حصہ 3 مقالہ 3: ایمان، احسان اور اسلام کی تعریف میں اور توحید شریعت اور دین کی معرفت کے بیان میں

مقالۂ سوم

ایمان، احسان اور اسلام کی تعریف میں اور توحید شریعت اور دین کی معرفت کے بیان میں

"فَإِنْ قِیْلَ مَا الْإِیْمَانُ وَ مَا الْإِحْسَانُ وَ مَا الْإِسْلَامُ؟" ”اگر تم سے پوچھا جائے کہ ایمان کیا ہے، احسان کیا ہے اور اسلام کیا ہے؟“ "فَقُلْ: اَلْإِیْمَانُ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَ تَصْدِیْقٌ بِالْجَنَانِ،" ”تو کہہ دیجیے کہ زبان کا اقرار اور دل کی تصدیق ایمان کہلاتا ہے“ اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کو مان کر اُن پر عمل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے ممنوعہ یعنی نواھی سے جان بچا کر رکھنا اسلام ہے۔ اور احسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ احسان کرنا ہے اور اُن پر بغیر کسی احسان جتانے کے شفقت کرنا ہے۔ اور احسان کا دوسرا جواب:

چوں یک ست اصلی وعدہ از بران

تا بود ہر دم گرفتار دیگر

’’چونکہ اُس کے جمال کے لاکھوں رُخ تھے اور ہر ایک ذرے میں جُدا جُدا جمال اور اس کی جلوہ نمائی تھی، لہٰذا محبوب نے ہر ایک ذرے کی جلوہ نمائی فرمائی‘‘ (اور اپنے جمال کے جلوؤں میں دوسرے چہرے اور گال دکھا دیے)۔ اصل اور حقیقت ایک ہے اور اُس کی تعداد زیادہ ہے تاکہ ہر وقت دوسری قسم کے جمال کا اسیر ہو۔

اور یہ فرق و تفاوت ظاہر کرتا ہے کہ عقل سے معرفت حاصل نہیں ہوتی۔ اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہدایت ضروری ہے، کیونکہ بہت سارے کافروں کو انبیاء کرام علیہم السلام دعوت دیا کرتے تھے اور وہ معرفت کی کیفیت پہچانتے تھے، مگر وہ معرفت کی نعمت حاصل نہ کر سکے۔ پس اس سے ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت محض اس کی ہدایت سے حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "عَرَفْتُ اللہَ بِاللہِ وَ عَرَفْنَا مَا دُوْنَ اللہِ بِنُوْرِ اللہِ" (لم أجد ہذا القول) ”میں نے اللہ تعالیٰ کو اللہ ہی سے پہچانا، اور ما سوی اللہ کو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نورِ ہدایت سے پہچانا“۔ جناب نوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر کیا چیز دلالت کرتی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ''اللہ''۔ پھر سائل نے پوچھا کہ پھر عقل کا کیا کام ہے؟ آپ نے جواب میں فرمایا کہ عقل عاجز ہے اور ایک عاجز چیز اپنے جیسی عاجز چیز ہی پر دلالت کر سکتی ہے۔ عقل کا کام تو یہ ہے کہ تمام چیزوں کو یا تو جسم (کی شکل میں) دیکھے اور یا جوهر دیکھے یا عرض دیکھے یا مکان میں دیکھے یا زمان میں۔ اور مخلوقات کی اور صفات بھی اسی طرح سے ہیں۔ اب یہ بات دو صورتوں سے خارج اور باہر نہیں ہوگی، یا تو ان صفات میں سے کوئی ایک صفت بھی اُس کے لیے جائز مانے گا، تو اُس وقت ایسا کرنے کی وجہ سے وہ کافر ہوگا۔ اور یا اگر اس کو ان اوصاف میں سے کسی صفت کو اس کی مثل یا مشابہ نہیں پائے گا، تو حیران و سرگرداں ہو جائے گا اور کہے گا میں ان اوصاف کے علاوہ اور کوئی صفت نہیں ہوتا، اور اُس میں یہ صفات موجود نہیں جب صفات نہیں تو موصوف یعنی وہ خود بھی نہیں، تو پھر بھی کافر ہو جائے گا۔ اُس پہلی بات سے تشبیہ کے چکر میں پڑے گا اور اس دوسری بات سے تعطیل کے بھنور میں پھنس جائے گا۔ اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو گئی کہ جب تک وہ خود اپنی تعریف نہیں کرے گا، اس کی معرفت ہاتھ نہیں آ سکتی۔

