حصہ 3 مقالہ 2: محمد رسول اللہ ﷺ کی نعت اور آپ ﷺ کے معجزوں کے بیان میں

مقالۂ دوم

محمد رسول اللہ ﷺ کی نعت اور آپ ﷺ کے معجزوں کے بیان میں

روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أَنَا خَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ وَ إِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِیْنِہٖ" (المستدرک للحاکم بتغییر قلیل، رقم الحدیث: 4175) ”میں پیغمبروں کا خاتم ہوں، اور یہی بات اُم الکتاب یعنی لوح محفوظ میں درج ہے، اور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام اپنے مٹی کے گارے کی شکل میں تھے“ خاتِم ختم سے اسم فاعل ہے، یعنی ختم کرنے والا، یعنی میں آخری پیغمبر ہوں میرے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ "فِيْ أُمِّ الْکِتَابِ" یعنی لوح محفوظ میں بھی ایسا ہی لکھا گیا ہے کہ میں پیغمبروں کا ختم کرنے والا ہوں۔ "وَ إِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِيْ طِیْنِہٖ" اور اُس وقت حضرت آدم علیہ السلام ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں: ﴿وَ لٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ…﴾ (الأحزاب: 40) ”لیکن (آپ) اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبین ہیں“ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ فِي الْجَنَّۃِ" (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: قولہ علیہ السلام: أنا أول الناس یشفع…، رقم الحدیث: 196) کہ میں جنت میں پہلا شفیع ہوں گا۔ اور یہ روایت بھی کی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا شَافِعٌ وَّ أَنَا أَوَّلُ شَفِیْعٍ یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ لَا فَخْرَ" (المعجم الأوسط للطبراني بمعناہ، باب: الألف، رقم الحدیث: 170) کہ میں شافع ہوں اور میں قیامت کے دن سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں گا، اور میں یہ بات فخر کی وجہ سے نہیں کہتا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کرم خاص کی وجہ سے ایک حقیقت ہے۔ اور شافع اور شفیع ایک معنیٰ میں ہیں اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان دلیل ہے: ﴿وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی﴾ (الضحٰی: 5) ”اور آئندہ کے لیے اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا، جس سے آپ راضی اور خوش ہو جائیں گے“ اور یہ عطا شفاعت کی عطا ہوگی۔ اور فرماتے ہیں کہ میں یہ بات فخر گھمنڈ اور لاف زنی کے طور پر نہیں کہہ رہا ہوں، بلکہ تم کو آگاہ کرتا ہوں کہ اس صفت کے ساتھ مجھے پہچان جاؤ، اور اس پر ایمان رکھو۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ انبیاء اور اولیاء کے تمام گروہوں کے شفیع ہوں گے۔

رسول کریم ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "أَنَا أَفْصَحُ الْعَرَبِ" (الموضوعات الکبریٰ لملا علی القاری، رقم الحدیث: 69) میں تمام عرب میں سب سے زیادہ صاف زبان بولنے والا ہوں۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ "أَنَا أَکْرَمُ الْأَوَّلِیْنَ وَ الْآخِرِیْنَ عِنْدَ اللہِ وَ لَا فَخْرَ" (الکامل في الضعفاء، تحت أحادیث سلمۃ بن وہرام بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 367/4، دار الکتب العلمیۃ بیروت) کہ میں مخلوقات میں سے اولین اور آخرین سب سے زیادہ مکرم و معزز ہوں، اور یہ بطور فخر نہیں کہتا بلکہ حقیقت الامر یہی ہے، اور مخلوق پر کیا اور کیونکر فخر کروں، خالق نے یہ افتخار مجھے عطا فرمایا ہے۔ "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ عَشْرًا" (سنن النسائی، کتاب السہو، باب: الفضل فی الصلوۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 1296) ”جناب سید المرسلین ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی مجھ پر ایک دفعہ درود بھیج دے اللہ تعالیٰ اس پر دس دفعہ رحمت بھیج دیتا ہے“ "وَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِائَۃَ مَرَّۃٍ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یُبَشَّرَ لَہٗ بِالْجَنَّۃِ وَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ أَلْفَ مَرَّۃٍ لَمْ تَمَسَّ النَّارُ جُلُوْدَہٗ أَبَدًا" (لم أجد ہذا الحدیث) وَ قَالَ رُسُوْلُ اللہِ ﷺ: "مَنْ نَسِيَ الصَّلٰوۃَ عَلَيَّ فَقَدْ أخَطَأَ طَرِیْقَ الْجَنَّۃِ" (سنن ابن ماجۃ بتغير یسیر، کتاب إقامۃ الصلوۃ و السنۃ فیھا، باب: الصلوۃ علی النبي صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 908) ”اور جو کوئی مجھ پر سو بار درود بھیج دے تو اُس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ اُسے جنت کی بشارت نہ مل جائے۔ اور جو کوئی مجھ پر ہزار بار درود بھیج دے تو اُن کا چمڑہ آگ نہ چھو سکے گی۔ اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو مجھ پر درود بھیجنا بھول گیا تو اُس نے جنت کا راستہ بھلا دیا“۔

"قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: أَوَّلُ النَّاسِ دُخُوْلًا فِي الْجَنَّۃِ أَکْثَرُھُمْ عَلَیَّ صَلٰوۃً" (لم أجد ہذا الحدیث) ”رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جنت میں سب سے پہلے وہ شخص داخل ہو گا، جو مجھ پر زیادہ تعداد اور مقدار میں درود بھیج دے“۔ "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: صَلٰوتُکُمْ عَلَيَّ تَمْحَقُ ذُنُوْبَکُمْ کَمَا تَمْحَقُ النَّارُ خُبُثَ الْحَدِیْدِ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”تمہارا مجھ پر درود بھیجنا تمہارے گناہوں کو ایسے کھا کر محو کر دیتا ہے جیسے کہ آگ لوہے کے زنگ کو کھا جاتی ہے“ "قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ فِيْ یَوْمٍ مِّائَۃَ مَرَّۃٍ قَضَی اللہُ مِائَۃَ حَاجَۃٍ سَبْعِیْنَ مِنْھَا فِي الْآخِرَۃِ وَ ثَلَاثِیْنَ فِي الدُّنْیَا" (جلاء الأفہام، الفصل العاشر، رقم الصفحۃ: 430، دار العروبۃ الکویت) یعنی رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کوئی مجھ پر دن میں سو بار درود بھیج دے تو اللہ تعالیٰ اُس کی سو حاجتیں پوری کرے گا، جن میں سے ستر (70) حاجتیں آخرت کی اور تیس (30) حاجتیں دنیا کی ہوں گی۔

رسول اللہ ﷺ کے معجزات کے بارے میں تفسیر زاھدی میں آیا ہے کہ جب محمد رسول اللہ ﷺ کی ولادت ہوئی تو اُس کمرے میں چار اجنبی عورتیں آئیں۔ حضرت آمنہ اُن سے ڈر گئیں اور اُن سے پوچھنے لگیں کہ تم کہاں سے آئی ہو؟ تم تو مکہ مکرمہ کی رہنے والی نہیں ہو؟ تو اُن عورتوں نے کہا کہ مت ڈرو اور کچھ فکر اور رنج و تردد نہ کرو، اُن میں سے ایک نے کہا کہ میں تمام بنی نوع انسان کی ماں حوا ہوں، دوسری نے کہا کہ میں حضرت اسحاق علیہ السلام کی والدہ سارہ ہوں، تیسری نے کہا کہ میں حضرت اسماعیل کی والدہ ھاجرہ ہوں اور چوتھی نے کہا کہ میں آسیہ بنت مزاحم ہوں۔ اور حضرت حوا کے ساتھ سونے کا ایک طبق تھا، حضرت سارہ کے ساتھ سونے کا ایک لوٹا تھا جس میں کوثر کا پانی تھا، حضرت ھاجرہ کے ساتھ جنت کے عطروں میں سے عطر تھا اور آسیہ کے ساتھ سبز کپڑا تھا جس کو آمنہ کے سامنے ڈال کر رکھ دیا۔ رسول اللہ ﷺ پیدا ہوتے ہی سجدے میں گر گئے اور سجدے میں کہا کہ اے رب! مجھے میری اُمت عطا فرما، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہر آدمی اپنے نفس کے لیے کوشش کرتا ہے اور تم اپنی امت کی فکر اور کوشش میں ہو، پس میں نے تم کو تمہاری اُمت بخش دی۔

