مقالۂ اوّل
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ وَ الْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ وَ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّیِّ الَّذِيْ مَکْتُوْبٌ فِي التَّوْرٰۃِ وَ مَمْدُوْحٌ فِي الإِنْجِیْلِ أَحْمَدُ مُحَمَّدٌ حَبِیْبُ رَبِّ العٰلَمِیْنَ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ أَجْمَعِیْنَ
اس کتاب کے حصّہ اول یعنی مقامات قطبیہ کی تکمیل و تسوید کے بعد اس کے حصّہ دوم یعنی مقامات قدسیہ کو مرتب کرتا ہوں، لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کے سچے طالب اور سالک کے لیے لازم ہے کہ اس کتاب سے استفادہ کرنے سے قبل اُسے چاہیے کہ اس کتاب میں شامل تحریر شدہ ضمیمہ اور اس سلسلے میں مؤلف کی وصیت کا نہایت غور و فکر اور اذعان سے مطالعہ کر کے ذہن نشین کر لے، ورنہ اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وصیتِ مذکورہ پر عمل کیے بغیر اگر کتاب ہٰذا کے اذکار و اوراد پر عمل کرے گا تو نفع کی بجائے نقصان سے دو چار ہوگا۔ وَ مَا عَلَی الرَّسُوْلِ إِلَّا الْبَلَاغُ ۔ (ابو اسد اللہ)
مقالۂ اوّل
محمد رسول اللہ ﷺ کے نور کے بارے میں
"اسرار المشائخ" نام کے ایک رسالے میں آیا ہے کہ اگر کوئی چاہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے تو اُس کو چاہیے کہ سرور عالم ﷺ کے نور پاک کی پیدائش کی کیفیت سے آگاہی حاصل کرے۔
جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ اپنی خدائی کو ظاہر کرے تو اپنے کمال قدرت سے نور محمدی ﷺ کی تخلیق فرمائی۔ چنانچہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللہُ نُوْرِیْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1، دارالفکر، بیروت) ”جو چیز اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پیدا فرمائی وہ میرا نور تھا“۔ اور ایک دوسرے قول میں فرمایا ہے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ عِشْقِيْ" (لم أجد ہذا الحدیث) ”خدا نے سب سے پہلے میرے عشق کو پیدا کیا“۔ اور یہ دونوں فرمان بالاتفاق ثابت ہیں۔ اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ اگر عشق نہ ہوتا تو نور محمدی ﷺ کو کبھی بھی پیدا نہ کیا جاتا، اور اگر نور محمدی ﷺ کو پیدا نہ فرماتے تو اپنی خدائی کو ظاہر نہ فرماتے، سب سے پہلے نور محمدیﷺ کو پیدا کیا، اور پھر اپنی خدائی ظاہر کی۔
سوال:
نورِ محمدی ﷺ کی تخلیق اور پیدا کرنے کی صفت کیسی ہے؟
جواب:
حدیث میں ہے کہ ایک دن جناب سید المرسلین رسول اکرم ﷺ تشریف فرما تھے، اور حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی بیٹھے ہوئے تھے، جناب رحمۃ للعالمین رسول اللہ ﷺ نے سوال فرمایا کہ اے بھائی جان جبرئیل! میں تم سے بڑا (عمر میں) ہوں یا کہ تم مجھ سے (عمر میں) بڑے ہو؟ جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اے محمد! ﷺ آپ نے سوال فرمایا، میں نے آپ ﷺ کی عمر لوح محفوظ میں دیکھی ہے، لیکن مجھے سالوں کی تعداد معلوم نہیں، البتہ میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ آسمان میں ایک ستارہ تھا جو کہ تین ہزار سال کے بعد نکلا کرتا تھا اور پھر نظر سے غائب ہو جاتا تھا، اور اس طرح میں نے وہ ستارہ تیس ہزار مرتبہ طلوع و غروب ہوتے دیکھا ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا، کہ کیا تم وہ ستارہ پہچانتے ہو؟ اُنہوں نے جوابًا عرض کی کہ ہاں پہچانتا ہوں۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے اپنے رُخ انور سے حجاب اٹھایا، جبرئیل علیہ السلام نے آپ ﷺ کی پیشانی میں ایک نور دیکھا اور اس کو پہچان گئے، اور صدق دل سے کہا کہ اے محمد! ﷺ ہاں! یہ وہی ستارہ ہے جو کہ آپ کی مبارک پیشانی میں ظاہر ہے، یہی نور ہے۔ اے محمد! ﷺ (السیرۃ الحلبیۃ بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 47/1، دار الکتب العلمیۃ، بیروت)