ان باتوں کا حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ کی یافت اور اس کی معرفت کا حصول طلب اور تلاش پر موقوف نہیں بلکہ اُس کی داد اور عنایت پر منحصر ہے، جو کوئی حق کی تلاش کرے وہ اُسے نہیں حاصل کر سکتا لیکن وہ شخص اُس کو حاصل کر لیتا ہے جس پر وہ خود عنایت کرے۔ جو آدمی دیکھتا ہے وہ نہیں دیکھ سکتا مگر وہ دیکھ لیتا ہے جس کو دکھلایا جاتا ہے۔ دیکھنے کا بنیادی سبب دکھلانا اور دکھانا ہے، نہ نظر کرنا اور دیکھنا اور پا لینے اور حاصل ہونے کی علت اُس کی داد و دہش اور عنایت ہے، نہ کہ تلاش و جستجو۔ بہت سے طالب پا لینے میں کامیاب نہیں ہوتے اور بہت حاصل کرنے والے اور پا لینے والے ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے سِرے سے تلاش اور طلب نہیں کی ہوتی ہے۔

؎ خدا کی دَین کا موسیٰ سے پوچھئے احوال

کہ آگ لینے کو جائے پیغمبری مل جائے

طلب و تلاش اور جستجو و چاہت میں سب برابر ہیں مگر حاصل ہونے اور پا لینے میں فرق ہے۔ بت پرست لوگ اُس کو بُت سے طلب کرتے ہیں، عیسائی اُس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں تلاش کرتے ہیں اور یہود اس کو حضرت عزیر علیہ السلام سے طلب کرتے ہیں۔ (قطعہ)

؎ میل خلق جملہ عالم تا ابد

گرچه باشد ورنہ باشد سوئے تست

جز ترا چوں دوست نتواں درشتن

دوستی دیگراں بر بوئے تست

’’تمام دنیا کے لوگوں کی توجہ اور خواہش ابد تک تمہاری طرف ہے، خواہ وہ خواہش محسوس ہو یا نہ ہو، تمہارے علاوہ جب کسی کو دوست رکھنا ممکن نہیں، اس لیے اگر کسی دوسرے کے ساتھ بھی دوستی ہو، تو تمہاری ہی خوشبو کی وجہ سے ہے۔

پس تمام لوگ اُس کے طالب ہیں اور اسی طلب و تلاش میں راستہ گم کرتے ہیں۔ ہر شخص کے آگے کوئی چیز رکھی ہوئی ہوتی ہے جو اُس کے لیے پردہ بن جاتی ہے اور ایک گروہ کے سامنے سے یہ تمام سامان اٹھائے جاتے ہیں، تاکہ وہ سیدھا راستہ پا لیں۔ قطعہ ؎

یک شہر پُر از حدیث آن روئی نکوست

دلہائے جہانیاں ہمہ بر بودۂ است

ما مے کوشیم و دیگراں مے کوشند

تا بخت کرا بود و چرا دارد دوست

’’اُس خوبصورت چہرے کی تعریف میں ایک دُنیا مصروف ہے، اور تمام اہل جہاں کے دل وہ لے گیا ہے ہم بھی کوشش کرتے ہیں، اور دوسرے لوگ بھی کوشش میں لگے ہیں، دیکھئے بخت اور قسمت کس کی یاوری کرتی ہے اور وہ کس کو دوست بناتا ہے‘‘۔