اور تفسیر میں ذکر ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ پیر کے دن پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو سات معجزوں سے شرف دیا، پہلا معجزہ یہ ہے کہ ہر حاملہ عورت کو حمل کی تکلیف ہوتی ہے اور رسول اللہ ﷺ کی والدہ محترمہ کو حمل کی کوئی تکلیف اور مشقت محسوس نہیں ہوئی تھی۔ دوسرا معجزہ یہ کہ ہر حاملہ کو بچہ جنائی کے وقت دردِ زہ ہوا کرتا ہے اور آپ ﷺ کی والدہ کو کوئی اور کسی قسم کی تکلیف نہیں تھی۔ تیسرا معجزہ یہ کہ جب رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے تو آپ ﷺ پیدا ہوتے ہی سجدے میں گر گئے اور کہتے رہے "اُمَّتِيْ"۔ چوتھا معجزہ یہ کہ آپ پر سلسلۂ نبوت کو ختم فرمایا۔ پانچواں معجزہ یہ کہ جب آپ ﷺ پیدا ہوئے تو جنات اور شیاطین آسمانوں پر جانے سے منع کیے گئے۔ چھٹا معجزہ یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی دایہ محترمہ حلیمہ کی ایک طرف کی چھاتی (پستان) سے دودھ جاری نہ تھا، جب آپ نے اس چھاتی کو رسول اللہ ﷺ کی منہ میں دیا تو اس سے چشمے کی طرح دودھ جاری ہو گیا۔ ساتواں معجزہ یہ کہ جب آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو کعبہ کے چاروں گوشوں سے آواز آئی، پہلے گوشے سے آواز آئی: ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ مَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَ مَا يُعِيْدُ﴾ (سبا: 49) یعنی حق آیا، اور باطل کو ہلاک کر ڈالا۔ دوسرے گوشے سے صدا آئی کہ ﴿لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ أَنْفُسُکِمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤٗفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبة: 128) ”تمہارے نفسوں میں سے تمہارے پاس رسول آیا، تمہاری تکلیف سے اُس کو دکھ پہنچتا ہے اور تمہارے مؤمنوں کی تلاش میں رہتا ہے اور مؤمنوں پر نہایت شفقت کرنے والا اور مہربان ہے“۔ تیسرے گوشے سے آواز آئی کہ ﴿لَقَدْ جَاءَ کُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ﴾ (المائدۃ: 15) ”اللہ کی جانب سے نور اور روشن کتاب آئی“۔ اور چوتھے کونے سے آواز آئی کہ ﴿یَأَیُّھَا النَّبِیُّ إِنَّا أَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا﴾ (الأحزاب: 45) ”اے پیغمبر! تحقیق کہ ہم نے تم کو شاہد، بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بھیج دیا۔

رسول کریم ﷺ کی پھوپھی صفیہ حکایت بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے موقع پر میں دایہ گیری کرتی تھی، جب سرور عالم ﷺ کی ولادت ہوئی تو میں نے ارادہ کیا کہ آپ کو نہلا ڈالوں، گھر کے ایک کونے سے ہاتف نے آواز دی کہ اپنے آپ کو تکلیف نہ دو اور میرے حبیب کو غسل دینے کی تکلیف نہ اُٹھاؤ کیونکہ ہم نے اُس کو اوّل سے آخر تک نہلایا ہوا اور پاک و صاف پیدا کیا ہے۔ پھر میں نے آپ کو کپڑا اوڑھنا چاہا تو میں نے آپ کی پیٹھ پر مہرِ نبوت کو دیکھ لیا، جس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی: "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ تَوَجَّہْ حَیْثُ شِئْتَ فَإِنَّکَ مَنْصُوْرُ اللہِ عَطُوْفٌ وَّ مُحَمَّدٌ وَّ رَؤٗفٌ"

حضرت ابو امامۃ الباھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی صبح یا شام ایسی نہیں گذری جس میں اللہ تعالیٰ نے مجھے نہ کہا ہو کہ اپنی اُمت کو حکم فرماؤ کہ ہر صبح شام بلکہ فرائض (نمازوں) کے بعد اُس ختم نبوت کو دیکھو(دھیان رکھو) جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کا سلسلہ ختم کر دیا ہے، اور جو بلاؤں اور مصائب کو ٹال کر ختم کر دیتی ہے، اور ہلاک کنندہ اور ضرر رساں اشیاء سے نجات دلاتی ہے۔ اور جو کوئی اس کا خیال اور دھیان ہر روز شب کرتا رہے اور ایک روایت میں جمعہ شریف کے دن یا جمعہ شریف کی رات کو کرتا رہے تو وہ اللہ کی حفاظت میں رہے گا، اور ہر تکلیف، آفت، بیماری، علت اور فتنوں سے اُس وقت تک امن میں ہوگا، جب تک اس ختم نبوت کو دیکھے گا۔ اور وہ مغفور ہوگا، اگرچہ وہ طلب مغفرت نہ کرے۔ اور اس ختم کی برکت اور طفیل سے اللہ تعالیٰ اُس کو ہر مصیبت سے اور ہر دشمن سے جو کہ زمین و آسمان میں ہوگا، اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں کسی کا اُس پر بس نہیں چلے گا کہ اُس کا حق مارنے کا قصد کرے یا اُس امر کا کہ جس سے اُس کو خوف و خطرہ لاحق ہو، وہ کام اس کو کسی مجمع یا مجلس میں اُس وقت تک پیش کر سکے جب تک اُس کے پاس یہ خاتم ہو۔ اور جو شخص ملوک و سلاطین اور حکام کے سامنے پیش ہو اور اس کے پاس یہ خاتم ہو تو مطلق دیکھنے سے اُن کے دل میں شفقت اور محبت پیدا ہو گی اگرچہ وہ ہزار بار بھی غیض و غضب میں ہوں۔ ختم نبوۃ کے فضائل بہت ہیں جن کو شمار نہیں کیا جا سکتا، میں نے یہاں مختصر ذکر کیا۔

