سے، نہ ظلمت سے، نہ درخت اور نہ جواہر وغیرہ سے“ "قَوْلُہٗ: بِلَا تَعْطِیْلٍ یَعْنِيْ لَا یَنْبَغِيْ لِلنَّاسِ أَنْ یَّعْلَمُوْا بِلَا شُغُلٍ کَمَا ظَنَّ الْیَہُوْدُ فِیْ یَوْمِ السَّبْتِ بَلْ ھُوَ عَلٰی شُغْلٍ فِيْ کُلِّ یَوْمٍ کَمَا قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) وَ أَصْلُ الْإِیْمَانَ ھُوَ الِاعْتِقَادُ بِالْقَلْبِ وَ إِنَّمَا الْإِقْرَارُ شَرْطٌ لِّإِجْرَاءِ أَحْکَامِ الْإِسْلَامِ" ”بلا تعطیل کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے لیے یہ ہرگز مناسب نہیں کہ یہ سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ بغیر کسی شغل کے ہیں، جس طرح یہود کہتے ہیں کہ وہ ہفتہ کے دن کچھ نہیں کرتا، بلکہ لوگوں کو چاہیے کہ یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ رب العزت ہر دن کسی نا کسی کام میں مشغول ہیں، جیسا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا: "ہر دن وہ ایک شان میں ہے" اور ایمان کی اصل دل سے اعتقاد ہے، اقرار محض احکامِ اسلام کے اجراء کے لیے شرط ہے“

چودہ معصومین ان دو ناموں سے مکمل ہو جاتے ہیں: ایک قاسم، دوسرا طیب، یا طاہر و ابراہیم۔ یہ سب چودہ نام پورے ہو جاتے ہیں۔ رباعی۔

گر بخواہی تو کہ حلہ در برت گرد و کفن

دست اندر دامن ہر چہاردہ معصوم زن

مصطفٰے با سہ محمد مرتضی با سہ علی

موسیٰ و زہرا و کاظم یک حسین و دو حسن

یعنی اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا کفن تمہارے لیے خلعت فاخرہ ہو جائے تو چودہ معصومین کے دامن کو ہاتھ میں مضبوط پکڑو، ایک مصطفیٰ ﷺ تین محمد کے ساتھ اور مرتضٰی تین علی کے ساتھ، موسیٰ فاطمۃ الزھرا، امام کاظم ایک حسین علیہ السلام اور دو حسن۔

اور اسی طرح پانچ تن کے نام جاننا بھی ضروری ہیں۔ اور اُن کی تفصیل یہ ہے کہ پہلے محمد مصطفٰے ﷺ، دوسرے علی مرتضٰے کرم اللہ وجہہ، تیسری فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا، چہارم امام حسن رضی اللہ عنہ اور پانچواں امام حسین شہید دشت کربلا رضی اللہ عنہ۔ اور امام جعفر صادق کا یہ قول اُس پر شاہد ہے:

؂ أَنَا مِنْ خَمْسٍ کِرَامٍ عِظَامٍ

مَا لَھُمْ سَادِسٌ سِوٰی جِبْریْلَ

أَحْمَدُ الْمُصْطَفٰے ثُمَّ عَلِیٌّ

وَ الْحَسَنُ وَ الْحُسَیْنُ ثُمَّ بَتُوْلٌ

ترجمہ: میں اُن پانچ مکرم اور معزز ہستیوں کی اولاد میں سے ہوں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے علاوہ اُن کا کوئی چھٹا (شخصیت) نہیں، محمد مصطفٰے ﷺ، پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ، پھر امام حسن، امام حسین رضی اللہ عنہما اور حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔

ان تمام کے نام حق ہیں، لیکن جیسا کہ شیعہ لوگ ان کے نام لیتے ہیں اہل سنت و الجماعت نہیں لیتے، لیکن ان کی پاکی میں جو کوئی شک کرے گا، تو کافر ہو جائے گا۔ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْہَا۔