معرفت کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے معبود کو اس انداز سے پہچانا جائے جیسا کہ اُس کی ذات اور صفات اور افعال ہیں، اور اُس کو پہچاننے میں کوئی غلطی واقع نہ ہو۔ اور عارف کے لیے اس انداز میں معرفت حاصل کرنی چاہیے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام مجید میں بیان فرمایا ہے لیکن کمالِ معرفت کی کیفیت کی بارے میں علمائے متکلمین کے دو قول ہیں: ایک گروہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ایسا اور اس طور پر پہچانا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود اپنے آپ کو پہچانتا ہے، کیونکہ اگر کامل طور پر نہ پہچانے، کچھ جانے اور کچھ نہ جانے، تو اللہ تعالیٰ تجزّی یعنی ٹکڑے ٹکڑے ہونا قبول نہیں کرتا۔ پس تمام عارف اپنے معروف کی معرفت میں برابر ہیں اور سب کے سب معروف کو ایسا جانتے ہیں جیسا کہ معروف خود اپنے آپ کو پہچانتا ہے، اس گروہ کو کمالِ معرفت کا دعویٰ ہے۔ اور دوسرے گروہ کا قول یہ ہے اور بعض عقلاء اور اہل دانش اور متکلمین اور صوفیاء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کمالِ معرفت کسی کو بھی حاصل نہیں، سب اس کو ایسا جانتے پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ ہے اور اس حد تک جانتے ہیں کہ جس کے ذریعے نجات پائیں، لیکن وہ کمال کا دعویٰ نہیں کرتے، جیسا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْعِجْزُ عَنْ دَرْکِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" (احیاء العلوم، کتاب التوحید و التوکل، باب: بیان حقیقۃ التوحید الذی هو أصل التوکل، رقم الصفحۃ: 252/4، دار المعرفۃ بیروت) ”جاننے سے عاجز ہو کر رہنا جاننا ہی ہے“ اور فرمایا گیا ہے کہ "اَللہُ تَعَالٰی أَخَصُّ وَصْفًا لَّا یَعْرِفُہٗ غَیْرُ اللہِ" ”اللہ تعالیٰ صفت کے لحاظ سے نہایت ہی خاص ہے، اور خدا کے علاوہ دوسرا کوئی بھی اُس کو نہیں جانتا“۔ پس جو کچھ معرفت کی طریقت نے خبر دی ہے اُس کو جان لیا جائے اور قبول کیا جائے اور کوئی بھی کمال کا دعویٰ نہ کرے۔

حاصل کلام یہ کہنا چاہیے کہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ کہا جاتا ہے وہ خود اُس حد سے زیادہ بڑھا ہوا ہے جس حد تک ہم جانتے ہیں۔ ہم اُس کی کمالِ معرفت تک نہیں پہنچ سکتے کیونکہ وہ ہماری سمجھ کی حد سے ماوراء ہے۔ (ابیات)

؎ آن عقل کجا کہ در کمال تو رسد

آن روح کجا کہ در جلال تو رسد

گیرم کہ تو پردہ بر گرفتی ز جمال

آن دیده کجا کہ در جمال تو رسد

ترجمہ:۔ وہ عقل کہاں سے لائیں، جو تیری کمال تک پہنچ سکے۔ وہ روح کہاں جو تیری جلال کو رسائی حاصل کرے۔ مجھے تسلیم ہے کہ آپ نے اپنے جمال سے پردہ اُٹھا دیا، مگر وہ آنکھ کہاں ہے جو آپ کے جمال کے دیکھنے کی تاب لائے۔

الغرض معرفت نجات کا ذریعہ ہے، اگر معرفت کی شرطوں سے کچھ فوت ہو جائیں تو نجات کا حکم لگانا درست نہیں۔ کہتے ہیں کہ عارفوں کے پاس ایک صاف شیشہ ہوتا ہے اور آئینہ صافی دل ہوتا ہے جو اُس کے سامنے رکھا ہوتا ہے اور وہ اُس میں دیکھتے ہیں، اور مصنوع اور صانع کے حقوق جان لیتے ہیں۔ اور جس طرح کہ معرفت کا طریقہ ہے، اُس پر عمل کرتے ہیں۔ مثنوی۔

ہر دم کہ در فضائے رُخ یار بنگرد

گردد ہمہ جہان بحقیقت مصورش

چوں باز در صفائے دل خود نظر کند

بنِد چو آفتاب رُخ خوب دلبرش

ترجمہ:۔ جب کبھی اپنے محبوب کے چہرے پر نظر ڈالے، تو تمام جہان حقیقت میں اُس کی تصویر بن جائے گی۔ اور پھر جب اپنے دل کی صفائی پر نگاہ ڈالے گا، تو اپنے معشوق کے رخ روشن کو سورج کی طرح چمکتا ہوا پائے گا۔