اور رسول اللہ ﷺ کے فضائل میں سے ایک تو یہ ہے کہ "مَا وَقَعَ ظِلُّہٗ عَلَی الْأَرْضِ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 122/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”آپ کا سایہ مبارکہ زمین پر نہیں پڑتا تھا“ "وَ الثَّانِیْ مَا احْتَلَمَ قَطٌّ" (الخصائص الکبرٰی، رقم الصفحۃ: 120/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور دوسرا یہ کہ آپ کو کبھی بھی احتلام نہیں ہوا“ "وَ الثَّالِثُ کَانَ مَخْتُوْنًا" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 90/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور تیسرا یہ کہ آپ ختنہ شدہ پیدا ہوئے تھے“ "وَ الرَّابِعُ کَانَ یَرٰی مِنْ خَلْفِہٖ کَمَا یَرٰی مِنْ قُدَامِہٖ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 104/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”چوتھا یہ کہ آپ پیچھے سے بھی ایسے دیکھتے تھے جیسے سامنے سے دیکھتے تھے“ "وَ الْخَامِسُ کَانَ یَنَامُ عَیْنَاہٗ وَ لَا یَنَامُ قَلْبُہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 118/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”اور پانچواں یہ کہ آپ کی آنکھیں خواب آلود ہو جاتیں، مگر دل جاگتا رہتا، اور دل خواب سے نا آشنا رہتا“ "وَ السَّادِسُ کَانَ کَتِفُہٗ أَعْلٰی مِنْ کَتِفِ جُلَسَائِہٖ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”چھٹا یہ کہ آپ کے کندھے آپ کے ساتھیوں اور اہل مجلس سے اونچے رہتے“ "وَ السَّابِعُ أَنَّ الدَّابَّۃَ الَّتِيْ رَکِبَھَا لَمْ یَھْرَبْ قَطُّ" (لم أجد ہذا الحدیث) "ساتواں یہ کہ جس سواری کے جانور پر آپ سواری فرماتے وہ کبھی بھی نہیں بھاگتا“ "إِلَی الْمَمَاتِ" ”موت کے وقت تک“ "وَ الثَّامِنُ مَا قَصَدَ عَلَیْہِ ذُبَابٌ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 117/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”آٹھواں یہ کہ آپ پر کبھی مکھی نے بیٹھنے کا ارادہ تک نہیں کیا“ "وَ التَّاسِعُ مَا ظَھَرَ بَوْلُہٗ عَلَی الْأَرْضِ" ”نویں بات یہ کہ زمین پر کبھی بھی آپ کا بول ظاہر نہ ہوتا“ "بَلِ ابْتَلَعَتْہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 120/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”بلکہ زمین اس کو نگل جاتی اور جذب کرتی" "وَ الْعَاشِرُ کَانَ الْقَمَرُ یُحَرِّکُ مَھْدَہٗ" (الخصائص الکبرٰی بمعناہ، رقم الصفحۃ: 4/1، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ”دسویں یہ کہ چاند آپ ﷺ کے پنگھوڑے کو جھلاتا رہتا“۔ اور خلاصۃ الفقہ میں روایت ہے کہ آپ ﷺ کے جسم اطہر کا سایہ نہ تھا اور آپ ﷺ کے جسم اقدس پر مکھی نہیں بیٹھا کرتی اور آپ ﷺ کے سر پر ہمیشہ بادل کا سایہ رہتا اور آپ کی آنکھوں کی سفیدی انتہائی سفید اور سیاہی خوب سیاہ تھی اور آپ کے مبارک دانتوں کے درمیان فاصلہ تھا اور موتی کی طرح چمکتے تھے، آپ کی ناک بلند اور بھویں سیاہ تھیں اور آپ کے رخِ انور سے نور چمکتا تھا، اور آپ کی ریش مبارک مٹھی بھر تھی، اور اگر آپ ﷺ حیوانات کو طلب فرماتے تو وہ حاضر ہو جاتے، اور آپ ﷺ کے طلب کرنے پر چاند بھی حاضر ہوتا، اگر کسی کا عضو کٹ جاتا اور آپ ﷺ اُس پر لعاب دہن لگاتے تو وہ ٹھیک ہو جاتا، اور اگر کھارے پانی میں لعاب دہن ڈالتے تو وہ شیرین، میٹھا اور خوش ذائقہ ہو جاتا، اور اگر کسی خشک درخت کے نیچے کھڑے ہو جاتے تو وہ سبز ہو جاتا، اور اگر کسی گروہ میں کھڑے ہو جاتے تو سب سے بلند معلوم ہوتے اور آپ ﷺ کی عمر مبارک تریسٹھ سال تھی۔ اور اللہ جل جلالہ نے آپ ﷺ کو تمام پیغمبروں میں منتخب فرمایا اور تمام پیغمبروں پر مرسل بنایا اور تمام مخلوقات، فرشتے، جن اور انسان آپ ﷺ کے مطیع اور فرمان بردار تھے اور تمام بادشاہوں پر آپ ﷺ کو فضیلت دی، آپ ﷺ کی شان میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ﴿خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ﴾ (الأحزاب: 40) آپ ﷺ کو پینتالیس سال کی عمر میں معراج کا شرف حاصل ہوا تھا، اور ایک روایت میں اکاون سال کی عمر میں اور ایک روایت میں باون سال ہے، اور یہ آخری روایت زیادہ صحیح ہے کہ باون سال کی عمر میں آپ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی تھی۔ تمام وقتوں میں آپ ﷺ کی زبان ذکر میں اور دل فکر میں مشغول رہتا، لوگ حیرت میں تھے کہ جب دیکھتے تھے کہ جو کچھ کہ آپ ﷺ کی مبارک زبان سے نکلتا، وہ کبھی بھی غلط نہ ہوتا۔