جب اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ آپ کا مقدس نور عدم سے وجود میں لائے تو عالم ملکوت سے قبل چالیس ہزار شہر پیدا کر ڈالے، اور ہر شہر میں چالیس ہزار سرائے اور ہر سرائے میں چالیس ہزار مکانات بنائے اور ہر مکان میں چالیس ہزار گھر بنائے۔ اس کے بعد ایک مُرغ کو پیدا کیا اور اس مرغ کو حکم دیا کہ یہ سب چالیس ہزار شہروں کو اسپند (حرمل کا دانہ، عمومًا کالے دانے کے نام سے مشہور ہے) کے دانوں سے بھر کر تیری روزی کا انتظام کروں گا تاکہ تو روزی کے طور پر ان میں سے ہر روز اسپند کا ایک دانہ کھایا کرے۔ اس نے روزانہ ایک ایک دانہ کھانا شروع کیا، جب اسپند کے دانے کم ہوئے تو پھر ہر ہفتے ایک دانہ کھانا شروع کیا، اور اس کے بعد ایک ماہ کے بعد اور پھر ایک سال کے بعد ایک دانہ کھاتا رہا۔ جب سب ختم ہو کر ایک دانہ رہ گیا تو اُس کو چونچ میں پکڑ کر سجدے میں سر رکھ دیا اور رو رو کر فریاد کی کہ اے بار خدایا! اس ایک دانے کے علاوہ کوئی دوسرا دانہ نہیں، کہ جس کو میں کھاؤں، آخر روتے روتے اس دانے کو بھی نگل دیا، اور آخر کار وہ مر گیا اور وہ تمام شہر اُجڑ کر ویران ہو گئے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے عرش، کرسی، لوح و قلم، جنت، دوزخ اور زمین و آسمان کو پیدا فرمایا، اور ان تمام مذکورہ چیزوں کے پیدا کرنے سے تین لاکھ سال قبل آپ کے نور کو پیدا فرمایا تھا۔ (لم أقف علی هذا الحدیث)
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے تورات میں ایسا پڑھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ملکوتی اشیاء کی پیدائش سے تین لاکھ سال قبل رسول اکرم ﷺ کے نور اقدس کو پیدا کیا تھا، اس نے پیدا ہوتے ہی سر کو سجدہ میں رکھا اور اللہ تعالیٰ نے نور محمدی ﷺ کو اسی وقت یہ تسبیحات الہام فرمائیں کہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، سُبْحَانَ الْقَدِیْمِ الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ سُبْحَانَ الْحَلِیْمِ الَّذِیْ لَا یَعْجَلْ سُبْحَانَ الْجَوَادِ الَّذِیْ لَا یَبْخَلُ سُبْحَانَ الْعَلِیْمِ الَّذِیْ لَا یَجْھَلْ سُبْحَانَہٗ" اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بارہ پردے بنائے، پہلا پردہ شفاعت کا، دوسرا پردہ احسان کا، تیسرا حجاب کرامت کا، چوتھا رحمت کا، پانچواں حجاب سعادت کا، چھٹا حجاب سخاوت، ساتواں حجاب فرقت، آٹھواں حجاب ہیبت، نواں حجاب قدرت، دسواں حجاب ظرافت، گیارہواں حجاب عزت اور بارھواں حجاب عظمت کا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حکم صادر فرمایا کہ اے میرے خاص بندے کے نور! اور اے میرے محبوب کے نور! ان پردوں میں آ جا۔ محمد ﷺ کا نور سب سے پہلے حجاب شفاعت میں آیا، اس کے بعد ان بارہ حجابوں اور پردوں میں بارہ ہزار سال تک ٹھہر گیا، اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے دس دریا پیدا فرمائے، پہلا دریا دریائے شفقت، دوسرا دریائے نصیحت، تیسرا دریائے شکر، چوتھا دریائے صبر، پنجم دریائے سخاوت، چھٹا دریائے شبہات، ساتواں دریائے یقین، آٹھواں دریائے حکمت، نواں دریائے قناعت اور دسواں دریائے محبت۔ پھر اللہ تعالیٰ نے نور محمدی ﷺ کو حکم دیا کہ اے میرے حبیب کے نور! ان دریاؤں میں تشریف فرما ہو جا۔ نور محمدی ﷺ سب سے پہلے دریائے شفقت میں جلوہ افروز ہوا اور ایک ہزار سال تک وہاں ثنائے ربانی کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "رَبِّيْ، رَبِّيْ، رَبِّيْ"۔ دوسری بار دریائے نصیحت میں چلا گیا اور وہاں ایک ہزار سال ثنا خوانی کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "إِلٰہِيْ، إِلٰہِيْ، إِلٰہِيْ"۔ تیسری بار شکر کے دریا میں گیا اور وہاں تین ہزار سال تک حمد و ثنا کرتا رہا اور کہتا رہا "یَا سَیِّدِيْ، یَا سَیِّدِيْ، یَا سَیِّدِيْ"۔ چوتھی دفعہ دریائے صبر میں ورود کیا، وہاں چار ہزار سال ثنا بیان کرتا رہا اور کہتا رہا کہ "یَا فَرْدُ، یَا فَرْدُ، یَا فَرْدُ"۔ پانچویں بار دریائے سخاوت میں فروکش ہوا اور وہاں پانچ ہزار سال ثنا خوانی میں رطب اللسان رہا اور ورد کرتا رہا کہ "یَا أَحَدُ، یَا أَحَدُ، یَا أَحَدُ"۔ چھٹی دفعہ دریائے شبہات میں قیام کیا اور چھ ہزار سال تک "یَا عَلِيُّ، یَا عَلِيُّ، یَا عَلِيُّ" وردِ زباں رہا۔ ساتویں بار دریائے یقین میں تشریف آوری فرمائی اور سات ہزار سال ثنا گوئی میں مشغول رہا اور "یَا عَظِیْمُ، یَا عَظِیْمُ، یَا عَظِیْمُ" کا ورد کرتا رہا۔ آٹھویں موقع پر دریائے حکمت میں آیا اور وہاں آٹھ ہزار سال ثنا کرتا رہا اور "یَا رَؤٗفُ، یا رَؤٗفُ، یا رَؤٗفُ" عرض کرتا رہا۔ نویں دفعہ دریائے قناعت میں ورود فرمایا اور وہاں نو ہزار سال ثناء کرتے ہوئے "یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا قُدُّوْسُ، یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا اَللہُ یَا کَرِیْمُ" کرتا رہا۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے اس دریا کے ایک کونے میں ایک بساط (فرش) بچھایا، اُس بساط کی بزرگی یعنی وسعت سات آسمانوں اور سات زمینوں کے برابر تھی، اور اس بساط پر سترہ مقامات متعین کر دیے، ایک مقامِ توحید، مقامِ معرفت، مقامِ ایمان، مقامِ تسلیم، مقامِ خوف، مقامِ رجا، مقامِ شکر، مقامِ خشوع، مقامِ خضوع، مقامِ حب، مقامِ اثبات، مقامِ ہیبت، مقامِ خبریت، مقامِ قناعت، مقامِ تفضیل، مقامِ آزادی اور مقامِ محبت۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ کا نور ان مقامات میں تشریف آور ہوا اور ہر مقام میں ایک ہزار سال گزارے، جب نور محمدی ان مقامات میں تشریف لاتا تو اس کو ایسی ہمت حاصل ہو جاتی کہ نہایت ذوق و شوق سے ذکر اور تسبیح کرتا، اور جب نور محمدی ان مقامات سے گزر گیا تو حضرت ذوالجلال و قادر با کمال کی جانب سے خطاب ہوا کہ اے نور محمد! میں کون ہوں؟ نور محمدی کو الہام ہوا اور جواب میں کہا کہ تم میرے خدا ہو، تم میرے پیدا کرنے والے ہو، مجھے روزی دینے والے ہو، مجھے زندہ کرنے والے اور مار ڈالنے والے ہو۔ فرمان الٰہی صادر ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے مجھے اچھی طرح سے پہچان لیا، اب میری پرستش اور عبادت کرو۔ پس نور محمدی نے نماز کی نیتِ تحریمہ باندھی اور کہا: "اَللہُ أَکْبَرُ"۔ ایک ہزار سال "اَللہُ أَکْبَرُ" میں گزار دیے، قیام کیا اور ایک ہزار سال قیام میں گزار دیے، جب رکوع میں چلا گیا تو ایک ہزار سال رکوع میں گزار دیے، سجدہ ریز ہوا تو ایک ہزار سال سجدہ میں گزار دیے، جب جلسہ میں بیٹھا تو ایک ہزار سال جلسہ اور پھر ہزار سال سجدہ میں گزار دیے، تشہد میں بھی ہزار سال بسر کیے، سلام پھیرنے میں بھی ہزار سال گزار دیے۔ جب نماز سے فارغ ہوا تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے خطاب ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے میری اچھی طرح سے عبادت کی مجھ سے کوئی چیز مانگو۔ نور محمدی نے الہام پا کر کہا کہ اے میرے رب! میں جانتا ہوں کہ مجھے رسولوں کے بعد آخر میں آپ ظاہر کریں گے اور مجھے ان کی شفاعت کا وسیلہ بنائیں گے، ان میں جو فرد نماز ادا کرے گا اور اس کی نماز میں کوئی قصور یا کمی ہو تو میری نماز اُن کی نماز کی کمی کو پورا کرے گی، اور ان کی نماز میں کوئی تقصیر نہیں ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے دربار عالیہ سے خطاب ہوا کہ اے میرے حبیب کے نور! تم نے بہترین استدعا کی، جو کہ میں نے قبول کی۔ اور نور محمدی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نظر رحمت سے دیکھا، اور اُس پر رحمت و نور کی بارش فرمائی، نورِ محمدی ﷺ نے سر مُبارک کو حرکت دی، جس سے پانی کے ایک لاکھ چوبیس ہزار قطرے ٹپکے، اُن قطروں سے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے۔ پانی کے تین سو تیرہ قطرے نورِ محمدی کے ہونٹوں سے ٹپکے، اُن سے تین سو تیرہ انبیائے مرسل پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے دائیں آنکھ سے ٹپکے جن سے جبرئیل علیہ السلام اور میکائیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے بائیں آنکھ سے نکلے جن میں سے پہلے قطرے سے اسرافیل اور دوسرے قطرے سے عزرائیل علیہم السلام پیدا ہوئے۔ پانی کے دو قطرے دائیں کان سے برآمد ہوئے، پہلے قطرے سے عرش اور دوسرے قطرے سے کرسی وجود میں آئی۔ پانی کے دو قطرے بائیں کان سے ٹپکے، پہلے قطرے سے لوح اور دوسرے قطرے سے قلم پیدا ہوئے۔ اور ناک کے دائیں نتھنے سے آٹھ قطرے بر آمد ہوئے جن سے آٹھ جنتیں وجود میں آئیں، اور سات قطرے بائیں نتھنے سے ٹپکے جن سے سات دوزخیں پیدا ہوئیں۔ اور نور کے کندھوں سے دو قطرے ظاہر ہوئے جن میں ایک سے سورج اور دوسرے سے چاند پیدا ہوئے۔ دائیں ہاتھ سے پانچ قطرے نکلے، پہلے قطرے سے حوضِ کوثر، دوسرے سے درخت طوبیٰ، تیسرے قطرے سے سدرۃُ المنتھٰی، چوتھے قطرے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی اور پانچویں قطرے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی پیدا ہوئے۔ پانچ قطرے بائیں ہاتھ سے ٹپکے، پہلے قطرے سے روح القدس، دوسرے قطرے سے بادِ صرصر، تیسرے سے بادِ فرفر، چوتھے سے بادِ رعد اور پانچویں سے برق پیدا کیے گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے خطاب فرمایا کہ اے میرے حبیب کے نور اور اے میرے محمد ﷺ کے نور! میں نے دیگر چار اشیاء کی تخلیق کی، آگ، ہوا پانی اور مٹی۔ (لم أجد ہذہ الروایۃ)
"ذُکِرَ مِنْ وَّھَبِ بْنِ مُنَبَّہٍ أَنَّہٗ قَالَ کَانَ بَیْنَ آدَمَ وَ بَیْنَ طُوْفَانِ نُوْحِ عَلَیْہِ السَّلَامُ أَلْفَانِ وَ مِائَتَانِ وَ إِثْنَانِ وَ أَرْبَعُوْنَ سَنَۃً" (المختصر فی أحوال البشر بمعناہ، رقم الصفحۃ: 10/1، المطبعۃ الحسینیۃ المصریۃ) ”حضرت وہب بن مُنَبّہ سے روایت ہے کہ آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے طوفان کے درمیان دو ہزار دو سو بیالیس سال گزرے ہیں“ اور طوفان نوح اور حضرت نوح علیہ السلام کی موت میں تین سو پچاس سال کا فرق ہے۔ اور حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان دو ہزار دو سو چالیس سال کا فاصلہ ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان سات سو سال کا بُعد ہے۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت داؤد علیہ السلام کے درمیان پانچ سو سال کا وقفہ ہے۔ اور داؤد علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان بارہ سو سال ہیں۔ "وَ قَالَ بَعْضُھُمْ ھٰذَا لَا یَصِحُّ یَعْنِيْ مَا ذُکِرَ مِنْ مِّقْدَارِ السِّنِیْنَ، لِأَنَّ اللہَ تَعَالٰی قَالَ: ﴿وَ قُرُوْنًا بَیْنَ ذٰالِکَ کَثِیْرًا﴾ (الفرقان: 38) فَلَا یَعْرِفُ مِقْدَارَ ذَالِکَ إِلَّا اللہُ تَعَالٰی" ”اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ صحیح اور درست نہیں۔ یعنی سالوں کی یہ تعداد جو کہ ذکر ہوئی ہے یہ درست نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کے درمیان بہت سے قرن گزرے ہیں جو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا“ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور محمد رسول اللہ ﷺ کے درمیان پانچ سو ساٹھ اور مقاتل کی روایت کے مطابق چھ سو سال کا وقفہ حائل ہے۔ (تفسیر مقاتل بن سلیمان، رقم الصفحۃ: 553/3، دار إحیاء التراث، بیروت)