جو اہل دل عارف ہو جائے، تو تمام کائنات اور ساری مخلوق اُس کی نگاہ میں حجت اور دلیل ہوتی ہے۔ "وَ فِيْ کُلِّ شَيْءٍ لَّہٗ آیَۃٌ تَدُلُّ عَلٰی أَنَّہٗ وَاحِدٌ" ”ہر ایک چیز میں ایک ایسی نشانی موجود ہے جو اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ ایک ہے اور اُس کی وحدانیت پر ہر چیز دلالت کرتی ہے‘‘۔

؎ رو دیدہ بدست آر کہ ہر ذرۂ خاک

جائے ست جہاں نمائے کہ در وے نگری

’’اپنے لیے دیدہ بینا حاصل کر کیونکہ خاک کا ہر ذرہ ایک جہاں نما جام ہے، اگر تو اُس میں دیکھ سکے‘‘۔

اور کہا گیا ہے کہ "وَ مَا رَأَیْتُ شَیْئًا إِلَّا وَ رَأَیْتُ اللہَ" ”میں نے بجز اللہ تعالیٰ کے اور کوئی چیز نہیں دیکھی“ یعنی جو چیز میں نے دیکھی تو مجھے اُس میں خدا نظر آیا۔ اشیاء میں خدا کا نظر آنا ایک دلیل ہے، جو کہ مصنوع میں صانع کی موجودگی پر دلالت ہے۔ کیونکہ ہر صنع کا صانع اور ہر فعل کا فاعل ہونا لازمی طور پر ہوتا ہے اور صنع و فعل صانع و فاعل کی وجود پر دلیل ہیں۔ (بیت)

گوید آں کس دریں مقام فضول

کہ تجلی نداند او ز حلول

’’وہ شخص فضول باتیں کرتا ہے جو کہ تجلی اور حلول میں تمیز نہیں کر سکتا‘‘۔

ارباب حقیقت کی معرفت حال ہوتا ہے، یعنی یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے ساتھ صحتِ حال کو معرفت کہتے ہیں۔ اور دوسرے لوگ یعنی علماء و فقہاء صحتِ علم کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ معرفت کہتے ہیں۔ اور علمائے اُصول علم اور معرفت میں فرق نہیں کرتے، بجز اس بات کے کہ کہتے ہیں یہ بات مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عالم کہا جائے اور یہ بات نامناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو عارف کہا جائے، لیکن مشائخِ طریقت رضوان اللہ علیہم اجمعین اُس علم کو جو حال کے معاملہ کے قرین ہو اور لوگ اُس کو حال سے عبارت کریں، یعنی اُس کو حال جانیں، تو اُس کو معرفت کہتے ہیں اور عالم اُس کو علم۔ پس جو شخص ایک چیز کے معنیٰ اور حقیقت کا علم رکھتا ہو، اُس کو معرفت کہتے ہیں، اور جو کوئی محض اُس کو عبادت جانے اور اُس کے معنیٰ اور حقیقت کی سمجھ سے بے بہرہ ہو اُس کو دانش مند کہتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب یہ گروہ اپنے دست احباب پر اپنا استحقاق جتلانا چاہیں، تو اپنے آپ کو دانش مند کہتے ہیں۔ اور ظاہر بین (ظاہر کو دیکھنے والے) کو بین کی یہ بات بُری معلوم ہوتی ہے۔ اور ان کی مراد علم کی بُرائی نہیں ہوتی کہ علم کو حاصل کیا جائے بلکہ اُس علم پر عمل نہ کرنے کی برائی کرتے ہیں۔ اگرچہ حقیقت میں یہ لوگ زیادہ عارف ہوتے ہیں لیکن اپنے آپ کو یہ لوگ زیادہ عاجز، کم سواد اور مبتدی خیال کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں، اور معرفت کو اپنے دعویٰ اور لاف زنی سے پاک رکھتے ہیں اور معرفت کے اضافے اور ترقی کی کوشش کرتے ہیں، نہ کہ عبارت آرائی کی سعی میں مشغول رہتے ہیں۔ اور معروف کے حسن و جمال کو عارف اپنے دل میں سما کر اور سنبھال کر ایسا رکھتا ہے کہ خلوت میں بھی معرفت ہوتی ہے اور وہ اس انداز سے کہ دفتروں میں اس کو بیان کرنے کی گنجائش نہیں تو صورت کی تنگ سی جگہ میں اُس کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے۔ فقیروں کی جھونپڑی میں بادشاہوں کا کیا کام؟ مسافر (عارف) کے لیے یہ بات لازمی شرط ہے کہ جب تک وہ معروف تک نہ پہنچے کسی چیز پر قناعت نہ کرے، اور راہ معرفت میں کہیں نہ ٹھہرے۔ جتنا کہ راہ معرفت میں زیادہ وہ علم حاصل کرے تو اُس سے زیادہ اور بہت زیادہ کی طلب اور جستجو کرے۔ شرابِ معرفت کے جتنے زیادہ جرعے نوش کرے، اُس سے زیادہ کی خواہش کرے اور زیادہ تشنگی محسوس کرے۔