یہ بات جان لو کہ رسول اللہ ﷺ کی چار پشت تک سلسلۂ نسب جاننا لازم ہے: محمد ﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف۔ اور اسی طرح چار مذہبوں کا جاننا لازم ہے: پہلا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان ابن ثابت کوفی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب، دوسرا امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب، تیسرا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب اور چوتھا امام حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب۔ اور اسی طرح بارہ اماموں اور چودہ معصومین کا نام جاننا ہر مؤمن مرد اور عورت پر لازم ہے، پہلے امام علی مرتضٰی کرم اللہ وجہہ، دوسرے امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ، تیسرے امام حسین شہید دشت کربلا رضی اللہ عنہ، چہارم امام زین العابدین، پانچویں امام محمد باقر، چھٹے امام جعفر صادق، ساتویں امام موسیٰ رضا، آٹھویں امام موسیٰ کاظم، نویں امام محمد تقی، دسویں امام محمد نقی، گیارہویں امام حسن عسکری، بارہویں امام محمد مہدی رضی اللہ عنہم۔ اور چودہ معصوم جو ہیں اُن میں بارہ معصوم تو یہی ہیں، جو کہ ذکر ہوئے اور باقی دو میں سے ایک محمد رسول اللہ ﷺ اور دوسری بی بی فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہیں۔ اور دوسری روایت ہے کہ ہر روز آپ شغل فرما رہے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمٰن: 29) ”ہر روز اُس کی جُدا جُدا شان ہے“۔

اور کہا جاتا ہے کہ ایمان دل کا عقیدہ اور تصدیق ہے اور اقرار کرنا (زبان سے اقرار کرنا) شرط ہے، تاکہ اسلام کے احکام کا اجراء کیا جا سکے، اور یہ ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ بِالتَّفْصِیْلِ لَیْسَ بِوَاجِبٍ" یعنی تفصیل کے ساتھ ایمان واجب نہیں، بلکہ جب ایمان لایا جائے تو یہ ایمان لانا ہی کافی ہے۔ "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَلَا یَنْقُصُ" ”ایمان نہ بڑھتا ہے اور نہ کم ہوتا ہے“ اس میں کمی پیشی نہیں ہوتی، "لِأَنَّ الْأَعْمَالَ عِنْدَنَا لَیْسَتْ مِنَ الْإِیْمَانِ" ”کیونکہ ایمان ہمارے نزدیک اعمال میں سے نہیں“ "اَلْإِیْمَانُ لَا یَزِیْدُ وَ لَا یَنْقُصُ وَ لٰکِنْ لَّہٗ حَدٌّ فَإِنْ نَّقَصَ یَنْقُصُ وَ إِنْ زَادَ فِیْ حَدِّہٖ زَادَ" ”ایمان کم و بیش نہیں ہوتا لیکن اُس کی ایک حد ہے، اگر وہ کم ہو جائے تو اس حد تک کم ہوتا ہے اور اگر اپنی حد تک زیادہ ہو جاتا ہے، تو زیادہ ہوتا ہے“ "وَ أَصْلُہٗ شَھَادَۃُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ" ”ایمان کی اصل یہ ہے کہ اس بات کی شہادت دی جائے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی قابلِ عبادت نہیں وہ اکیلا و یکتا ہے، اور اُس کا شریک نہیں“ "وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عُبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ" ”اور میں یہ شہادت دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور رسول ہیں“ "اَلصَّلٰوۃُ وَ الصَّوْمُ وَ الزَّکوٰۃُ وَ الْحَجُّ وَ غُسْلُ الْجَنَابَۃِ۔ فَمَنْ زَادَ فِيْ حَدِّہٖ زَادَ حُسْنًا وَ مَنْ نَقَصَ مِنْہٗ نَقَصَ ثَوَابًا" ”نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کرنا اور جنابت سے غسل کرنا ہے، جس نے اس حد میں زیادتی کی تو اس نے خوبی میں اضافہ کیا، اور جس نے اس میں کمی کی، تو اس کا بدلہ کم ہو جاتا ہے“ "إِیْمَانُ الْیَأْسِ غَیْرُ مَقْبُوْلٍ وَّ تَوْبَۃُ الْیَأْسِ مَقْبُوْلَۃٌ" ”یاس اور نا اُمیدی کا ایمان غیر مقبول ہے، اور یاس کی توبہ مقبول ہے“ "اَلْإِیْمَانُ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ عِنْدَ أَھْلِ بُخَارَا وَ عِنْدَ أَھْلِ سَمَرْقَنْدَ مَخْلُوْقٌ" ”اہل بخارا کے نزدیک ایمان غیر مخلوق ہے اور اہل سمرقند کے ہاں مخلوق ہے“۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان حقیقت کا ہے کیونکہ اہل بخارا کہتے ہیں کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے جو کہ بندہ کے لیے ہے اور یہ غیر مخلوق ہے۔ اور اہل سمرقند کہتے ہیں کہ ایمان بندے کا فعل ہے اور اسی وجہ سے مخلوق ہے اور اسی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ پہچانا جاتا ہے۔

ایمان عطائی ہے یا کہ کسبی، اس میں اختلاف ہے۔ "اَلْقُرْآنُ کَلَامُ اللہِ غَیْرُ مَخْلُوْقٍ وَّ لَا مُحْدَثٍ وَ الْمَکْتُوْبُ فِي الْمَصَاحِفِ" ”قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو کہ غیر مخلوق ہے، محدث یعنی حادث نہیں۔ اور مصحفوں میں لکھا گیا ہے“

اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کا دیدار حق ہے، آخرت میں اہل جنت بغیر کسی کیفیت اور بغیر کسی تشبیہ وغیرہ کے دیکھیں گے۔ اور خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیکھنا اکثر علماء کے نزدیک جائز نہیں، اور اس باب میں چپ رہنا بہتر ہے۔ "وَ الْقَدَرُ خَیْرُہٗ وَ شَرُّہٗ مِنَ اللہِ تَعَالٰی بِمَشِیَّتِہٖ وَ إِرَادَتِہِ الْقَدِیْمَۃِ" ”اور نیکی اور بدی کا اندازہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے، اور اُس کی مشیت اور قدیمی ارادے سے ہے“ "إِلَّا أَنَّ الْمَعَاصِيَ لَیْسَتْ بِرِضَاءِ اللہِ تَعَالٰی" ”مگر گناہ اللہ تعالیٰ کی رضا سے نہیں“۔

اللہ کی تمام صفت قدیمی ہیں، اور ان میں تفصیل کی کوئی ضرورت نہیں۔ صفاتِ ذات و صفاتِ فعل کی تفصیل محتاجِ بیان نہیں، یہ اُسی کی ذات سے قائم ہیں، یہ نہ وہ ہیں اور نہ اُس کا غیر ہیں، جیسا کہ ایک دس میں سے ہے مگر نہ یہ عینِ دس ہے اور نہ اس کا غیر ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ تو جسم ہے، نہ جوہر ہے، نہ عرض ہے اور نہ کسی مکان میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کمال صفت سے موصوف ہے، اور اُس کی جو یہ صفت بیان کی جاتی ہے کہ اُس کے ہاتھ اور آنکھ ہیں، لیکن یہ ہاتھ اور آنکھ ہمارے ہاتھوں اور آنکھوں جیسے نہیں۔

سوال:

خدا کے لیے ہاتھ اور آنکھ کہنا جائز ہے یا کہ نا جائز؟

جواب:

خدا کے لیے ہاتھ کہنا جائز ہے اور آنکھ کہنا جائز نہیں۔

"وَ إِذَا لُقِّنَتِ الْمَرْأَۃُ وَ اسْتُوْصِفَتِ الْإِیْمَانَ فَلَمْ تَصِفْ فَإِنَّھَا لَا تَکُوْنُ مَؤْمِنَۃً حَتّٰی لَوْ مَاتَتْ لَا یُصَلّٰی عَلَیْھَا بِالِاتِّفَاقِ" ”اور جب ایک عورت کو ایمان کی تلقین کی گئی اور اس سے ایمان کی کیفیت بیان کرنے کا کہا گیا تو اگر وہ اسے بیان نہ کر سکی تو وہ مؤمنہ نہیں ہوگی، حتی کہ اگر وہ(اسی حالت میں) مر گئی تو بالاتفاق اس کی نماز جنازہ ادا نہیں کی جائے گی“ وَ صِفَۃُ الْإِیْمَانِ مَا ذُکِرَ فِيْ حَدِیْثِ جِبْرِیْل عَلَیْہِ السَّلَامُ أَنْ تُوْمِنَ بِاللہِ وَ مَلٰئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْآخَرِ وَ الْقَدَرِ خَیْرِہٖ وَ شَرِّہٖ مِنَ اللہِ تَعَالٰی وَ الْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ کَذَا فِيْ مَطْلُوْبِ الْوَاقِعَاتِ وَ مَفْتُوْحِ الحَاجَاتِ"