؎ اگر در روز ہزار بار بہ بستیم

در آرزوئے بار دگر خواہم بود

’’اگر ایک دن میں ہزار بار بھی وصل سے لطف اندوز ہو جاؤں، تو دوسری دفعہ کی (خواہش اور) آرزو دل میں موجزن ہو گی‘‘۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کی یہ حالت تھی کہ "لَوْ وُزِنَ إِیْمَانُ أَبِيْ بَکْرٍ مَعَ إِیمانِ اُمَّتِيْ لَرَجَحَ کَفُّہٗ" (الکامل فی الضعفاء بمعناہ، تحت مرویات عبداللہ بن عبد العزیز بن أبی روّاد، رقم الصفحۃ: 335/5، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ”اگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ایمان اُمت کے ایمان کے ساتھ تولا جائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایمان کا پلڑا بھاری ہو گا“ اُنہوں نے فرمایا کہ اے رسول اللہ! ﷺ ایمان بس یہی تشنگی ہے۔ (لم أجد ہذا الحدیث)

اور کیا تم نے یہ سُنا ہے کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہی شراب نوش فرمائی تھی اور اسی خمار و مستی میں حلقۂ ارباب اور محفل یاراں میں تشریف آوری فرمائی، اور اُن کو کہنے لگے "تَعَالَوْا نُؤْمِنُ سَاعَۃً" (الصحیح للبخاری تعلیقًا بمعناہ، رقم الصفحۃ: 10/1، دار طوق النجاۃ) ”دوستو! آ جاؤ گھڑی بھر کے لیے ایمان لے آئیں“ جب اُن کے دوستوں نے ان کی یہ عجیب بات سُنی تو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ معاذ ہم سے ایسا کہتے ہیں کہ "تَعَالَوْا نُؤْمِنُ سَاعَۃً" یا رسول اللہ! ﷺ کیا ہم ایمان نہیں لائے ہیں، جو کہ وہ ہم کو گھڑی بھر کے لیے ایمان لانے کا کہہ رہے ہیں؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: "اے معاذ! محبت کے مئے کدہ سے شراب نوش کر کے دوستوں کے ساتھ ایسی باتیں کرتا ہے؟" (لم أجد ہذہ القصۃ) یہی وہ تشنگی اور پیاس ہے، جو کہ بڑھتی جاتی ہے۔ بیت

؎ مستک شدہ تو وندانی ہی

یارانت کہ بودند و کجا خوردی مے

ترجمہ:۔ تو مست و مخمور ہوا ہے، اور یہ نہیں جانتا کہ تمہارے ساتھی کون تھے، اور تو نے کس کی شراب پی ہے۔ رباعی

بیش نما جمال شہر افروز

چوں نمودی برد پسند بسوز

آں جمال تو چیست مستی او

واں پسند تو چیست ہستی او

’’اپنی دُنیا کو روشن کرنے والے جمال کو زیادہ ظاہر نہ کر، اور جب ظاہر کیا، تو اُس پر پسند کو جلا ڈال۔ تمہارا جمال کیا ہے؟ اُس کی مستی ہے اور وہ پسند کیا چیز ہے؟ وہ اُس کی ہستی ہے‘‘۔