ترجمہ: ”اور ایمان کی وہ صفت جو کہ حدیث جبریل میں بیان کی گئی ہے، کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لایا جائے، اس کے فرشتوں، کتابوں، رسولوں اور آخرت کے دن اور خیر و شر کی مقدار کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے جاننا اور موت کے بعد پھر دوبارہ جی اُٹھنا، جیسا کہ مطلوب الواقعات اور مفتوح الحاجات میں ذکر ہے“۔ ایمان کے دو رکن ہیں: ایک زبان سے اقرار کرنا اور دوسرا دل سے اللہ تعالیٰ کی ہستی، وحدانیت اور اُس کے کمال صفات کی تصدیق کرنا ہے۔ اور یہ کلمۃ اللہ میں درج اور شامل ہے۔ اور یہ اس طرح کہ کلمۃ اللہ کے معنیٰ یہ ہیں کہ وہ ذات جس کی ہستی واجب ہے اور اس کے کمال صفات جامع ہیں، اور ہر قسم کے نقصان سے اُس کی ذات پاک ہے۔ پس اس سے اُس کی (1) وحدانیت بھی معلوم ہو جاتی ہے اور اسی طرح (2) حیات، (3) تکوین، (4) علم، (5) قدرت، (6) سمع، (7) بصر، (8) کلام، (9) ارادت (10) اور ہر قسم کے عیب و نقصان مثل و مثال سے پاکی اور حق شناسی کی یہ دس صفتیں ضروری ہیں۔ اور کلمۃ اللہ سے یہ تمام مفہوم نکلتے ہیں۔ اور وحدانیت کے یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ یگانہ و یکتا ہے ذات میں بھی اور صفات میں بھی، اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں، نہ ذات میں اور نہ صفات میں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی ذات و صفات قدیمی، ازلی اور ابدی ہیں۔ اور اُس کی ذات کے علاوہ ہر چیز حادث، ممکن اور فانی ہے۔ اور حیات کے یہ معنیٰ ہیں کہ وہ زندہ ہے اور کبھی بھی نہیں مرتا۔ اور تکوین کے یہ معنیٰ ہیں کہ ایسی ہستی جو کہ تمام اشیاء کو ہست کرنے والی ہے۔ اور علم یعنی ہر چیز پر عالم ہے۔ اور اِسی طرح اُس کی قدرت تمام اشیاء پر حاوی ہے کہ عجز کے لیے وہاں کوئی امکان یا راستہ نہیں۔ اگر چاہے کہ سات آسمانوں اور زمین کو ایک مچھر کے چمڑے میں بند کرے تو یہ کر سکتا ہے، قطع نظر اس سے کہ مچھر کا چمڑا بڑا کرے یا زمین و آسمان کو چھوٹا کرے۔ جو چاہتا ہے وہی کر لیتا ہے، عرش، کرسی، سات آسمان، سات زمینیں اور جو کچھ ہے، سب اُس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اُس کے قابو اور قدرت کے زیر ہے اور یہ کسی دوسرے کے اختیار میں نہیں، کیونکہ حقیقت میں کوئی دوسرا تصرف کنندہ نہیں۔ اور آفرینشِ عالم یعنی کائنات کے پیدا کرنے کے وقت اُس کا کوئی معاون اور مدد گار نہیں تھا۔ اور عرش معلیٰ و سدرۃ المنتھیٰ سے لے کر تحت الثریٰ تک کوئی چیز اُس کے حکم سے باہر نہیں، اور اُس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں، بلکہ صحراؤں کی ریت کے ذرات، درختوں کے پتے، دلوں کے افکار و اندیشے، ہواؤں کی لہریں اُس کے علم میں ایسے موجود ہیں جیسا کہ سات زمینوں اور آسمانوں کی تعداد۔ اور سمیع و بصیر کا مفہوم یہ ہے کہ ہر چیز پر دانا ہے اور ہر دیکھنے اور سننے کے قابل اشیاء کو دیکھتا اور سنتا ہے اور اُس کے دیکھنے اور سننے کے لیے دور و نزدیک برابر ہے، اور ایک چیونٹی کے پاؤں (اور اُس کی آواز) کہ جب وہ تاریک رات میں چلتی پھرے، اُس کے دیکھنے اور سننے کے دسترس سے باہر نہیں۔ اور تحت الثریٰ میں جو رنگ یا اشکال ہوں وہ بھی اُس کے دیکھنے سے بعید نہیں، اُس کا دیکھنا، سننا، آنکھ اور کان کے ذریعے سے نہیں ہوتا جیسا کہ اُس کی دانش اندیشہ اور تدبیر کی محتاج نہیں۔ اور اُمور تخلیق کسی آلے کے ذریعے نہیں کرتا۔ اور کلام کے معنیٰ اور مفہوم ایسے جاننا کہ اُس کا حکم سب پر جاری ہے اور اُس کی طاعت سب پر واجب ہے۔ اور جو کوئی بھی کسی قسم کی خبر دے اُن سب سے اس کی خبر درست و صحیح ہے اور وعدہ اور وعید سب اُس کا کلام ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ بغیر کسی واسطے کے باتیں فرمائیں، اور اُس کی باتیں حلق، زبان اور منہ سے نہیں، جیسا کہ آدمی کی باتیں ہوتی ہیں، اس کی باتیں بے آواز اور بے حرف ہیں، یعنی اُس میں آواز نہیں، اللہ تعالیٰ کی باتیں صوت و حرف سے پاک اور منزہ ہیں۔ قرآن کریم، تورات انجیل زبور سب اُس کا کلام اور صفت ہے اور اُس کی تمام صفات قدیم ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہمارے دل میں معلوم ہے، اور ہماری زبانوں پر مذکور ہے۔ ہمارا علم عطا کیا ہوا اور مخلوق ہے لیکن جو ہمارے علم میں ہے یعنی ”معلوم“ قدیم ہے۔ ذاکر مخلوق اور مذکور قدیم اسی طرح اُس کی باتیں یعنی کلام بھی قدیم ہے، جو کہ ہمارے دلوں میں محفوظ، ہماری زبانوں پر جاری اور ہماری کتابوں میں تحریر ہے۔ ہمارے محفوظ اور حفاظت مخلوق اور ہمارا کہنا مخلوق، ہمارا مکتوب مخلوق، ہماری کتابت مخلوق اور جو کچھ کہ دنیا میں ہے، سب کچھ اُس کی مخلوق ہے۔ جو کچھ بنایا ہے تو ایسا بنایا ہے کہ اُس سے بہتر نہیں ہو سکتا۔ اگر تمام عاقلوں کی عقلیں متفق ہو جائیں اور فکر کریں کہ اس سے بہتر اور خوبصورت بنائیں تو ایسا نہیں کر سکتے اور نہ اس میں کمی و بیشی ترقی یا نقصان کو عمل میں لا سکتے ہیں۔ اور اگر یہ فکر کریں کہ اس سے بہتر بنایا جائے تو غلطی کرتے ہیں، کیونکہ اس تخلیق کے اسرار مصلحت اور حکمت سے بے خبر ہوں گے۔ پس جو کچھ اس نے پیدا کیا ہے، حکمت اور عدل سے پیدا کیا اور ایسا پیدا کیا ہے جس طرح پیدا کرنا چاہیے تھا۔ اور یہ جو رنج، بیماری، درویشی، جہالت، عجز وغیرہ پیدا کیے ہیں، یہ سب عدل سے پیدا کیے ہیں، اُس سے ظلم کرنا مناسب نہیں، کیونکہ ظلم وہ ہوتا ہے جو کہ دوسرے کی ملکیت میں کیا جائے، اور جو اپنی ملکیت میں تصرف کرے، تو وہ ظلم نہیں کہلاتا، اور اُس کی ملکیت میں کسی دوسرے کا مالک ہونا محال ہے۔ جو کچھ موجود تھا اور موجود ہے، اور جو کچھ آئندہ ہونے والا ہے، یہ سب اس کے مملوک اور ملکیت ہیں، وہ بغیر کسی شریک یا ساجھے والے کے ہر چیز کا مالک ہے۔ محیط میں آیا ہے کہ اجمالی ایمان یہ ہے کہ تم یہ کہو کہ میں نے تصدیق کی اور یقین کیا کہ جو کچھ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے، درست اور یقینی ہے۔

اور یہ بات جان لو کہ کلمۂ شہادت میں دس باتیں فرض ہیں: پہلی یہ کہ زبان سے عمر میں ایک دفعہ کہا جائے۔ دوسری یہ کہ اس کے معنیٰ جان لیے جائیں۔ تیسری، اُس کے معنیٰ کو دل سے جاننا اور اس پر یقین رکھنا۔ چوتھی، اُس معنیٰ پر موت کے وقت تک قائم رہنا۔ پانچویں، کلمے کے حروف اور اعراب کو ٹھیک طور سے ادا کرنا جو کہ شریعت میں قابل پذیرائی ہوں۔ چھٹی، یہ کہ جس وقت کلمہ پڑھا جائے اُس کا تکرار کرنا۔ ساتویں، اس کلمہ کو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر دلیل جاننا۔ آٹھویں، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی دلیل سمجھنا۔ نویں یہ کہ اس کلمہ کو رسول اللہ ﷺ کی رسالت کی دلیل سمجھ لینا۔ دسویں یہ کہ رسول اللہ ﷺ کی نسبت کو یعنی محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب کو سمجھنا۔ اور اس کلمہ یعنی "أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ" یعنی یہ کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ خدائے برحق کے علاوہ کوئی دوسرا معبود نہیں، اور یہ گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اُس کے فرستادہ رسول ہیں۔ اور جو کچھ آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی جانب سے خبر دی ہے، وہ بر حق ہے۔ اور یہ بات جان لو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھنا فرض ہے، اور زیادہ پڑھنا سنت ہے، لیکن اُس وقت جب کوئی تم سے کہے کہ کلمہ پڑھو تو پھر اُس وقت کلمہ کا پڑھنا فرض ہو جاتا ہے۔