اور کہتے ہیں، کہ روزانہ کئی دفعہ عرش کرسی سے کہتا ہے کہ "ھَلْ لَّکَ خَبَرٌ؟" ”کیا کوئی نئی تازہ خبر ہے؟“ اور کرسی عرش سے پوچھتی ہے کہ "ھَلْ لَّکَ أَثَرٌ؟" ”کیا تمہارے پاس کوئی بات ہے؟“ آسمان زمین کو کہتا ہے، "ھَلْ مِنْ طَالِبِ رَبِّکَ؟" ”کیا تمہارے ہاں رب کا کوئی طالب ہے؟“ اور زمین آسمان سے استفسار کرتی ہے کہ "ھَلْ سَافَرَ فِیْکِ عَاشِقٌ؟" ”کیا تم میں کسی عاشق نے سفر کیا؟“ یہ سب فریاد اسی پیاس اور تشنگی سے ہے۔ اے بھائی! اُس کے واسطے اس راہ میں ہزاروں شہید اور مقتولین ہیں اور ہزاروں فریادی ہیں۔ اہل دانش و خرد اُس کی طلب میں پریشان ہیں اور اصحاب علم اُس کے جلال و جبروت کی تلاش و جستجو میں سر گرداں ہیں اور اہل نظر اور اصحاب بصیرت اس کی عظمت کے سمندر کے ایک ایک قطرے میں مستغرق ہیں اور اُس کے آتش جلال کے شراروں کے سوختہ ہیں۔

ایک شخص نے شراب خانے کے دروازے پر آکر شراب فروش سے استدعا کی کہ اُسے شراب دی جائے۔ شراب فروش نے کہا کہ شراب کا خم خالی ہو گیا ہے اب کوئی شراب باقی نہیں رہی۔ اُس شخص نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں مگر عرض یہ ہے کہ مجھے شراب کے خم کے کنارے تک لے جاؤ تاکہ میں اُسے سونگھوں اور اس کی بُو سے میں ایسا مست ہو جاؤں کہ دوسرے لوگ سینکڑوں ساغر و کاسه کے نوش کرنے سے بھی کیا مستی کریں گے۔ (بیت)

؎ مست از مئی عشق آن چنا نم کہ اگر

یک جرعہ ازاں پیش خورم نیست شوم

’’میں عشق کی شراب سے ایسا سخت مست ہوا ہوں، کہ اگر ایک گھونٹ بھی اور مزید پی لوں تو ختم ہو جاؤں گا‘‘۔

اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ اس دربار کے گدا اور فقیر اُس کی بُو سے اتنے مست اور از خود رفتہ ہیں کہ ملاء اعلیٰ اور عرش کے فرشتے بھی اُس کے بوجھ کا تحمل نہیں رکھتے۔ لطف کی ایک ہوا چلی جو کہ دل جلے گدا کے سینے پر سے گزری، تمام فرشتے ہوش و حواس کھو کر بے ہوش گر پڑے۔ جب پھر سے ہوش میں آئے تو جبرئیل علیہ السلام سے فرشتوں نے پوچھا کہ ہم نے سات لاکھ سالوں میں ایسی خوشبو نہیں دیکھی تھی جیسا کہ ہم نے قاب قوسین کے صاحب یعنی محمد رسول اللہ ﷺ کے مبارک عہد میں دیکھی۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے جناب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ "إِنِّيْ لَأَجِدُ نَفَسَ الرَّحْمٰنِ مِنْ قِبَلِ الْیَمَنِ" (إحیاء العلوم بمعناہ، کتاب قواعد العقائد، الفصل الثالث، رقم الصفحۃ: 104/1، دار المعرفۃ بیروت) ”میں رحمٰن کی خوشبو یمن کی جانب سے محسوس کر رہا ہوں“ یہ خوشبو اور یہ نسیم ایک شتربان یعنی اونٹ چرانے والے کے جلے ہوئے سینے سے آ رہی ہے جو کہ یمن کے علاقہ میں مستی فرما رہا ہے۔